احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
اشتہار چندۂ مَنَارۃ المسیح
(گذشتہ سے پیوستہ )’’غرض اس زمانہ کا نام جس میں ہم ہیں زمان البرکات ہے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ زمان التائیدات اور دفع الآفات تھا اور اُس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا بھاری مقصد دفع شر تھا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُس زمانہ میں اسلام کو اپنے قوی ہاتھ سے دشمنوں سے بچایا اور دشمنوں کو یوں ہانک دیا جیسا کہ ایک مرد مضبوط اپنی لاٹھی سے کتّوں کو ہانک دیتا ہے۔پس چونکہ مسیح اور مہدی موعود کا زمانہ زمان البرکات تھا اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس کے حق میں فرمایا بَارَکْنَا حَوْلَہٗ یعنی مسیح موعود کی فرود گاہ کے ارد گرد جہاں نظر ڈالو گے ہر طرف سے برکتیں نظر آئیں گی چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ زمین کیسی آباد ہوگئی باغ کیسے بکثرت ہوگئے نہریں کیسی بکثرت جاری ہوگئیں تمدنی آرام کی چیزیں کیسی کثرت سے موجود ہوگئیں۔ پس یہ زمینی برکات ہیں۔ اور جیسے اس زمانہ میں زمینی اور آسمانی برکتیں بکثرت ظاہر ہوگئی ہیں ایسا ہی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں تائیدات کا بھی ایک دریا چل رہا تھا۔
فحاصل البیان ان الزمان زمانان۔ زمان التائیدات ودفع الاٰفات و زمان البرکات والطیبات والیہ اشار عزاسمہ بقولہ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهٗ فاعلم ان لفظ المسجد الحرام فی قولہ تعالٰی یدل علٰی زمانٍ فیہ ظھرت عزۃ حرمات اللہ بتائید من اللّٰہ وظھرت عزۃ حدودہ واحکامہ و فرائضہ وتَرَاء ت شوکۃ دینہ ورعب ملّتہ۔ وھو زمان نبیناﷺ۔ والمسجد الحرام البیت الذی بناہ ابراھیم علیہ السلام فی مکۃ وھو موجود الٰی ھٰذا الوقت حرسہ اللّٰہ من کلّ آفۃ۔ واما قولہ عزّاسمہ بعد ھٰذا القول اعنی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ فیدل علٰی زمانٍ فیہ یظھر برکاتٍ فی الارض من کل جھۃ کما ذکرناہ اٰنفا وھو زمان المسیح الموعود والمھدی المعہود والمسجد الاقصٰی المسجد الذی بناہ المسیح الموعود فی القادیان سُمّی اَقْصٰی لبُعْدہ من زمان النبوّۃ ولما وقع فی اقصٰی طرفٍ من زمن ابتداء الاسلام فتدبر ھٰذا المقام فانہ اودع اسرارًا من اللّٰہ العلام۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا معراج تین قسم پر منقسم ہے۔ سیر مکانی اور سیر زمانی اور سیر لامکانی ولا زمانی سَیر مکانی میں اشارہ ہے طرف غلبہ اور فتوحات پر یعنی یہ اشارہ کہ اسلامی ملک مکہ سے بیت المقدس تک پھیلے گا۔ اور سیر زمانی میں اشارہ ہے طرف تعلیمات اور تاثیرات کے یعنی یہ کہ مسیح موعود کا زمانہ بھی آنحضرت ﷺ کی تاثیرات سے تربیت یافتہ ہوگا جیسا کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ۔ اور سیر لامکانی ولازمانی میں اشارہ ہے طرف اعلیٰ درجہ کے قُرب اللہ اور مدانات کی جس پر دائرہ امکانِ قرب کا ختم ہے۔ فافھم۔منہ]
اَب اے دوستو! یہ منارہ اس لئے طیار کیا جاتا ہے کہ تا حدیث کے موافق مسیح موعود کے زمانہ کی یادگار ہو اور نیز وہ عظیم پیشگوئی پوری ہو جائے جس کا ذکر قرآن شریف کی اِس آیت میں ہے کہ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهٗ۔(بنی اسرائیل:۲)اور جس کے منارہ کا ذکر حدیث میں بھی ہے کہ مسیح کا نزول منارہ کے پاس ہوگا۔ دمشق کا ذکر اس حدیث میں جومسلم نے بیان کی ہے اس غرض سے ہے کہ تین خدا بنانے کی تخم ریزی اوّل دمشق سے شروع ہوئی ہے اور مسیح موعود کا نزول اِس غرض سے ہے کہ تا تین کے خیالات کومحو کر کے پھر ایک خدا کا جلال دنیا میں قائم کرے۔ پس اِس ایما کے لئے بیان کیا گیا کہ مسیح کا منارہ جس کے قریب اس کا نزول ہوگا دمشق سے شرقی طرف ہے۔ اور یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ قادیان جو ضلع گورداسپور پنجاب میں ہے جو لاہور جس سے گوشہ مغرب اور جنوب میں واقع ہے وہ دمشق سے ٹھیک ٹھیک شرقی جانب پڑی ہے۔ پس اِس سے ثابت ہوا کہ یہ منارۃ المسیح بھی دمشق سے شرقی جانب واقع ہے۔ ہرایک طالبِ حق کو چاہئے کہ دمشق کے لفظ پر خوب غور کرے کہ اِس میں حکمت کیا ہے کہ یہ لکھا گیا ہے کہ مسیح موعود دمشق کے شرقی طرف نازل ہوگا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی قرار داد باتیں صرف امور اتفاقیہ نہیں ہو سکتے بلکہ ان کے نیچے اسرار اور رموز ہوتے ہیں وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام باتیں رموز اور اسرار سے پُر ہیں۔
اب ہمارے مخالف گو اس دمشقی حدیث کو بار بار پڑھتے ہیں مگر وہ اس کا جواب نہیں دے سکتے کہ یہ جو اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ مسیح موعود دمشق کی شرقی طرف کے منارہ کے قریب نازل ہوگا اس میں کیا بھید ہے؟ بلکہ انہوں نے محض ایک کہانی کی طرح اِس حدیث کو سمجھ لیا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ کہانی نہیں ہے اور خدا تعالیٰ لغو کاموں سے پاک ہے بلکہ اس حدیث کے ان الفاظ میں جو اول دمشق کا ذکر فرمایا اور پھر اس کے شرقی طرف ایک منارہ قرار دیا ایک عظیم الشان راز ہے اور وہ وہی ہے جوابھی ہم بیان کرچکے ہیں۔ یعنی یہ کہ تثلیث اور تین خداؤں کی بنیاد دمشق سے ہی پڑی تھی۔ کیا ہی منحوس وہ دن تھا جب پولوس یہودی ایک خواب کا منصوبہ بنا کر دمشق میں داخل ہوا اور بعض سادہ لوح عیسائیوں کے پاس یہ ظاہر کیا کہ خداوند مسیح مجھے دکھائی دیا اور اس تعلیم کے شائع کرنے کیلئے ارشاد فرمایا کہ گویا وہ بھی ایک خدا ہے پس وہی خواب تثلیث کے مذہب کی تخم ریزی تھی۔ غرض یہ شرکِ عظیم کا کھیت اول دمشق میں ہی بڑھا اور پھُولا اور پھر یہ زہر اَور اَور جگہوں میں پھیلتی گئی۔ پس چونکہ خدا تعالیٰ کو معلوم تھا کہ انسان کو خدا بنانے کا بنیادی پتھر اول دمشق میں ہی رکھا گیا اِس لئے خدا نے اُس زمانہ کے ذکر کے وقت کہ جب غیرت خدا وندی اس باطل تعلیم کو نابود کرے گی پھر دمشق کا ذکر فرمایا اور کہا کہ مسیح کا منارہ یعنی اُس کے نور کے ظاہر ہونے کی جگہ دمشق کی مشرقی طرف ہے۔ اِس عبارت سے یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ منارہ دمشق کی ایک جُز ہے اور دمشق میں واقع ہے جیسا کہ بدقسمتی سے سمجھا گیا بلکہ مطلب یہ تھا کہ مسیح موعود کا نور آفتاب کی طرح دمشق کے مشرقی جانب سے طلوع کر کے مغربی تاریکی کو دُور کرے گا اور یہ ایک لطیف اشارہ تھا کیونکہ مسیح کے منارہ کو جس کے قریب اس کا نزول ہے دمشق کے مشرقی طرف قرار دیا گیا اور دمشقی تثلیث کو اس کے مغربی طرف رکھا اور اس طرح آنے والے زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی کی کہ جب مسیح موعود آئے گا تو آفتاب کی طرح جو مشرق سے نکلتا ہے ظہور فرمائے گا اور اس کے مقابل پر تثلیث کا چراغ مردہ جو مغرب کی طرف واقع ہے دن بدن پژ مردہ ہوتا جائے گا کیونکہ مشرق سے نکلنا خدا کی کتابوں سے اقبال کی نشانی قرار دی گئی ہے اور مغرب کی طرف جانا ادبار کی نشانی اور اسی نشانی کی طرف ایما کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے قادیان کو جو مسیح موعود کا نزول گاہ ہے دمشق سے مشرق کی طرف آباد کیا اور دمشق کو اُس سے مغرب کی طرف رکھا۔ بڑا دھوکا ہمارے مخالفوں کو یہ لگا ہے کہ انہوں نے حدیث کے لفظوں میں یہ دیکھ کر کہ مسیح موعود اس منارہ کے قریب نازل ہوگا جو دمشق کی شرقی طرف ہے یہ سمجھ لیا کہ وہ منارہ دمشق میں ہی واقع ہے حالانکہ دمشق میں ایسے منارہ کا وجود نہیں اور یہ خیال نہیں کیاکہ اگر کہا جائے کہ اگر مثلاً فلاں جگہ فلاں شہر کے شرقی طرف ہے تو کیا ہمیشہ اس سے یہ مراد ہوا کرتا ہے کہ وہ جگہ اس شہر سے پیوستہ ہے؟ اور اگر حدیث میں ایسے لفظ بھی ہوتے جن سے قطعی طور پر یہی سمجھا جاتا کہ وہ منارہ دمشق کے ساتھ پیوستہ ہے اور دوسرے احتمال کی راہ نہ ہوتی تا ہم ایسا بیان دوسرے قرائن کے مقابل پر قابل قبول نہ ہوتا۔ مگر اب چونکہ حدیث پر غور کرنے سے صاف طور پر سمجھ آتا ہے کہ اس حدیث کا صرف یہ منشا ہے کہ وہ منارہ دمشق کی شرقی طرف ہے نہ درحقیقت اُس شہر کا ایک حصّہ تو دیانت سے بعید اور عقلمندی سے دُور ہے کہ خدا تعالیٰ کی اُن حکمتوں اور بھیدوں کو نظر انداز کر کے جن کو ہم نے اس اشتہار میں بیان کر دیا ہے بے و جہ اس بات پرزور ڈالا جائے کہ وہ منارہ جس کے قریب مسیح کا نزول ہے وہ دمشق میں واقع ہے بلکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منارہ سے اُس مسجد اقصٰی کا منارہ مُراد لیا ہے جو دمشق سے شرقی طرف واقع ہے یعنی مسیح موعود کی مسجد جو حال میں وسیع کی گئی ہے اور عمارت بھی زیادہ کی گئی اور یہ مسجد فی الحقیقت دمشق سے شرقی طرف واقع ہے۔ اور یہ مسجد صرف اس غرض سے وسیع کی گئی اور بنائی گئی ہے کہ تا دمشقی مفاسد کی اصلاح کرے۔ اور یہ منارہ وہ منارہ ہے جس کی ضرورت احادیثِ نبویہ میں تسلیم کی گئی۔ اور اس منارۃ المسیح کا خرچ دس ہزار روپیہ سے کم نہیں ہے۔ اب جو دوست اس منارہ کی تعمیر کے لئے مدد کریں گے مَیں یقیناً سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بھاری خدمت کو انجام دیں گے۔ اور مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ ایسے موقع پر خرچ کرنا ہرگز ہرگز ان کے نقصان کا باعث نہیں ہوگا۔ وہ خدا کو قرض دیں گے اور مع سود واپس لیں گے۔ کاش ان کے دل سمجھیں کہ اس کام کی خدا کے نزدیک کس قدر عظمت ہے۔ جس خدا نے منارہ کا حکم دیا ہے اُس نے اِس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ اسلام کی مُردہ حالت میں اِسی جگہ سے زندگی کی رُوح پھونکی جائے گی اور یہ فتح نمایاں کامیدان ہوگا۔ مگر یہ فتح اُن ہتھیاروں کے ساتھ نہیں ہوگی جو انسان بناتے ہیں بلکہ آسمانی حربہ کے ساتھ ہے جس حربہ سے فرشتے کام لیتے ہیں۔
آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کا فر پر تلوار اُٹھاتا ہے اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اُس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتا ہے جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے امان اور صلحکاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف دعوت کرنے کی ایک راہ نہیں۔
پس جس راہ پر نادان لوگ اعتراض کر چکے ہیں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ اُسی راہ کو پھر اختیار کیا جائے۔ اِس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے جن نشانوں کی پہلے تکذیب ہو چکی وہ ہمارے سید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیئے گئے۔
لہٰذا مسیح موعود اپنی فوج کو اس ممنوع مقام سے پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیتا ہے جو بدی کا بدی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اپنے تئیں شریر کے حملہ سے بچاؤ مگر خود شریرانہ مقابلہ مت کرو۔ جو شخص ایک شخص کو اس غرض سے تلخ دوا دیتا ہے کہ تا وہ اچھا ہو جائے وہ اس سے نیکی کرتا ہے ایسے آدمی کی نسبت ہم نہیں کہتے کہ اُس نے بدی کا بدی سے مقابلہ کیا۔ ہر ایک نیکی اور بدی نیت سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ پس چاہئے کہ تمہاری نیت کبھی ناپاک نہ ہوتا تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ۔ یہ اشتہار منارہ کے بننے کے لئے لکھا گیا ہے مگر یاد رہے کہ مسجد کی بعض جگہ کی عمارات بھی ابھی نادرست ہیں اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ جو کچھ منارۃ المسیح کے مصارف میں سے بچے گا وہ مسجد کی دوسری عمارت پر لگا دیا جائے گا۔ یہ کام بہت جلدی کا ہے۔ دلوں کو کھولو اور خدا کو راضی کرو۔ یہ روپیہ بہت سی برکتیں ساتھ لے کر پھر آپ لوگوں کی طرف واپس آئے گا مَیں اِس سے زیادہ کہنا نہیں چاہتا۔ اور ختم کرتا ہوں اور خدا کے سپرد۔ بالآخر مَیں ایک ضروری امر کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس منارہ میں ہماری یہ بھی غرض ہے کہ مینار کے اندر یا جیسا کہ مناسب ہو ایک گول کمرہ یا کسی اور وضع کا کمرہ بنا دیا جائے جس میں کم سے کم سو آدمی بیٹھ سکے اور یہ کمرہ وعظ اور مذہبی تقریروں کے لئے کام آئے گاکیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ سال میں ایک یا دو دفعہ قادیان میں مذہبی تقریروں کا ایک جلسہ ہوا کرے اور اُس جلسہ میں ہر ایک شخص مسلمانوں اور ہندوؤں اور آریوں اور عیسائیوں اور سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے گا مگر یہ شرط ہوگی کہ دوسرے مذہب پر کسی قسم کا حملہ نہ کرے فقط اپنے مذہب اور اپنے مذہب کی تائید میں جو چاہے تہذیب سے کہے اس لئے لکھا جاتا ہے کہ ہمارے دوست اس اشتہار کو ہر ایک کاریگر معمار کو دکھلائیں اور اگر وہ کوئی عمدہ نمونہ اس مینارہ کاجس میں دونوں مطلب مذکورہ بالا پورے ہو سکتے ہوں تو بہت جلد ہمیں اس سے اطلاع دیں۔
والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان،۲۸؍ مئی ۱۹۰۰ء‘‘
(خطبہ الہامیہ،رحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۱۵-۳۰)
(باقی آئندہ)