خلیفۃ الرسول کا انتخاب بھی خدا ہی کرتا ہے! لیکن کیسے؟
بعض لوگ سوال کیا کرتے ہیں کہ خلافت لوگوں کے انتخاب سے قائم ہوتی رہی ہےتو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے،نہ کہ لوگ یا انجمن؟
٭…اللہ تعالیٰ نےانسانیت کے متعلق اپنا دائمی قانون بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وَمَا جَعَلْنَاھُمْ جَسَدًا لَا یَأْکُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوا خَالِدِینَ(الانبیاء:۹) اور ہم نے انہىں اىسا جسم نہىں بناىا تھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور وہ ہمىشہ رہنے والے نہىں تھے۔
٭…چونکہ کسی نبی اور رسول کے لیے جسمانی طور پر دائمی زندگی نہیں ہے۔ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ (الانبياء :۳۵) اور ہم نے کسى بشر کو تجھ سے پہلے ہمىشگى عطا نہىں کى پس اگر تُو مر جائے تو کىا وہ ہمىشہ رہنے والے ہوں گے۔
٭…تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیاانسانیت کے لیے ان پاکیزہ وجودوں کے ساتھ وابستہ برکات، ان کے ذریعہ ملنے والے افضال الٰہیہ بھی ان کی دنیا سے ظاہری رخصتی کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گے؟ نہیں۔ رَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ (الاَعراف :۱۵۷) مىرى رحمت وہ ہے کہ ہر چىز پرحاوى ہے۔
٭…چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ نے دائمی خلیفوں کا وعدہ دیا تا وہ ظلی طور پر انوار نبوت پا کر دنیا کو ملزم کر یں اور قرآن کریم کی خوبیاں اور اس کی پاک برکات لوگوں کو دکھلاویں۔‘‘ (شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ٣۴٢)
خلیفہ خدا بناتا ہے مگر کس طرح؟
٭…اب کس قسم کے خلفاء کی ضرورت ہے اس بات کا حقیقی علم خدائے علیم کو ہے۔حضرت آدم کو خلیفۃ اللہ بنایاتواس خدا نے۔رسالت کی جانشین خلافت کا وعدہ کیا تو اس خدائے علیم نے۔قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہے کہ بعض اوقات جب اللہ تعالیٰ کسی واسطہ سے کام کرواتاہے اورپھراسے اپنی طرف منسوب کرتاہے تواس میں خدائی حکمت یہ ہوتی ہے کہ دنیاکویہ بات سمجھ آجائے کہ اگرچہ ظاہرمیں تمہیں کچھ نظرآرہاہے لیکن بباطن اس میں خدائی تصرف اورخدائی قوتیں کام کررہی ہیں۔
٭…غزوہ بدر کے موقع پربظاہر رسول اللہﷺکی مٹھی نے دشمن کی طرف کنکریاں پھینکیں،مگرخداتعالیٰ نے فرمایا:مَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔(الانفال:۱۸) (اے محمد!) جب تُو نے (ان کى طرف کنکر) پھىنکے تو تُو نے نہىں پھىنکے بلکہ اللہ ہے جس نے پھىنکے۔
٭…صلح حدیبیہ میں بوقت بیعت رضوان ظاہراً رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ تھا،لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللّٰهَ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ أَيْدِيْهِمْ (الفتح: ۱۱) ىقىناً وہ لوگ جو تىرى بىعت کرتے ہىں وہ اللہ ہى کى بىعت کرتے ہىں۔ اللہ کا ہاتھ ہے جو اُن کے ہاتھ پر ہے۔
٭…تمام انسان خدا کے بندے ہیں،البتہ فنا فی اللہ کا جس کو مقام حاصل ہوجائے اُس وقت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قُلْ يَا عِبَادِيَ (الزمر: ۵۴) توکہہ دے کہ اے مىرے بندو!
آیت استخلاف فیصلہ کُن آیت ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اِسی طرح احادیث کی غلط فہمی نے کئی لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ شیعہ بھی اسی سے ہلاک ہوئے اگر قرآن کو اپنا حَکَمْ ٹھہراتے تو ایک سورۃ نور ہی ان کو نور بخش سکتی تھی مگر حدیثوں نے ان کو ہلاک کیا۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۶۴)
٭…اب حقیقت یہ ہے کہ سورۃ النور کی آیت: وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النور :۵۶) میں لفظاً
(i) خدا نے نہیں بتایایعنی کِسی کو الہام نہیں کیا کہ تو خلیفہ ہے۔
(ii) رسول نے نہیں بتایا کہ فلاں خلیفہ ہے۔
(iii) لہٰذا تیسری صورت : خلیفہ خدا بناتا ہے مگرخدا کس طرح بناتا ہے؟ جیسے مَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی(سورۃ الانفال :۱۸)اے نبیؐ کنکروں کی یہ مٹھی تونے نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی ہے۔نتیجہ بتاتاہے کہ وہ انسان کی مٹھی کے پھینکے ہوئے کنکرنہ تھے،بالکل اس طرح خلیفہ کاانتخاب گوبظاہرمومنوں کی جماعت کرتی ہےلیکن درپردہ اس انتخاب میں خداتعالیٰ کی قدرت کام کررہی ہوتی ہے اوران سے انتخاب کرواکراپنی تقدیرپوری کرواتاہے۔
٭…جیسے اولاد خدا دیتا ہے مگر شادی انسان کرتا ہے۔ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ(الشورىٰ: ۵۰) وہ جو چاہتا ہے پىدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکىاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے عطا کرتا ہے۔
٭…کھیتی خدا اُگاتا ہے مگر ہل انسان چلاتا ہے۔ أَ أَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ (الواقعة: ۶۵) کىا تم ہى ہو جو اُسے اُگاتے ہو ىا ہم اُگانے والے ہىں۔
٭… رزق خدا مہیا کرتا ہے،مگر ساتھ کوشش انسان بھی کرتا ہے۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا (ھود:۷) اور زمىن مىں کوئى چلنے پھرنے والا جاندار نہىں مگر اس کا رزق اللہ پر ہے۔
٭…اسی طرح خلیفہ خدا بناتا ہے مگر مومنین اس کا انتخاب کرتےہیں۔:وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورٰى بَيْنَهُمْ (الشورٰى: ۳۹) اور جو اپنے ربّ کى آواز پر لبىک کہتے ہىں اور نماز قائم کرتے ہىں اور اُن کا امر باہمى مشورہ سے طے ہوتا ہے
٭…اورإِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا ىقىناً اللہ تمہىں حکم دىتا ہے کہ تم امانتىں ان کے حقداروں کے سپرد کىا کرو (النساء: ۵۹)
مومنین کے انتخاب کو رضائے الٰہی حاصل ہوتی ہے
نبی کے ذریعہ پاکباز جماعت قائم ہوتی ہے ان کی عزت افزائی کے طور پر خدا کہتا ہےکہ تم خلیفہ چن لو۔اس کو میری رضا حاصل ہو جائے گی۔ تمہارا انتخاب میرا انتخاب ہو گا۔پس درپردہ اس انتخاب میں خداتعالیٰ کی قدرت کام کررہی ہوتی ہے اوران سے انتخاب کرواکراپنی تقدیرپوری کرواتاہے اوراس کے متعلق یہ قراردیتاہے کہ اس شخص کومقام خلافت پرمیں نے فائزکیاہے اورخلافت کاجامہ اسے میں نے پہنایاہے اس کے ساتھ نصرت خداوندی اورتاثیرات الٰہیہ سے ظاہرہونے والے نتائج یہ ثابت کررہے ہوتے ہیں کہ یہ انسان کاکام نہیں انسان کی مجال نہیں کہ وہ اتنے بڑے بوجھ کواٹھاسکے اوراتنے بڑے کام کوانجام دے سکے۔جب تک خدائی قوتیں اوراعلیٰ طاقتیں اس کے ساتھ نہ ہوں۔یہی وجہ ہے کہ ہرخلیفہ راشدغیرمعمولی حالات ومشکلات کے باوجودکامیاب وکامران ہوتاہے کیونکہ وہ انسانوں کابنایاہواخلیفہ نہیں بلکہ خداتعالیٰ کابنایاہواخلیفہ ہے۔
لیکن جوصرف ظاہرپرتکیہ کرتے ہیں اوروسوسہ پیداکرنے کی کوشش کرتے ہیں اورحقیقت پرنگاہ نہیں ہوتی ایسے لوگوں کے لیے اوران کے لیے جنہیں پوری معرفت نہیں،ایسے احباب کی تسکین قلب کے لیے انہیں اپنے مسلمات پر نظر دوڑانی چاہیے کہ قرآن کریم میں خداتعالیٰ کیافرماتاہے؟خداکے رسول کااس بارے میں کیافیصلہ ہے؟حضرت رسول مقبولﷺ کے خلفاء کااس بارے میں کیانظریہ ہے؟آپ کے صحابہ ؓنے اس بارے میں کیارویہ اختیارکیا؟
ان تمام برگزیدہ ہستیوں اورمستندترین ذرائع کافیصلہ یہ ہے کہ خلیفہ خدابناتاہے توپھر کسی بھی قسم کے تردد کی ہرگز گنجائش باقی نہیں رہتی اور ہم حق الیقین سے کہہ سکتے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور اس کے ساتھ ہونے میں ہی اب دنیا کی سلامتی ہے۔مثلاً سورۃ النور میں خدا نے وعدہ کیا کہ میں خلیفہ بناتا ہوں۔ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النور :۵۶)
٭…اس آیت کے متعلق حضرت جعفر صادق سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:’’اس سے مراد امام قائم علیہ السلام اور ان کے اصحاب ہیں‘‘(بحار الانوار از ملاباقر مجلسی۔مترجم سید حسن امداد۔ جلد ۱۱ صفحہ ۱۱۳۔محفوظ بُک ایجنسی کراچی)
٭…حضرت امام رضا کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نےا مام آخر الزمان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:لا تقوم الساعۃ حتی یقوم القائم الحق منّا و ذالک حین یأذن اللّٰہ عزوجل لہ و من تبعہ فنجا،و من تخلف عنہ ھلک۔ اللّٰہ اللّٰہ عباداللّٰہ فاتوہ ولو علی الثلج فانہ خلیفۃ اللّٰہ عزوجل و خلیفتی۔قیامت نہ آئے گی جب تک ہم میں سے امام قائم کا ظہور نہ ہوگا۔اور ظہور اُس وقت ہوگا جب اللہ عزّوجل کا اذن ہوگا۔اور جس نے اس کی اطاعت و اتباع کی اُس نے نجات پائی،جس نے انہیں چھوڑا وہ ہلاک ہوا۔خدا کے بندو!تمہیں اللہ کا واسطہ،اُس کے پاس آنا خواہ تمہیں برف پر چل کر کیوں نہ آنا پڑے۔اِس لیے کہ وہ اللہ کا بھی خلیفہ ہے اور میرا بھی خلیفہ ہے۔(بحارالانوار از علامہ باقر مجلی۔مترجم۔سید حسن امداد۔جلد ۱۱۔صفحہ ۱۲۸۔محفوظ بُک ایجنسی کراچی)
٭…شیعہ سنی ہردو مکتبہ فکر کی کتب میں یہ حدیث موجود ہے کہ رسول کریمﷺنے امت کو تاکیدی ہدایت فرمائی کہ فَاِذَارَأَیْتُمُوْہُ فَبَایِعُوْہُ وَلَوْحَبْوًا عَلَی الثَّلْجِ فَاِنَّہ خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ(سنن ابن ماجه کتاب الفتن بَابُ خُرُوجِ الْمَهْدِيِّ) کہ جب تم اس مہدی کو دیکھو تو اس کی بیعت کرنا خواہ گھٹنوں کے بل برف پر چل کر جانا پڑے کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہے۔
انتخاب ِخلافت کے متعلق حضرت رسول اللہ ﷺ کاقطعی فیصلہ کہ خلیفۃ الرسول بھی خدا ہی بناتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضورﷺنے ان سے ایک دفعہ ذکرفرمایاکہ لَقَدْ ہَمَمْتُ،أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ وَابْنِہِ وَأَعْہَدَ، أَنْ یَقُوْلَ الْقَائِلُوْنَ أَوْ یَتَمَنَّی المُتَمَنُّوْنَ، ثُمَّ قُلْتُ:یَأْبَی اللّٰہُ وَیَدْفَعُ المُؤْمِنُوْنَ، أَوْ یَدْفَعُ اللّٰہُ وَیَأْبَی الْمُؤْمِنُوْنَ۔(بخاری کِتَابُ المَرْضَی۔بَابُ قَوْلِ المَرِیضِ إِنِّی وَجِعٌ، أَوْ وَا رَأْسَاہْ، أَوِ اشْتَدَّ بِی الوَجَعُ) میں نے ارادہ کیاتھاکہ ابوبکرکوبلاکران کے حق میں خلافت کی تحریرلکھ دوں تاکہ میری وفات کے بعددوسرے لوگ خلافت کی خواہش لے کر کھڑے نہ ہوجائیں اورکوئی کہنے والایہ نہ کہے کہ میں ابوبکرکی نسبت خلافت کازیادہ حقدارہوں مگرپھرمیں نے اس خیال سے اپنا ارادہ ترک کردیاکہ اللہ تعالیٰ ابوبکرکے سواکسی اورکی خلافت پرراضی نہ ہوگااورنہ ہی مومنوں کی جماعت کسی اورشخص کی خلافت کوقبول کرے گی۔
اس حدیث سے واضح ہے کہ حضرت رسول کریمؐ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓکے حق میں اس لیے وصیت نہیں لکھوائی کہ آپ جانتے تھے کہ خلیفہ خدابناتاہے اوراگرکوئی خدا کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھائے گاتواسے کامیابی نہ ہوگی،اور اس حقیقت کا عملی اظہارثقیفہ بنوساعدہ میں ہوا۔آخروہی ہواجوخداتعالیٰ کی منشا تھی۔
حضرت عثمان ؓجوذوالنورین تھے یعنی حضورﷺکی دوصاحبزادیاں ان کے عقد میں آئیں ان سے حضورﷺنے فرمایا:یَا عُثْمَانُ، إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَعَلَّہُ أَنْ یُقَمِّصَکَ قَمِیصًا، فَإِنْ أَرَادُوکَ عَلَی خَلْعِہِ فَلَا تَخْلَعْہُ،ثَلَاثَ مِرَارٍ(مسند الإمام أحمد بن حنبل۔ مسند النساء۔ مُسْنَدُ الصِّدِّیقَۃِ عَائِشَۃَ بِنْتِ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا۔حدیث نمبر۲۵۱۶۲)اے عثمان یقیناًتجھے اللہ تعالیٰ ایک قمیص پہنائے گااگرمخالفین اس قمیص کواتارنے کی کوشش کریں توہرگزہرگزنہ اتارنا،اور یہ بات آپؐ نے تین مرتبہ فرمائی۔
حضورؐنے اس حدیث میں حضرت عثمان ؓکویہ بشارت دی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں خلافت کاجامہ پہنائے گا۔اورمنافقین کاطبقہ اس جامہ کوچاک کرنے کی کوشش اورتم سے اتارنے کامطالبہ کرے گا۔لیکن تم نے ہرگزہرگزاس جامہ کونہیں اتارنا۔یہ بات بعد کے واقعات سے لفظاً لفظاً پوری ہوئی۔منافقوں نے ایڑی چوٹی کازورلگایاکہ خلافت کی قمیص اوراس معززجامہ کوآپؓ سے اتروا لیں۔لیکن خداکے اس برگزیدہ بندہ نے جان دینی قبول کی لیکن قمیص ِخلافت جوخدانے پہنائی تھی اسے اتارناگوارانہ کیا۔
خلفائے راشدین کا موقف کہ خلیفۃ الرسول کا انتخاب بھی درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے
حضرت ابو بکرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ؐکے ذریعہ تمہیں ضلالت اور تفرقہ سے نکالا اور تمہارے دلوں میں الفت قائم کی وقَدِاسْتَخْلَفَ اللّٰہ عَلَیْکُمْ خَلِیْفَۃَ لِیَجْمَعَ بِہٖ اُلفتکم ویقیم بہٖ کَلِمَتکم۔(دائرۃ المعارف القرن الرابع عشر محمد فرید وجدی مطبوعہ مصرجلد۳،صفحہ ۷۵۸۔زیر لفظ خلف)اوراب خداتعالیٰ نے تم پرمجھے خلیفہ مقررکردیاہے تاکہ تمہاری باہمی الفت واخوت اورشیرازہ بندی قائم رہے اوراس کے ذریعہ سے تمہاراکلمہ قائم رہے۔
جبکہ ظاہراً سب صحابہؓ کو علم تھا کہ حضورﷺکی وفات کے بعدلوگوں کااجتماع ہوا،مشورہ ہوا،بلکہ اختلاف ہوااورپھرصحابہ ؓنے آپؓ کی بیعت خلافت کی۔پھربھی حضرت ابوبکرؓ خداکے رسول کاپیاراساتھی،دکھ سکھ میں ساتھ رہنے والا،سب سے اوّل ایمان لانے والاخدائی حکمتوں اورخدائی باتوں کوخداکے رسولﷺ کے بعدسب سے زیادہ سمجھنے اورجاننے والایہ اعلان کرتاہے کہ قَدِاسْتَخْلَفَ اللّٰہ عَلَیْکُمْ کہ خداتعالیٰ نے تم پرمجھ کوخلیفہ مقررکردیاہے۔ یہ نہیں فرماتے کہ تم نے مجھ پراحسان کیااورخلیفہ بنایابلکہ یہ فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے مجھے تمہاراخلیفہ مقررکردیاہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کابھی یہی مذہب تھا۔آپ رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ثُمَّ اسْتَخْلَفَ اللّٰهُ أَبَا بَكْرٍ، فَوَاللّٰهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ، ثُمَّ اسْتُخْلِفَ عُمَرُ، فَوَاللّٰهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ، ثُمَّ اسْتُخْلِفْتُ(بخاری کتاب مناقب الأنصار،باب ھجرۃ الحبشہ)پھراللہ تعالیٰ نے ابوبکر ؓکو خلیفہ بنایا۔اللہ کی قسم نہ میں نے کبھی ان کی نافرمانی کی اور نہ کبھی انہیں دھوکا دیا پھر اللہ نے عمرؓ کو خلیفہ بنایا خدا کی قسم نہ میں نے کبھی ان کی حکم عدولی کی نہ کبھی غلط بیانی کی۔ پھر اللہ نے مجھے خلیفہ بنادیا۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: مَنْ أَرَادَأَنْ یَسْأَلَ عَنِّی الْمَالَ فَلْیَاْتِنِی فَاِنَّ اللّٰہ جَعَلَنِی خَازِنًا وَ قَاسِمًا۔(تاریخ عمربن الخطاب،صفحہ ۸۷)جس شخص نے بیت المال کے اموال کے متعلق کچھ پوچھناہے تووہ میرے پاس آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بناکرقوم کے مال کاخازن مقررفرمایاہے اوراس کوتقسیم کرنے کاحق بخشاہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا:’’يَا عُثْمَانُ إِنَّهُ لَعَلَّ اللّٰهَ يُقَمِّصُكَ قَمِيصًا، فَإِنْ أَرَادُوْكَ عَلَى خَلْعِهِ فَلَا تَخْلَعْهُ لَهُمْ‘‘(ترمذی،کتاب المناقب عن رسول اللہؐ باب فی مناقب عثمان بن عفانؓ)اے عثمان! یقیناًاللہ تعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائے گا اور اگر( منافقین و مخالفین) تجھ سے اس قمیص کے اتارنے کا مطالبہ کریں تو اسے ہرگز نہ اتارنا۔بعض روایات میں لکھا ہے کہ ’’ثَلَاثَ مِرارٍ‘‘(مسند احمد بن حنبل۔مسند النساء،مُسْنَدُ الصِّدِّيقَةِ عَائِشَةَ۔۲۵۱۶۲) یہ بات رسول اللہ نے تین دفعہ فرمائی۔اسی طرح رسول اللہﷺ نے وہ قمیص اتارنے کا مطالبہ کرنے والوں کو ظالم قرار دیا ہے۔(الطبقات الکبریٰ جلد۳ صفحہ۶۶ذکر ماقیل لعثمان فی الخلع۔ ابن سعد دار صادر بیروت)
باغیان خلافت نے جب فتنہ پیداکیااورخلافت کے منصب کی توہین کے لیے کمربستہ ہوگئے۔اورحضرت عثمانؓ سے مطالبہ کیاکہ وہ خلافت سے الگ ہوجائیں توخداکے اس محبوب بندے نے بڑے زوراورپوری قوت سے ان کے مطالبہ کوردّکرتے ہوئے فرمایا: مَاکُنْتُ لأاَخْلَعَ سِرْبَالًا سَرْبَلَنِیْہِ اللّٰہ تعالیٰ عَزَّوَجَلَّ۔(طبری،سنۃ خمس وثلاثین۔ذکر الخبر عن قتل عثمان رضی اللہ عنہ) میں کبھی بھی اس ردائے خلافت کو،یعنی جو قمیص خداتعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے میں اسے ہرگز اتار نہیں سکتا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نےیہ بھی فرمایا کہ مجھے پھانسی پر لٹک جانا زیادہ مرغوب ہے بہ نسبت اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ منصب خلافت سے الگ ہو جاؤں۔(تاریخ طبری جلد۲ صفحہ۶۶۷ ابن جریر۔دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۴۰۶ھ۔ طبع اولیٰ)
پس اگرحضرت عثمان ؓ کایہ مذہب اورایمان نہ ہوتاکہ خلیفہ خدابناتاہے توکس طرح ممکن تھاکہ ایسے خطرناک حالات میں باوجودیکہ آپؓ کو اس وقت اپنی جان کاخطرہ تھااس جرأت سے یہ اظہارکرتے ہیں کہ مجھے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایاہے اورمیں اس کی قدرکرتاہوں میں اس کی بےحرمتی کامرتکب نہیں ہوسکتااوراس منصب سے ہرگزہرگزالگ نہیں ہوسکتا۔
امت محمدیہ میں آخرین کے دور میں بھی ’’خلافۃ علیٰ منہاج نبوۃ‘‘یعنی خدا کے اپنے ہاتھ سے لگائی جانی والی خلافت کی پیشگوئی!
حضرت رسول پاکؐ نے نہ صرف اپنے معاً بعد جاری ہونے والی خلافت کو خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری کردہ نعمت عظمیٰ قرار دیا ہے بلکہ دور آخرین میں نازل ہونے والی قدرت ثانیہ کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہونے والی خلافت قرار دیا ہے،چنانچہ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا:’’تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھالے گا اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی (جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے) جب یہ دَور ختم ہوگا توا س کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دَور کو ختم کردے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔یہ فرما کر آپؐ خاموش ہوگئے۔(مسند احمد بن حنبل ؒجلد۴ صفحہ٢٧٣بروایت حذیفہ بن یمان )
خلافت کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کافیصلہ
سیدناحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رسالہ الوصیت میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’یہ خداتعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے۔جیسا کہ وہ فرماتا ہے کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ (المجادلہ:۲۲)اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہوجائے اوراُس کا مقابلہ کوئی نہ کرسکے۔ اسی طرح خداتعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کردیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہی کے ہاتھ سے کردیتا ہے۔ لیکن اُس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا۔ بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اورتشنیع کاموقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کرچکتے ہیں تو پھر ایک دوسر اہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں‘‘۔(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۴)
٭…خلافت کے مقام کی بابت حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے احمدیہ بلڈنگ لاہور میں ایک معرکہ آرا تقریر ۱۶۔۱۷؍ جون ۱۹۱۲ء کو فرمائی۔اس میں فرمایا:’’اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے۔تو وہ جھوٹا ہے۔اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں۔تم ان سے بچو۔پھر سن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا ہے اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا ہے اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑنے پر تھو کتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی رداء کو مجھ سے چھین لے‘‘۔(البدر ۱۱؍جولائی ۱۹۱۲ء)پھر فرمایا:’’ خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں [جو سہل الحصول ہو]تم بکھیڑے سےکچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے۔ جب مَیں مرجاؤں گا تب وہی کھڑا ہوگا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کردے گا تم نے میرے ہاتھوں پہ اقرار کئے ہیں تم خلافت کا نام نہ لو، مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہوسکتا ہوں اور نہ کسی میں طا قت ہے کہ وہ معزول کرے اگر تم زیادہ زور دو گے تو یاد رکھو! میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے‘‘۔(البدر۱۱؍جولائی۱۹۱۲ء)
حضرت مصلح موعودؓ خلیفہ خدا بناتا ہے کے متعلق فرماتے ہیں:’’خوب یاد رکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح مولوی نور الدین صاحب اپنی خلافت کے زمانہ میں چھ سال متواتر اس مسئلہ پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے نہ انسان اور در حقیقت قرآن شریف کے غورسے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہر قسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ انہیں ہم بناتے ہیں۔‘‘(کون ہے جو خدا کے کام کوروک سکے، انوار العلوم جلد۲صفحہ۱۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ہمارایہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتاہے اگربندوں پراس کوچھوڑاجاتاتوجوبھی بندوں کی نگاہ میں افضل ہوتااسے ہی وہ اپناخلیفہ بنالیتے۔لیکن خلیفہ خوداللہ تعالیٰ بناتاہے اوراس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں۔ وہ اپنے ایک کمزوربندےکوچنتاہے …اسےوہ بہت کمزور جانتے ہیں اور بہت حقیرسمجھتے ہیں۔ پھراللہ تعالیٰ اس کو چن کراس پراپنی عظمت اورجلال کاایک جلوہ کرتاہے اورجوکچھ اس کا تھا اس میں سے وہ کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتا۔اورخداتعالیٰ کی عظمت اورجلال کے سامنے کلی طورپرفنااور نیستی کالبادہ وہ پہن لیتاہے اوراس کاوجوددنیاسے غائب ہوجاتاہے… تب اللہ تعالیٰ اسے اٹھاکراپنی گود میں بٹھالیتاہے۔‘‘(الفضل۱۷؍مارچ۱۹۶۷ء صفحہ۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’سارا عالم اسلام مل کر زور لگا لے اور خلیفہ بنا کر دکھادے وہ نہیں بنا سکتا کیونکہ خلافت کا تعلق خدا کی پسند سے ہے اور خدا کی پسند اس شخص پر انگلی رکھتی ہے جسے وہ صاحب تقویٰ سمجھتا ہے۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍اپریل۱۹۹۳ءبحوالہ ہفت روزہ بدر ۶؍مئی۱۹۹۳ءصفحہ۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یومِ خلافت کے حوالے سے جماعت احمدیہ راولپنڈی کے نام پیغام میں فرمایا:’’ہمارا یہ ایمان ہے کہ خلیفہ خدا تعالیٰ خود بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں ہوتا۔ جسے اللہ یہ کرتا پہنائے گا کوئی نہیں جو اس کرتے کو اتار سکے یا چھین سکے۔وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چنتا ہے جسے لوگ بعض اوقات حقیر بھی سمجھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اس کو چن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک ایسا جلوہ فرماتا ہے کہ اس کا وجود دنیا سے غائب ہو کر خدا تعالیٰ کی قدرتوں میں چھپ جاتا ہے۔تب اللہ تعالیٰ اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اور اپنی تائید و نصرت ہر حال میں اس کے شامل حال رکھتا ہے اور اس کے دل میں اپنی جماعت کا درد اس طرح پیدا فرما دیتا ہے کہ وہ اس درد کو اپنے درد سے زیادہ محسوس کرنے لگتا ہے اور یوں جماعت کا ہر فرد یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کا درد رکھنے والا،اس کے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا اس کا ہمدرد ایک وجود موجود ہے۔‘‘(روزنامہ الفضل ۳۰؍مئی۲۰۰۳ءصفحہ۲)