ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
(حضورِانور کے دورہ Scandinavia مئی ۲۰۱۶ء سے چند واقعات)
کوسووو(Kosovo)کے احمدیوں سے ملاقات
اس دورے کے دوران میری ملاقات کوسوووسے آئے ہوئے چند احمدیوں سے ہوئی جو ۱۹۹۰ءکی دہائی میں اپنے ملک میں پیدا ہونے والی مشکلات کے باعث ڈنمارک ہجرت کر کے آ گئے تھے۔ کوسووو سے تعلق رکھنے والے کئی احمدی احباب جنوبی ڈنمارک میں واقع Nakskov نامی قصبہ میں رہتے ہیں۔
ان میں سے ایک دوست جن کا نام Moharam Qunjijiتھا اور وہ ۱۹۹۲ء میں ڈنمارک آئے تھے اور اگلے سال احمدیت قبول کی تھی۔ حضور انور سے ملاقات کے چند لمحات کے بعد انہوں نے بتایا:میرے جذبات کا اظہار’الحمدللہ‘ ہے۔کیونکہ لاکھوں احمدی اپنے خلیفہ سے ملنے کے خواہشمند ہیں اور آج کے دن میرے اللہ نے مجھے یہ موقع عطا فرمایا ہے اور یہ سعادت بخشی ہے۔ یہ یادیں اور اپنے محبوب کے چہرے کو دیکھنا اور آپ کی آواز کو سننا ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گی۔
ایک اَور احمدی دوست نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ حضور انور مجسم محبت ہیں، آپ خوبصورت ہیں،آپ سب کچھ ہیں اور آپ سے ملاقات نے میرے ایمان کو مزید مضبوط کیا ہے ۔جونہی مجھے ڈینش پاسپورٹ ملے گا پہلا کام جو میں کروں گا وہ حضور انور سے دوبارہ ملاقات کے لیے لندن جانا ہے۔ (ان شاء اللہ)
مجلس خدام الاحمدیہ کے عاملہ ممبران سے ملاقات
۸؍مئی ۲۰۱۶ءکو حضور انور نے نیشنل عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ ڈنمارک سے ملاقات فرمائی ۔دوران میٹنگ حضور انور نے عاملہ ممبران کو تفصیلی ہدایات اور نصائح سے نوازا کہ انہیں اپنے فرائض کس طرح سرانجام دینے چاہئیں۔ دوران میٹنگ حضور انور نے فرمایا کہ عاملہ ممبران کے طور پر انہیں دیگر خدام کے لیے بہترین نمونہ بننا چاہیے اور خود کو ان کا افسر بننے کی کوشش کرنے کے بجائے ان کا دوست بننا چاہیے۔ ان شاءاللہ، ایسی دوستی کے نتیجے میں ان کا مسجد اور جماعت سے رابطہ بہتر ہو گا۔
مہتمم صاحب اشاعت نے حضور انور سے عرض کی کہ خدام کی طرف سے شائع کیا جانے والا رسالہ مستقل شائع ہونے کی بجائے کبھی کبھار شائع ہوتا ہے۔ اس پر تبصرہ فرماتے ہوئے حضور انور نے فرمایاکامیاب تنظیمیں کبھی کبھار کام نہیں کرتیں بلکہ وہ مستقل مزاجی سے کام کرتی ہیں ۔اگر ہم کبھی کبھار کام کریں گے تو پوری دنیا کے احمدیت قبول کرنے میں ہزاروں سال لگ جائیں گے۔
میٹنگ کے اختتام پر نیشنل عاملہ کے ایک ممبر نے حضورِ انور سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضور جلد دوبارہ ڈنمارک کے دورے پر تشریف لائیں۔ اس پر حضور انور نے تبسم فرماتے ہوئے اپنے پچھلے دورے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ میں نہیں جانتا کہ وقت اتنی تیزی سے کیسے گزر گیا ہے۔ اللہ کے فضل سے جماعت ساری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ افریقن احمدی بھی مجھے دعوت دے رہے ہیں۔ اسی طرح جنوبی امریکہ میں بھی ہماری جماعتیں مجھے دعوت دے رہی ہیں اور وہ بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہیں۔حضور انور نے مزید فرمایا کہ بہرحال ہم دیکھیں گے لیکن اگر میں ڈنمارک آؤں اور آپ کو صرف چار گھنٹے پہلے میرے دورے کی اطلاع ملے تو کیا آپ سب انتظامات کر لیں گے؟اس پر اس خادم نے برجستہ جواب دیا کہ جی حضور ہم تیار ہوں گے۔
ڈنمارک کی نیشنل مجلس عاملہ سے ملاقات
…حضور انور نے ڈنمارک کی نیشنل مجلس عاملہ سے ملاقات فرمائی۔ سیکرٹری صاحب جائیداد نے حضور انور کو اپنا تعارف کروایا تو حضور انور نے استفسار فرمایا کہ یہاں آپ کی کتنی جائیداد ہے؟ انہیں لگا کہ حضور انور ان کی ذاتی جائیداد کے بارے میں استفسار فرما رہے ہیں اور اس غرض سے وہ اپنی ذاتی جائیداد کی تفصیل بیان کرنے ہی والے تھے کہ حضورانور نے فرمایانہیں میرا مطلب ہے کہ ڈنمارک کی جماعت کی کتنی جائیداد ہے،آپ کی ذاتی نہیں۔ بعد ازاں حضور انور نے نیشنل سیکرٹری تربیت سے گفتگو فرماتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے محسوس کیا ہے، اس دن فجر کی نماز کی حاضری گذشتہ دنوں سے کم تھی اور جو نماز پڑھنے آئے تھے ان کی اکثریت ڈنمارک کے باہر سے آنے والے مہمانوں کی تھی۔ حضور انور نے فرمایا کہ جب میں جرمنی جاتا ہوں تو احمدی احباب تیس سے چالیس کلومیٹر دور سے نماز فجر پڑھنے کے لیے آتے ہیں لیکن یہاں صورتحال مختلف ہے۔ اگر میری موجودگی میں بھی فجر کی حاضری کم ہے تو میرے جانے کے بعد کیا حال ہوگا! آپ کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی اہمیت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اور عاملہ کے ممبران کو چاہیے کہ وہ اپنے نمونے قائم کریں۔
حضور انور نے فرمایا کہ مسجد کے ساتھ تعلق پیدا کرنا بہت اہم چیز ہے اس لیے ذیلی تنظیموں کو اسی دن اپنے پروگرام رکھنے چاہئیں جس دن جماعتی پروگرام ہوں جہاں تک ممکن ہو سکے۔ کیونکہ اس سے پوری فیملی کی مسجد آنے کی طرف حوصلہ افزائی ہوگی۔
اس پر سیکرٹری صاحب نے دریافت کیا کہ اگر حضور انور کی ہدایت پر (ذیلی تنظیموں کے )اکٹھے پروگرام رکھے جائیں تو ضیافت کی ذمہ داری کس پر ہو گی؟ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو مسجد سے روکنے میں کھانے اور پینے کا خرچ حائل ہے تو میں خوشی سے آپ کی ضیافت کے جملہ اخراجات خود ادا کر دوں گا۔ یہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایسے پروگرامز نہ بنائے جائیں۔
گھر گھر دورہ کرنا
حضور انور نے سیکرٹری تربیت کو ہدایت فرمائی کہ ان کی ٹیم کو حوصلہ افزائی اور شفقت کی روح کے ساتھ احمدیوں کے گھروں کا دورہ کرنا چاہیے۔ جواب میں سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ چند احمدی شاید اس طرح ملنے کے لیےآنے والوں کو پسند نہ کریں۔ نہایت خوبصورت انداز میں حضور انور نے فرمایا:پھر بھی آپ کو ان کے گھروں میں جانا چاہیے تاکہ جائزہ لے سکیں کہ ان کی کوئی پریشانیاں یا ضروریات تو نہیں ہیں۔ ان کے دروازے کھٹکھٹائیں اور اگر وہ آپ کو اندر نہ بلائیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ صرف انہیں ’’سلام ‘‘کہیں اور کچھ برا محسوس کیے بغیر واپس آ جائیں۔ اس طرح اعتماد اور محبت پیدا کی جاتی ہے اور اگرچہ آپ کی محنت اس شخص کی طرف سے ٹھکرا دی جاتی ہے تو پھر بھی آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام پہنچانے اور نیک نیتی کا ثواب مل جائے گا۔
حضور انور کے جذباتی الفاظ
عاملہ کے ایک ممبر نے حضور انور سے دریافت کیا کہ جو بے نام خطوط حضور انور کو بھجوائے جاتے ہیں مثال کے طور پر اگر کوئی حضور انور کو کوئی شکایت بھجواتا ہے لیکن اس پر اپنا نام ظاہر نہیں کرتا یا کرتی تو اس پر کارروائی ہوتی ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ بالعموم ایسے بے نام خطوط پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی تاہم اس خط کی ایک کاپی اس لوکل جماعت کو بھجوا دی جاتی ہے جس کے بارے میں شکایت ہوتی ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوکل جماعت کے علم میں ہونا چاہیے کہ کیا معاملہ ہے اور یہ بھی کہ اگر وہ واقعی ایک حقیقی شکایت ہے تو وہ اس سے سیکھیں یا بہتری پیدا کریں۔
اسی عاملہ کے ممبر نے بتایا کہ کس طرح ایک مرتبہ کسی نے ڈنمارک سے شکایات پر مبنی بے نام خط حضور انور کی خدمت میں بھجوایا اور لوکل جماعت نے گمان کیا کہ وہ خط ان کے بیٹے کا ہے اور اس کے متعلق ان سےسوالات کیے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے حضور انور کی خدمت میں اس حوالہ سے خط لکھا تھا تاہم اسے کوئی جواب موصول نہ ہوا ۔
کچھ عرصہ کے بعد ان کے بیٹے کو لندن میں حضور انور سے ملاقات کا موقع ملا جس پر انہوں نے اس کو نصیحت کی تھی کہ دوران ملاقا ت یہ معاملہ حضور انور کے سامنے پیش نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ حضور انور کو ناگوار گزرے یا لوکل جماعت اس کے خلاف کوئی کارروائی کرے یا اس کو جماعت سے خارج ہی نہ کر دیا جائے۔
اگلے چند منٹ میں حضور انور نے جو جواب عطا فرمایا وہ نہایت جذباتی تھا۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ اپنی جملہ ڈاک کا جواب عطا فرماتے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ وہ خط پہنچا ہی نہ ہو یا جواب کہیں گم ہو گیا ہو۔
بعد ازاں حضور انور نے فرمایا کہ آپ نے میرے سے ملاقات میں اپنے بیٹے کو یہ معاملہ پیش کرنے سے روک کر بہت غلط کیا۔ اس طرح شکایات پیدا ہوتی ہیں اور یہ خلیفۂ وقت پر بد ظنی بھی ہے کہ آپ کا خیال ہے کہ وہ بغیر کسی وجہ کے کوئی کارروائی کرے گا۔ کسی کو جماعت سے نکال دینا انتہائی قدم ہے اور خلیفۂ وقت ایسی کارروائی کبھی بھی مکمل تحقیق اور وجوہات کو مدنظر رکھے بغیر نہیں کر سکتا۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ اپنے فضل اور رحم سے نوازے اور حق کا بول بالا ہو۔ کوئی بھی غلطی سے مبرا نہیں ہوتا۔ اس لیے بجائے اللہ تعالیٰ سے انصاف کی التجا کرنے کے ، ہمیں اس کی طرف جھکنا چاہیے اور اس کی مغفرت اور رحم کا طلبگار بننا چاہیے۔ اپنے بچوں کو بھی سوال پوچھنے سے منع مت کریں کیونکہ یہ بےچینی اور ناراضگی کے دروازے کھولے گا۔ یاد رکھیں میری کسی احمدی یا کسی دوسرے شخص سے کوئی رنجش نہیں۔
جب میں نے حضور انور کو ایسے الفاظ بیان کرتے سنا تو میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ میں نے کمرے پر نظر دوڑائی اور دیکھا کہ کمرے میں موجود دوسرے کئی احباب بھی جذبات سے مغلوب تھے اور حضور انور کے الفاظ سے بے قرار تھے۔ جس دوست نے یہ سوال کیا تھا ان کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو غلط نصیحت کی تھی اور حضور انور کے الفاظ سے بہت مطمئن معلوم ہوتے تھے۔
اس موقع پر میں نے سوچا کہ کس طرح حضور انور کسی ایک احمدی کو بھی جماعت سے دُور ہونے نہیں دینا چاہتے جبکہ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ معمولی باتوں پر خلیفۂ وقت تعزیری کارروائیاں کریں گے حالانکہ آپ تو ایک حصنِ حصین ہیں۔
حضور انور کی شفقت کی ایک مثال
اس روز ایک دوست جن کی عمر پچاس سال سے زائد تھی اور نام مرزا مسعود احمد صاحب تھا میرے پاس تشریف لائے۔ جب انہوں نے مجھے اپنا نام بتایا تو میرا خیال تھا کہ شاید وہ خاندان مسیح موعودؑ کے افراد میں سے ہیں۔ اگرچہ یہ خیال درست نہ تھا۔ انہوں نے مجھے چند سال قبل جرمنی کا ایک واقعہ بتایا جب ان کے خاندان کے جملہ افراد حضور انور کے دورہ کے دوران جرمنی میں جمع تھے۔ جب ان کی ہمشیرہ کی حضور انور سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے درخواست کی کہ اگر حضور انور اجازت مرحمت فرمائیں تو ان کی فیملی کی حضور انور کے ساتھ ایک گروپ فوٹو بن جائےکیونکہ ان کی فیملی کے افراد بہت زیادہ تھے۔ یہ تصویر حضور انور کے دفتر میں نہ لی گئی بلکہ دفتر کے باہر راہداری میں لی گئی ۔
مکرم مسعود صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کی فیملی نے حضور انور کے لیے کرسی رکھی ہوئی تھی اور خیال یہ تھا کہ خاندان کے جملہ افراد حضور انور کے دونوں اطراف کھڑے ہو جائیں گے۔ تاہم جب حضور انور تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ مسعود صاحب کی والدہ بہت بزرگ ہیں اور کمزور ہیں۔ اس لیے آپ نے فورا ًہدایت فرمائی کہ ان کے بیٹھنے کے لیے کرسی لائی جائے۔ مکرم مسعود صاحب کے آنسو رواں تھے جب انہوں نے بتایا کہ ہر احمدی خلیفۂ وقت کی ذات سے جس طرح متاثر ہوتا ہے اس کی اپنی ہی کہانی ہوتی ہے۔ میرے نزدیک وہ لمحہ میری زندگی کے عظیم الشان لمحات میں سے ایک تھا۔ جو محبت، عزت اور اکرام حضور انور نے میری والدہ کے لیے دکھایا وہ ایک ایسی چیز ہے جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ جب کبھی بھی میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہوں کہ ہمارے پیارے خلیفہ کس قدر محبت کرنے والے اور سخی ہیں۔