خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ ۰۵؍مئی ۲۰۲۳ء
’’تمہاری خلق اللہ سے ایسی نیکی ہو کہ اس میں تصنع اور بناوٹ ہر گز نہ ہو‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
حقیقی مومن کی یہی نشانی ہے کہ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر اور نصائح پر عمل کرے
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس آیت کریمہ کی تفسیر ایسے عارفانہ رنگ میں بیان فرمائی ہے جس سےحقیقی رنگ میں خداتعالیٰ سے تعلق کا عرفان ملتا ہے جو ایک مومن کو ایمان اور یقین کی نئی منزلوں تک لے جاتا ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والوں کا فرض ہے، یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی بھی اصلاح کریں اور دنیا کی اصلاح کی بھی کوشش کریں
’’ایسی پاک تعلیم نہ ہم نے توریت میں دیکھی ہے اور نہ انجیل میں۔ ورق ورق کرکے ہم نے پڑھا ہے مگر ایسی پاک اور مکمل تعلیم کانام و نشان نہیں۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں سورۃ النحل کی آیت ۹۱میں مذکور نیکیوں یعنی عدل، احسان اور اِيْتَآءِ ذِي الْقُرْبٰى سے متعلق بصیرت افروز بیان
پاکستا ن کے احمدیوں کے لیے دعا کی مکرر تحریک
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 05؍مئی 2023ءبمطابق 05؍ہجرت 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِیۡتَآءِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَیَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ وَالۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ (النحل: 91)
اللہ یقیناً عدل کا اور احسان کا اور غیر رشتہ داروں کو بھی قرابت والے شخص کی طرح جاننے اور اسی طرح مدددینے کا حکم دیتا ہے اور ہرقسم کی بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے روکتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم سمجھ جاؤ۔
یہ آیت ہر جمعہ کے خطبہ ثانیہ اور عیدین کے خطبہ ثانیہ میں بھی پڑھی جاتی ہے۔ اس میں بعض نیکیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے اور برائیوں کا ذکر ہے جن سے روکنے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اور
حقیقی مومن کی یہی نشانی ہے کہ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر اور نصائح پر عمل کرے
ورنہ وہ مقام نہیں ملتا جو ایک مسلمان کو حقیقی مومن بناتا ہے۔
اس آیت میں جن نیکیوں کا ذکر کیا گیا ہے یعنی عدل، احسان اور اِيْتَآءِ ذِي الْقُرْبٰى۔ ان کے حوالے سے مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات جو آپؑ نے اپنی مختلف کتب میں تحریر فرمائے اور جو مختلف مجالس میں بیان فرمائے پیش کروں گا۔
ہر ارشاد گو ایک ہی محور کے گرد گھوم رہا ہے لیکن مختلف رنگ میں نصائح ہیں جو ہمیں ہماری زندگی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق گزارنے کی طرف راہنمائی کرتی ہیں۔ آپؑ نے ان خصوصیات اور نیکیوں کا صرف انسانوں سے تعلقات کے ضمن میں ہی بیان نہیں فرمایا بلکہ اس بات کو بھی بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کس طرح عدل، احسان اور اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰىکاتعلق رکھنا ہے۔
آپؑ نے اس کی تفسیر ایسے عارفانہ رنگ میں بیان فرمائی ہے جس سے حقیقی رنگ میں خداتعالیٰ سے تعلق کا عرفان ملتا ہے جو ایک مومن کو ایمان اور یقین کی نئی منزلوں تک لے جاتا ہے۔
بہرحال اس وقت میں بعض حوالے آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ ان پر انسان غور کرے اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرے تو ایک ایسا لائحہ عمل ہمیں ملتا ہے جو حقیقت میں ہمیں خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی جوڑتا ہے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے اور یوں ایک ایسے حسین معاشرے کو بھی قائم کرتا ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والا معاشرہ ہے اور یہی چیز ہے جو معاشرے کے امن کی بھی ضمانت ہے اور دنیا کے امن کی بھی ضمانت ہے لیکن افسوس ہے کہ دنیا کی اکثریت ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے پر تلی ہوئی ہے چاہے وہ مسلمان دنیا ہے یا غیرمسلم دنیا ہے۔ مسلمان اللہ تعالیٰ کا نام تو لیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نام پر ظلم و تعدی میں بڑھے ہوئے بھی ہیں۔ ایسے میں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والوں کا فرض ہے، یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی بھی اصلاح کریں اور دنیا کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’خدا کا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم اس سے اور اس کی خلقت سے عدل کا معاملہ کرو۔ یعنی حق اللہ اور حق العباد بجا لاؤ اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کرو یعنی فرائض سے زیادہ اور ایسے اخلاص سے خدا کی بندگی کرو کہ گویا تم اس کو دیکھتے ہو۔‘‘ پہلے تو حقوق العباد کے بارے میں بتایا۔ پھر فرمایا کہ خدا کی بندگی بھی ایسے انداز سے کرو کہ گویا تم اسے دیکھتے ہو ’’اور حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروّت و سلوک کرو اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو ایسے بے علت و بےغرض‘‘ ذاتی خواہشات سے بالا ہو کر، بے غرض ہو کر بغیر کسی مقصد کے خدا کی عبادت کرو ’’خدا کی عبادت اور خلق اللہ کی خدمت بجا لاؤ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی بے غرض ہو کر کرو۔ کسی غرض کے لیے نہیں اللہ کے سامنے جانا۔ اور اللہ کی مخلوق کی خدمت ہے تو وہ بھی بے غرض ہو کے کرو ’’کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے کرتا ہے۔‘‘
(شحنۂ حق، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 361-362)
پھر اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مزید کھول کے آپؑ نے بتایا۔
بندوں کے حقوق کس طرح ادا کرنے ہیں
وہ بھی بتایا۔ فرمایا:’’پہلے طور پر اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم اپنے خالق کے ساتھ اس کی اطاعت میں عدل کا طریق مرعی رکھو ظالم نہ بنو۔‘‘ ہمیشہ اس کا خیال رکھو۔ ہمیشہ عدل کا طریق بجا لاؤ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں۔ ’’پس جیساکہ درحقیقت بجز اس کے کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں۔ کوئی بھی محبت کے لائق نہیں۔ کوئی بھی توکل کے لائق نہیں کیونکہ بوجہ خالقیت اور قیومیت وربوبیت خاصہ کے ہر یک حق اسی کا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے عدل کیا ہے؟ اطاعت کا تعلق اللہ تعالیٰ سے رکھنا ہے اور اطاعت کا تعلق اس لیے رکھنا ہے کہ وہ ہمارا خالق ہے، وہ قائم ہے اور قائم رکھنے والا ہے۔ ر بوبیت اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ رب ہے۔ وہ پالنے والا ہے۔ ہماری ہر ایک ضرورت کو پورا کرنے والا ہے۔ اس لیے یہ حق اسی کا ہے کہ اس پر توکل کیا جائے، اس سے محبت کی جائے۔ ’’اِسی طرح تم بھی اس کے ساتھ کسی کو اس کی پرستش میں اوراس کی محبت میں اور اس کی ربوبیت میں شریک مت کرو۔ اگر تم نے اِس قدرکر لیاتو یہ عدل ہے جس کی رعایت تم پر فرض تھی۔‘‘ یہ عدل ہے اللہ تعالیٰ کے معاملے میں۔ اس کو کرنا ضروری ہے۔ ’’پھر اگر اس پر ترقی کرنا چاہو۔‘‘ اس سے اگلا قدم اٹھانا ہے ’’تو احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اس کی عظمتوں کے ایسے قائل ہوجاؤ اور اس کے آگے اپنی پرستشوں میں ایسے متادّب بن جاؤ اور اس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اس کی عظمت اور جلال اوراس کے حسن لازوال کودیکھ لیا ہے۔‘‘ اگلا قدم احسان کا ہے۔ احسان تو اللہ تعالیٰ پہ نہیں کر سکتے لیکن یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی پرستش میں، اس کے عزت اور احترام میں، اس کی محبت میں اتنے زیادہ کھو جاؤ کہ گویا تم نے اُس کی عظمت کو بھی دیکھ لیا، اُس کے جلال کو بھی دیکھ لیا، اُس کی صفات کا تم نے مطالعہ کر لیا۔ اُس کے حسنِ لازوال کو دیکھ لیا۔ پھر فرمایا کہ ’’بعد اس کے اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰىکا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہاری پرستش اور تمہاری محبت اور تمہاری فرمانبرداری سے بالکل تکلف اور تصنع دور ہو جائے۔‘‘ پہلے تو ہو سکتا ہے احسان کے رنگ میں جو تم کر رہے ہو، کوشش کر رہے ہو تو تکلف ہو، تھوڑی سی بناوٹ کرنی پڑے، کوشش کرنی پڑے، لیکن پھر یہ ایسا مقام حاصل کر لو کہ بالکل تکلف اور بناوٹ دُور ہو جائے۔ ایک دلی جوش اور جذبے سے تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کی عظمت اور جلال کو پہچاننے والے بن جاؤ ’’اور تم اس کو ایسے جگری تعلق سے یاد کرو کہ جیسے مثلاً تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور تمہاری محبت اس سے ایسی ہوجائے کہ جیسے مثلاً بچہ اپنی پیاری ماں سے محبت رکھتا ہے۔‘‘
پھر فرمایا:’’اور دوسرے طور پر جو ہمدردی‘‘ جو حقوق العباد کے بارے میں ہے۔ ’’بنی نوع سے متعلق ہے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اور اپنے حقوق سے زیادہ ان سے کچھ تعرض نہ کرو اور انصاف پرقائم رہو۔‘‘ عدل قائم کرو۔ جہاں تک تمہارا حق ہے وہ تو بیشک ان سے مانگو لیکن انصاف پہ قائم رہتے ہوئے۔ غلط قسم کے مطالبے نہ ہوں۔ ’’اور اگر اس درجہ سے ترقی کرنی چاہو تو
اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل نیکی کرے۔‘‘
اگر کوئی تمہارے ساتھ برا کرتا ہے تو اس سے نیکی کرو یہ احسان ہے۔ ’’اور اس کی آزار کی عوض میں تُو اس کو راحت پہنچاوے۔‘‘اگر وہ تمہیں تکلیف پہنچاتا ہے تو تم اس کو راحت پہنچاؤ۔ اسے خوشی پہنچانے کی کوشش کرو ’’اور مروّت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے۔ پھر
بعد اس کے اِيْتَآءِ ذِي الْقُرْبٰىکا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یاجس قدر بنی نوع کی خیر خواہی بجا لاوے اس سے کوئی اَور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو۔‘‘
اس کا مطلب کوئی بھی احسان نہ ہو ’’بلکہ طبعی طور پر بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہو۔‘‘ ایسے کام کرو جو طبعی طور پر ہو رہے ہیں۔ ’’جیسی شدتِ قرابت کے جوش سے ایک خویش دوسرے خویش کے ساتھ نیکی کرتا ہے۔‘‘ ایک رشتے دار دوسرے رشتے دار سے، ایک قریبی دوسرے قریبی سے نیکی کرتا ہے۔ کوئی غرض نہیں بلکہ دلی جوش ہو۔ ’’سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے کہ ہمدردی خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یا مدعا یاغرض درمیان نہ ہو بلکہ اخوت وقرابتِ انسانی کا جوش اس اعلیٰ درجہ پر نشوونما پا جائے کہ خود بخود بغیر کسی تکلف کے اور بغیر پیش نہاد رکھنے کسی قسم کی شکر گذاری‘‘ کے، بغیر کسی قسم کی شکر گزاری کی خواہش رکھنے کے ’’یا دعا یا اَور کسی قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد3صفحہ 550تا 552)
یا یہ ہو کہ تمہاری شکر گزاری کرے یا تمہارے لیے کوئی دعا کرے۔ کوئی اور نیکی کسی کی خواہش ہو۔ تمہیں کسی دوسرے سے کسی قسم کی خواہش نہیں ہونی چاہیے بلکہ خالصةً اس کی قربت کے تعلق کی وجہ سے یہ کام ہو۔ پس
یہ وہ سلوک ہے جو سب سے پہلے تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے سے کرنا چاہیے اور اسے وسیع کرتے ہوئے پھر دوسروں تک پہنچانا ہے۔
پھر حقوق اللہ کے حوالے سے مزید فرماتے ہیں کہ ’’حق اللہ کے پہلو کی رو سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ انصاف کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی اطاعت کر کیونکہ جس نے تجھے پیدا کیا اور تیری پرورش کی اور ہر وقت کر رہا ہے اس کا حق ہے کہ تو بھی اس کی اطاعت کرے۔‘‘ اللہ نے تمہیں پیدا کیا پرورش کی، پرورش کر رہا ہے، دنیا کے سامان مہیا کر رہا ہے اس کا حق بنتا ہے کہ اس کی اطاعت کرو۔ ’’اور اگر اس سے زیادہ تجھے بصیرت ہوتو نہ صرف رعایت ِحق سے بلکہ احسان کی پابندی سے اس کی اطاعت کر۔‘‘ پہلا تو عدل ہے کہ خیال رکھو کہ ہمیں اس نے پیدا کیا اور ہماری ضروریات پوری کر رہا ہے ہم نے اطاعت کرنی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اگلا قدم ہے احسان کی پابندی سے اس کی اطاعت کر ’’کیونکہ وہ محسن ہے اور اس کے احسان اس قدر ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے احسان گننے شروع کرو۔ پھر اس کے احسان کی اطاعت کرو تو یہ ہے احسان کا مقام۔ ’’اور ظاہر ہے کہ عدل کے درجہ سے بڑھ کر وہ درجہ ہے جس میں اطاعت کے وقت احسان بھی ملحوظ رہے اور
چونکہ ہر وقت مطالعہ اور ملاحظہ احسان کا محسن کی شکل اور شمائل کو ہمیشہ نظر کے سامنے لے آتا ہے اس لئے احسان کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ ایسے طور سے عبادت کرے کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
پس یہ ہے کہ جب احسان کا رنگ ہو تو وہ احسان کا رنگ یہ ہے کہ محسن جو ہے، جس نے احسان کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ پر احسان تو کر نہیں سکتا اللہ تعالیٰ کے احسان ہیں جن کو یاد کرنا انسان کو احسان کرنے والا بناتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرنے کے لیے آپؑ نے فرمایا کہ یہ طریقہ ہوتا ہے کہ کوئی جو تم پہ احسان کر رہا ہو تو اس کی شکل اور اس کی خصوصیات تمہارے سامنے آ جاتی ہیں۔ اور جب وہ سامنے آتی ہیں تو تمہارا ایک دلی تعلق پھر اس سے پیدا ہو جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے معاملے میں جب یہ تعلق پیدا ہو گا تو پھر تم خالص ہو کر اس کی عبادت کرو گے اور وہ عبادت ایسی ہے جیسی کہ یہ کہ تمہارے دل میں خیال پیدا ہو، عبادت کرتے ہوئے دماغ میں آئے کہ تم خدا تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو۔
پھر فرمایا کہ ’’اور
خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے درحقیقت تین قسم پر منقسم ہیں۔
اوّل وہ لوگ جو بباعث محجوبیت اور رویت اسباب کے احسان الٰہی کا اچھی طرح ملاحظہ نہیں کرتے۔‘‘ پردہ پڑا ہوا ہے ان پہ یا اسباب پہ زیادہ بھروسہ ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے احسانات کو وہ صحیح طرح سمجھ نہیں سکتے جان نہیں سکتے ’’اور نہ وہ جوش ان میں پیدا ہوتا ہے‘‘ کیونکہ جان نہیں سکتے اس لیے جوش بھی پیدا نہیں ہوتا ’’جو احسان کی عظمتوں پر نظر ڈال کر پیدا ہوا کرتا ہے اور نہ وہ محبت ان میں حرکت کرتی ہے جو محسن کی عنایات عظیمہ کا تصور کر کے جنبش میں آیا کرتی ہے۔‘‘صحیح تصور ہی اللہ تعالیٰ کا جب پیدا نہیں ہوگا۔ اس کی شکل ہی سامنے نہیں آئے گی اس کے احسانوں کا خیال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ اس کے بارے میں، اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے بارے میں انسان حقیقت میں سوچے گا نہیں تو پھر وہ جوش پیدا نہیں ہو سکتا۔ فرمایا کہ محسن کی عنایتِ عظیمہ کا تصور کر کے دل کی جو کیفیت جنبش میں آیا کرتی ہے، ایک محسن کی جو عنایات ہیں ان کا تصور کر کے جو دل میں پیدا ہوتی ہے، ویسی پھر پیدا نہیں ہوگی۔ ’’بلکہ صرف ایک اجمالی نظر سے خدا تعالیٰ کے حقوق خالقیت وغیرہ کو تسلیم کرلیتے ہیں۔‘‘ ایسے لوگ سرسری طور پر اللہ تعالیٰ کی خالقیت کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہاں اللہ تعالیٰ خالق ہے اس نے ہمیں بنایا ہے لیکن اس کی گہرائی کا ان کو علم نہیں ہوتا ’’اور احسانِ الٰہی کی ان تفصیلات کو جن پر ایک باریک نظر ڈالنا اس حقیقی محسن کو نظر کے سامنے لے آتا ہے ہرگز مشاہدہ نہیں کرتے۔‘‘ گہرائی سے یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت کا حق جو ہے وہ ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے۔ اس کا گہرائی میں مطالعہ نہیں کرتے ’’کیونکہ اسباب پرستی کا گردوغبار مسبّبِ حقیقی کا پورا چہرہ دیکھنے سے روک دیتا ہے۔‘‘ دنیاوی اسباب جو ہیں ان کی گرد چڑھی ہوتی ہے، ان کا غبار چڑھا ہوتا ہے ان پہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا صحیح چہرہ ان کو نظر نہیں آتا ’’اس لئے ان کو وہ صاف نظر میسر نہیں آتی جس سے کامل طور پر معطی حقیقی کا جمال مشاہدہ کرسکتے‘‘ ہوں۔ جو عطا کرنے والا ہے حقیقی عطا کرنے والا ہے، اس کی خوبصورتی پر نظر ڈال سکیں، اس کو دیکھ سکیں۔ ان کو میسر ہی نہیں آتا۔ ’’سو ان کی ناقص معرفت رعایت اسباب کی کدورت سے ملی ہوئی ہوتی ہے۔‘‘ جو بھی معرفت ان کو ہے، اللہ تعالیٰ کے بارے میں جو تھوڑا بہت علم ہے جس کی وجہ سے کبھی نماز پڑھ لی کبھی نہ پڑھی، کبھی حق ادا کیا کبھی نہ کیا اس میں اسباب کی کدورت ملی ہوتی ہے۔ دنیاوی جو چیزیں ہیں، دنیاوی سبب ہیں، دنیاوی خواہشات ہیں وہ شامل ہو جاتی ہیں اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے چہرے کو صحیح طرح دکھا نہیں سکتی۔ ’’اور بوجہ اس کے جو وہ خدا کے احسانات کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکتے خود بھی اس کی طرف وہ التفات نہیں کرتے جو احسانات کے مشاہدہ کے وقت کرنی پڑتی ہے۔‘‘ اس طرف پوری طرح توجہ ہی نہیں۔ ’’جس سے محسن کی شکل نظر کے سامنے آجاتی ہے بلکہ ان کی معرفت ایک دھندلی سی ہوتی ہے۔‘‘ بلکہ بالکل دھندسی چھائی ہوتی ہے۔ صحیح طرح صاف طور پہ اللہ کا چہرہ ان کو نظر ہی نہیں آتا۔ ’’وجہ یہ کہ وہ کچھ تو اپنی محنتوں اور اپنے اسباب پر بھروسہ رکھتے ہیں اور کچھ تکلف کے طور پر یہ بھی مانتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا حق خالقیّت اور رزّاقیت ہمارے سر پر واجب ہے۔‘‘ صاف طور پر ان کو پتہ ہی نہیں ہے۔ ان کا کچھ بھروسہ یہی ہوتا ہے کہ ہاں ہم نے یہ کام کیا۔ ہمارا یہ علم تھا اس کی وجہ سے ہمارے یہ کام ہو گئے اس پر بھروسہ ہوتا ہے اور کچھ یہ بھی ساتھ ساتھ کہ دین کے ماحول میں رہنے سے کچھ نہ کچھ اثر تو دین میں کوئی ہے ناں تو جو اللہ تعالیٰ کا حق خالقیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں رزق دیا، ہمارے لیے پرورش کے سامان پیدا کیے وہ بھی ذہن میں ہوتا ہے۔ تو ملی جلی حالت ہوتی ہے۔ اس ملی جلی حالت میں وہ حقیقی طور پر خداتعالیٰ کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے ’’اور چونکہ خدا تعالیٰ انسان کو اس کے وسعت فہم سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اس لئے ان سے جب تک کہ وہ اس حالت میں ہیں یہی چاہتا ہے کہ اس کے حقوق کا شکر ادا کریں اور آیت اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ میں عدل سے مراد یہی اطاعت برعایت عدل ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت پھر یہاں کام آتی ہے۔ جو ایسے لوگ ہیں جو پوری طرح اللہ تعالیٰ کا چہرہ نہیں بھی دیکھ سکتے ان سے بھی اللہ تعالیٰ رحم کا سلوک کرتا ہے اور ان کی اس حالت کو بھی قبول کر لیتا ہے۔ فرمایا: ’’مگر اس سے بڑھ کر ایک اور مرتبہ انسان۔‘‘ یہ تو عدل ہے، ایک بنیادی چیز ہے یہ۔ کم از کم معیار ہے ایک مسلمان کا لیکن اس سے بڑھ کر انسان ’’کی معرفت کا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیساکہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں انسان کی نظر رویت اسباب سے بالکل پاک اور منزہ ہوکر خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ہاتھ کو دیکھ لیتی ہے۔‘‘ صرف ان دنیاوی اسباب پہ بھروسہ نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے احسان کو نظر پھر دیکھ لیتی ہے۔ جو انسان اگلے قدم پر جاتا ہے۔ مکمل طور پر اللہ تعالیٰ پر انحصار ہوتا ہے، اس کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ ’’اور اس مرتبہ پر انسان اسباب کے حجابوں سے بالکل باہر آجاتا ہے۔‘‘ دنیاوی چیزوں پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ مکمل بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے ’’اور یہ مقولہ کہ مثلاً میری اپنی ہی آبپاشی سے میری کھیتی ہوئی اور یا میرے اپنے ہی بازو سے یہ کامیابی مجھے ہوئی یا زید کی مہربانی سے فلاں مطلب میرا پورا ہوا اور بکر کی خبر گیری سے میں تباہی سے بچ گیا یہ تمام باتیں ہیچ اور باطل معلوم ہونے لگتی ہیں۔‘‘ نہ اپنی کسی خوبی پر اور کوشش پر انحصار ہوتا ہے نہ کسی دوسرے کی مدد اور اس کی خوبی پر انحصار ہوتا ہے، سب چیزیں معمولی ہو جاتی ہیں ’’اور ایک ہی ہستی اور ایک ہی قدرت اور ایک ہی محسن اور ایک ہی ہاتھ نظر آتا ہے۔ تب انسان ایک صاف نظر سے جس کے ساتھ ایک ذرہ شرک فی الاسباب کی گردوغبار نہیں خدا تعالیٰ کے احسانوں کو دیکھتا ہے۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ اس طرح نظر آنے لگ جائے پھر اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو انسان دیکھتا ہے
’’اور یہ رویت اس قسم کی صاف اور یقینی ہوتی ہے کہ وہ ایسے محسن کی عبادت کرنے کے وقت اس کو غائب نہیں سمجھتا بلکہ یقیناًً اس کو حاضر خیال کر کے اس کی عبادت کرتا ہے۔‘‘ پھر چاہے انسان عبادت کر رہا ہو، انسان نماز پڑھ رہا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے سمجھتا ہے ’’اور اس عبادت کا نام قرآن شریف میں اِحسانہے۔‘‘ سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کے سامنے گویا کہ خدا سامنے ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس کو قرآن شریف اللہ تعالیٰ کے معاملے میں احسان کہتا ہے ’’اور صحیح بخاری اور مسلم میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں۔‘‘
پھر یہیں پر بات ختم نہیں ہو گئی بلکہ آگے فرماتے ہیں کہ ’’اور اس درجہ کے بعد ایک اَور درجہ ہے جس کا نام اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰى ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک مدت تک احساناتِ الٰہی کو بلا شرکتِ اسباب دیکھتا رہے۔‘‘ احسانات اللہ تعالیٰ کے جو ہیں وہ بغیر کسی دنیاوی اسباب کے دیکھتا رہے، بغیر کسی شریک کے دیکھتا رہے، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پہ کامل بھروسہ ہو ’’اور اس کو حاضر اور بلاواسطہ محسن سمجھ کر اس کی عبادت کرتا رہے تو اس تصور اور تخیل کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذاتی محبت اس کو جناب الٰہی کی نسبت پیدا ہو جائے گی۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ سے اس کی ایک ذاتی محبت پیدا ہو جائے گی، غرض کوئی نہیں ہوگی۔ مانگنا کسی چیز کے لیےاس لیے نہیں ہوگا کہ مجھے ضرورت ہے بلکہ ایک ذاتی محبت پیدا ہو جائے گی ’’کیونکہ متواتر احسانات کا دائمی ملاحظہ بالضرورت شخص ممنون کے دل میں یہ اثر پیدا کرتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ اس شخص کی ذاتی محبت سے بھر جاتا ہے۔‘‘ جس شخص نے احسان کیے ہوتے ہیں اور متواتر احسانات کا احساس جو ہے اور اس کا ملاحظہ، اس کو دیکھتے رہنا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح احسان کر رہا ہے اس کی سمجھ اور اس کا عرفان حاصل ہو جانا۔ پھر کیا ہوتا ہے اس سے، اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ یہ اصول ہے کہ اگر اس طرح تعلق ہو تو ایک ذاتی محبت سے دل بھر جاتا ہے ’’جس کے غیر محدود احسانات اس پر محیط ہوگئے۔ پس اس صورت میں وہ صرف احسانات کے تصور سے اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس کی ذاتی محبت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے۔‘‘ پہلے مانگنے کے لیے عبادت، پھر اللہ تعالیٰ کو سب کچھ سمجھ کر اس کی عبادت، احسان کا رنگ ہو گیا، سمجھ لیا، پھر اس سے بھی آگے بڑھ گیا کہ کچھ مانگنے کے لیے نہیں عبادت ہوتی بلکہ ذاتی محبت جو اللہ تعالیٰ سے ہے اس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، اس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے ’’جیساکہ بچہ کو ایک ذاتی محبت اپنی ماں سے ہوتی ہے۔ پس اس مرتبہ پر وہ عبادت کے وقت صرف خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں بلکہ دیکھ کر سچے عشاق کی طرح لذت بھی اٹھاتا ہے اور تمام اغراض نفسانی معدوم ہوکر ذاتی محبت اس کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اور یہ وہ مرتبہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے لفظ اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰىسے تعبیر کیا ہے اور اسی کی طرف خدا تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا(البقرۃ:201)‘‘ پس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباء کا ذکر کرتے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ذکر کرو۔ پس یہ وہ مقام ہے جو اللہ تعالیٰ سے خالص محبت ہونے کا مقام ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’غرض آیت اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآءِِ ذِي الْقُرْبٰى(النحل:91) کی یہ تفسیر ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کر دیئے اور تیسرے مرتبہ کو محبت ذاتی کا مرتبہ قرار دیا اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراض نفسانی جل جاتے ہیں اور دل ایسا محبت سے بھر جاتا ہے جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔‘‘ یعنی عطر کی شیشی ہو۔ ’’اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ(البقرۃ: 208) یعنی بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضاءِ الٰہی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں اور خدا ایسوں ہی پر مہربان ہے۔ اور پھر فرمایا بَلٰى مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗٓ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرۃ: 113) یعنی وہ لوگ نجات یافتہ ہیں جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کر دیں اور اس کی نعمتوں کے تصور سے اس طور سے اس کی عبادت کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ وے کچھ غم کرتے ہیں یعنی ان کا مدعا خدا اور خدا کی محبت ہوجاتی ہے اور خدا کے پاس کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے۔‘‘ خدا کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے ’’اور پھر ایک جگہ فرمایا:يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا۔ اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا (الدھر: 9-10)یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روٹی کھلانے سے تم سے کوئی بدلہ اور شکر گذاری نہیں چاہتے اور نہ ہماری کچھ غرض ہے۔ ان تمام خدمات سے صرف خدا کا چہرہ ہمارا مطلب ہے۔‘‘ اس ساری خدمت کا مطلب صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مزید نظر آ جائے۔ ’’اب سوچنا چاہئے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادت الٰہی اور اعمال صالحہ کا یہی رکھا ہے کہ محبت الٰہی اور رضاءِ الٰہی کی طلب سچے دل سے ظہور میں آوے۔‘‘
(نور القرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد9صفحہ 437تا 441)
اور اللہ تعالیٰ کی سچی محبت حاصل کرنے کے لیے جیسا کہ ان آیات میں بھی ذکر ہے اس کی مخلوق سے بھی ذاتی ہمدردی اور تعلق قائم کرنا ہے۔ ان کے حق ایک مومن بندہ، خداتعالیٰ سے محبت کرنے والا بندہ صحیح ادا کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’خدا تم سے کیا چاہتا ہے۔‘‘ کشتی نوح میں آپؑ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ’’بس یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں کیونکہ احسان میں ایک خودنمائی کا مادہ بھی مخفی ہوتا ہے اور احسان کرنے والا کبھی اپنے احسان کو جتلا بھی دیتا ہے لیکن وہ جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کر سکتا۔ پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو اور یہ آیت نہ صرف مخلوق کے متعلق ہے بلکہ خدا کے متعلق بھی ہے۔ خدا سے عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کی فرمانبرداری کرنا اور خدا سے احسان یہ ہے کہ اس کی ذات پر ایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے اور خدا سے اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰىیہ ہے کہ اس کی عبادت نہ تو بہشت کے طمع سے ہو اور نہ دوزخ کے خوف سے۔ بلکہ اگر فرض کیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے تب بھی جوش محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ 30-31)
یہ محبت ذاتی ہے خدا تعالیٰ سے۔ پہلے جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس کا یہ خلاصہ ہے جو کشتی نوح میں آپؑ نے ہمیں بیان فرمایا۔
پھر
حقوق العباد کی طرف توجہ
دلاتے ہوئے آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ ہے کہ باوجود رعایت عدل کے احسان کرو اور احسان سے بڑھ کریہ ہے کہ تم ایسے طور سے لوگوں سے مروّت کرو کہ جیسے کہ گویا وہ تمہارے پیارے اور ذوالقربیٰ ہیں۔ اب سوچنا چاہئے کہ مراتب تین ہی ہیں۔ اول انسان عدل کرتا ہے یعنی حق کے مقابل حق کی درخواست کرتا ہے۔ پھر اگر اس سے بڑھے تو مرتبہ احسان ہے۔ اگر اس سے بڑھے تو احسان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور ایسی محبت سے لوگوں کی ہمدردی کرتا ہے جیسے ماں اپنے بچہ کی ہمدردی کرتی ہے یعنی ایک طبعی جوش سے نہ کہ احسان کے ارادہ سے۔‘‘(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد6صفحہ127)یہ حقوق العباد کا خلاصہ بن گیا۔
پھر یہ تو پہلے بعض جگہوں پہ آپؑ نے لوگوں کو، غیر مذاہب والوں کو بتایاکہ اسلام کی خوبیاں کیا ہیں۔ پھر جماعت کو جو نصیحت کی وہ بھی مختلف مواقع پر کی۔ ایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ ’’مخلوقِ خدا سے ایسے پیش آؤکہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو۔ یہ درجہ سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ احسان میں ایک مادہ خود نمائی کا ہوتا ہے اور اگر کوئی احسان فراموشی کرتا ہو تو محسن جھٹ کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے تیرے ساتھ فلاں احسان کئے لیکن طبعی محبت جو ماں کو بچے کے ساتھ ہو تی ہے اس میں کوئی خودنمائی نہیں ہوتی۔‘‘ احسان اگر کیا ہے کسی پہ تو بعض دفعہ جتا بھی دیتے ہو لیکن ماں نے کبھی بچے کو نہیں جتایا۔ ’’بلکہ اگر ایک بادشاہ ماں کو یہ حکم دیوے کہ تُو اس بچے کو اگر مار بھی ڈالے تو تجھ سے کوئی باز پرس نہ ہوگی تو وہ کبھی یہ بات سننا گوارا نہ کرے گی اور اس بادشاہ کو گالی دے گی حالانکہ اسے علم بھی ہو کہ اس کے جوان ہو نے تک مَیں نے مر جانا ہے مگر پھر بھی محبت ذاتی کی وجہ سے وہ بچہ کی پرورش کو ترک نہیں کرے گی۔ اکثر دفعہ ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کو اولاد ہوتی ہے تو ان کی کوئی امید بظاہر اولاد سے فائدہ اٹھانے کی نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے پھر بھی وہ اس سے محبت اور پرورش کرتے ہیں۔ یہ ایک طبعی امر ہوتا ہے جو محبت اس درجہ تک پہنچ جاوے اس کا اشارہ اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰىمیں کیا گیا ہے کہ اس قسم کی محبت خدا تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہئے نہ مراتب کی خواہش نہ ذلت کا ڈر۔‘‘
(ملفوظات جلد6صفحہ181-182 ایڈیشن1984ء)
پھر آپؑ نے فرمایا کہ ’’ادنیٰ درجہ عدل کا ہوتا ہے جتنا لے اتنا دے۔‘‘عدل ہوتا ہے جتنا لے اتنا دے یعنی یہ انصاف کا کم از کم معیار ہے۔ ’’اس سے ترقی کرے تو احسان کا درجہ ہے جتنا لے وہ بھی دے اور اس سے بڑھ کر بھی دے۔‘‘ یہ احسان ہے کہ جتنا لیا ہے وہ بھی واپس کرو اور بڑھ کے اس کو دو۔ ’’پھر اس سے بڑھ کر اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰى کا درجہ ہے یعنی دوسروں کے ساتھ اس طرح نیکی کرے جس طرح ماں بچے کے ساتھ بغیر نیت کسی معاوضہ کے طبعی طور پر محبت کرتی ہے۔ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل اللہ ترقی کرکے ایسی محبت کو حاصل کر سکتے ہیں‘‘ اگر چاہو تو ترقی کرکے اللہ تعالیٰ سے بھی ایسی محبت حاصل ہو جاتی ہے۔ ’’انسان کا ظرف چھوٹا نہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ باتیں حاصل ہو جاتی ہیں بلکہ یہ وسعت اخلاق کے لوازمات میں سے ہے۔‘‘ فرمایا ’’میں تو قائل ہوں کہ اہل اللہ یہاں تک ترقی کرتے ہیں کہ مادری محبت کے اندازہ سے بھی بڑھ کر انسان کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد7صفحہ375 ایڈیشن1984ء)
حقوق العباد بجا لانے کے لیے ماؤں سے بھی زیادہ انسانوں سے محبت ہو جاتی ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’عدل کی حالت یہ ہے جو متقی کی حالت نفس امارہ کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس حالت کی اصلاح کے لیے عدل کا حکم ہے۔‘‘ برائیوں سے باہر نکلنا، خیالات سے باہر نکلنا یہ بھی عدل کی حالت ہے۔ ’’اس میں نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے۔‘‘گناہوں سے بچنے کے لیے نفس کی مخالفت کرنایہ بھی عدل کی ایک قسم ہے ۔ ’’مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرح سے اس کو دبالوں۔ اور اتفاق سے اس کی میعاد بھی گذر جاوے۔ اس صورت میں نفس اور بھی دلیر اور بیباک ہوگا کہ اب تو قانونی طورپر بھی کوئی مؤاخذہ نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ ٹھیک نہیں۔ عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دَین واجب ادا کیا جاوے۔‘‘ جو واجب قرض ہے وہ ادا کیا جائے ’’اور کسی حیلے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جاوے۔‘‘ بعض لوگ قرضے دبانے اور وقت پر ادا نہ کرنے بلکہ بعض دفعہ بالکل اس بات پر بھی، اس حالت میں بھی ہو جاتے ہیں کہ مکمل طور پر انکاری ہو جاتے ہیں اگر کوئی ثبوت واضح طور پر نہ ہو۔ بہرحال ان کو جاننا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کا ہر عمل دیکھ رہا ہے۔
اور دوسرے ضمناً یہ بھی کہہ دوں کہ لین دین کے جھگڑے اس لیے شروع ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ لوگ غیر ضروری اعتبار اور اعتماد دوسروں پہ کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ لین دین کا معاملہ جب بھی ہو تو اس وقت لکھ لیا کرو۔ تحریر میں لے آیا کرو۔
یہ نہیں کہ میرا واضح رشتہ دار ہے، میرا بڑا قریبی دوست ہے تو میں نے لکھا نہیں۔ اسی سے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اسی سے پھر نفس امارہ انسان کو غلط کاموں میں ابھارنے کی کوشش کرتا ہے۔ بہرحال ایک مومن کا کام یہ ہے کہ ان سے بچے اور عدل سے کام لے۔
فرمایا :
’’مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں۔ یہ عدل کے خلاف ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے۔ پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہئے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دُور بھاگنا چاہئے کیونکہ یہ امر الٰہی کے خلاف ہے جو اس نے اس آیت میں دیا ہے۔‘‘
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’اس کے بعد احسان کا درجہ ہے۔ جو شخص عدل کی رعایت کرتا ہے اور اس کی حد بندی کو نہیں توڑتا اللہ تعالیٰ اسے توفیق اور قوت دے دیتا ہے اور وہ نیکی میں اَور ترقی کرتا ہے۔ یہانتک کہ عدل ہی نہیں کرتا بلکہ تھوڑی سی نیکی کے بدلے بہت بڑی نیکی کرتا ہے لیکن احسان کی حالت میں بھی ایک کمزوری ابھی باقی ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت اس نیکی کو جتا بھی دیتا ہے۔ مثلاً ایک شخص دس برس تک کسی کو روٹی کھلاتا ہے اور وہ کبھی ایک بات اس کی نہیں مانتا تو اسے کہہ دیتا ہے کہ دس برس کا ہمارے ٹکڑوں کا غلام ہے اور اس طرح پر اس نیکی کو بے اثر کر دیتا ہے۔ دراصل احسان والے کے اندر بھی ایک قسم کی مخفی ریا ہوتی ہے۔‘‘ چھپی ہوئی ریا ہوتی ہے جو احسان کرتا ہے۔ ’’لیکن تیسرا مرتبہ ہر قسم کی آلائش اور آلودگی سے پاک ہے اور وہ اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰىکا درجہ ہے۔‘‘
فرمایا:’’اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰىکا درجہ طبعی حالت کا درجہ ہے یعنی جس مقام پر انسان سے نیکیوں کا صدور ایسے طور پر ہو جیسے طبعی تقاضا ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ماں اپنے بچے کو دودھ دیتی ہے اور اس کی پرورش کرتی ہے۔ کبھی اس کو خیال بھی نہیں آتا کہ بڑا ہو کر کمائی کرے گا اور اس کی خدمت کرے گا یہانتک کہ اگر کوئی بادشاہ اسے یہ حکم دے کہ تو اگر اپنے بچہ کو دودھ نہ دے گی اور اس سے وہ مر جاوے تو بھی تجھے مؤاخذہ نہ ہوگا۔ اس حکم پر بھی اس کو دودھ دینا وہ نہیں چھوڑ سکتی بلکہ ایسے بادشاہ کو دوچار گالیاں ہی سنا دے گی۔ اس لئے کہ وہ پرورش اس کا ایک طبعی تقاضا ہے۔ وہ کسی امید یا خوف پر مبنی نہیں۔ اسی طرح پر جب انسان نیکی میں ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچتا ہے کہ وہ نیکیاں اس سے ایسے طور پر صادر ہوتی ہیں گویا ایک طبعی تقاضا ہے تویہی وہ حالت ہے جو نفس مطمئنہ کہلاتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد8صفحہ312-314 ایڈیشن1984ء)
پھر فرمایا:’’ماں خود اپنی جان پر دکھ برداشت کرتی ہے مگر بچے کو آرام پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔ خود گیلی جگہ پر لیٹتی ہے اور اسے خشک حصہ بستر پر جگہ دیتی ہے۔ بچہ بیمار ہو جائے تو راتوں جاگتی اور طرح طرح کی تکالیف برداشت کرتی ہے۔ اب بتاؤ کہ ماں جو کچھ اپنے بچے کے واسطے کرتی ہے اس میں تصنع اور بناوٹ کا کوئی بھی شعبہ پایا جاتا ہے؟‘‘ یہ تو خالص محبت کی وجہ سے ہے اور یہی محبت حق اللہ اور حق العباد ادا کرنے کے لیے ایک مومن میں ہونی چاہیے۔
فرمایا: ’’پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ احسان کے درجہ سے بھی آگے بڑھو اور اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰىکے مرتبہ تک ترقی کرو اور خلق اللہ سے بغیر کسی اجر یا نفع و خدمت کے خیال کے طبعی اور فطری جوش سے نیکی کرو۔
تمہاری خلق اللہ سے ایسی نیکی ہو کہ اس میں تصنع اور بناوٹ ہر گز نہ ہو۔
ایک دوسرے موقع پر یوں فرمایا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے موقع پر یوں فرمایا کہ ’’لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّلَا شُكُوْرًا (الدہر:10) یعنی خدا رسیدہ اور اعلیٰ ترقیات پر پہنچے ہوئے انسان کا یہ قاعدہ ہے کہ ا س کی نیکی خالصاً للہ ہوتی ہے اور اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ اس کے واسطے دعا کی جاوے یا اس کا شکریہ ادا کیا جاوے۔ نیکی محض اس جوش کے تقاضا سے کرتا ہے جو ہمدردی بنی نوع انسان کے واسطے اس کے دل میں رکھا گیا ہے۔
ایسی پاک تعلیم نہ ہم نے توریت میں دیکھی ہے اور نہ انجیل میں۔ ورق ورق کرکے ہم نے پڑھا ہے مگر ایسی پاک اور مکمل تعلیم کانام و نشان نہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد10صفحہ416-417 ایڈیشن1984ء)
پھرآپؑ فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ نیکی کے مقابل پر نیکی کرو اور اگر عدل سے بڑھ کر احسان کا موقع اور محل ہو تو وہاں احسان کرو اور اگر احسان سے بڑھ کر قریبیوں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرنے کا محل ہو تو وہاں طبعی ہمدردی سے نیکی کرو اور اس سے خدا تعالیٰ منع فرماتا ہے کہ تم حدود اعتدال سے آگے گزر جاؤ۔‘‘ اعتدال کو بہرحال قائم رکھنا ہے۔ ’’یا احسان کے بارے میں منکرانہ حالت تم سے صادر ہو جس سے عقل انکار کرے۔ یعنی یہ کہ تم بے محل احسان کرو یا بر محل احسان کرنے سے دریغ کرو۔‘‘ عقلی تقاضا اور انصاف کا تقاضا بھی سامنے رکھنا ہے کہ احسان بے محل بھی نہیں ہونا چاہیے اور جہاں ضرورت ہے احسان کرنے کی وہاں سے احسان کرنے کا انکار کرنا یہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ بہرحال یہ چیز ضرور دیکھنی ہے کہ عقل کا تقاضا کیا ہے اور فائدہ کس میں ہے ’’یا یہ کہ تم محل پر اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰىکے خلق میں کچھ کمی اختیار کرو یا حد سے زیادہ رحم کی بارش کرو۔ اس آیت کریمہ میں ایصال خیر کے تین درجوں کا بیان ہے۔‘‘
پس جہاں یہ نیکیاں کرنے کا حکم ہے وہاں عقل اور اعتدال اور نیک مقصد کے حصول کی بھی نصیحت کی گئی ہے اور حکم یہ ہے کہ تمہاری یہ ساری نیکیاں اس لیے ہونی چاہئیں کہ فائدہ پہنچائیں نہ کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیں۔
ماں باوجود بچے سے بہت پیار کرنے کے کبھی اس کے مطالبے پر اس کے ہاتھ میں آگ کا انگارہ نہیں رکھتی۔ پس اصل مقصد بھلائی اور خیر خواہی ہے جس کے لیے یہ تینوں نیکیاں بجا لانی ہیں۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’اوّل یہ درجہ کہ نیکی کے مقابل پر نیکی کی جائے یہ تو کم درجہ ہے اور ادنیٰ درجہ کا بھلامانس آدمی بھی یہ خلق حاصل کر سکتا ہے کہ اپنے نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرتا رہے۔‘‘کوئی بھی شریف آدمی یہ نیکی کرتا ہے۔ یہ بنیادی چیز ہے۔ یہ کوئی ایسی اعلیٰ نیکی نہیں ہے یہ تو شرافت ہے۔ ’’دوسرا درجہ اس سے مشکل ہے اور وہ یہ کہ ابتداءً آپ ہی نیکی کرنا اور بغیر کسی کے حق کے احسان کے طور پر اس کو فائدہ پہنچانا اور یہ خلق اوسط درجہ کا ہے۔‘‘ نیکی کرنا اور بغیر کسی کے حق کے اس پر احسان کرنا اس کو فائدہ پہنچانا۔ یہ خلق بھی اوسط درجہ کا ہے درمیانے درجہ کا ہے۔ ’’اکثر لوگ غریبوں پر احسان کرتے ہیں اور احسان میں یہ ایک مخفی عیب ہے کہ احسان کرنے والا خیال کرتا ہے کہ میں نے احسان کیا ہے اور کم سے کم وہ اپنے احسان کے عوض میں شکریہ یا دعا چاہتا ہے اور اگر کوئی ممنون منت اس کا مخالف ہو جائے تو اس کا نام احسان فراموش رکھتا ہے۔‘‘ جس پہ احسان کیا ہے اگر وہ مخالف ہو جائے کسی وجہ سے تو پھر اس کو احسان فراموش کہتا ہے۔ ’’بعض وقت اپنے احسان کی وجہ سے اس پر فوق الطاقت بوجھ ڈال دیتا ہے۔‘‘ اس لیے کہ میں نے تم پہ احسان کیا اور اتنا عرصہ تمہارے کام آیا یا میرے سے تم فائدہ اٹھا رہے ہو تو احسان کرنے والا اس کی طاقت سے بڑھ کر اس آدمی پر بوجھ ڈال دیتا ہے ’’اور اپنا احسان اس کو یاد دلاتا ہے جیساکہ احسان کرنے والوں کو خدا تعالیٰ متنبہ کرنے کے لئے فرماتا ہے۔ لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى (البقرۃ:265) یعنی اے احسان کرنے والو! اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہئے۔ احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو وارننگ (warning) دی ہے کہ ایسے احسان تمہارے لیے کوئی فائدہ مند نہیں ہوں گے۔ صدقات اگر تم کرتے ہو تو اس کی بنیاد صدق پر ہے، سچائی پر ہے۔ اگر احسان دلانا ہے تو پھر تمہاری سب نیکی برباد ہو گئی۔’’یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے۔ پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا بلکہ ایک ریاکاری کی حرکت ہوجاتی ہے۔ غرض
احسان کرنے والے میں یہ ایک خامی ہوتی ہے کہ کبھی غصہ میں آکر اپنا احسان بھی یاد دلادیتا ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا۔
تیسرا درجہ ایصال خیر کا خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ بالکل احسان کا خیال نہ ہو اور نہ شکر گذاری پر نظر ہو بلکہ ایک ایسی ہمدردی کے جوش سے نیکی صادر ہو جیسا کہ ایک نہایت قریبی مثلاً والدہ محض ہمدردی کے جوش سے اپنے بیٹے سے نیکی کرتی ہے۔ یہ وہ آخری درجہ ایصالِ خیر کا ہے جس سے آگے ترقی کرنا ممکن نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ان تمام ایصالِ خیر کی قسموں کو محل اور موقع سے وابستہ کر دیا ہے اور آیت موصوفہ میں صاف فرمادیا ہے کہ اگر یہ نیکیاں اپنے اپنے محل پر مستعمل نہیں ہوں گی تو پھر یہ بدیاں ہو جائیں گی۔‘‘ یہ بھی وارننگ ہے کہ نیکیاں اگراپنے محل پر نہیں ہوئیں،صحیح طرح نہیں ہو رہیں، دنیا میں فساد پیدا کر رہی ہیں تو وہ نیکیاں نہیں ہوں گی، بدی بن جائے گی۔ ’’بجائے عدل فحشاء بن جائے گا۔‘‘ اگلا جو حصہ ہے اس کا کچھ ذکر بھی آ جاتا ہے اس میں برائیوں سے بچنے کا کہ عدل پھر فحشاء بن جاتا ہے۔ ’’یعنی حد سے اتنا تجاوز کرنا کہ ناپاک صورت ہو جائے۔ اور ایسا ہی بجائے احسان کے منکر کی صورت نکل آئے گی۔‘‘یہ احسان نہیں ہوگا یہ انسان پھر منکر بن جائے گا۔ ’’یعنی وہ صورت جس سے عقل اور کانشنس انکار کرتا ہے اور بجائے اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰىکے بغی بن جائے گا۔ یعنی وہ بے محل ہمدردی کا جوش ایک بری صورت پیدا کرے گا۔ اصل میں بغی اس بارش کو کہتے ہیں جو حد سے زیادہ برس جائے اور کھیتوں کو تباہ کردے اورحق واجب میں کمی رکھنے کو بغی کہتے ہیں اور یا حق واجب سے افزونی کرنا بھی بغی ہے۔‘‘ حق واجب سے کمی ہو جائے تو اس کو بھی بغی کہتے ہیں اور حق واجب سے زیادہ کرو تو بھی بغی کا لفظ استعمال ہو گا۔ ’’غرض ان تینوں میں سے جو محل پر صادر نہیں ہوگا وہی خراب سیرت ہو جائے گی۔ اسی لئے ان تینوں کے ساتھ موقع اور محل کی شرط لگا دی ہے۔ اس جگہ یاد رہے کہ مجرد عدل یا احسان یا ہمدردی ذی القربیٰ کو خلق نہیں کہہ سکتے بلکہ انسان میں یہ سب طبعی حالتیں اور طبعی قوتیں ہیں کہ جو بچوں میں بھی وجود عقل سے پہلے پائی جاتی ہیں مگر خلق کے لئے عقل شرط ہے اور نیز یہ شرط ہے کہ ہر ایک طبعی قوت محل اور موقعہ پر استعمال ہو۔
اور پھر احسان کے بارے میں اَور بھی ضروری ہدایتیں قرآن شریف میں ہیں اور سب الف لام کے ساتھ جو خاص کرنے کے لئے آتا ہے استعمال فرما کر موقع اور محل کی رعایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ353-355)یعنی یہ سارے خلق جو ہیں ان کو خاص طور پر معین کیا گیا ہے کہ یہ یہ خلق ہیں ان ان چیزوں کے لیے۔
پس مختلف رنگ میں مختلف مثالوں سے ان نیکیوں کے بجا لانے کی آپؑ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے۔ اس حوالے سے، نیکی کرنے کے حوالے سے، احسان کرنے کے حوالے سے اپنا ایک واقعہ بھی بیان فرماتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’احسان ایک نہایت عمدہ چیز ہے۔ اس سے انسان اپنے بڑے بڑے مخالفوں کو زیر کر لیتا ہے چنانچہ سیالکوٹ میں ایک شخص تھا جو کہ تمام لوگوں سے لڑائی رکھتا تھا اور کوئی ایسا آدمی نہ ملتا تھا جس سے اس کی صلح ہو۔ یہاں تک کہ اس کے بھائی اور عزیز و اقارب بھی اس سے تنگ آچکے تھے۔ اس سے میں نے بعض دفعہ معمولی سا سلوک کیا اور وہ اس کے بدلہ میں کبھی ہم سے برائی سے پیش نہ آتا بلکہ جب ملتا تو بڑے ادب سے گفتگو کرتا۔ اسی طرح ایک عرب ہمارے ہاں آیا اور وہ وہابیوں کا سخت مخالف تھا یہاں تک کہ جب اس کے سامنے وہابیوں کا ذکر بھی کیا جاتاتو گالیوں پر اتر آتا۔ اس نے یہاں آکر بھی سخت گالیاں دینی شروع کیں اور وہابیوں کو برا بھلا کہنے لگا۔ ہم نے اس کی کچھ پروا نہ کرکے اس کی خدمت خوب کی اور اچھی طرح سے اس کی دعوت کی اور ایک دن جبکہ وہ غصہ میں بھرا ہوا وہابیوں کو خوب گالیاں دے رہا تھا کسی شخص نے اس کو کہا کہ جس کے گھر تم مہمان ٹھہرے ہو وہ بھی تو وہابی ہے۔‘‘ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف اشارہ فرمایا۔ ’’اس پر وہ خاموش ہوگیا اور اس شخص کا۔‘‘ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ کہا تھا کہ یہ وہابی ہے اس شخص کا ’’مجھ کو وہابی کہنا غلط نہ تھا کیونکہ قرآن شریف کے بعد صحیح احادیث پر عمل کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ خیر وہ شخص چند دن کے بعد چلا گیا۔ اس کے بعد ایک دفعہ لاہور میں مجھ کو پھر ملا۔ اگرچہ وہ وہابیوں کی صورت دیکھنے کا بھی روادارنہ تھا مگر چونکہ اس کی تواضع اچھی طرح سے کی تھی اس لئے اس کا وہ تمام جوش و خروش دب گیا اور وہ بڑی مہربانی اور پیار سے مجھ کو ملا۔ چنانچہ بڑے اصرار کیساتھ مجھ کو ساتھ لے گیا اور ایک چھوٹی سی مسجد میں جس کا وہ امام مقرر ہوا تھا مجھ کو بٹھلایا اور خود نوکروں کی طرح پنکھا کرنے لگا اور بہت خوشامد کرنے لگا کہ کچھ چائے وغیرہ پی کر جاویں۔ پس دیکھو کہ احسان کس قدر دلوں کو مسخر کر لیتاہے۔‘‘
(ملفوظات جلد9صفحہ302 ایڈیشن1984ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’اخلاق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو آج کل کے نو تعلیم یافتہ پیش کرتے ہیں کہ ملاقات وغیرہ میں زبان سے چاپلوسی اور مداہنہ سے پیش آتے ہیں۔‘‘ چاپلوسی کرنے ہاں جی ،جی حضوری کرلی ’’اور دلوں میں نفاق اور کینہ بھرا ہوا ہوتا ہے۔ یہ اخلاق قرآن شریف کے خلاف ہیں۔ دوسری قسم اخلاق کی یہ ہے کہ سچی ہمدردی کرے۔ دل میں نفاق نہ ہو اور چاپلوسی اور مداہنہ وغیرہ سے کام نہ لے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَآءِ ذِي الْقُرْبٰى (النحل:91) تو یہ کامل طریق ہے اور ہر ایک کامل طریق اور ہدایت خدا کے کلام میں موجود ہے۔ جو اس سے روگردانی کرتے ہیں وہ اور جگہ ہدایت نہیں پا سکتے۔ اچھی تعلیم اپنی اثر اندازی کے لئے دل کی پاکیزگی چاہتی ہے۔ جو لوگ اس سے دور ہیں اگر عمیق نظر سے ان کو دیکھو گے تو ان میں ضرور گند نظر آئے گا۔ زندگی کا اعتبار نہیں ہے۔ نماز، صدق و صفا میں ترقی کرو۔‘‘(ملفوظات جلد6صفحہ200)آپؑ نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ نماز اور صدق و صفا میں ترقی کرو۔ عبادتوں میں اور سچائی میں اور پاکیزگی میں ترقی کرو۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں۔
میں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرے کو محدود نہ کرو اور ہمدردی کے لیے اس تعلیم کی پیروی کرو جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے
یعنی اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَآءِ ذِي الْقُرْبٰى(النحل:91) یعنی اوّل نیکی کرنے میں تم عدل کو ملحوظ رکھو۔ جو شخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرو اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس سے بھی بڑھ کر اس سے سلوک کرو۔ یہ احسان ہے۔ احسان کا درجہ اگرچہ عدل سے بڑھا ہوا ہے اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے کہ احسان والا اپنا احسان جتلا دے مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے کہ جو محبت ذاتی کے رنگ میں ہو۔ جس میں احسان نمائی کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا جیسے ماں اپنے بچے کی پرورش کرتی ہے وہ اس پرورش میں کسی اجر اور صلہ کی خواستگار نہیں ہوتی بلکہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لیے اپنے سارے سکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے۔ فرمایا پس اگر بادشاہ بھی اس کو کہے کہ تم اس کو دودھ نہ پلاؤ تو وہ بادشاہ کو برا بھلا کہے گی۔ فرمایا کہ پس اس طریق پر نیکی ہو کہ اسے طبعی مرتبہ تک پہنچایا جاوے کیونکہ جب کوئی شے ترقی کرتے کرتے اپنے طبعی کمال تک پہنچ جاتی ہے اس وقت وہ کامل ہوتی ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد7صفحہ382-383 ایڈیشن1984ء)
آپؑ فرماتے ہیں :’’خدا حکم فرماتا ہے کہ تمام دنیا کے ساتھ تم عدل کرو یعنی جس قدر حق ہے اسی قدر لو اور انصاف سے بنی نوع کے ساتھ پیش آؤ۔ اور اس سے بڑھ کر یہ حکم ہے کہ تم بنی نوع سے احسان کرو یعنی وہ سلوک کرو جس سلوک کا کرنا تم پر فرض نہیں محض مروّت ہے۔ مگر چونکہ احسان میں بھی ایک عیب مخفی ہے کہ صاحبِ احسان کبھی ناراض ہوکر اپنے احسان کو یاد بھی دلادیتا ہے۔ اس لئے اِس آیت کے آخر میں فرمایا کہ کامل نیکی یہ ہے کہ تم اپنے بنی نوع سے اِس طور سے نیکی کرو کہ جیسے ماں اپنے بچہ سے نیکی کرتی ہے کیونکہ وہ نیکی محض طبعی جوش سے ہوتی ہے نہ کسی پاداش کی غرض سے۔ یہ دِل میں ارادہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ بچہ اس نیکی کے مقابل مجھے بھی کچھ عنایت کرے۔ پس وہ نیکی جو بنی نوع سے کی جاتی ہے کامل درجہ اس کا یہ تیسرا درجہ ہے جس کو اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰىکے لفظ سے بیان فرمایا گیا ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ388)
پس نیکی صرف اپنوں سے نہیں بلکہ ہر ایک سے نیکی اور بغیر اجر کے نیکی کرنے کا حکم ہے اور یہی وہ مقام ہے جس سے خدا تعالیٰ بھی ملتا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے حوالے سے بھی بیان ہوا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنی کتب میں اور اپنی مجالس میں اس حوالے سے بے انتہا تاکید فرمائی ہے اور اسلام کی خوبیوں میں سے ایک بہت بڑی خوبی جو کسی اَور مذہب کی تعلیم میں نہیں ہے یہ بیان فرمائی ہے۔
پس ہمارا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے معیار حاصل کرنے کے لیے بھی اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے بھی اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنی عبادت کے معیار بھی اعلیٰ رنگ میں حاصل کرنے والے ہوں۔ حقوق العباد ادا کرنے والے ہوں۔ خاص طور پر آپس میں پیار و محبت کے رشتے کو بھی اس طرح قائم کرنے والے ہوں کہ دنیا کے لیے ایک مثال بن جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق دیتے ہوئے حق بیعت ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آپؑ کے بیعت کے حق میں بھی یہ ’’ بنی نوع سے ہمدردی‘‘ شرط ہے۔ ہر جمعہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے ان الفاظ کو سن کر نیکیوں میں بڑھنے اور اپنی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دلانے والا ہو ورنہ ہم میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اور غیر میں ایک واضح فرق دکھا دے جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک جگہ بڑے درد سے اس کا اظہار فرمایا ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 9 صفحہ 252 ایڈیشن1984ء)
پاکستان کے حالات کے لیے بھی دعا کرتے رہیں۔
ہم نے تو نیکیاں پھیلانے کے لیے اپنا کام کرتے چلے جانا ہے اور شیطانی فطرت لوگوں نے اپنے ظلم جو اُن کا کام ہے وہ دکھاتے رہنا ہے۔ ہمارا تو ان شیطانوں سے اس شیطانی کی حالت میں مقابلہ کوئی نہیں۔ ہمیں تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے والے ہوں۔
ہمیشہ یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو سلامت رکھے اور کبھی ہمارے ایمان متزلزل نہ ہوں۔
اللہ تعالیٰ سے ہمارا وہ تعلق پیدا ہو جائے جو اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰى کا تعلق ہے۔ پھر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے بھی پہلے سے بڑھ کر دیکھیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور جو دشمن ہیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں اور ناقابل اصلاح ہیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں اللہ تعالیٰ انہیں خود تباہ کرے اور ان شاء اللہ جب ایسی صورت ہوگی اور جب ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو گا تو دشمن کی تباہی کے نظارے بھی ہم دیکھیں گے۔
٭…٭…٭