انسان کا محبوب و معبود اور مطلوب اللہ تعالیٰ ہی ہونا چاہیے
دیکھو! اللہ تعالیٰ نے اِیَّاکَ نَعۡبُدُکی تعلیم دی ہے۔ اب ممکن تھا کہ انسان اپنی قوت پر بھروسہ کر لیتا اور خدا سے دُور ہو جاتا۔ اس لئے ساتھ ہی اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی تعلیم دے دی کہ یہ مت سمجھو کہ یہ عبادت جو مَیں کرتا ہوں اپنی قوت اور طاقت سے کرتا ہوں، ہرگز نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی استعانت جب تک نہ ہو اور خود وہ پاک ذات جب تک توفیق اور طاقت نہ دے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اور پھر اِیَّاکَ اَعۡبُدُیا اِیَّاکَ اَسۡتَعِیۡنُ نہیں کہا۔ اس لیے کہ اس میں نفس کے تقدم کی بُو آتی تھی اور یہ تقویٰ کے خلاف ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۲۲، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
استعانت کے متعلق یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔ اور اسی پر قرآن کریم نے زور دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ (الفاتحہ:۵) پہلے صفاتِ الٰہی ربّ، رحمٰن، رحیم، مالک یوم الدین کا اظہار فرمایا۔ پھر سکھایا اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ۔ یعنی عبادت بھی تیری کرتے ہیں اور استمداد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل حق استمداد کا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ کسی انسان حیوان، چرندپرند غرضیکہ کسی مخلوق کے لیے نہ آسمان پر نہ زمین پر یہ حق نہیں ہے مگر ہاں دوسرے درجہ پر ظلی طور سے یہ حق اہل اللہ اور مردانِ خدا کو دیا گیا ہے۔ ہم کو نہیں چاہیے کہ کوئی بات اپنی طرف سے بنالیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے اندر اندر رہنا چاہیے۔ اسی کا نام صراط مستقیم ہے۔ اور یہ امر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سے بھی بخوبی سمجھ میں آسکتا ہے۔ اس کے پہلے حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا محبوب و معبود اور مطلوب اللہ تعالیٰ ہی ہونا چاہیے اور دوسرے حصے سے رسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت کا اظہار ہے۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۵۳-۵۴، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)