خلافت کی ایک بڑی برکت
پیچ در پیچ نفسیات کی تحلیل و تشخیص اور اس سے جڑےمنفی رویوں کی اصلاح
’’انسانی زندگی کا ہر قدم بڑا پھونک پھونک کر اُٹھنا چاہئے جہاں خالص خدا تعالیٰ کی رضا مقدم ہو، جہاں عقیدے میں پختگی ہو وہاں اعمال کی بھی ایسی اصلاح ہو کہ دنیا کو نظر آ جائے کہ ایک احمدی اور دوسرے میں کیا فرق ہے؟‘‘
جماعت احمدیہ اس لحاظ سے انتہائی خوش قسمت ہے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اسے خلیفہ وقت کے روپ میں ایک ایسے روحانی باپ، معلم،مزکّی حکیم اور راہنماکے وجود سے نوازا ہے جونہ صرف عالم انسانی کو بالعموم اوراپنے متبعین کو بالخصوص کتاب و حکمت کا درس دیتا ہے، بلکہ خداداد صلاحیتوں سے متصف ہوکر ایک حاذق طبیب اور نفسیاتی و روحانی معالج کے طور پربیمار ذہنوں کی پیچ در پیچ نفسیات اور اس سے جڑے منفی رویوں کی تشخیص ونشاندہی کرتا اور پھران سے بچنے کے طریق اور ان کا علاج بھی بتاتا اور شفا بخش دعاؤں سے بھی نوازتا ہے۔
ذیل میں پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے چند ایسے فرمودات پیش کیے جارہے ہیں جن پرغور وتدبر کرنے اور ان پرحتی الوسع عمل کرنے سے ہم سماجی اور معاشرتی سطح کے ہر دائرے کے ہر مقام پر ایک ایسا مثالی اور ذمہ دار فرد بن سکتے ہیں جوخلافت کے زیرسایہ اپنی روحانی بالیدگی، نشوونما اور بالآخرنجات کی راہ پر گامزن ہو چکا ہوتا ہے۔
عمومی زندگی میں تجسس اور بلا وجہ کسی کا بیر
’’بعض لوگ اس لئے تجسس کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً عمومی زندگی میں لیتے ہیں، دفتروں میں کام کرنے والے، ساتھ کام کرنے والے اپنے ساتھی کے بارہ میں، یا دوسری کام کی جگہ، کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے، اپنے ساتھیوں کے بارہ میں کہ اس کی کوئی کمزوری نظرآئے اور اس کمزوری کو پکڑیں اور افسروں تک پہنچائیں تاکہ ہم خود افسروں کی نظر میں ان کے خاص آدمی ٹھہریں، ان کے منظور نظر ہو جائیں۔
یا بعضوں کو یونہی بلاوجہ عادت ہوتی ہے، کسی سے بلاوجہ کا بیر ہو جاتاہے اور پھر وہ اس کی برائیاں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔
تویاد رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگوں کے بارہ میں آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا کبھی بھی جنت میں دخل نہیں ہوگا، ایسے لوگ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے۔ تو کون عقلمند آدمی ہے جو ایک عارضی مزے کے لئے، دنیاوی چیز کے لئے، ذرا سی باتوں کا مزا لینے کے لئے، اپنی جنت کو ضائع کرتا پھرے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ دسمبر ۲۰۰۳ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۰؍ فروری ۲۰۰۴ء)
لوگوں کے گھروں میں ایسے اندرگھسنا کہ کچن تک چلے جانا
’’یہ بھی بیماری پیدا ہو گئی ہے کہ (بعض خواتین۔ ناقل) فارغ وقت میں اسی طرح لوگوں کے گھروں میں بےوقت چلی جاتی ہیں۔ اور اگر کسی غریب نے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا ہواہے کہ اس طرح اندر گھستی ہیں گھروں میں کہ ان کے کچن تک میں چلی جاتی ہیں۔ کھانوں کی ٹوہ لگاتی ہیں کہ کیا پکا ہے کیانہیں پکا۔ اور پھر بجائے ہمدردی کے یا ان کی مدد کرنے کے، یا کم ازکم ان کے لئے دعا کرنے کے، مجلسوں میں باتیں کی جاتی ہیں کہ پیسے بچاتی ہے، سالن کی جگہ چٹنی بنائی ہوئی ہے یا پھراتنا تھوڑا سالن تھا، یا فلاں تھا، یہ تھا، وہ تھا، کنجوس ہے۔
وہ کنجوس ہے یا جو بھی ہے وہ اپنا گھرچلا رہی ہے جس طرح بھی چلا رہی ہے تمہارا کیا کام ہے کہ کسی کے گھر کے اندر گھس کر اس کے عیب تلاش کرو‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ دسمبر ۲۰۰۳ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۰؍فروری ۲۰۰۴ء)
اپنی بزرگی جتانا اور دوسروں سے پوچھنا
’’لوگ ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ فلاں شخص تو بڑا گندہ ہے، گنہگار ہے، جہنمی ہے پھر بعض اپنی بزرگی جتانے کے لئے اس قسم کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ پہلے تو کرید کرید کر کسی کے بارہ میں پوچھتے ہیں کہ فلاں نیکی تم نے کی، فلاں کی، نماز پڑھی، یہ کیا، وہ کیا، نمازوں میں دعائیں کرتے ہو، کس طرح کرتے ہو، رقت طاری ہوتی ہے کہ نہیں، رونا آتاہے کہ نہیں، حوالہ دیا کہ جس کو رونا نہیں آیا اس کا دل سخت ہوگیا۔ تو یہ چیزیں پوچھتے ہیں پہلے کرید کرید کر جو بالکل غلط چیز ہے۔ یہ بندے اور خدا کا معاملہ ہے، انفرادی طور پر کسی کو پوچھنے کا حق نہیں ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ دسمبر ۲۰۰۳ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۰؍فروری۲۰۰۴ء)
خود کو دوسروں سے کوئی بالا مخلوق سمجھنے لگ جانا
’’پھر دیکھیں آج کل اگرکسی کو کوئی عہدہ مل جائے یامالی حالت کچھ بہتر ہو جائے تو زمین پر پاؤں نہیں ٹکتے۔ اپنے آپ کو کوئی بالا مخلوق سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ ماتحتوں سے یا غریب رشتہ داروں سے اس طرح بات کرتے ہیں جیسے کوئی انتہائی کم درجہ کے لوگ ہوں‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍ جنوری ۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۷؍فروری ۲۰۰۴ء)
عادی قرض لینے والے
’’بعض لوگ قرض لے لیتے ہیں۔ اور بعض لوگ تو عادی قرض لینے والے ہوتے ہیں۔ پتہ ہوتاہے کہ ہمارے وسائل اتنے نہیں کہ ہم یہ قرض واپس کر سکیں۔ لیکن پھر بھی قرض لیتے چلے جاتے ہیں کہ جب کوئی پوچھے گا کہہ دیں گے کے ہمارے پاس تو وسائل ہی نہیں، ہم تودے ہی نہیں سکتے۔ اپنے اخراجات پر کنٹرول ہی کوئی نہیں ہوتا۔ جتنی چادر ہے اتنا پاؤں نہیں پھیلاتے اصل میں نیت یہی ہوتی ہے پہلے ہی کہ ہم نے کون سا دینا ہے۔ بے شرموں کی طرح جواب دے دیں گے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍ جنوری ۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۹؍اپریل۲۰۰۴ء)
اپنے کاروبار ہونے کے باوجود دوسروں کے پیسوں پر نظر
’’ میں ان احمدیوں کو بھی جو اس طرح کے کاروبار کا لالچ دے کر دوسروں کی رقم بٹورتے ہیں اور کاروبار میں بنکوں سے دوسرے شخص کی امانت پر رقم لے کرلگاتے ہیں، دوسروں کے نام پر کاغذات بناتے ہیں، غلط بیانی کرتے ہیں اور دوسروں کو ان کی جائیداد یا رقم سے محروم کر دیتے ہیں ان کو میں کہتا ہوں، اگر قناعت کرتے، اگر امیر سے امیر تر بننے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا خوف پیش نظر رکھتے تو ایسی حرکت کبھی نہ کرتے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍ اپریل۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۴؍مئی ۲۰۰۴ء)
بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ دوستانہ
’’خیال رکھنا بالکل اَور چیز ہے اور بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ دوستانہ کرلینا بالکل اَور چیز ہے۔ اس سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ پھر بیوی تو ایک طرف رہ جاتی ہے اور سہیلی جو ہے وہ بیوی کا مقام حاصل کر لیتی ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍ جولائی ۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍جولائی۲۰۰۴ء)
’’بیوی کا غلام ‘‘کہلائے جانے کا خوف
’’آج کل بعض لوگ صرف اس خیال سے بیویوں کا خیال نہیں رکھتے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بیوی کا غلام ہو گیا ہے۔ بلکہ حیرت ہوتی ہے بعض لڑکوں کے، مردوں کے بڑے بزرگ رشتہ دار بھی بچوں کو کہہ دیتے ہیں کہ بیوی کے غلام نہ بنو‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍ جولائی ۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍جولائی۲۰۰۴ء)
بیوہ کی شادی میں روک بننے والے
’’ایسی بعض بیوائیں ہوتی ہیں جو شادی کی عمر کے قابل ہوتی ہیں یا بعض ایسی جو اپنے تحفظ کے لئے شادی کروانا چاہتی ہیں ان کے رشتوں کے مسائل ہیں۔ لیکن ایسی بیوائیں بعض دفعہ معاشرے کی نظروں کی وجہ سے ڈر جاتی ہیں اور باوجود یہ سمجھنے کے کہ ہمیں شادی کی ضرورت ہے، وہ شادی نہیں کرواتیں۔ تو بہر حال مختلف طبقوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں ہمارے بعض مشرقی ممالک میں، بیواؤں کے ضمن میں بات کروں گا، اس بات کو بہت برا سمجھا جاتا ہے بلکہ گناہ سمجھا جاتا ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍ دسمبر ۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۰۵؍جنوری ۲۰۰۵ء)
گھر بیٹیوں کی کمائی پر چل رہا ہے
’’بعض لوگ ایسے ہیں جو بیٹیوں کی کمائی کھانے کے لئے اس طرح کر رہے ہوتے ہیں۔اور جو بیٹیوں کی کمائی کھانے والے ہیں وہ صرف اس لئے کہ گھر کے جو لڑکے ہیں وہ نکمے ہیں، کوئی کام نہیں کر رہے پڑھے لکھے نہیں اس لئے گھر بیٹیوں کی کمائی پر چل رہا ہے اور اگر شادی کر بھی دی تو کوشش یہ ہوتی ہے کہ داماد، گھر داماد بن کر رہے، گھر میں ہی موجود رہے جو اکثر ناممکن ہوتا ہے۔ جس سے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍ دسمبر ۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۰۵؍جنوری ۲۰۰۵ء)
اپنی رقم معین منافع کی شرط کے ساتھ دینا
’’بعض لوگ اپنا پیسہ، اپنی رقم معین منافع کی شرط کے ساتھ کسی کو دیتے ہیں کہ ہر ماہ یا چھ ماہ بعد یا سال بعد اتنا منافع مجھے ادا ہو گا۔ تو یہ بھی سود کی ایک قسم ہے۔ یہ تجارت نہیں ہے بلکہ تجارت کے نام پر دھوکہ ہے ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جون ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۶؍جولائی ۲۰۰۷ء)
والدین کی انائیں ایک مسئلہ
’’حیرت ہوتی ہے جب بعض دفعہ جھوٹی غیرت دکھاتے ہوئے اپنی بچیوں کے گھر برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض بچیاں پھر خط لکھتی ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی اب بسنا چاہتے ہیں لیکن دونوں طرف کے والدین کی اَناؤں نے یہ مسئلہ بنا لیاہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍ نومبر ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۷؍دسمبر۲۰۰۷ء)
ذاتی مفادات کی وجہ سے نظامِ جماعت پر بد اعتمادی
’’بعض دفعہ بعض لوگ اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نظامِ جماعت پر بد اعتمادی کا اظہار کر جاتے ہیں اور اُس انعام سے بھی محروم ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال بعد اب عطا فرمایا ہے۔ مثلاً بعض قانونی مجبوریوں کی وجہ سے اگر قضائی نظام میں جو حقیقتاً جماعت کے اندر ایک نظام ہے جس کی حقیقت ثالثی نظام کی ہے، اُس میں جب یہ تحریر مانگی جاتی ہے اور اب نئے سرے سے کوئی تحریر لکھوائی جانے لگی ہے کہ اس ثالثی اور قضائی فیصلے کو مَیں خوشی سے ماننے کو تیار ہوں اور کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور اس نظام میں مَیں خود اپنی خوشی سے اپنے معاملے کو لے کرجا رہا ہوں۔ تو بعض لوگ یہ بدظنی کرتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں کہ ہمارے جو فیصلے ہیں وہ ہمارے خلاف ہوں گے اس لئے ہم تحریر نہیں دیں گے۔ تو ایسے لوگوں کی شروع سے ہی نیت نیک نہیں ہوتی‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍ اپریل ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۳؍اپریل ۲۰۱۱ء)
چھوٹی چھوٹی باتوں پرکئی کئی سال ناراض رہنا
’’بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھائی بھائی ایک دوسرے سے ناراض ہو جاتے ہیں اور مَیں نے دیکھا ہے کئی کئی سال ناراض رہتے ہیں اور یہ ناراضگیاں پھر دوسرے رشتوں میں بھی آگے ٹرانسفر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پھر یہ رفق، نرمی اور ہمدردی اور ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنے میں جو کمی ہے اس سے پھر بعض دفعہ گھروں میں جب ہمدردی کی کمی ہو جاتی ہے، پیار اور محبت کی کمی ہو جاتی ہے تو اس سے گھر بھی ٹوٹ رہے ہوتے ہیں‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ جون ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۰؍جولائی ۲۰۱۲ء)
خود کو عقلِ کُل سمجھ کر ادھر اُدھر بیٹھ کر باتیں کرنے والا طبقہ
’’بعض ایسی مثالیں بھی سامنے آ جاتی ہیں کہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت نے یہ غلط کام کیا اور یہ غلط فیصلہ کیا یا فلاں فیصلے کو اس طرح ہونا چاہئے تھا۔ بعض قضا کے فیصلوں پر اعتراض ہوتے رہتے ہیں۔ یا فلاں شخص کو فلاں کام پر کیوں لگایا گیا؟ اس کی جگہ تو فلاں شخص ہونا چاہئے تھا۔ خلیفہ وقت کی فلاں فلاں کے بارے میں تو بڑی معلومات ہیں، علم ہے، اور فلاں شخص کے بارے میں اُس نے باوجود علم ہونے کے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اس قسم کی باتیں کرنے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن ماحول کو خراب کرتے ہیں۔ اگر مربیان اور ہر سطح کے عہدیداران، پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں، ہر تنظیم کے اور جماعتی عہدیداران اپنی اس ذمہ داری کو بھی سمجھیں تو بعض دلوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، کبھی پیدا نہ ہوں۔
…ایسا طبقہ چاہے وہ چند ایک ہی ہوں ہمیشہ رہتا ہے جو اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتا ہے اور ادھر اُدھر بیٹھ کر باتیں کرتا رہتا ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ جنوری ۲۰۱۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۱؍فروری۲۰۱۴ء)
احسان کرکے عمربھرکی غلامی کی توقع
’’بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ کسی وقتی جذبے کے تحت کسی پر احسان تو کر دیتے ہیں، مدد کر دیتے ہیں لیکن بعد میں کسی وقت اس کو جتا بھی دیتے ہیں کہ مَیں نے یہ احسان تم پر کیا یا یہ توقع رکھتے ہیں کہ اب ان کے احسان کا زیر بار انسان تمام عمر اُن کا غلام بنا رہے۔ اور اگر زیر احسان شخص توقع پر پورا نہ اترے تو پھر اسے تکلیفیں دینے سے بھی نہیں چُوکتے۔ یہ تو اسلامی تعلیم نہیں ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍ستمبر۲۰۱۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۰؍اکتوبر۲۰۱۴ء)
صحیح مشورے نہ دینے والے بعض لوگ اور وکلاء
’’بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب دوسرے ان پر اعتبار کرتے ہیں، ان سے مشورہ طلب کرتے ہیں تو ان کو صحیح مشورے نہیں دیتے۔
… بعض وکلاء میں نے دیکھے ہیں یہاں اسائلم پر آنے والے لوگوں کو غلط مشورے دیتے ہیں یا پوری دلچسپی سے مشورے نہیں دیتے جبکہ اپنی فیس پوری لے رہے ہوتے ہیں تو وہ ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح دوسرے معاملات بھی ہیں۔ پس ایسے لوگوں کو خیال رکھنا چاہئے کہ ایک شخص جب اعتبار کر کے آپ کے پاس آتا ہے تو اس کی صحیح رہنمائی کریں ورنہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے فیصلہ کے مطابق وہ خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍ جولائی ۲۰۱۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۴؍جولائی۲۰۱۵ء)
بناوٹی عاجزی
’’بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض لوگ عام حالات میں اگر ملیں تو بڑی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ لوگوں سے بھی صحیح طریق سے مل رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب کسی کا اپنے ماتحت یا عام آدمی سے اختلاف رائے ہو جائے تو فوراً ان کی افسرانہ رَگ جاگ جاتی ہے اور بڑے عہدیدار ہونے کا زعم اپنے ماتحت کے ساتھ متکبرانہ رویے کا اظہار کروا دیتا ہے۔ پس عاجزی یہ نہیں کہ جب تک کوئی جی حضوری کرتا رہے، کسی نے اختلاف نہیں کیا تو اس وقت تک عاجزی کا اظہار ہو۔ یہ بناوٹی عاجزی ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۵؍اگست۲۰۱۶ء)
بے نام شکایت کرنے کی بیماری
’’بعض لوگ بعض عہدیداروں کے خلاف یا بعض ایسے لوگوں کے خلاف بھی جو عہدیدار نہیں شکایت کرتے ہیں…لیکن اکثر ایسے لکھنے والے اپنی شکایتوں میں اپنے نام نہیں لکھتے یا فرضی نام اور فرضی پتا لکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شکایتوں پر ظاہر ہے کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے اور جب کچھ عرصہ گزر جائے تو پھر شکایت آتی ہے کہ میں نے لکھا تھا ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اگر کارروائی نہ ہوئی تو بڑا ظلم ہو جائے گا۔ یہ بے نام شکایت کرنے کی بیماری جو ہے یہ پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں میں زیادہ ہے‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍ دسمبر ۲۰۱۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۳؍دسمبر ۲۰۱۶ء)
خود کو’’گھر کا سربراہ‘‘ سمجھ کر بیوی بچوں پر ظلم اور تشدد
’’آجکل کئی گھروں کے مسائل اور شکایات سامنے آتی ہیں جہاں مرد اپنے آپ کو گھر کا سربراہ سمجھ کر، یہ سمجھتے ہوئے کہ مَیں گھر کا سربراہ ہوں اور بڑا ہوں اور میرے سارے اختیارات ہیں، نہ اپنی بیوی کا احترام کرتا ہے اور اسے جائز حق دیتا ہے، نہ ہی اولاد کی تربیت کا حق ادا کرتا ہے۔ صرف نام کی سربراہی ہے۔ بلکہ ایسی شکایات بھی ہندوستان سے بھی اور پاکستان کی بعض عورتوں کی طرف سے بھی ہیں کہ خاوندوں نے بیویوں کو مار مار کر جسم پر نیل ڈال دئیے یا زخمی کر دیا۔ منہ سُجا دیے۔
… اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد بھی جاہل لوگوں کی طرح ہی رہنا ہے، ان مسلمانوں کی طرح رہنا ہے جن کو دین کا بالکل علم نہیں ہے، اپنے بیوی بچوں سے ویسا ہی سلوک کرنا ہے جو جاہل لوگ کرتے ہیں تو پھر اپنی حالتوں کے بدلنے کا عہد کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍ مئی ۲۰۱۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۹؍جون ۲۰۱۷ء)
زمانے کے خوف سے بے اولاد رہنے کی سوچ
’’منفی سوچ کی ایک فکر انگیز مثال گزشتہ دنوں ایک خط میں میرے سامنے آئی جب ایک شخص نے لکھا کہ آج کل کی دنیا میں پیسے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ غیر اخلاقی سرگرمیوں کی انتہا ہوئی ہوئی ہے…اس وجہ سے میں نے سوچا کہ شادی تو بیشک کروں یا شادی ہوئی ہوئی ہے تو بہتر یہی ہے کہ بے اولاد رہوں۔ اولادنہ ہو۔ یہ انتہائی مایوس کن سوچ ہے۔ گویا شیطان سے ہار مان کر اس کو تمام طاقتوں کا منبع اور حامل سمجھ کر یہ بات کی جا رہی ہے ‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍ جولائی ۲۰۱۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۸؍جولائی۲۰۱۷ء)
گفتگو کو لڑائی جھگڑے میں تبدیل نہ ہونے دیں
’’ بعض لوگ ایک مجلس میں ایک بات کرتے ہیں دوسرا وہ بات سنتا ہے اور اچھا اثر لیتا ہے لیکن اس وقت بات کر کے پھر یہ سوچ کر چپ ہو جانے کی بجائے کہ کبھی موقع ملا تو اس مجلس میں دوبارہ اپنی بات کریں، پھر اس شخص کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور بار بار اس کی باتوں کو دہراتے ہیں یا اس کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج قائل کر کے اٹھنا ہے۔ تم نے قائل ہو کر ہی اٹھنا ہے جس سے پھر دوسرا چِڑ جاتا ہے اور قریب آیا ہوا بھی دُور ہو جاتا ہے اور پہلی بات کا جو اثر ہوا ہوتا ہے وہ بھی زائل ہو جاتا ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍ ستمبر ۲۰۱۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۹؍ستمبر۲۰۱۷ء)
انسانی زندگی کا ہر قدم پھونک پھونک کر
’’انسانی زندگی کا ہر قدم بڑا پھونک پھونک کر اُٹھنا چاہئے جہاں خالص خدا تعالیٰ کی رضا مقدم ہو، جہاں عقیدے میں پختگی ہو وہاں اعمال کی بھی ایسی اصلاح ہو کہ دنیا کو نظر آ جائے کہ ایک احمدی اور دوسرے میں کیا فرق ہے؟‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍ مارچ ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۰؍اپریل ۲۰۱۲ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان زریں ارشادات پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔