حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے علمی کارنامے
صف دشمن کو کیا ہم نے بحجّت پامال
سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰة والسلام قادیان کی گمنام بستی سے آشکار ہوئے اور آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے بنی نوع انسان کو بصیرت کے نئے جہاں سے متعارف کروایا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو سُلْطَانُ الْقَلَم اور آپ کے قلم کو ذوالفقار علی کا خطاب عطا فرمایاگیا۔(تذکرہ صفحہ۳۳۳) آپ کی بعثت اس زمانے میں ہوئی جب مسلمان تنزلی کا شکار تھے اور عیسائیت اور دیگر مذاہب اسلام پر تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے، عیسائیت کے ایوانوں میں فتح کے نقارےبج رہے تھے۔ مجموعی طور پر مسلمانوں پر ادبار آچکاتھا۔ پڑھے لکھے مسلمان یا تو عیسائیت کے دام تزویر میں پھنستے جارہے تھے یا مغربی فلسفہ سے متاثر ہو کر لا دینیت کی طرف راغب تھے۔ ایسے ماحول میں سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہوا اور آپ نے اس میدان کارزار میں قدم رکھا تو مخالفین کے کیمپ میں کھلبلی مچ گئی اور ادیان باطلہ کو علمی اور روحانی میدان میں شکست پر شکست ہونے لگی اور اسلام کے زندہ خدا کے جلوے ظاہر ہونے لگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فصیح و بلیغ اور زندگی بخش تحریروں نے جو کہ زندہ خدا اور اس کے سچے رسول اور سچی کتاب کی حقانیت پر مبنی تھیں انہوں نے مخالفین اسلام کے کھوکھلے دلائل کو جڑوں سے کاٹ کر رکھ دیا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کے ایک فتح نصیب جرنیل کے طور پر پہچانے جانے لگے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے اس عظیم روحانی غلام کو اپنے الہام کلام اور برکات خاصہ سے مشرف کیا اور الہاماً فرمایا کہ در کلام تو چیزے ست کہ شعرا را درآں دخلے نیست۔ کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ (حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۱۰۶،۱۰۵) تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں ہے۔تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے۔
چنانچہ دینی فوجوں کے سپہ سالار نے بڑی تحدی سے نوع انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس زمانہ میں خداتعالیٰ نے چاہا ہے کہ سیف (تلوار)کا کام قلم سے لیا جائے اور تحریر سے مقابلہ کر کے مخالفوں کو پست کیا جائے… اس وقت جو ضرورت ہے وہ یقیناً سمجھ لو سیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے۔ ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کئے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکائد کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سچے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے۔ اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کارزار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلاؤں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۸،۳۷)پھر فرمایا: ’’خداتعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا کہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا پر ظاہر کروں اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جو ان درخشاں جواہرات پر تھوپا گیا ہے۔ اس سے اُن کو پاک صاف کروں۔ خدا تعالیٰ کی غیرت اِس وقت بڑی جوش میں ہے کہ قرآن شریف کی عزت کو ہر ایک خبیث دشمن کے داغِ اعتراض سے منزہ و مقدس کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۸)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے علمی مباحثات کا آغاز تو اپنے قیام سیالکوٹ کے دوران فرمادیا تھا لیکن آپ نے اپنے قلمی جہاد کا باقاعدہ آغاز اخبارات و رسائل میں مضامین لکھنے سے شروع کیا اور پھر ہندوستان میں ابھرتے ہوئے آریہ سماج کےخلاف براہین احمدیہ کی اشاعت سے قبل میدان جہاد میں اترے اور آریہ سماج کے لیڈروں کو علمی میدان میں اسلام کے مقابل پر انعامی چیلنج دیے اور اسلام کی مسلسل فتوحات کا دروازہ کھول دیا۔
اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علمی کارنامے عیسائیت، آریہ سماج اور برہمو سماج کے ابطال میں ایسے رفیع القدر تھے کہ ان کا اعتراف انصاف پسند مسلم زعماء نے کیا ہے۔ چنانچہ سید حبیب احمد ایڈیٹر اخبار سیاست لاہوراپنی کتاب’’ تحریک قادیان ‘‘ میں لکھتے ہیں:’’اس وقت کہ آریہ اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے۔ اِکے دُکے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہو گئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا۔ اس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے۔ اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کر لیا۔ …مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوبی وخوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دئیے۔ اسلام کے متعلق ان کے بعض مضامین لاجواب ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر مرزا صاحب اپنی کامیابی سے متاثر ہو کر نبوت کا دعویٰ نہ کرتے تو ہم انہیں زمانہ حال میں مسلمانوں کا سب سے بڑا خادم مانتے…۔مرزا صاحب کی کامیابی کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے جبکہ جہالت مسلمانوں پر قابض تھی اور اسلام مسیحی اور آریہ مبلغین کے طعن و تشنیع کا مورد بنا ہوا تھا۔ مرزا صاحب نے اس حالت سے فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کی طرف سے سینہ سپر ہو کر اغیار کا مقابلہ کیا‘‘ (’’ تحریک قادیان‘‘ از سید حبیب احمد مطبوعہ ۱۹۳۳ء مقبول عام پریس لاہور صفحہ۲۰۹-۲۱۰)
براہین احمدیہ کی انقلاب انگیز تصنیف
قلمی جہاد کا کامیاب سلسلہ جاری تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی حقانیت پر ایک انقلاب انگیز تصنیف براہین احمدیہ کے نام سے تصنیف فرمائی۔ یہ وہی کتاب تھی جس کے بارہ میں عالم شباب میں آپ کو کشفی طور پر قطبی نام کی ایک کتاب کی اشاعت کا بتایا گیا (براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد۱صفحہ۲۷۵،حاشیہ درحاشیہ) جس نے اسلام کے لیے قطب ستارہ کی طرح چمکنا تھا اور علمی وروحانی قبلوں کی درست سمت متعین کی جانی تھی۔۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۴ء کے دوران براہین احمدیہ کے چار حصے شائع ہوئے جس نے اسلام کی فضیلت، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور فرقان حمید قرآن مجید کی فوقیت اور برتری کو دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ کے ساتھ نہ صرف ثابت فرمایا بلکہ آپ نے اس علمی کارنامہ میں تمام مذاہب کو انعامی چیلنج دے دیا جس کی مالیت آپ کی کل جائیداد کے برابر تھی کہ ان دلائل کا جواب اپنی الہامی کتب سے نصف یا تہائی یا چوتھائی یا پانچواں حصہ ہی نکال کر دکھائے تو آپ بلا تامل اپنی دس ہزار روپیہ کی جائیداد اس کے حوالے کر دیں گے۔(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۲۴) براہین احمدیہ کی اشاعت اسلام کی صداقت کے لیے ایک روشن مینار ثابت ہوئی۔ کفر و الحاد کا جو سیلاب نہایت تیزی سے بڑھ رہا تھا وہ یکسر پلٹ گیا۔ عیسائیت کا فولادی قلعہ جس کی پشت پناہی انگریزحکومت کر رہی تھی وہ پاش پاش ہو گیا۔ براہین احمدیہ کی اشاعت نے مسلمانوں کے مردہ جسم میں زندگی ڈال دی۔ اس انقلاب انگیز تصنیف کو اسلامیان ہند نے زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ صرف دو تبصرے اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔
اہل حدیث کے لیڈر مولوی محمد حسین بٹالوی نے براہین احمدیہ کو تاریخ اسلام کی بے نظیر کتاب قرار دیتے ہوئے لکھا:’’یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں۔ لعل اللّٰہ یحدث بعد ذالک امرًا اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم از کم ایک ایسی کتاب بتا دے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و برہمو سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص، انصار اسلام کی نشاندہی کر دے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کابیڑہ بھی اٹھا لیا ہو۔ ‘‘ (اشاعة السنہ جلد ۷ نمبر ۶ صفحہ ۱۶۹، ۱۷۰بحوالہ تاریخ احمدیت جلد۱صفحہ۱۷۲)
مشہور صحافی اور مسلم لیڈر مولوی محمد شریف صاحب ایڈیٹر اخبار منشور محمدی بنگلور براہین احمدیہ کے بارے میں اپنے اخبار میں لکھتے ہیں:’’ مدت سے ہماری آرزو تھی کہ علمائے اہل اسلام سے کوئی حضرت جن کو خدا نے دین کی تائید اور حمایت کی توفیق دی ہے کوئی کتاب ایسی تصنیف یا تالیف کریں جو زمانہ موجودہ کی حالت کے موافق ہو۔ اور جس میں دلائل عقلیہ اور براہین نقلیہ قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے پر اورآنحضرت ﷺ کی ثبوت نبوت پر قائم ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ آرزو بھی بر آئی۔ یہ وہی کتاب ہے جس کی تالیف یا تصنیف کی مدت سے ہم کو آرزو تھی۔ براھین احمدیہ ملقب بہ البراھین الاحمدیہ علیٰ حقیّت کتاب اللّٰہ القرآن و النبوة المحمدیہ جس میں مصنف زاد قدرہ اللھم متع المسلمین بطول حیاتہ نے تین سو براھین قطعیہ عقلیہ سے حقیقت قرآن اور نبوت محمدیہ کو ثابت کیا ہے۔ افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہل اسلام ہند مقبول بارگہ صمد جناب مولوی میرزا غلام احمد صاحب رئیس اعظم قادیان ضلع گورداسپور پنجاب کی تصنیف ہے۔ سبحان اللہ کیا تصنیف منیف ہے کہ جس سے دین حق کا لفظ لفظ سے ثبوت ہو رہا ہے ہرہر لفظ سے حقیقت قرآن و نبوت ظاہر ہو رہی ہے۔‘‘ (منشور محمدی ۲۵ رجب ۱۳۰۰ ھ بمطابق ۳۱مئی۱۸۸۳ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد۱ صفحہ۱۷۵)
تہلکہ مچانے والی تصنیف ’’ازالہ اوہام‘‘
براہین احمدیہ کی اشاعت کے بعد آپ کے علمی کارناموں کا سلسلہ بارش کی طرح نازل ہونا شروع ہو گیا۔ آپ کی کتاب ’’ازالہ اوہام ‘‘جو ۱۸۹۱ء میں شائع ہوئی یہ علمی، روحانی، اعتقادی اور ایمانی میدان میں تہلکہ مچانے والی تصنیف اور ایک عظیم علمی کارنامہ تھا۔ آپ نے اس تصنیف لطیف میں حضرت مسیح ناصریؑ کی وفات اور اپنے دعویٰ کے ثبوت کے دلائل تحریر کیے اور آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ کے رموز و اسرار بیان فرمائے۔ وفات مسیح کے قرآن کریم و احادیث سے ایسے دلائل ساطعہ بیان فرمائے کہ جس سے مسیحیت کے قلعہ کو گویا پاش پاش کر دیا اور اسلام کی حیات عقیدہ وفات مسیح میں قرار دی۔ آپ نے ازالہ اوہام میں ہی تحریر فرمایا کہ لفظ توفی کے معنی طبعی وفات پانے کے ہیں اگر خدائی فعل کسی ذی روح کی نسبت ہو تو توفی کے معنی وفات کے ہی ہوتے ہیں۔ اس بارے میں آپ نے انعامی چیلنج بھی دیا۔ جس کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ (ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد۳صفحہ۶۰۲-۶۰۳)
معرکہ آراء کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘
دنیا کو قرآن کریم کے کمالات اور اسلام کی اعلیٰ تعلیم سے متعارف کروانے کے لیے آپ نے آئینہ کمالات اسلام کے نام سے ایک معرکہ آراء کتاب ۱۸۹۲ء میں تحریر فرمانی شروع کی جو فروری ۱۸۹۳ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں محاسن قرآن، اسلامی تعلیمات کے کمالات اور حکمتیں شاندار انداز تحریر میں بیان فرمائیں۔ ایمانیات اور تصوف جیسے روحانی علوم کو زبردست پیرایہ میں بیان کیا اور مسئلہ فنا، بقا،لقا، ملائک، جنات اور بعث بعد الموت جیسے موضوعات کو روح القدس کی تائید سے بیان کیا۔ اس کتاب کی تاثیرات اور برکات یوں بھی ظاہر ہوئیں کہ اس کی تصنیف کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بار آنحضورﷺ کی زیارت نصیب کی اور آنحضورﷺنے اس کتاب کی تالیف پر خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
علم و معرفت سے پر اس کارنامہ کی ایک خاص بات اس کا ایک عربی حصہ التبلیغ بھی ہے جس کے لکھنے کی تحریک پر آپ نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ہی رات میں عربی زبان کا چالیس ہزار مادہ سکھا دیا۔ چنانچہ اسی الہامی قوت سے آپ نے التبلیغ کے نام سے فصیح و بلیغ عربی زبان میں تبلیغی خط مسلمان مشائخ کو مخاطب کر کے لکھا۔ یہ تحریر ایک اعجازی مقام رکھتی ہے۔
’’مضمون بالارہا‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علمی کارناموں میں ایک شاندار کارنامہ آپ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ ہے جو آج بھی سعید فطرت اور انصاف پسندوں پر اپنا سحر طاری کیے ہوئے ہے۔ یہ کتاب آپ نے جلسہ مذاہب عالم منعقدہ ۲۶ تا ۲۹؍ دسمبر ۱۸۹۶ء لاہور کے لیے تصنیف فرمائی۔ اس کی عظمت شان کے بارےمیں آپ تحریر فرماتے ہیں: ’’جلسہ اعظم مذاہب جو لاہور ٹاؤن ہال میں ۲۶، ۲۷، ۲۸؍ دسمبر ۱۸۹۶ء کو ہو گا اس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات کے بارے میں پڑھا جائے گا۔ یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے بر تر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ در حقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے۔اور جو شخص اس مضمون کو اول سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گا۔ میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہو گا اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا۔ اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آجائے گی۔ …مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا۔ اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اول سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی۔ اور ہرگز قادر نہیں ہوں گی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں۔ خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایاہے کہ اس روز اس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو۔میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا۔ اور اس کے چھونے سے… اس محل میں سے ایک نور ساطعہ نکلا جو ارد گرد پھیل گیا۔ اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی ہوئی۔ تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا۔اللّٰہ اکبر خربت خیبر۔‘‘ (اشتہار ۲۱؍ دسمبر ۱۸۹۶ءبعنوان’’سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری‘‘ مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۶۱۴-۶۱۵)
حضرت مسیح موعودؑ کا یہ مضمون جو فصیح البیان حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ نے جلسہ مذاہب عالم میں پڑھ کر سنایا۔ اس مضمون کے لیے جلسہ کا ایک دن بڑھایا گیا۔ آپ کا مضمون سامعین پر سحر طاری کرتا رہا اور پیشگی الہام کے مطابق یہ مضمون سب پر بالا رہا۔
اس علمی کارنامہ کو سن کر حاضرین جلسہ اور عمائدین سب ہی اس کی تعریف میں رطب اللسان رہے اور اخبارات و رسائل میں اس کی عظمت بیان کی گئی۔ معروف اخبارات میں سے صرف دو تبصرے پیش ہیں:
اخبار چودھویں صدی راولپنڈی نے لکھا:’’ان لیکچروں میں سب سے عمدہ اور بہترین لیکچر جو جلسہ کی روح رواں تھا مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا لیکچر تھا جس کو مشہور فصیح البیان مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے پڑھا۔ یہ لیکچر دو دن میں تمام ہوا ۲۷ ؍دسمبر کو قریباً چار گھنٹے اور ۲۹ کو ۲ گھنٹہ تک ہوتا رہا۔ کل چھ گھنٹہ میں یہ لیکچر تمام ہوا جو حجم میں سو صفحہ کلاں تک ہو گا۔
غرضیکہ مولوی عبدالکریم صاحب نے یہ لیکچر شروع کیا اور کیسا شروع کیا کہ تمام سامعین لٹو ہو گئے۔ فقرہ فقرہ پر صدائے آفرین و تحسین بلند تھی اور بسا اوقات ایک ایک فقرہ کو دوبارہ پڑھنے کے لئے حاضرین سے فرمائش کی جاتی تھی۔ عمر بھر کانوں نے ایسا خوش آئند لیکچر نہیں سنا…مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت اور دیگر سپیکروں کے لیکچروں میں امتیاز کے لئے اس قدر کافی ہے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت خلقت اس طرح آگری جیسے شہد پر مکھیاں…۔اسلام کے بڑے سے بڑے مخالف اس روز اس لیکچر کی تعریف میں رطب اللسان تھے…اس کا شکر ہے کہ اس جلسہ میں اسلام کا بول بالا رہا۔‘‘(اخبار چودھویں صدی راولپنڈی یکم فروری ۱۸۹۷ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد۱ صفحہ۵۶۷۔۵۶۸)
اخبار ’’ جنرل و گوہر آصفی‘‘ کلکتہ نے جلسہ اعظم مذاہب اور ’’ فتح اسلام‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا کہ ’’ جلسہ کی کارروائی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایک حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان تھے جنہوں نے اس میدان مقابلہ میں اسلامی پہلوانی کا پورا حق ادا فرمایا ہے … اگر اس جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے روبرو ذلت و ندامت کا قشقہ لگتا۔ مگر خدا کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچا لیا۔ بلکہ اس کو اس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین مخالفین بھی سچی فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے۔ صرف اسی قدر نہیں بلکہ اختتام مضمون پر حق الامر معاندین کی زبان پر یوں جاری ہو چکا کہ اب اسلام کی حقیقت کھلی اور اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔‘‘ (جنرل وگوہر آصفی کلکتہ ۲۴؍جنوری۱۸۹۷ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد۱ صفحہ۵۶۹-۵۷۲)
علمی کارناموں کا مختصر جائزہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک ایک تحریر اور لفظ لفظ زندگی بخش اور علمی میدان میں کارنامہ کی حیثیت رکھتا ہے۔آپ کی کتب کی تعداد تقریباً نوّے ہے۔ جن کے گیارہ ہزار صفحات ہیں۔ آپ کے تین سو اشتہارات تین جلدوں میں شائع شدہ ہیں۔ ملفوظات کی دس جلدیں ہیں، علم و معرفت سے پُر آپ کے سات سو مکتوبات پانچ جلدوں میں شائع شدہ ہیں۔ اردو منظوم کلام، فارسی منظوم کلام، عربی منظوم کلام اور آپ کی بیان کردہ تفسیر قرآن الگ سے شائع شدہ ہے۔ آپ کی انعامی چیلنج والی کتب کی تعداد گیارہ ہے۔ فصیح و بلیغ عربی میں کتب کی تعداد بیس ہے۔ آپ کاسر صلیب تھے آپ کی تقریباً سترہ کتب کا مرکزی مضمون ردّ عیسائیت ہے۔آپ کی گیارہ کتب کا بنیادی موضوع ہندو اور سکھ مت ہے جن میں ہندوؤں کے عقائد کا رد اور حقانیت اسلام بیان کی گئی ہے۔ آپ کا ایک علمی کارنامہ سکھ مت کے بانی حضرت باوا گورو نانک کو مسلمان ولی ثابت کرنا ہے۔
قبرمسیح کی دریافت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک علمی کارنامہ قبر مسیح کی دریافت بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ’’مسیح ہندوستان میں ‘‘ میں جو ۱۸۹۹ء میں تحریر فرمائی زبردست عقلی و نقلی دلائل سے ثبوت دیا کہ حضرت مسیح ناصری واقعہ صلیب کے بعد کشمیر کی طرف ہجرت کر گئے تھے اور طبعی عمر پا کر فوت ہوئے اور سرینگر کے محلہ خانیار میں ان کی قبر موجود ہے۔ آپ کے اس علمی کارنامہ اور دعویٰ کی تائید میں آج تک ٹھوس ثبوت اور شواہد ملتے جا رہے ہیں جو آپ کی صداقت کے نشان بن رہے ہیں۔
عربی دانی کا اعجاز اور عربی کو ام الالسنہ قرار دینے کا دعویٰ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک علمی کارنامہ جو اعجازی نشان بھی ہے وہ آپ کی عربی دانی، عربی نویسی، عربی زبان کو ام الالسنہ قرار دینے کا دعویٰ اور عربی نویسی کے انعامی چیلنجز ہیں۔ التبلیغ، اعجاز المسیح، خطبہ الہامیہ، سیرة الابدال اس کی شاندار مثالیں ہیں۔ جب آپ نے دعویٰ فرمایا تو مخالف علماء نے آپ پر ایک یہ اعتراض کیا کہ آپ عربی زبان سے ناواقف ہیں اس لیے علوم دینیہ میں رائے دینے کے اہل نہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ تحریرفرماتے ہیں: ’’جب اس اعتراض کا بہت چرچا ہوا اور مخالف مولویوں نے وقت اور بے وقت اس کو پیش کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک رات میں چالیس ہزار مادہ عربی زبان کا سکھا دیا اور یہ معجزہ عطا فرمایاکہ آپؑ عربی زبان میں کتب لکھیں اور وعدہ کیا کہ ایک ایسی فصاحت آپ کو عطا کی جاوے گی کہ لوگ مقابلہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ آپؑ نے عربی زبان میں ایک مضمون لکھ کر اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شائع کیا اور مخالفوں کو اس کے مقابلہ میں رسالہ لکھنے کے لئے بلایا مگر کوئی شخص مقابلہ پر نہ آسکا۔ اس کے بعد متواتر آپ نے عربی کتب لکھیں جو بیس سے بھی زیادہ ہیں اور بعض کتب کے ساتھ دس دس ہزار روپے کا انعام ان لوگوں کے لئے مقرر کیا جو مقابلہ میں ویسی ہی فصیح کتب لکھیں مگر ان تحریرات کا جواب کوئی مخالف نہ لکھ سکا بلکہ بعض کتب عربوں کے مقابلہ میں لکھی گئیں اور وہ بھی جواب نہ دے سکے اور پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ ‘‘ (دعوت الامیر، انوارالعلوم جلد ۷ صفحہ ۵۰۲، ۵۰۳)
؎آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند
ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے
۱۱؍اپریل ۱۹۰۰ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خطبہ الہامیہ ارشاد فرمایااس نشان اور علمی کارنامے کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں : ’’ ان کتب کے علاوہ ایک دفعہ آپؑ کو الہام ہوا کہ آپ فی البدیہہ ایک خطبہ عربی زبان میں دیں حالانکہ آپؑ نے عربی زبان میں کبھی تقریر نہ کی تھی۔ دوسرے دن عید الاضحی تھی اس الہام کے ماتحت آپؑ نے عید کے بعد عربی زبان میں ایک لمبی تقریر کی جو خطبہ الہامیہ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ اس تقریر کی عبارت بھی ایسی اعلیٰ درجہ کی تھی کہ عرب اور عجم پڑھ کر حیران ہوتے ہیں اور ایسے غوامض و رموز اس میں بیان کیے کہ ان کی وجہ سے اس خطبہ کی عظمت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
یہ علمی معجزہ آپؑ کا نہایت زبردست معجزات میں سے ہے کیونکہ ایک تو ان معجزات پر اسے فوقیت حاصل ہے جو زیادہ اثر صرف اس وقت کے لوگوں پر کرتے ہیں جو دیکھنے والے ہوں۔ دوم اس معجزہ کا اقرار دشمنوں کی زبانوں سے بھی کرا دیا گیا ہے۔ اب جب تک دنیا قائم ہے یہ معجزہ آپؑ کا بھی قائم رہے گا اور قرآن کریم کی طرح آپ کے دشمنوں کے خلاف حجت رہے گا اور روشن نشان کی طرح چمکتا رہے گا۔‘‘ (دعوت الامیر، انوارالعلوم جلد ۷ صفحہ ۵۰۳)
تفسیر نویسی کا اعجاز
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خداتعالیٰ کی طرف سے معارف قرآنی کا دروازہ کھولا گیا۔ آپؑ نے بیان فرمایا کہ’’مومنِ کامل پر قرآن کریم کے دقائق و معارف جدیدہ و لطائف و خواصِ عجیبہ سب سے زیادہ کھولے جاتے ہیں‘‘ (آسمانی فیصلہ،روحانی خزائن جلد۴ صفحہ ۳۴۷)آپ کی تمام کتب ہی تفسیر قرآن پر مشتمل ہیں تاہم آپ نے اعجازی طور پر بعض کتب محض تفسیر قرآن کے لیے تصنیف فرمائیں اور مخالفین کو اس کے مقابل تفسیر نویسی کاچیلنج بھی دیا لیکن کسی کو آپ کے مقابلہ کی جرأت نہ ہوئی۔ عربی تفسیر نویسی کا جو چیلنج آپ نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور ان کے ہمنواؤں کو دیا آپ نے اندر میعاد فروری ۱۹۰۱ء میں اعجاز المسیح کے نام سے فصیح و بلیغ عربی میں سورة فاتحہ کی تفسیر شائع فرمائی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم الشان علمی معجزہ تھا۔ اس کتاب کی فصاحت و بلاغت کا برملا اعتراف عرب ممالک کے اخبارات نے بھی کیا۔ (تاریخ احمدیت جلد۲صفحہ۱۷۱)
علم معارف قرآنی کے ساتھ ساتھ آپ کا ایک علمی کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے قرآن کریم کی بابت پیدا ہوجانے والی بعض غلط فہمیوں کا ازالہ بھی فرمایاکہ یہ کامل کتاب ہے۔ اس کا کوئی حرف منسوخ نہیں، اس کا فیضان جاری ہے، اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب خاص حکمتیں رکھتی ہے۔ مضامین میں تکرار نہیں بلکہ ان کا مکرر بیان حکمتوں سے پُر ہے۔ قصصِ قرآن بھی اپنے اندر غیر معمولی حکمتیں اور عبرت کا نشان رکھتے ہیں۔ آپ نے تفسیر قرآن کے اصول اور محاسنِ قرآن کو تفصیل سے بیان فرمایا۔
قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے!
بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علمی کارناموں کا ذکر ایک وسیع مضمون ہے۔ آپ کے علمی کارناموں میں سے چند کا تذکرہ اختصار سے کیا گیا ہے اور اغیار کے بعض اعترافات بھی بیان کیے ہیں۔ ایک تبصرہ جو آپ کی وفات کے بعد آپ کے علمی کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے اخبار وکیل امرتسر نے کیا اس کا ایک حصہ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔اخبار لکھتا ہے:’’وہ شخص، بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادُو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی۔ جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی دومٹھیاں بجلی کی دوبیٹریاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا۔ جو شور قیامت ہوکے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا…مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیاجاوے…ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دُنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازش فرزندانِ تاریخ بہت کم منظرِ عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کرکے دکھا جاتے ہیں۔
مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کرچکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کرچکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے…۔مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گراں بارِ احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہوکر اسلام کی طرف سے فرضِ مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جوا س وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایتِ اسلام کا جذبہ اُن کے شعارِ قومی کا عنوان نظر آئے۔ قائم رہے گا۔‘‘(اخباروکیل امرتسر ۳۰؍مئی ۱۹۰۸ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد۲صفحہ۵۶۲)
آپ کی تحریرات کی اہمیت اور برکات
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار
حضرت مسیح موعودؑ کے چھوڑے ہوئے خزانوں کے وارث ہم ہیں۔ قلمی اور علمی جہاد کے لیے آپ روحانی خزائن سے ہمیں مسلح کرگئے ہیں۔ ان خزانوں سے فائدہ اٹھانا ہمارا کام ہے اور ان سے روگردانی باعثِ تکبر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تحریرات کی بابت فرماتے ہیں:’’وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہوتا کہ ہلاک نہ ہوجاؤ اور تاتم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔‘‘ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۴۰۳)’’میں خاص طورپر خدائےتعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیونکہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے۔‘‘ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۴۳۴)
’’یہ رسائل جو لکھے گئے ہیں تائید الٰہی سے لکھے گئے ہیں۔ میں ان کا نام وحی و الہام تو نہیں رکھتا مگر یہ تو ضرور کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائے ہیں۔‘‘ (سرالخلافہ،روحانی خزائن جلد ۸صفحہ۴۱۵)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی تاثیرات اور برکات کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحبؑ کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے۔ یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ کیوں حضرت صاحبؑ کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں۔ اور جب پڑھو جب ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتا ہے۔ براہین احمدیہ خاص فیضان الٰہی کے ماتحت لکھی گئی ہے۔ اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی میں اس کو لےکر پڑھنے کے لئے بیٹھا ہوں۔ دس صفحے بھی نہیں پڑھ سکا کیونکہ اس قدر نئی نئی باتیں اور معرفت کے نکتے کُھلنے شروع ہوجاتے ہیں کہ دماغ انہیں میں مشغول ہوجاتا ہے۔
تو حضرت صاحبؑ کی کتابیں بھی خاص فیضان رکھتی ہیں۔ ان کا پڑھنا بھی ملائکہ سے فیضان حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ (ملائکة اللہ،انوارالعلوم جلد۵صفحہ۵۶۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے علمی فیضان سے کماحقہ مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین