حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ کی یورپ میں بسنے والی احمدی خواتین کو کار آمد نصائح
ہم خدا کا قرب کیسے پاسکتے ہیں ؟
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُ ۣۙالَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَالۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ(الملک:۲-۳) ترجمہ: بہت برکت والا ہے وہ خدا جس کے قبضہ میں بادشاہت ہے اور وہ ہر ایک ارادہ کے پورا کرنے پر قادر ہے۔ اس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون زیادہ اچھا عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ غالب اور بہت بخشنے والا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نظام کائنات کی غرض کو بیان فرماتا ہے کہ اس کائنات میں موت اور زندگی کا سلسلہ اس لیے جاری فرمایا کہ معلوم ہو کہ کون اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مزہ اٹھاتے ہوئے صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرتا ہے اور کون اس راستہ پر نہیں چلتاجو اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہےاس کا شکر گزار بندہ نہیں بنتا۔
اس مضمون کو سورۃ الکہف میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔ ( الکہف:۸) ہم نے دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں پیدا کر کے انسان کو اس میں مقرر کیا تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ انسانوں میں سےکون زیادہ خوبصورت عمل کرتا ہے۔ یعنی کون کس قدر خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر بڑے فضل کیے ہیں۔ آپ کو احمدی جماعت میں پیدا کیا یا احمدیت کی نعمت کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ظاہری لحاظ سےبہت فضل کیا اور دنیاوی نعمتوں کی فراوانی عطا کی۔ لیکن خدا تعالیٰ کا پیار وہی حاصل کرے گا جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی دی ہوئی قوتوں کواور اس کی دی ہوئی نعمتوں کو خرچ کرے گا زیادہ سے زیادہ قربانی دے گا۔
ہماری قربانیوں کا معیار کیا ہونا چاہیے؟
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قربانی کا معیار کیا ہے جس پر ایک احمدی کو پورا اترنا چاہیے؟ تو میری پیاری بہنو! اللہ تعالیٰ نے قربانی کا معیار خود قرآن مجید میں بیان فرما یا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ توبہ میں فرماتا ہے: قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَاَبۡنَآؤُکُمۡ وَاِخۡوَانُکُمۡ وَاَزۡوَاجُکُمۡ وَعَشِیۡرَتُکُمۡ وَاَمۡوَالُ ۣاقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَتِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَجِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَاللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ۔(التوبہ:۲۴)ترجمہ: کہہ دے اگر تمہارے ماں باپ اور اولاد اور بھائی بہنیں اور میاں بیوی یا تمہاری برادری اور وہ مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے خراب ہونے سے تم ڈرتے ہو اور رہائش کی جگہیں یا وطن جن کو تم پسند کرتے ہو خدا اور اس کے رسول اور دین کے لیے کوشش کرنے کی نسبت تم کو زیادہ پسند ہیں تو تم اس وقت تک انتظار کرو جب تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے متعلق کو ئی فیصلہ کر لے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں۔
یہ آیت پیمانہ ہے یا کسوٹی ہے جاننے کے لیے کہ اس کی قربانیوں کا معیار کیا ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں خود ماں باپ کی عزت کرنے اور ان کی خدمت کرنے کی تاکید فرماتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت قرار دی ہے۔ بھائی بہنوں سے محبت اور ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم ہے۔ خاوند کو بیوی سے نیک سلوک کرنے کا اور بیوی کو خاوند کے حقوق ادا کرنے کا حکم ہے۔ اولاد کی عزت کرنے اور ان کی اعلیٰ تربیت کرنے اور ان کا ہر لحاظ سے خیال رکھنے کا حکم ہے۔ روپیہ کمانے سے منع نہیں کیا۔ مکان بنانے سے منع نہیں کیا۔ ہماری جماعت کو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ وسع مکانککا حکم ہے۔ اس لیے مکانوں میں وسعت دو تاکہ مہمان ٹھہریں۔ ہر محبت اپنی جگہ ہے۔ خدا سے خدا کی شان کے مطابق محبت کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رسول کی شان کے مطابق، دین سے اس کی اہمیت کے مطابق، والدین سے ان کے درجہ کے مطابق، اولاد سے اس کے تعلق کے مطابق غرضیکہ ہر ایک کے درجہ کو مد نظر رکھا جائے اور کہیں بھی ان مذکورہ بالا کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اس کی راہ میں کوشش اور قربانی کرنے سے نہ ٹکرائے۔ اگر کہیں ان کی محبتیں خدا تعالیٰ کی محبت سے ٹکراتی ہیں اور اس کی راہ میں قربانی دینے میں حائل ہوتی ہیں تو پھر ان محبتوں کو قربان کرنا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو ترجیح دینی ہو گی۔
اپنے فرائض سے کبھی غافل نہ ہوں
آپ سب اس معیار کو اپنے سامنے رکھیں آپ میں سے اکثریت پاکستان سے آکر یہاں آباد ہوئی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے رزق کے دروازے کھولے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے مال میں برکت ڈالے مگرآپ اس بات کا جائزہ لیتی رہیں کہ اتنی دور آکر آپ اپنے فرائض سے غافل تو نہیں ہو رہی ہیں۔ ایک احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے سب سے بڑا فرض تو آپ کا یہ ہے کہ جہاں آپ عبادت کے لیے اللہ تعالیٰ سے کبھی غافل نہ ہوں یعنی آپ کا دنیا کمانا، اس ملک میں نوکری کرنا آپ کو ان فرائض سے غافل نہ کر دے جو بحیثیت مسلمان آپ پر فرض ہیں۔ نماز، ذکر الٰہی وغیرہ اس میں غفلت نہ ہو وہاں آپ کا ظاہر بھی مسلمان ہی نظر آئے۔ آپ یہاں کے رہنے والوں کے طور طریق سیکھ کر ایسی شکل نہ اختیار کر لیں جو ایک مسلمان عورت کا طریق نہیں۔ پھر اس ملک میں رہتے ہوئے آپ پر یہ بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ اس بات کی نگرانی رکھیں کہ آپ اور آپ کے خاوند صحیح طور پر جماعت کی خدمت کر رہے ہیں یا نہیں۔ آپ کا مالی قربانی کا معیار آپ کے وقت کی قربانی کا معیار وہی ہے جو ہونا چاہیے۔ آپ کی یہ بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس ملک میں رہتے ہوئے اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا۔(التحریم:۷) اے مومنو! اپنے آپ کو اور اپنی بیویوں اور بچوں کو ہلاکت سے بچاؤ۔
ہر وقت نظر رکھیں کہ آپ کے بیٹے اور بیٹیاں بگڑ تو نہیں رہیں۔ مغربی دنیا کی بظاہر جگمگاتی لیکن اندر سے اندھیری دنیا کو دیکھ کر سب سے بڑی غلطی تو ماں باپ یہ کرتے ہیں کہ بچوں کو سکولوں میں بھجوا کر غافل ہو جاتے ہیں۔ اپنی زبان نہیں سکھاتے جب تک آپ جس ملک میں رہیں گے آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس کی زبان سیکھیں تا یہاں کے رہنے والوں پر اپنا نقطۂ نظر واضح کر سکیں۔ مگر اپنی زبان ہر حال میں سکھانی چاہیے ورنہ مرکز سے تعلق قائم نہیں رہ سکتا۔ ہمارا با برکت لٹریچر اردو میں ہے، اردو نہیں آئے گی تو بڑے ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر، سلسلہ کے اخبار نہیں پڑھ سکیں گے۔
اپنی اقدارکی حفاظت کریں
ان مغربی ممالک میں جو آزادی ہے جس نے اخلاقی اقدار کو ختم کر کے رکھ دیا ہے اس سے خود بچنا اور اپنی نسل کو بچانا آپ کا فرض ہے۔ جب تک دین کی محبت ان کے دلوں میں پیدا نہیں کریں گے غلط اور صحیح کا تصور ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہو گا۔ وہ پھر یہاں کے رنگ میں رچتےجائیں گے جو روحانی طور پر گندگیاں یہاں پھیلی ہوئی ہیں ان سے بچنا اور اپنے گھروں کا پاکیزہ ماحول پیدا کرنا آپ کا کام ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: کلکم راعٍ و کلکم مسؤل عن رعیتہٖ ( بخاری کتاب الجمعہ ) تم میں سے ہر شخص ایک چرواہا ہے جس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اس حدیث کی رُو سے ہر ماں اپنے بچہ کے متعلق جوابدہ ہو گی۔
اس معاشرے میں اپنا تشخص قائم کریں
پس میری بہنو! اللہ تعالیٰ نے زندگی کی نعمت دی۔ مال دیا اولاد دی سب نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کرو تا اللہ تعالیٰ کی نظروں میں قابل قدر وجود گنے جاؤ۔ سب سے زیادہ اثر انسان کے اخلاق کا دوسروں پر پڑتا ہے۔ آپ کے اعلیٰ اخلاق، اعلیٰ نمونہ ہی غیر مسلموں اور غیر احمدیوں کو احمدیت کی طرف متوجہ کر سکتا ہے کہ ان کی زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر کیا انقلاب آیا۔ جب تک واضح طور پر آپ دوسروں سے ان کو نمایاں نظر نہیں آئیں گی آپ کی بات کا اثر بھی نہیں ہو گا۔ نیز بہت ضروری ہے کہ آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ جو آپ قرآن کی خوبیاں تعلیم اخلاق کے متعلق لوگوں کو بتائیں خود آپ اور آپ کی اولاد میں بھی توان کا پایا جانا ضروری ہے۔ اسلام چند عقائد کے مجموعہ کا نام نہیں۔ اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں ایک انسان کی پیدائش سے مرنے تک کی مکمل ہدایات موجود ہیں۔ ہر شعبہ زندگی کے متعلق راہ نمائی کی گئی ہے جو تعلیم اسلام نے ہر زندگی کے شعبہ کے لیے دی ہے وہ سب مذاہب کی تعلیم سے اعلیٰ اور افضل ہے اس سے واقف ہوں۔ قرآن پڑھیں ترجمہ سیکھیں۔ آپ کو علم ہو کہ آپ پر کیا ذمہ داریاں ہیں۔ آپ نے معاشرہ میں کیا کردار ادا کرنا ہے ۔کس کس بات کے کرنے کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ۔کس کس بات سے روکا گیا ہے۔ ہم دن میں کئی کئی بار خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں محض اس لیے کہ علم نہیں ہوتا۔ قرآن مجید کی تعلیم کے ساتھ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی، آپؐ کے احسانات، آپؐ کے اخلاق، آپؐ نے جو تعلیم دی، آپ ؐ کے ارشادات کا علم ہونا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن مجید کی تعلیم کو پھر سے دنیا میں پھیلانے اور اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر غالب کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ جس حد تک آپ کی لیاقت ہے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں۔ آپ کی کتب قرآن مجید کی تفسیر ہیں اور قرآن کی تفسیر سیکھنے کے لیے کتب کا پڑھنا ضروری ہے۔ پھر آپؑ کے خلفاء کا لٹریچر پڑھیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں۔ اس ملک میں رہتے ہوئے اگر اپنی اور اپنے بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت کا خیا ل نہ رکھا تو آپ کے وجود احمدیت کی ترقی میں روک ثابت ہوں گے۔ پھر آپ کی طرز زندگی، اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا سب کچھ قرآن کی تعلیم کے مطابق ہونا چاہیے۔ جو احکام ایک مسلمان عورت کے متعلق اسلام نے دیے ہیں ان پر عمل ہونا چاہئے۔(خطابات مریم جلد دوم صفحہ۳۷۳تا۳۷۷ مطبوعہ الفضل ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۸۳ء)
(مرسلہ: سیدہ منورہ سلطانہ۔ جرمنی)