پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

جنوری۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

پاکستان میں کٹر پن بڑھ رہا ہے

دی فرائیڈے ٹائمز۔۲۳؍جنوری۲۰۲۳ء:دی فرائیڈے ٹائمز کا حالیہ اداریہ ایک اچھی،بر محل اور معلوما تی تحریر ہے۔یہ پاکستان کے اندر توہین کے قوانین کے تاریخی ارتقا کے بارے میں کار آمد معلومات مہیا کرتا ہے۔تاہم یہاں پر ہم صرف چنیدہ حصے پیش کریں گے۔

پاکستان کے اندر مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر اقلیتوں کے خلاف کٹرپن میں اضافہ ہو رہا ہے۔

۱۸؍جنوری۲۰۲۳ء کو قومی اسمبلی نے تعزیرات پاکستان کے ۱۸۶۰ کے کوڈ کی دفعہ ۲۹۸-A میں حضرت محمد ﷺ کی ازواج، اہل، اور صحابہ ؓکی ہتک پر ۱۰ سال سزا اور ۱۰ لاکھ روپیہ جرمانہ کی اضافی ترمیم منظور کیں۔

بدقسمتی سے اس ملک کو توہین کے قوانین کے نشیبی راستے پر ابھی ایک اور سرکتا ہوا قدم برداشت کرنا باقی تھا۔

اس سے قبل پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے اپنے سیاسی پروگرام کے لیے خطرناک حد تک ختم نبوت پر تکیہ کیا۔اس کے بعد حکومت کی سب سے بڑی انتظامی کامیابی نکاح نامہ میں امتناع احمدیت کی شق کو شامل کرنا تھا، نیز حالیہ پیش رفت قرآن کریم کی آیات کا وزیر اعلیٰ کے کمیٹی روم میں آویزاں کرنااور ختم نبوت یونیورسٹی کا قیام ہے۔

یہ تبدیلیاں نہایت اہم ہیں کیونکہ یہ امور ایسے وقت میں تیزی سے ابتر ہوتی ہوئی صورتحال کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ جب پاکستان کےانسانی حقوق کاریکارڈ پہلے ہی عالمی تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان بد ترین ممالک میں آتا ہے جہاں مذہبی آزادی اور آزادی اظہار رائے کو دبانے کی بات آتی ہے۔

اندازہ کریں کہ پاکستانی ساتویں صدی کی عرب کی مقدس ترین شخصیات کے مابین تنازعات کے متعلق اکیسویں صدی میں بیٹھ کر قانونی چارہ جوئی کریں گے۔اکیسویں صدی میں توہین کے قوانین کا کوئی جواز نہیں ہے۔اب آپ لوگوں کو توہین اور بدعات جیسی باتوں پر سزا نہیں دے سکتے۔وہ وقت گزر چکا ہے۔ پاکستان دریا کے بہاؤ کےالٹ تیرنے کی کوشش کر رہا ہے۔لیکن انسانیت کے ارتقا کاعمل نہیں رک سکتا۔ حتیٰ کہ سعودی عرب کو بھی اصلاحات کرنے اور وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے مجبور کیا گیا۔

سعودی عرب کی طرح پاکستان تیل کی دولت سے مالا مال ملک نہیں ہے۔ بلکہ ایک غریب ملک ہے۔مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر اقلیتوں کے ساتھ ظلم و ستم اقوام عالم سے اس ملک کو کوئی دوست فراہم نہیں کرے گا۔یہ ہمیں صرف ملائیت زدہ معاشرےکے طور پر دکھائے گاجو ایک فرقے کو دوسرے سب پر فوقیت دیتا ہے اوراپنے ہی شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کرتا ہے۔

افسوسناک ہونے کےعلاوہ، دنیا ہمیں ایک مسخرے کے طور پر دیکھتی ہے۔اس عمل کے باعث ہم ہر جگہ مسلمانوں کو بدنام کرتے ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی سیاستدان پاکستان کی نیک نامی کی بجائے مذہب کے غلط استعمال کی طرف متوجہ ہیں۔

اگر ہمسائے میں قادیانی کے گھر کو آگ لگ جائے تو ممکن ہو تو اس پر پٹرول پھینکیں پانی نہیں

(ملاں کی شرانگیزیاں)

سرگودھا،جنوری ۲۰۲۳ء:۸؍جنوری۲۰۲۳ء کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی کمیٹی نے درج ذیل واقعہ کی رپورٹ دی۔تمام متعلقہ افراد کے فائدے کے لیے ہم اسے ذیل میں پیش کرتے ہیں۔ تاہم پہلے ہم ملاں کی تقریر کے متعلقہ اقتباس پیش کریں گے:’’ان کے ساتھ کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا،ان کی غمی خوشی میں شریک ہونا،ان کی دکان سے چیز خریدنا،اپنی دکان سے ان کو چیز دینا،یا ان کو اپنی دکان پر سیلز مین رکھنا، یہ تمام چیزیں قطعی حرام کے زمرے میں آتی ہیں۔ اگر ایک مرزائی فوت ہو جائے تو اس کاجنازہ نہیں پڑھنا چاہیے،اگر بیمار ہو جائے تو تیمارداری نہیں کرنی چاہیے،اگر وہ سڑک پر گرا پڑا ہو تو ہسپتال نہیں لے جانا چاہیے،اگر اپنے ہمسائے میں اس کے گھر کو آگ لگ جائے تو ممکن ہو تو اس پر پٹرول پھینکیں پانی نہیں۔اقلیتوں کے حقوق صرف ہندو،سکھ،عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے ہیں۔ان کے لیے نہیں۔مرزائیت اور قادیانیت کے ساتھ ان(حقوق) کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘

واقعہ کی رپورٹ

پاکستانی ملاںاحمدی مسلمانوں کے قتل پر اکسا رہا ہے۔ پاکستان میں احمدیت مخالف جذبات میں ایک اور بڑی تشویشناک صورتحال میں ایک شدت پسند ملاں نے احمدی مسلمانوں کے مکمل بائیکاٹ کی کال دی ہے۔سید محمد سبطین شاہ نقوی(سرپرست مرکزی جمعیت اہلحدیث پنجاب،اور مرکز امام بخاری ؒ کا بانی اور پرنسپل)اپنی ایک تقریر میں یہ کہتے ہوئے غیر انسانی حد تک چلا گیاکہ اگر احمدی کے گھر کو آگ لگ جائے تو ممکن ہو تو اس پر پٹرول پھینکیں پانی نہیں۔اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ قابل مذمت اور زہریلا بیان جلد متاثر ہو جانے والے نوجوانوں پر پہلے سے انتہائی جارحانہ ماحول میں جہاں ملک میں احمدیوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے بہت زیادہ اثر انداز ہو گا۔ احمدیوں کی آواز کا گلا دبایا جارہا ہے ان کو تقریبات اور تعلیمی اداروں میں بات کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ گذشتہ سال سفاکانہ قتل،قبروں کے کتبوں کی بےحرمتی اور مسجدوں پر حملےکی صورت میں احمدیت مخالف مہم میں سنگین اور مذموم اضافہ ملاحظہ کیاگیا۔ اب نئے سال کا آغاز ایک پرامن اور بے لوث خدمت کرنے والی احمدیہ مسلم جماعت کے خلاف ایک مسلسل منظم ایذا رسانی،نئے تشدد، نفرت اور غیر انسانی حرکتوں کے مطالبات کےساتھ ہوا ہے۔ ملاں نے دعویٰ کیا کہ اقلیتوں کے حقوق صرف ہندوؤں،سکھوں،عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے ہیں۔ احمدیوں کے لیے نہیں ہیں۔’’ مرزائیت قادیانیت کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے۔ان کے ساتھ کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا،ان کی غمی خوشی میں شریک ہونا،ان کی دکان سے چیز خریدنا،اپنی دکان سے ان کو چیز دینا،یا ان کو اپنی دکان پر سیلز مین رکھنا، یہ تمام چیزیں قطعی حرام کے زمرے میں آتی ہیں۔ ملاں نے ایک ناگوار اور توڑ مروڑ کر کی ہوئی تقریر میں احمدیوں کو انسانی درجہ سے بھی نیچے گراتے ہوئے مزید ایسا کہا کہ جس کی معاشرے سے کسی گروہ کے اخراج اور تعصب کی ایسی مثال انسانی تاریخ نے نہیں دیکھی‘‘۔ اگر ایک مرزائی (احمدیوں کے لیے ایک تحقیر آمیز لفظ) فوت ہو جائے تو اس کاجنازہ نہیں پڑھنا چاہیے،اگر بیمار ہو جائے تو تیمارداری نہیں کرنی چاہیے،اگر وہ سڑک پر گرا پڑا ہو تو ہسپتال نہیں لے جانا چاہیے،اگر اپنے ہمسائے میں اس کے گھر کو آگ لگ جائے تو ممکن ہو تو اس پر پیڑول پھینکیں پانی نہیں۔

غیر انسانی رویے کا یہ درجہ نہ صرف بین الاقوامی انسانی حقوق کے خلاف ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق اور اخلاقی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔اس سب سے انتہائی نفرت، تعصب اور زہرآلود رویہ کی بدبو آرہی ہے۔ ا س طرح کا طرز خطابت پاکستان میں بڑھ رہا ہے اور انتظامیہ نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ عالمی برادری سے التماس ہے کہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ احمدیوں کو وہی بنیادی انسانی حقوق اورتحفظ فراہم کریں جو دوسروں کو دیے گئے اور بین الاقوامی انسانی حقوق میں جن کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ضلع قصور میں بڑھتا جبر و تشدد

بھلیر، ضلع قصور،جنوری ۲۰۲۳ء:گذشتہ کچھ سالوں میں پنجاب میں احمدیوں کے خلاف پرتشدد حملوں اور مقدمات کے اندراج میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جلتی پر تیل ڈالنے کاکام ۲۰۱۵ء میں تحریک لبیک پاکستان کو ملنے والے عروج اور لاہور کے ایک مولوی حسن معاویہ کی کوششوں نے کیا ہے۔

حال ہی میں پولیس نے بھلیر کے گیارہ احمدیوں کے خلاف جھگڑے کا بہانہ بنا کر مقدمہ درج کیا ہے۔مقامی ملاں عبدالرؤف اس کا م میں آلہ کار بنا۔

مقامی لوگوں نے ایک غیر مقامی متشدد کو بلایا جس نے احمدیوں کے بے ایمان اور واجب القتل ہونے کے فتوے دیے۔ اور بالکل ایسا ہی رویہ شیعہ اور اہل حدیث کے خلاف اپنایا۔ احمدیوں نے تقریر کے بعد ہونے والے اثرات کے خوف سے تھانہ پھولنگر میں پولیس کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ دوسرے دونوں فریقوں نے بھی ایسا ہی کیا۔

۲۰۱۵ء سے اب تک جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے ۲۷ افراد کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کیا جا چکا ہے۔ نفرت انگیز تقاریر اور خطبے مذہبی غنڈوں کو تشدد پر آمادہ کرتے ہیں۔حالیہ چند سالوں میںاحمدیوں کے خلاف تحریک لبیک پاکستان سب سے زیادہ سرگرم اور متشدد ہے۔انہوں نے اس چیز کو بطور ایک اصول اپنا لیا ہے۔پنجاب حکومت کی انتظامیہ اور پولیس ملاؤں کے ان خیالات کو سیاسی پشت پناہی سے نوازتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

جرمن سرکاری کارندے نے جماعت احمدیہ پر ہونے والے جبر و استبداد کی مذمت کی

جرمنی ۱۵؍جنوری ۲۰۲۳ء:مسٹر فرینک شوابے جو کہ وفاقی حکومت کے مذہبی یا اعتقادی آزادی کے کمشنر ہیں انہوں نے Day of Religions کے موقع پر ایک سرکاری ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا۔اس میں ایک پیراگراف احمدیوں کی پاکستان میں حالت پر مشتمل ہے۔ہم اس کا مستند ترجمہ پیش کر رہے ہیں جو مندرجہ ذیل ہے:

Day of Religions۔ شوابے اپنی توجہ

مذہبی اقلیتوں کی طرف مرکوز کرتا ہے۔

وفاقی حکومت کے مذہبی یا اعتقادی آزادی

کے کمشنر کی ویب سائٹ

’’مذہبی وابستگی کی مختلف علاقائی اہمیت و اثرات ہوتے ہیں۔بہت سارے معتقدین یا تو اکثریت سے تعلق رکھتے ہیں یا اقلیت سے۔اس بات کا انحصار ان کی رہائش کے علاقے پر ہوتا ہے۔لیکن اس کے برعکس کچھ ایسی مذہبی جماعتیں ہیں جو ہمیشہ ہی اقلیت رہتی ہیں۔جیسے (…)،احمدی اور یہواز وٹنس والے‘‘۔فرینک نے وضاحت کی۔

’’مذہبی اقلیت ہونے کے باعث جماعت احمدیہ کے ساتھ امتیازی اور جبر واستبداد کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔پاکستان میں خاص طور پر،جہاں جماعت کے اندازاً چالیس لاکھ کے قریب لوگ رہتے ہیں۔ وہ خاص طور پر توہین اسلام سے متعلق گرفتاریوں اور مجرمانہ خلاف ورزیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ان کی عبادت گاہیں باضابطہ طور پر منہدم کی جاتی ہیں اور قبرستانوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔احمدی دوسرے ملکوں میں بھی سلامتی کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔چند دن قبل ہی برکینا فاسو میں ۹؍ احمدی ایک مسجد میں قتل کر دیے گئے تھے‘‘۔

’’بطور نمائند ہ میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرتا رہو ں گا کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور جبر واستبداد عوام کے سامنے آئے،جبر واستبداد اور دھمکیوں کے خلاف تحفظ فراہم ہو اور مذہبی اقلیتوں کے کارکنوں کی حالت بہتر ہو‘‘۔

Frank Schwabe,

Beauftragter der

Bundesregierung für

Religionsfreiheit

۱۵.۰۱.۲۰۲۳

امریکہ کے صدر کی جانب سے ایک اہم اعلان

وائٹ ہاؤس، ۱۳؍جنوری ۲۰۲۳ء:امریکہ کے صدر مسٹر جوزف آر بائیڈن جونیئر،نے آج مذہبی آزادی کے متعلق ایک اعلان کیاہے۔اور ۱۶؍ جنوری ۲۰۲۳ء کو مذہبی آزادی کا دن قرار دیا ہے۔یہ اعلان مبنی بر اصول،عالیشان اور مستحسن ہے۔اگرچہ یہ براہ راست امریکہ سے متعلقہ ہے لیکن یہ قرارداد پاکستان جیسی اور کئی دوسری ریاستوں کے لیے عمل پیرا ہونے کے لحاظ سے قابل توجہ ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button