ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
ایک دلچسپ واقعہ
خاکسار نے حضورِانور کی خدمت میں اس روز پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ میں نے بتایا کہ (دورے کے)ابتدا میں مکرم ماجد صاحب، مکرم مبارک ظفر صاحب اور خاکسار کو مسجد کے سامنے،سڑک سے پار،ایک دفتر مہیا کیا گیا تھا۔ہوا کچھ یوں کہ اس دفتر تک پہنچنے کے لیے ہمیں لجنہ اماء اللہ کی ایک چیک پوسٹ سے گزرنا پڑتا تھا۔ چونکہ ہم لجنہ کی ممبرات کے لیے کسی قسم کی تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہتے تھے ہم نے مکرم میجر صاحب (افسرحفاظت خاص) سے درخواست کی کہ کیا ہمارے دفتر تک پہنچنے کا کوئی متبادل راستہ ہے؟ مکرم میجر صاحب نے پورے اعتماد کے ساتھ ہمیں بتایا کہ ہم سلام کہتے ہوئے بغیر کسی مسئلہ کے لجنہ کی اس چیک پوسٹ سے گزر سکتے ہیں۔ یوں میجر صاحب کی قیادت میں ہم ان کے پیچھے پیچھے جس حد تک ممکن تھا سر جھکائے چلنے لگے۔ جونہی ہم لجنہ کی چیک پوسٹ پر پہنچے میرا خیال ہے کہ ہم سب کا یہی خیال تھا کہ میجر صاحب کے ساتھ ہونے کی وجہ سے لجنہ کی ممبرات ہمیں گزرنے دیں گی۔ تاہم ڈیوٹی پر موجود دو کم عمر لجنہ ممبرات نے انہیں نہ پہچانا اور نہ ہی ہم میں سے کسی اَور کو پہچانا اور نہایت تندہی سے اصرار کیا کہ سڑک کی دوسری طرف جانے سے قبل ہماری چیکنگ ہوگی اور سب سے پہلے میجر صاحب کو اپنے بازو کھول کر چیکنگ کروانی پڑی جو ایک ممبر لجنہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ایک سکینر سے کی۔پھر ماجد صاحب کو اور پھر مبارک صاحب کو اور آخر پر خاکسار کو۔ میں نے بھرپور کوشش کی کہ اپنی باری کے انتظار میں جس دوران ہمارے بزرگوں کی تلاشی لی جا رہی تھی اپنی ہنسی پر قابو رکھوں جبکہ وہ خود بھی بڑی عاجزی سے اپنی تلاشی کروا رہے تھے۔ بہرحال چیکنگ کے بعد وہ سب سڑک عبور کرنےکے لیے کلیئر تھے لیکن میری باری پر سکینر کی beep بجنے لگی جس پر لجنہ ممبر نے اصرار کیا کہ میں اپنی جیبیں خالی کروں۔ چنانچہ خاکسار نے اپنی جیبیں خالی کیں جس کے بعد کی جانے والی تلاشی پر مجھے آگے جانے کی اجازت دے دی گئی۔
یہ واقعہ سن کر حضورِانور خوب محظوظ ہوئے اور استفسار فرمایا کہ تو کیا انہوں نے میجر صاحب کی بھی مکمل سیکیورٹی چیک کی؟ میں نے عرض کی کہ جی ہاں، اس پر حضورِانور مسکرائے دیے۔ اگرچہ شناخت کا یہ عمل ہمارے لیے کچھ تعجب انگیز تھا کہ لجنہ کی ممبرات نے ہمیں سکین کیا لیکن وہ ہمیں چیک کرنے پر حق بجانب تھیں کیونکہ وہ ہمیں پہچانتی نہیں تھیں اس لیے میرا خیال تھا کہ حضورِانور ان کی بیدار مغزی کی تعریف فرمائیں گے۔
دوسری جانب مَیں نے بھی اپنا سبق سیکھ لیا اور مصمم ارادہ کیا کہ اب دورے کے دوران اپنی جیبیں خالی رکھوںگا۔
شکر ہے کہ اگلے روز مکرم منیر جاوید صاحب نے کہا کہ ہم ان کے دفتر کو شیئر کر سکتے ہیں یوں اس کے بعد دوبارہ ہمیں ایسی صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
حضورِانور کا مثالی نمونہ
حال ہی میں تعمیر ہونے والی ہماری چند مساجد کی طرح مسجد نصرت جہاں میں امام کے لیے الگ سے داخلی راستہ نہیں ہے اس لیے حضورِانور مسجد کے صدر دروازے سے تشریف لاتے۔ یوں جب نماز مکمل ہو جاتی تو حضورِانور احمدیوں کے پاس سے گزرتے ہوئے واپس تشریف لے جاتے۔
حضورِانور سفر کی وجہ سے چونکہ قصرنماز ادا فرما رہے تھے اور بسااوقات جب حضور مسجد سے باہر تشریف لے جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تو بعض مقامی احمدی احباب ابھی اپنی بقیہ نماز ادا کر رہے ہوتے۔ حضورِانور نہایت صبر اور حوصلے سے ایک طرف انتظار فرماتے تاکہ انفرادی نماز ادا کرنے والے اپنی نماز مکمل کر لیں اورانہیں کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ جب وہ نماز ادا کر لیتے تو ہی حضورِانور ان کے سامنے سے گزرتے۔
جب مَیں نے حضورِانور کو صبر سے انتظار فرماتے دیکھا تو مجھے خیال آیا کہ اس میں تمام احمدی احباب کے لیے ایک سبق ہے۔ہم بسا اوقات دیکھتے ہیں کہ لوگ ابھی نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں تو دوسرے لوگ انتظار کرنے کی بجائے ان کے آگے سے گزرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ کس قدر ہی مصروف کیوں نہ ہوں لیکن یہ ممکن نہیں کہ وہ خلیفۂ وقت سے بھی زیادہ مصروف ہوں گے جو ایسے مواقع پر صبر اور حوصلہ دکھاتے ہیں۔
ایک جذباتی خادم
ایک روز میری ملاقات ایک احمدی خادم کنوز انور (عمر ۳۷سال) سے ہوئی جو ڈنمارک میں پلے بڑھے تھے۔حضورِانور کے دورہ کے دوران وہ مسجد میں مختلف ڈیوٹیز سر انجام دیتے رہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ چند سال قبل وہ جماعت اور احمدیت سے دُور ہو گئے تھے۔ تاہم اس دوران انہیں کبھی اندرونی سکون یا اطمینان حاصل نہیں ہوا اور پھر چند سالوں کے بعد وہ مسجد واپس آئے ہیں۔
وہ پریشان تھے کہ شاید انہیں تحقیر آمیز رویہ کا سامنا کرنا پڑے یا کوئی انہیں ڈانٹ پلائے کیونکہ وہ ایک لمبے عرصے سے مسجد نہیں آئے تھے۔ وہ حیران تھے کہ ان کو فوری طور پر خوش آمدید کہا گیا اور امیر صاحب اور دیگر ممبران جماعت نے ان کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ پھر حضورِانور کے ڈنمارک کےدورہ سے چند ہفتے قبل کنوزصاحب نے خود لندن جا کر حضورِانور سے ملاقات کی۔ اپنے جذبات کو بیان کرتے ہوئے کنوز صاحب نے بتایا کہ جب میں حضورِانور سے لندن میں ملا تو مجھے فوراً ہی یہ احساس ہوا کہ جماعت سے دُور ہو کر میں نے کس قدر غلطی کی ہے۔ ہمارے خلیفہ کے دل میں ہر احمدی کے لیے سوائے محبت کے اور کچھ بھی نہیں ہے، حتیٰ کہ میرے جیسے لوگوں کے لیے بھی۔میں اس بات پر استغفار کرتے ہوئے اللہ کی بخشش کا طلبگار ہوں کہ میں اس بابرکت جماعت سے دور ہو گیا تھا۔
انہوں نے مجھے مزیدبتایا کہ جماعت اور خلیفۂ وقت کے ساتھ دوبارہ تعلق جوڑنے کے بعد انہوں نے خود میں کیا تبدیلی محسوس کی ہے۔ کنوزصاحب نے بتایا کہ جب میں اپنی پرانی حالت کو دیکھتا ہوں تو اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کی مانند پاتا ہوں جو کڑواہٹ سے بھرا ہوا تھا ۔ میرا نوجوان بیٹا ہے کہتا ہے کہ جب سے میں نے دوبارہ مسجد سے رابطہ بحال کیا ہے اس نے میرے میں ایک بڑی تبدیلی دیکھی ہے۔وہ کہتا ہے کہ اب وہ مجھ سے زیادہ پیار کرتا ہے اور یہ کہ اب میں ویسا ہی باپ ہوں جیسا کہ وہ ہمیشہ خواہش رکھتا تھا۔
ایک احمدی خاتون کے جذبات
میری ملاقات ایک خاتون قانتہ لئیق صاحبہ سے ہوئی جن کی چند لمحات قبل زندگی میں پہلی مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح سے ملاقات ہوئی تھی۔ایک دن قبل ان کی خالہ سبوحی (حرم محترم حضورِانور) سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے قانتہ صاحبہ نے بتایا کہ آج میں اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ خلیفۂ وقت سے ملی ہوں اور میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی ہستی ایسی خوبصورت اور انمول ہو سکتی ہے۔ حضورِانور کی موجودگی میں گزرے ہوئے وہ لمحات ساری زندگی میرے ساتھ رہیں گے۔
خالہ سبوحی سے ملاقات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ جب میں آپا جان سے ملی تو مجھے ایسا لگا جیسے میں اپنی والدہ سے مل رہی ہوں کیونکہ وہ بہت محبت کرنے والی اور شفیق ہیں۔ آپ نہایت پُرحکمت وجود ہیں اور آپ نے ہمیں عائلی معاملات کے حوالہ سے اہم نصائح فرمائیں۔ مثال کے طور پر آپ نے بتایا کہ اگر کسی میاں بیوی میں باہم کوئی جھگڑا ہو جاتا ہے تو انہیں اس حوالہ سے بچوں کے سامنے کوئی بات نہیں کرنی چاہیے یا ان پر غصہ نہیں کرنا چاہیے۔
مکرمہ قانتہ صاحبہ نے مزید بتایا کہ ہم نے آپا جان سے پوچھا کہ ان کی ذاتی زندگی کیسے گزرتی ہے تو آپ نے ہمیں بتایا کہ آپ اور حضورِانور ایک بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں اور اپنے گھریلو فرائض اور کام خود بجا لاتے ہیں۔یہ سننا میرے لیے سخت تعجب انگیز تھا۔
ایک سادہ زندگی
یہ سننے پر میں نے ان کو بتایا کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ حضورِانور اور خالہ سبوحی کس قدر سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ اس قدر مصروفیت اور اہم ذمہ داریوں کے باوجود آپ دونوں دوسروں پر کبھی انحصار نہیں کرتے بلکہ معمول کے مطابق اپنےگھریلو کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضورِانور نے مجھے بتایا ہے کہ بسا اوقات آ پ کے گھر میں کچھ چیزیں ٹھیک کرنے والی ہوتی ہیں تو بجائے کسی کو بلانے کے آپ وہ چیزیں خود ٹھیک کر لیتے ہیں۔ حضورِانور بعض گھریلو کام بھی اپنے دستِ مبارک سے انجام دیتے ہیں جیسے لائٹ بلب تبدیل کرنا یا گھر میں دھونی وغیرہ دینا (تاکہ نقصان دہ کیڑے مکوڑوںسے بچا جا سکے)۔
اسی طرح بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ خالہ سبوحی کے پاس بےشمار کام کرنے والی خادمائیں ہوں گی یا کھانے پکانے والیاں ہوں گی مگر حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔مزید برآں لندن میں حضورِانور کے دفتر کے پیچھے آپ کا ایک چھوٹا سا باغیچہ بھی ہے۔ بعض مواقع پر خاکسار کو بھی اس باغیچہ میں حاضر ہونے کا موقع ملا جبکہ حضور اس کے پھولوں اور پھلوں سے محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں حضورِانور کے باغیچہ میں چیری اور انجیر اگتی ہیں اور مَیں نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ کس قدر محبت بھرے انداز میں حضورِانور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بسااوقات حضورِانور خاکسار کو فرماتے ہیں کہ ایک شاخ کو پکڑوں اور آپ اس کی کٹائی کرتے ہیں اور ایک دوسرے موقع پر آپ نے خود پکے ہوئے پھل اتارے اور مجھے فرمایا کہ میں ان کو ایک بیگ میں ڈالوں۔ اس دوران حضورِانور نے چند پھلوں کوچکھا اور مجھے بھی چکھنے کے لیے کہا۔ وہ لمحات بہت خاص تھے اور میں خود فرطِ حیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ حضورِانور بجائے دوسروں پر انحصار کرنے کے اس طرح کے کاموں کو اپنے دستِ مبارک سے انجام دیتے ہیں۔
سچائی کی اہمیت
میری ملاقات ایک خاتون شائستہ Nigaeصاحبہ سے ہوئی جو لجنہ اماء اللہ ڈنمارک کی سیکرٹری ضیافت ہیں۔ شائستہ صاحبہ کی ملاقات بھی خالہ سبو حی سے ہوئی جس کے بارے میں انہوں نے مجھے بتایا کہ آپاجان بہت سادہ اور عاجز ہیں اور ہم سب آپ کے ساتھ وقت گزار کر بہت مستفیض ہوئی ہیں۔ آپ بہت محبت کرنے والی اور شفیق ہیں اور لجنہ اماء اللہ کی ممبرات کے لیے ایک علم کے چشمے کی مانند ہیں۔ ایک چیز جس پر آپ نے بہت زور دیا وہ یہ تھی کہ ہمیں اپنے جملہ معاملات میں ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔پس جب وہ کوئی بات کہتی ہیں تو آپ کو توجہ سے سننی چاہیے کیونکہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ خود ایک قابلِ تقلید وجود ہیں۔(حضورِانور کا دورہ Scandinavia مئی ۲۰۱۶ء)
(مترجم:’ابوسلطان‘، معاونت: مظفرہ ثروت)