منشی سلطان احمد صاحب مرحوم
مکرم انیس احمد صاحب مربی سلسلہ جاپان نے الفضل انٹرنیشنل کے جنوری اور فروری ۲۰۲۳ء کے شماروں میں سندھ میں احمدیہ اسٹیٹس کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ اس میں انہوں نے اور باتوں کے علاوہ ان اسٹیٹس میں کام کرنے والے احباب کا بھی ذکر کیا ہے جنہوں نے دن رات کام کر کے ان بنجر زمینوں کو آباد کیا۔ ان احباب میں کام کر نے والے میرے والد منشی سلطان احمد صاحب مرحوم بھی شامل تھے۔
قبل اس کے کہ ان کا سند ھ جانے کا اور وہاں ان کے عزم و ہمت سے کام کرنے کا ذکر کیا جائے، یہ مناسب ہو گا کہ ان کے قبول احمدیت کا کچھ ذکر کر دیا جائے۔
آپ کا گاؤں پیر والی تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں واقع تھا۔ آپ بتا یا کرتے تھے کہ وہ صبح پیدل اپنے گاؤں سے نکلا کرتے تھے اور قادیان میں نماز جمعہ پڑھ کر شام کو اپنے گاؤں واپس پہنچ جاتے تھے۔گاؤں میں ان کے ایک دوست کمال دین صاحب مرحوم بھی رہا کرتے تھے۔ والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس وقت جنگ عظیم دوم جاری تھی۔ ایک فوجی ان کی مسجد میں آیا اور ان کو اور ان کے دوست کمال دین صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام دے گیااور انہوں نے اس کتاب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ آپ کہتے تھے کہ میں ایک فقرہ پر پہنچا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ الہامی فقرہ ہے۔ چنانچہ آگے حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا تھا کہ یہ الفاظ مجھے اللہ تعالیٰ نے ابھی القا کیے ہیں۔ یہ پڑھتے ہی والد صاحب اپنے دوست کمال دین صاحب کو بتائے بغیر قادیان روانہ ہو گئے اور وہاں جا کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کرلی۔ واپس گاؤں آکر آپ نے اپنے دوست کمال دین سے اپنی بیعت کا ذکر کیا تو انہوں نے شکوہ کیا کہ مجھے بھی بیعت کرنی تھی، مجھے ساتھ لے جاتے۔
قبول ِاحمدیت سے قبل بھی آپ نے ایک خواب دیکھی تھی کہ نو ر کی شعاعیں گویا زمین سے نکل رہی ہیں اور ان کا رخ آسمان کی طرف ہے۔ آپ نے اپنی یہ خواب گاؤں کے مولویوں کو سنائی تو انہوں نے کہا یہ مبارک خواب ہے اور تم ایسے سلسلہ میں داخل ہو گے کہ جس کی جڑ تو زمین میں ہو گی مگر اس کا تعلق آسمان سے ہوگا۔ جس پر ہر ایک نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ آپ ہمارے فرقہ میں شامل ہو جائیں ہم حق پر ہیں۔
جنگِ عظیم دوم کے آخری دنوں میں آپ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر فوج میں بھرتی ہو گئے۔ مگر جب آپ محاذِ جنگ پر برما پہنچے تو جنگ بند ہو گئی۔ چنانچہ آپ کو فوج سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ فوج میں انہیں map reading پر عبور حاصل تھا۔ اس کے بعد آپ نے اپنی زندگی وقف کر دی۔
آپ جون ۱۹۴۷ء کو سندھ پہنچے۔ آپ کی تقرری صادق پور میں کی گئی جو اس وقت قریباً بنجر اور ویران تھا۔ صادق پور میں ڈیرہ غازی خاں سے آئے ہوئے کھوسہ قبیلہ کے بلوچ آباد ہونا شروع ہو گئے۔ یہ لوگ نہایت مخلص احمدی اور محنتی تھے۔ ان کی شبانہ روز محنت سے یہ بنجر زمین سر سبز و شاداب ہو گئی۔والد صاحب کا کہنا تھا کہ ایک بار ان کو بھی کپاس کی زیادہ پیداوار پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے دستِ مبارک سے انعام ملا تھا۔ آپ کا وہاں کام کرنے والے تمام احباب اور ہاریوں سے پیار و محبت کا تعلق تھا۔ جہاں تک ان سے ہو سکتا، ہر ایک کی مدد کر کے خوشی محسوس کیا کرتے تھے۔
ایک مخلص دوست نے ایک دفعہ آکر آپ سے عرض کیا کہ مولوی صاحب میرے پاس ایسا کوئی جانور نہیں ہے جس کا دودھ میں اپنے بچوں کو پلا سکوں۔ آپ نے انہیں کہا کہ یہ میری گائے ہے، اسے آپ لے جائیں اور اپنی ضرورت پوری کریں۔
کلمہ طیبہ کو سینوں پر لگانے کی تحریک کے دوران مخالفوں نے آپ پر اور میرے چھوٹے بھائی عزیز احمد پر مقدمہ دائر کرد یا۔ پولیس آپ دونوں کو پکڑ کر لے گئی اور کنری کی جیل میں بند کردیا۔ جہاں میرے چھوٹے بھائی پر تشدد بھی کیا گیا۔ خدا بھلا کرے مکرم بشیر احمد صاحب بلوچ کا جنہوں نے آپ کی ضمانت کروا کر آپ کو جیل سے رہائی دلوائی۔حکومت کے زرعی اصلاحات کے نام پر احمدیہ اسٹیٹس کی زمینوں کو ہتھیالینے کے بعد آپ کا عرصہ خدمت اپنے اختتام کو پہنچا۔
والد صاحب ایک طویل علالت کے بعد مئی ۱۹۹۵ء میں انتقا ل کر گئے۔ آپ بہشتی مقبرہ ربو ہ میں آسودۂ خاک ہیں۔