حضرت مسیح موعودؑ کی آخری باتیں
(حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کا مضمون درج بالا عنوان کے تحت اخبار الحکم ۲۱؍مئی ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا اس کا خلاصہ اضافہ جات کے ساتھ الفضل ربوہ ۲۳؍مارچ ۲۰۱۶ء میں شاملِ اشاعت ہوا۔ اب مزید چند امور کے اضافہ کے ساتھ پیش ہے۔)
قادیان میں آخری وحی
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر۲۶؍اپریل ۱۹۰۸ء کو بوقت چار بجے صبح یہ وحی ہوئی جو آپ کی وفات پر دلالت کرتی تھی۔ مباش ایمن از بازئ روزگار ترجمہ:زمانے کے کھیل سے بےخوف نہ رہ ۔اس کے بعد قادیان میں کوئی موقع نہ بنا کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہو۔اس لیے قادیان میں یہ آخری وحی تھی۔
سب سے آخری وحی
۱۷؍مئی کوحضور کو صبح الہام ہوا تھا کہ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ (میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں)۔یہ اس دن کا واقعہ ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور کی تعلیم یافتہ جماعت اور رؤسائے لاہور کو تبلیغ فرمانا چاہتے تھے۔ ۱۶؍مئی ۱۹۰۸ء کی رات کو آپ کی طبیعت ناساز ہوگئی اور۱۷؍کی صبح کو آپ میں طاقت نہ تھی کہ تقریر کر سکیں لیکن جب یہ الہام ہوا تو آپ وعدہ الٰہی کے موافق طاقت پا کر کھڑے ہوئے اور ایک زبردست تقریرفرمائی۔ لاہور میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر سب سے آخری کلام جو نازل فرمایا وہ ۲۰؍مئی ۱۹۰۸ء کوان الفاظ میں ہوا:اَلرّحِيْلُ ثُمَّ الرَّحِيْلُ وَالْمَوْتُ قَرِيْبٌ۔ترجمہ :یعنی کوچ کا وقت آگیا ہے ہاں کوچ کا وقت آگیا ہے اور موت قریب ہے۔ (تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ ۵۳۰)
آخری سفر
حضرت مسیح موعودؑ۲۷؍اپریل ۱۹۰۸ء کی صبح کو قادیان سے بٹالہ تشریف لے گئے۔ ریزرو گاڑی کے انتظار میں وہاں ایک روز قیام فرمایا۔ ۲۹؍اپریل ۱۹۰۸ء کو بٹالہ سے بذریعہ ریل امرتسر اور پھر لاہور تشریف لے گئے۔
آخری قیام
حضرت اقدس علیہ السلام اپنے اہل خانہ کے ساتھ احمد یہ بلڈنگز لاہور میں سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں رہائش پذیر ہوئے۔
آخری نظم جو سنی گئی
آخری نظم جو حضور کی خدمت اقدس میں پڑھی گئی وہ ۱۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو پڑھی گئی جو کہ ڈاکٹر احمد حسین صاحب لائلپوری کی تھی۔ اس کے بعد کوئی نظم آپ کے حضور نہیں سنائی گئی۔ اس نظم کے دو شعر یہ ہیں:
یا ربی قادیاں میں میرا مزار ہووے
اور میرا ذرہ ذرہ اس پر نثار ہووے
آیا ہے تو مسیحا چودہ صدی کے سر پر
آمد پہ کیوں نہ تیرے فصل و بہار ہووے
اندرون خانه آخری تقریر
۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو بعد نماز عصر چند ہندو مستورات آئیں کہ ہم مہاراج کے درشن کے واسطے آئے ہیں۔ حضور کی خدمت میں اطلاع کی گئی۔ چنانچہ آپ نے نہایت لطف و مہربانی سے ان کو اجازت دی اور وہ گھر میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور حضور نے ان کو وعظ بھی فرمایا جو کہ الحکم ۶؍ جون ۱۹۰۸ء (ڈائری) میں درج ہے۔
آخری تقریر بیرون
۲۵؍مئی کوبعد نمازِ عصر کو حضور علیہ السلام اپنے خدام میں تشریف فرما تھے۔ حضورؑ نے حیات مسیح کے رد میں مفصل تقریر فرمائی۔ اس تقریر کے وقت رعب، ہیبت اور جلال اپنے کمال عروج پر تھا۔ تقریر کے آخر پر فرمایا کہ ’’عیسیٰ کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے۔ ایسا ہی عیسیٰ موسوی کے بجائے عیسیٰ محمدی آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد۲صفحہ نمبر۵۳۲)
آخری پبلک لیکچر
۱۷؍مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعودؑ نے ایک پبلک لیکچر کے ذریعہ رؤسائے لاہور کو تبلیغ کی،اس جلسہ دعوت میں لاہور کے بڑے بڑے رؤساء، امراء، وکلاء، بیرسٹر اور اخبار کے ایڈیٹر مدعو تھے جن میں سے اکثر غیر احمدی تھے۔ حضرت اقدسؑ کی بے نظیر تقریر سے وہ بہت متاثر ہوئے۔(تاریخ احمدیت جلد۲صفحہ ۵۳۰)
قادیان میں آخری کتاب
آریہ سماج نے اپنی مذہبی کا نفر نس میں اسلام اور آنحضرتﷺ اور قرآن کریم پر ناپاک حملے کیے تھے۔ اور گو آریہ سماج نے جب اس کا نفر نس کے مضامین شائع کیے تو اس میں سے قابل اعتراض حصّے حذف کر دئیے۔ مگر جن گندی باتوں کو ہزاروں افراد نے سنا ان کا ازالہ کرنا ازبس ضروری تھا۔ لہٰذا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے شروع جنوری ۱۹۰۸ء میں ہی اس کے جواب میں ’’چشمہ معرفت‘‘کے نام سے ایک مبسوط اور جامع کتاب تالیف فرما دی جو ۱۵؍مئی ۱۹۰۸ء کو شائع ہوئی۔ یہ کتاب اپنے نام کی طرح معرفت کا ایسا پاک چشمہ ہے جس سے اسلام کی خوبیاں اور کمالات بحر مواج کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۵۱۳)
آخری مضمون
ہندوستان کے دو بڑے مذاہب ہندوازم اور اسلام میں مصالحت کرانے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی زندگی کے آخری دو تین ایام میں پیغام صلح کے نام سے مضمون لکھنا شروع فرمایا۔ اور ۲۵؍ مئی ۱۹۰۸ء کی شام کو مضمون ختم کیا۔
حضور کا یہ آخری مقدس پیغام
عوام تک پہنچانے کے لیے۲۱؍جون ۱۹۰۸ء کو پنجاب یونیورسٹی ہال لاہور میں رائے پرتول چندر صاحب جج چیف کورٹ کی زیر صدارت ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں خواجہ کمال الدین نے ’’پیغام صلح‘‘کا مضمون نہایت بلند آواز اور مؤثر لہجے میں پڑھا جسے حاضرین نے بہت سراہا۔ اندرون ملک میں ’’پیغام صلح‘‘کی مقبولیت اور پسندیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود ہندوؤں نے اس کی تائید کی اور اس پر عمدہ رائے کا اظہار کیا۔(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ نمبر۵۳۶)
آخری تحریر
۲۶؍مئی کو آخری لمحات میں قلم دوات منگوا کر بمشکل چند الفاظ لکھے اور بوجہ ضعف کے کاغذ کے اوپر قلم گھسٹتا ہوا چلا گیا اور حضور پھر لیٹ گئے۔ حنائی رنگ کے کاغذ پر حضور اقدسؑ نے لکھا:تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی کوئی دوا دی جائے…(تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ ۵۴۲)
آخری مکتوب
حضرت اقدسؑ آخری وقت تک اخبار عام کے خریدار رہے اور حضورؑ کا آخری خط بھی اسی اخبار میں شائع ہوا۔
اخبار عام ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء نے حضورؑ کے پبلک لیکچر کی خبر دیتے ہوئے یہ غلط رپورٹ شائع کی کہ گویا حضور نے جلسہ میں اپنی نبوت سے انکار کیا ہے جس پر حضورؑ نے اسی دن ایڈیٹر صاحب اخبار عام کو ایک مفصل تردیدی خط لکھا۔ اس خط میں آپ نے بڑی وضاحت سے اپنے دعوئ نبوت کی بابت روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں۔(تاریخ احمدیت جلد۲صفحہ ۵۳۱۔۵۳۲)
آخری نماز
فجر کی آخری نماز تھی جو آپ نے ادا کی۔ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کی صبح فجر کے وقت پوچھا کہ کیا صبح ہوگئی؟ جواب ملنے پر نماز فجر کی نیت باندھی اور نماز ادا کی۔
آخری الفاظ
وہ الفاظ جن پر حضرت مسیح موعودؑ اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے یہ تھے۔اے میرے پیارے ! اے میرے پیارے! اے میرے پیارے اللہ! اے میرے پیارے الله!( ما خذ ازالحكم ۲۱؍مئی ۱۹۳۴ء )
بعض بیرونی مہمانوں سے آخری ملاقاتیں
قادیان میں : ۱۷؍اپریل ۱۹۰۸ء کو شکاگو کے ایک سیاح مسٹر جارج ٹرنر اپنی لیڈی مس باردون اور ایک سکاچ مین مسٹر بانسر نے حضرت اقدس ؑسے ملاقات کی۔
لا ہور میں : ۲؍مئی ۱۹۰۸ء کو مسٹر محمد علی جعفری ایم اے وائس پرنسپل اسلامیہ کالج بھی ملاقات کے لیے آئے۔ حضورؑ نے ایک لمبی تقریر فرمائی جو الحکم ۱۸؍ مئی ۱۹۰۸ء کے بڑے سائز کے نو کالموں میں شائع ہوئی۔
اسی روز بعد نمازِ عصر احمد شاہ ابدالی کی نسل سے ایک شخص شہزادہ محمد ابراہیم خان صاحب حضورؑ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ حضورؑ نے انہیں فارسی زبان میں تبلیغ فرمائی۔ (تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ ۵۲۷) حضور ؑنے جو تقریر فرمائی وہ الحکم ۱۴؍ مئی ۱۹۰۸ء میں قریباً چودہ کالموں میں شائع ہوئی۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ ’’ہم نے اپنی زندگی میں کوئی کام دنیوی نہیں رکھا۔ ہم قادیان میں ہوں یالاہور میں۔ جہاں ہوں ہمارے انفاس اللہ ہی کی راہ میں ہیں۔ معقولی رنگ میں اور معقولی طور سے تو اب ہم اپنے کام کوختم کر چکے ہیں۔ کوئی پہلو ایسا نہیں رہ گیا جس کو ہم نے پورا نہ کیا ہو۔ البتہ اب تو ہماری طرف سے دعا ئیں باقی ہیں‘‘۔
۱۲؍مئی ۱۹۰۸ ء کو ماہر ہیئت دان پروفیسر کلیمنٹ ریگ صاحب، ان کی اہلیہ اور مسٹر فضل حسین صاحب بیرسٹر ایٹ لاء مع ایک اور بیرسٹر نے ملاقات میں حضور علیہ السلام سے کئی سوالات کیے۔
۱۸؍ مئی کو پروفیسر صاحب دوبارہ حاضر ہوئے۔پروفیسر صاحب نے آپؑ سے بہت سے سوالات کیے اور آپؑ نے ان تمام سوالات کے نہایت لطیف، مسکت اور جامع جوابات دیے جنہیں سن کر مسٹر ریگ ازحد متاثر ہوئے اور حضورؑ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ’’مجھے اپنے سوالات کا جواب کافی اور تسلی بخش ملنے سے بہت خوشی ہوئی اور مجھے ہر طرح سے کامل اطمینان ہوگیا اور یہ اطمینان دلانا خدا کے نبی کے سوا کسی میں نہیں۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۵۲۸۔۵۲۹)
آخری دستی بیعت و آخری صحابی
حضرت میاں جہاں خان صاحب رضی اللہ عنہ آف اونچا مانگٹ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ نے لاہور میں دستی بیعت کی۔(تاریخ احمدیت جلد۲صفحہ ۵۳۳)
آخری سیر
۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء کو پیغام صلح مکمل کرنے کے بعد گھوڑا گاڑی پر چھ میل کی ہوا خوری کے لیے تشریف لے گئے۔
آخری تحریک
ستمبر ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے سامنے وقف زندگی کی پُر زور تحریک فرمائی۔ یہ وقفِ زندگی کی پہلی منظم تحریک تھی جس کے لیے آپ نے از خود شرائط لکھوائیں۔ (تاریخ احمدیت جلد ۲صفحہ ۴۹۹)
آخری جلسه سالانہ
۲۷؍دسمبر ۱۹۰۷ءکو حضور ؑنے سورۃ الفاتحہ کے مضامین پر تقریر فرمائی۔ ۲۸؍دسمبر کو گذشتہ تقریر مکمل فرمائی اور نصائح فرمائیں۔
اولاد کا آخری نکاح
آپؑ کے حینِ حیات لڑکوں میں ۱۵؍نومبر۱۹۰۶ء کو نئے مہمان خانے کے صحن میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے نکاح کی مبارک تقریب عمل میں آئی۔ حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب ؓنے ایک ہزار روپیہ مہر پر نکاح پڑھا۔ شادی ۹؍مئی ۱۹۰۹ءکو جبکہ ولیمہ اگلے روز۱۰؍مئی کو ہوا۔
لڑکیوں میں ۱۷؍ فروری ۱۹۰۸ء کو حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓکا نکاح حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ رئیس مالیر کوٹلہ سے چھپن ہزار روپے مہر پر مسجد اقصیٰ میں حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب ؓ نے پڑھا۔ رخصتانہ ۱۴؍مارچ کو جبکہ دعوتِ ولیمہ ۱۵؍مارچ کو منعقد ہوئی۔
آخری سوانح از سیرت المہدی
سیرت المہدی کی روایات میں سے ایسے امور درج ذیل ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کی حیاتِ مبارک کے آخری سوانح قرار دیے جا سکتے ہیں۔
٭…آخری عمر میں بوجہ کمزوری کے عموماً بیٹھ کر نماز تہجد ادا کر تے تھے۔(روایت نمبر ۳)
٭…( وفات سے قبل) آپؑ نے بستر پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کیا اور لیٹے لیٹے ہی نماز شروع کر دی۔ (روایت نمبر ۱۲)
٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر کا کام آخری زمانہ میں ٹیڑھے نب سے کیا کرتے تھے اور بغیر خطوط کا سفید کاغذ استعمال فرماتے تھے۔ (روایت نمبر ۲۳)
٭…آخری ایام میں جتناروپیہ آتا تھا اس کا دسواں حصہ صدقے کے لیے الگ کردیتے تھے اور اس میں سے دیتے رہتے تھے۔(روایت نمبر ۵۳)
٭…حضرت مسیح موعودؑروزانہ اخبار عام لاہور منگواتے اور باقاعدہ پڑھتے تھے۔اس کے علاوہ آخری ایام میں اور کوئی اخبار خود نہیں منگواتے تھے۔ہاں کبھی کوئی بھیج دیتا تھا تو وہ بھی پڑھ لیتے تھے۔(روایت نمبر ۵۶)
٭…پہلے لنگر کا انتظام گھر میںہوتا تھا اور گھر سے سارا کھانا پک کر جاتا تھا مگر جب آخری سالوںمیںزیادہ کام ہو گیاتو حضرت اماں جانؓ نے کہہ کر باہر انتظام کروا دیا۔(روایت نمبر ۵۷)
٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درمیانہ قد تھا۔رنگ گندمی تھا چہرہ بھاری تھا،بال سیدھے اور ملائم تھے۔ہاتھ پاؤں بھرے بھرے تھے۔آخری عمر میں بدن کچھ بھاری ہو گیا تھا۔(روایت نمبر ۷۲)
٭…وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادافرماتے رہے۔ (روایت نمبر ۸۱)
٭…اوائل میں اور بعض اوقات آخری ایام میں بھی جب حضرت صاحب کی طبیعت اچھی ہوتی تھی جمعہ بڑی مسجد میں ہوتا تھا جس کوعموماً لوگ مسجد اقصیٰ کہتے ہیں۔ (روایت نمبر ۱۵۵)
٭…روانگی سے قبل حضرت اقدس علیہ السلام نے وہ حجرہ بند کیا جس میں آخری عمر میں حضور تصنیف فرمایا کرتے تھے۔ حضورؑ نے یہ حجرہ بند کرتے ہوئے کسی کو مخاطب کرنے کے بغیر فرمایا کہ ’’اب ہم اس کو نہیں کھولیں گے۔‘‘(روایت نمبر ۲۶۲)
٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات سے قبل سالہاسال اسہال کا عارضہ رہا تھا۔چنانچہ حضور اسی مرض میں فوت ہوئے۔ بار ہا دیکھا کہ حضورؑ کو دست آنے کے بعد ایسا ضعف ہوتا تھا کہ حضور فوراً دودھ کا گلاس منگوا کر پیتے تھے۔ (روایت نمبر ۳۷۹)
٭…حضرت مسیح موعود ؑآخری ایام میں ہمیشہ امام کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔(روایت نمبر ۴۲۹)
٭…آخری سالوں میں حضورؑ عموماً ایک سالم سیکنڈ کلاس کمرہ اپنے لیے ریزرو کر والیا کرتے تھے اور اس میں حضرت بیوی صاحبہ اور بچوں کے ساتھ سفر فرماتے تھے۔ اور حضور ؑ کے اصحاب دوسری گاڑی میں بیٹھتے تھے۔مگر مختلف سٹیشنوں میں اتر اتر کر وہ حضور ؑسے ملتے رہتے تھے۔(روایت نمبر ۴۳۰)
٭…آخری ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر کے وقت عموماً ہر سٹیشن پر سینکڑوں ہزاروں زائرین کا مجمع ہوتا تھا اور ہر مذہب اور ملت کے لوگ بڑی کثرت کے ساتھ حضور کو دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتے تھے۔اور مخالف و موافق ہر قسم کے لوگوں کا مجمع ہوتا تھا۔ (روایت نمبر ۴۳۰)
٭…آخری ایّام کے کچھ سالوں میں آپ کے پاس کپڑے سادے اور سلے سلائے بطور تحفہ کے بہت آتے تھے۔ (روایت نمبر ۴۴۷)
٭…مکی کی روٹی بہت مدت آپؑ نے آخری عمر میں استعمال فرمائی۔کیونکہ آخری سات آٹھ سال سے آپ کو دستوں کی بیماری ہو گئی تھی اور ہضم کی طاقت کم ہو گئی تھی۔ (روایت نمبر ۴۴۷)
٭…مشک ہمیشہ نہایت اعلیٰ قسم کا منگوایا کرتے تھے۔یہ مشک خریدنے کی ڈیوٹی آخری ایام میںحکیم محمد حسین صاحب لاہوری موجد مفرح عنبری کے سپرد تھی۔ (روایت نمبر ۴۴۷)
٭…حضرت صاحبؑ کے آخری ایام میں میر مہدی حسین صاحب حضرت صاحب کے کتب خانہ کے مہتمم ہوتے تھے۔ (روایت نمبر ۴۵۰)
٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام میں نماز جمعہ دو جگہ ہوتی تھی ایک مسجد مبارک میں جس میں حضرت صاحبؑ خود شریک ہوتے تھے اور امام الصلوٰۃ مولوی سیّد محمد احسن صاحب یا مولوی سیّد سرور شاہ صاحب ہوتے تھےاور دوسرے مسجد اقصیٰ میں جس میں حضرت خلیفہ اولؓ امام ہوتے تھے۔(روایت نمبر ۶۱۸)
٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری سفر میں لاہور جانے لگے تو اس وقت بھائی شیر محمد صاحب کی دکان (متصل مدرسہ احمدیہ) کے پاس ایک الہام اپنی موت کے متعلق سُنایا۔(روایت نمبر ۷۱۰)
٭… حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ
حضور کا یہ ادنیٰ ترین غلام بھی حسب معمول حضور کے ہمرکاب آخری دن کی سیر تک ہمرکابی کی عزت پاتا رہا ۔ (سیرت المہدی جلد ۲ صفحہ۳۸۵)
٭…آخری دن حضورؑ نے سیر کے لیے تشریف لے جاتے ہوئے مجھ سے فرمایا: ’’گاڑی بان سے کہہ دو کہ اتنی دور لے جائے کہ جانے آنے میں ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ لگے۔کیونکہ آج ہمارے پاس اتنے ہی پیسے ہیں۔‘‘(سیرت المہدی جلد ۲ صفحہ ۳۹۷)
٭…آخری دن یعنی ۲۵؍مئی۱۹۰۸ء کو جب حضورؑ سیر کے واسطے تشریف لائے تو خلاف معمول حضور خاموش اور اداس تھے۔ نیز کوفت اور تَھکان کی علامات حضور کے چہرہ پر نمایاں نظر آتے تھے اور ساری ہی سیر میں حضور ایسی حالت میںتشریف فرما رہےگویا کسی دوسرے عالم میں ہیں۔(سیرت المہدی جلد ۲ صفحہ ۴۰۱)
٭…حضورؑ خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں رہتے تھے اور کم و بیش قیام لاہور کا نصف عرصہ حضورؑ وہیں مقیم رہے۔ اس کے بعد اس مکان کو چھوڑ کر ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کے بالائی حصہ میں تشریف لے گئے اور آخری دن تک وہیں رہے۔(سیرت المہدی جلد ۲ صفحہ ۴۰۲)
٭…پانچ چھ روز قبل وصال الرحیل ثم الرحیل والموت قریب کی وحی حضورؑ پر نازل ہوئی تو سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان سے متاثر ہو کر گھبرا کر حضرت کے حضور عرض کی کہ چلو واپس قادیان چلیں۔مگر حضور نے یہی جواب دیاکہ اب تو جب خدا لے جائے گا چلیں گے ہمارا اپنا اختیار کچھ نہیں ہے۔ (سیرت المہدی جلد ۲ صفحہ۴۰۵)
الحمدللہ ’’حضرت مسیح موعودؑ کی آخری باتیں‘‘ مضمون بہت رنگ میں تربیت دیاگیاہے۔مضمون کے ذیلی عناوین جیسے قادیان میں آخری وحی،سب سے آخری وحی،آخری سفر،آخری قیام،آخری تحریک،اولاد کا آخری نکاح،آخری سوانح از سیرت المہدی بہت ایمان افروزہیں۔ اس مضمون کے مطالعہ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے عشق ومحبت میں مزیداضافہ ہوتاہے۔
مضمون نگار مکرم ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون کو اللہ تعالیٰ اجرعظیم عطافرمائے۔اورعلم وتحریرمیں برکت عطافرمائے۔آمین