خلافت کے نظام کی برکت اور رسول اللہﷺ کی اطاعت
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۶ء بمقام فجی)
اللہ تعالیٰ کا یہ شکر و احسان ہے کہ آج مجھے دنیا کے اس خطے اور ملک سے بھی براہ راست خطبہ دینے کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔ دنیا کا یہ حصہ دنیا کا آخری کنارہ کہلاتا ہے، یہ سب جانتے ہیں۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیے گئے وعدے کا ایک اَور طرح سے نظارہ کروا رہا ہے۔ ایک تو وہ نظارے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دکھائے اور دکھا رہا ہے کہ د نیا کے کناروں تک آپ کی تبلیغ اور آپ کا پیغام ہم ایم ٹی اے کے ذریعہ سے پہنچتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اور 2005ء کے جلسہ قادیان اور اس سال کے شروع میں دو خطبات جمعہ اور ایک خطبہ عیدالاضحی بھی قادیان سے براہ راست نشر ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہاں سے خطبات دینے کی توفیق دی جو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جیسا کہ مَیں نے کہا دنیا کے کناروں تک پہنچے۔ اور آج جیسا کہ مَیں نے کہا فجی کے اس شہر سے جو(فجی کا ہی) ایک دوسرا شہر ہے اور دنیا کا آخری کنارہ ہے یہ خطبہ دے رہا ہوں۔ تو ایک لحاظ سے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا کے آخری کنارے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام دنیا کے باقی حصوں میں پہنچانے کا سامان اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ کوشش جو ہم براہ راست خطبہ نشر کرنے کے لیے کر رہے ہیں، کامیاب بھی ہو اور یوں ہم اس پیشگوئی کو اس طرح بھی پورا ہوتے دیکھیں کہ پہلے یہ پیغام دنیا کے ان کناروں تک پہنچا اور اب دنیا کے کنارے سے پھر تمام دنیا میں پھیل رہاہے۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیں اس کا شکر گزار بنانے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کا ذریعہ بننا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانے کے مسیح و مہدی ہیں جو سب جانتے ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مسیح و مہدی بنا کر مبعوث فرمایا۔ آج دنیا اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح و مہدی ہیں یا نہیں۔ لیکن یہ ہر کوئی پکار رہا ہے اور کہہ رہا ہے، دنیا زبان حال سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ کوئی مصلح کوئی مہدی کوئی مسیح اس زمانہ میں ہونا چاہئے جو دنیا کو صحیح راستے پر چلا سکے۔ آج دنیا اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حقیقی رنگ کو بھول چکی ہے۔ نفس نے بہت سے خدا دلوں میں بٹھائے ہوئے ہیں جن کی ہر شخص پوجا کر رہا ہے۔ اپنے پیدا کرنے والے کے حق کو بھلایا جا چکا ہے۔ اور اس طرح نفسانفسی کا عالم ہے کہ اپنے بھائی کے حقوق چھین کر بھی اپنے حقوق قائم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ آج سینکڑوں لکھنے والے اخباروں میں لکھتے ہیں خود دوسرے مسلمان بھی یہ لکھتے ہیں کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ گیا ہے، عمل نہیں۔ تو یہی زمانہ تھا جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ اس زمانے میں میرا مسیح و مہدی ظاہر ہو گا۔ پس وہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان خوش قسمتوں میں شامل کیا جنہوں نے اسے قبول کیا۔
کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو صرف قبول کر لینا ہی کافی ہے؟ نہیں بلکہ آپؑ کے آنے کا ایک مقصد تھا کہ بندے کا تعلق اپنے پیدا کرنے والے خدا سے قائم کروانا ہے۔ اور پیداکرنے والے خدا اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنا ہے۔ تاکہ ان دونوں طرح کے حقوق کی ادائیگی سے ہم اپنے پیدا کرنے والے خدا کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں اور یوں اس دنیا میں بھی اس کے فضلوں کو سمیٹیں یا سمیٹنے وا لے بنیں اور مرنے کے بعد بھی اس کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو سکیں۔ پس ہمیں آپؑ کی تعلیم کی روشنی میں جو دراصل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعلیم ہے جس کو لوگ بھلا بیٹھے ہیں، اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’انبیاء علیہم السلام کی دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خداتعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں۔ حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے۔ پس اس وقت بھی جو خداتعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی۔ یعنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف رہبری کرتا ہوں ‘‘۔ یعنی گناہ سے بچنے کا راستہ دکھاتا ہوں۔ (ملفوظات جلددوم صفحہ 8 ایڈیشن 1988ء) پس دیکھیں یہ سب سے بڑا مقصد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کا کہ خدا کی پہچان کروائیں اور جب بندے کو خدا کی پہچان ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے۔ پس آپ نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان لیا آپ کی بیعت میں شامل ہو گئے تو اپنا جائزہ لیں، ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ یہ جومقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے آنے کا بیان فرمایا ہے اور سب سے بڑا مقصد یہی بیان فرمایا ہے، اور بھی مقاصد ہیں لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا سب سے بڑا مقصد ہے پھر بندوں کے حقوق ادا کرنا ہے اور یہ سارے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ تو جیساکہ مَیں کہہ رہا تھا اس مقصد کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ اور جب ہم اس مقصد کو سامنے رکھیں گے تو ہمیں خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے اور عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اگر ہمیں اللہ کے حضور جھکنے اور اس کی پہچان کرنے کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی تو ہمارا یہ صرف نام کی بیعت کر لینا بے فائدہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو شرائط بیعت ہیں جن کو پڑھنے کے بعد ہر آدمی اپنے آپ کو جماعت احمدیہ میں شامل کرتا ہے۔ اگر آپ ان کو پڑھیں تو پتہ لگتا ہے کہ آپؑ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں کیا بنانا چاہتے ہیں۔ دوسرے اس اقتباس میں جومَیں نے پڑھا ہمارے ان بھائیوں کا بھی جواب آ گیا جو یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام مجدد تھے، مصلح تھے، لیکن نبی نہیں تھے۔ آپؑ نے یہ لکھ کر کہ میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی، واضح فرمایا کہ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کا درجہ عطا فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اور بہت ساری جگہوں پر لکھا ہوا ہے کہ میری حیثیت نبی کی ہے اور یہ بھی کہ آپ کس حیثیت سے نبی ہیں۔ بہرحال مَیں نے یہ اقتباس پڑھا تھا تو ضمناً یہ بات بھی سامنے آ گئی۔ آپؑ کی نبوت ایسی نبوت ہے جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی پیشگوئیوں کے مطابق آپؑ آئے ہیں۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام پیشگوئیوں کو پورا ہوتا دیکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور آپؐ کے غلام صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس مسیح و مہدی کو ماننے کی توفیق دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ہر وقت ڈوبا رہتا تھا۔ آپؑ اپنے ایک فارسی کلام میں فرماتے ہیں :
بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم