عزیزم رضا سلیم مرحوم۔ تقریبِ تقسیمِ اسناد کے موقع پر، اپنے ساتھیوں سے
رضا سلیم جامعہ احمدیہ یوکے کا طالبِ علم تھا۔ ۲۰۱۶ء میں، جبکہ جامعہ کے چوتھے سال میں تھا، ایک حادثہ کا شکار ہوا اور جانبر نہ ہوسکا۔انا للہ واناالیہ راجعون۔ آج ۱۳؍ مئی کو اس کی کلاس نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے جامعہ کی تعلیم مکمل کرکے اسناد حاصل کیں۔ رضا سلیم مرحوم ان میں نہ تھا۔ یہ الفاظ اس کی زبانی لکھے گئے ہیں۔
ہوا میں خوشبو، فضا پہ نشاط چھائی ہے
چمن میں لگتا ہے فصلِ بہار آئی ہے
نسیمِ صبح نے باندھی ہے وصل کی پازیب
ہیں رنگ پوش چمن کے سبھی فراز و نشیب
ہر ایک پھول کے چہرے پہ اک تبسم ہے
تو دل میں جوشِ جنوں کا عجب تلاطم ہے
ہوا کے دوش پہ مجھ تک بھی آئی ہے یہ خبر
جو بیج بوئے گئے تھے، وہ ہو گئے ہیں شجر
اِسی چمن کی زمیں میں مجھے بھی بویا گیا
مگر میں آب و گِلِ گُلسِتاں میں کھویا گیا
اِسی چمن میں تھا لیکن زمین دوز تھا میں
تمہارے ساتھ ہی ہر دم، شبانہ روز تھا میں
مری نمو کے نصیبوں کے رنگ اور ہی تھے
کہ میرے خواب و خیال و امنگ اور ہی تھے
فضا کو تم نے جو شاداب کر کے رکھنا تھا
تو میں نے مٹی کو سیراب کر کے رکھنا تھا
اِسی زمیں کے تلے خاک اوڑھ لی میں نے
چمن کے رنگوں کی پوشاک اوڑھ لی میں نے
سو یہ گماں نہ کرو تم سے کھو گیا ہوں میں
کہ اِس بساط کی بنیاد ہو گیا ہوں میں
سو یہ بہار ہے میرے لیے نشاط انگیز
کہ میرے دم سے چمن کی زمین ہے زرخیز
تو آؤ جشن کریں، میں تمہارے ساتھ ہی ہوں
خوشی کے جام بھریں، میں تمہارے ساتھ ہی ہوں
ہمارا قافلہ سالار دے رہا ہے صدا
چلو کہ فرض کے سب قرض کر کے آئیں ادا
جو تم ہو سطحِ زمیں پر، تو میں ہوں زیرِ زمیں
چلو زمین پہ اک انقلاب لے آئیں!
چلو فلک پہ ستاروں کو چُھو کے آتے ہیں
چلو کہ غرب سے ہم آفتاب لے آئیں
٭…٭…٭