غرق خود اپنے لہو میں آفتاب شام ہے ۔ چیف جسٹس کے نام
تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے جسٹس کارنیلیس بننا پڑتا ہے
لاہور شہر صدیوں سے تہذیب و ثقافت کا مرکز چلا آ رہا ہے اسی لیے شائد اپنے اندر اَن گنت کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ جب تک علم دوستی اور سچی و کھری صحافت لاہور کی فضاؤں میں سیاست و مذہب پر حاوی رہیں یہ شہر نیک نام اور لازوال محبتوں کا شہر کہلاتا تھا۔ ماضی میں اس شہر میں ایسی ایسی بلند پایہ قابلِ قدر ہستیاں موجود رہیں جن کی مثالیں دے کر آج کی نسل کو حکمت و دانائی کی راہ سجھائی جاتی ہے۔ وہ لعل و گہر جن کے دم سے اس شہر کا بھرم قائم تھا ان میں ایک نام جسٹس کارنیلیس کا بھی ہے جو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت عالیہ سے سترہ سال وابستہ رہ کر نیک نام جج کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان سپریم کورٹ کا رویہ سیاستدانوں اور قانون دانوں کے درمیان موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ شائد اسی لیے عقل کی راہ سجھانے اور ہوش کے ناخن لینے کے لیے گذشتہ اتوار کے روز لاہور میں مینار ٹی رائٹس فورم (Minority Rights Forum)نے جسٹس کارنیلیس کی یاد میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں ایک اجلاس ’’دستورِ پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل حقوق ‘‘ کے عنوان سے بھی تھا۔اس اجلاس سے سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس نے بھی خطاب کیا۔ ان سے توقع تو یہ تھی کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دَور کے چند ایسے فیصلوں کا ذکر ضرور کریں گے جو ادارے کے لیے نیک نامی اور اچھی شہرت کا باعث بنے۔ ایک دو مثالیں ضرور ایسی بیان کریں گے جن میں ان کے نامۂ اعمال کے بے مثال ہونے کی نوید نہیں تو جھلک ضرو موجود ہو۔ افسوس اس بات کا ہے کہ چیف جسٹس کے منہ سے مظلوم کو ڈھارس بندھوا نے والے دو لفظ بھی ادا نہ ہو سکے بلکہ اس سنجیدہ فورم کو بھی انہوں نے سیاسی اسٹیج کے طور پر استعمال کیا۔اس فورم کے انعقاد اور چیف جسٹس کو بلانے کا مقصد آئین کے آرٹیکلز کی تفاصیل سننا نہیں بلکہ آرٹیکلز پر عمل درآمد کروانے میں سپریم کورٹ کے کردار کی تفاصیل سے آگاہ ہونا تھا۔ آئین میں جو لکھا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جو لکھا ہے اس پر نہ تو شہری عمل کرتے ہیں اور نہ ریاست اس کو خاطر میں لاتی ہے۔ آخری امید کے لیے سپریم کورٹ رہ جاتی ہے اور وہ قرآن کریم کے (پنجاب حکومت کی دانست میں) ترجمہ کی تحریف کے مقدمہ میں گرفتار افراد کی ضمانت لینے کو تیار نہیں۔ آپ سٹیج پر کھڑے ہو کر لاکھ کہیں کہ آئین کا آرٹیکل اکیس اور بائیس کسی مذہبی تفریق کے بخیر انسانی بنیادی حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے اور انسانی بنیادی حقوق کی حفاظت عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ آپ کے قول اور فعل میں یکسانیت نہیں۔ اگر آپ کو دستور اور ذمہ داری کا احساس ہو جو آپ کے کندھوں پر ہے تو مذہبی منافرت کے نتیجہ میں بنائے گئے مقدمات میں ملوث افراد سالوں سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوں۔
جناب چیف جسٹس نے علاوہ اَور باتوں کے جن امور کی بطور خاص نشان دہی کی ان میں پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی ہے، آئینِ پاکستان اقلیتوں کے حقوق کا ضامن ہے، پاکستان کے ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہیں، بنیادی حقوق پر فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کا حق ہے، آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے، آئین کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے، کسی شخص کے ساتھ مذہب اور نسل کی بنیاد پر امتیاز نہیں کیا جا سکتا وغیرہ شامل ہیں۔
ایسا لگتا ہے گویا چیف جسٹس صاحب دستورِا پاکستان کے چند آرٹیکلز کی یاد دھانی کروانے آئے تھے۔ میں بحیثیت ایک متاثرہ شہری کے عزت مآب چیف جسٹس صاحب سے یہ پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ اگر آپ کے بیان کردہ آرٹیکلز کو آب رواں کا درجہ حاصل ہے تو پھر ۲۰۱۴ءمیں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو پاکستان میں اقلیتوں کی حالت زار پر ایک تفصیلی فیصلہ کیوں جاری کرنا پڑا، جس کا حوالہ چیف جسٹس نے اپنی تقریر میں بار بار دیا ۔اپنی تقریر میں سورت الانعام،سورت الحج،سورت البقرہ اور سورت المائدہ کے ریفرنس دیتے وقت آپ کے جسم پر لرزہ طاری ہو جانا چاہیے تھا ۔ آپ قرآنی آیات پر مشتمل یہ ریفرنسز اس شہر کے سٹیج پر کھڑے دے رہے تھے جہاں ایک ہی جمعہ کے روز دو مساجد میں 86 نمازیوں کو مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ظلم ڈھانے والوں پر گرفت کے لیے نہ کسی دستور کا کوئی آرٹیکل اور نہ ہی آئین کے تحفظ کا دعویدار انصاف مہیا کرنے والا ادراہ سامنے آیا۔ بلکہ آپ کی خاموشی سے ظلم ڈھانے والوں کو حوصلہ ملا۔ جو زندہ ہیں وہ خوف کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور جو اَبدی نیند سو چکے ان کی قبروں کی بے حرمتی کی خبریں مع تصاویر آئے دن اخباروں میں چھپ کر دلوں کو مزید زخمی کرتی ہیں۔ دستور کے آرٹیکلز اور بلا امتیاز حقوق کے محافظوں نے کبھی از خود نوٹس نہیں لیا۔ کیوں؟ چیف جسٹس کی تقریر کا ایک فقرہ ان کی اپنی ذات کے لیے ہے اور میں بین السطور ان کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ عزت مآب نے فرمایا: ’’جسٹس کارنیلیس مجسم انصاف تھے ۔ ججز میں انصاف کرنے کے لیے جسٹس کارنیلیس جیسے اوصاف ہونے چاہئیں۔ ……. جب سچائی سے گریز کیا جائے تو انصاف سے گریز کیا جاتا ہے ۔‘‘
جب سچ زبان پر آ ہی گیا ہے تو ہمت کیجیے اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کا فیصلہ جس میں نوید ہے حالات کے مثبت پلٹا کھانے کی، جس میں امید ہے ظلم کے آگے دیوار کھڑی کرنے کی۔ اس پر عمل کروائیے۔ خصوصی ٹاسک فورس اور سپیشل پولیس کا قیام ابھی تک محض کاغذوں پر ہے۔ محب وطن شہری جو انتہاپسندوں کے نشانے پر ہیں ان کے جان و مال، آبرو، عبادت گاہیں حتیٰ کہ ان کے قبرستان بھی محفوظ نہیں۔ ریاست کے یہ شہری حق رکھتے ہیں کہ ان کو اپنے وطن میں تحفظ فراہم کیا جائے۔ اور خالی تقاریر سے تحفظ فراہم نہیں ہوتا۔ اگر پشاور میں چرچ پر حملہ ہونے پر آرٹیکل 184(3) کے تحت جسٹس تصدق حسین جیلانی از خود نوٹس لے سکتے ہیں تو آپ کی نظروں سے روز ایسی خبریں گزرتی ہیں جن کی وجہ سے آپ کے ذہن کی کھڑکی پر جسٹس کارنیلیس کے اوصاف کو دستک دینی چاہیے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس مظہر عالم کا یہ تاریخی فیصلہ ۱۹؍جون ۲۰۱۴ء کو نافذ العمل ہوا۔ ۲۰۱۹ءتک جب اس فیصلہ پر عمل نہ ہوا تو سپریم کورٹ نے ڈاکٹر شعیب سڈل کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ اس فیصلہ پر عملدرآمد کی نگرانی کریں اور ہر ماہ اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائیں۔ تب اس کام میں ہلچل ہوئی۔ پشاور کا وہ چرچ بھی از سر نو مرمت ہوا۔ کٹاس کے مندر پر کام جاری ہے۔ اس حوالے سے ۴؍ اپریل کو میری شعیب سڈل سے اسلام آباد میں ایک لمبی نشست رہی۔ انہوں نے تصدق حسین جیلانی فیصلہ کی ایک کاپی بھی مجھے عنائت کی۔ بقول چیئرمین سڈل کے اس فیصلہ پر عمل کروانے میں قدم قدم پر رکاوٹیں ہیں۔ مرکز اور چاروں صوبائی حکومتوں کو اس فیصلہ پر عمل درآمد کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ ہر ماہ اپنے کام کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا رہے ہیں لیکن اس رپورٹ پر سپریم کورٹ کا ری ایکشن حوصلہ افزا نہیں۔ اداروں سے بازپرس نہیں کی جا رہی کہ فیصلہ پر عمل کیوں نہیںکیا جا رہا یا عمل کی رفتار اس قدر سست کیوں ہے۔ ایک اور کام جو شعیب سڈل کے ذمہ لگایا گیا وہ اقلیتی فرقوں کی جائدادوں پر قبضہ اور مالیت کے اندازہ لگانے سے متعلق تھا۔ دس ارب روپے کی کرپشن کا پتہ چلایا گیا اور اب دو اَرب روپے کرایہ کی مد میں اقلیتی تنظیموں کو مل رہے ہیں۔ یہ ایک جھلک ہے ان حالات و واقعات کی جس کا سامنا محکوم طبقات کو کرنا پڑ رہا ہے۔
لاہور میں ہونے والے اس سیمینار جس میں تصدق حسین جیلانی بھی اسٹیج پر تشریف فرما تھے مقصد یہی تھا کہ سپریم کورٹ کو ۲۰۱۴ءمیں ہونے والے فیصلہ کی یاد دہانی کروا دی جائے۔ اور یہ بھی بتا دیا جاے کہ تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے جسٹس کارنیلیس بننا پڑتا ہے؎
عدل و انصاف کسی حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود ہی گناہوں کی سزا دیتی ہے