قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیر ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں
یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں۔ چنانچہ مَیں اس وقت اسی ثبوت کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اس کی حمایت اور تائید کے لئے بھیجتا رہا ہے۔ کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:۱۰) یعنی بیشک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن شریف) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔
(ملفوظات جلد۸صفحہ۱۱۶-۱۱۷، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۳)
میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ وَ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (النحل: 90) یعنی ہم نے تیرے پر وہ کتاب اتاری ہے جس میں ہر ایک چیز کا بیان ہے اور پھر فرماتا ہے مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ (الانعام: 39) یعنی ہم نے اس کتاب سے کوئی چیز باہر نہیں رکھی۔ لیکن ساتھ اس کےیہ بھی میرا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم سے تمام مسائل دینیہ کا استخراج و استنباط کرنا اور اس کی مجملات کی تفاصیل صحیحہ پر حسب منشاء الٰہی قادر ہونا ہر ایک مجتہد اور مولوی کا کام نہیں۔بلکہ یہ خاص طور پر ان کا کام ہے جو وحی الٰہی سے بطور نبوت یا بطور ولایت عظمیٰ مدد دیئے گئے ہوں ۔ سو ایسے لوگوں کے لئے جو استخراج و استنباط معارف قرآنی پر بعلت غیر ملہم ہونے کے قادر نہیں ہوسکتے یہی سیدھی راہ ہے کہ وہ بغیر قصد استخراج و استنباط قرآن کے ان تمام تعلیمات کو جو سنن متوارثہ متعاملہ کے ذریعہ سے ملی ہیں بلاتامل و توقف قبول کر لیں ۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۸۰-۸۱)
جمال و حُسنِ قرآں نورِ جانِ ہر مُسلماں ہے
قمر ہے چاند اَوروں کا، ہمارا چاند قرآں ہے
نظیر اُس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا
بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلامِ پاک رحماں ہے
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۱۹۸ مطبوعہ ۱۸۸۲ء)