قرآن کریم سے امام اور اطاعت امام کی ایک شاندار مثال اور اونٹ کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات
امام اور اطاعت امام
قرآن کریم کی آیت اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ (الغاشیہ: ۱۸) کے بارے میںامام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ قرآن شریف میں جو یہ آیت آئی ہے اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡیہ آیت نبوت اور امامت کے مسئلہ کو حل کرنے کے واسطے بڑی معاون ہے۔ اونٹ کے عربی زبان میں ہزار کے قریب نام ہیں اور پھر ان ناموں میں اِبل کے لفظ کو جو لیا گیا ہے اس میں کیا سِرّ ہے؟ کیوں۔ اِلَی الجملبھی تو ہو سکتا تھا؟
اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جَمَل ایک اونٹ کو کہتے اور اِبِل اسم جمع ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کو چونکہ تمدنی اور اجمالی حالت کا دکھانا مقصود تھا اور جمل میں جو ایک اونٹ پر بولا جاتا ہے یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا اس لئے اِبِل کے لفظ کو پسند فرمایا۔ اونٹوں میں ایک دوسرے کی پیروی اور اطاعت کی قوت رکھی ہے۔ دیکھو! اونٹوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے اور وہ کس طرح پر اس اونٹ کے پیچھے ایک خاص انداز اور رفتار سے چلتے ہیں اور وہ اونٹ جو سب سے پہلے بطور امام اور پیش رو کے ہوتا ہے وہ ہوتا ہے جو بڑا تجربہ کار اور راستہ سے واقف ہو۔ پھر سب اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے برابر رفتار سے چلتے ہیں اور ان میں سے کسی کے دل میں برابر چلنے کی ہوس پیدا نہیں ہوتی جو دوسرےجانوروں میں ہے جیسے گھوڑے وغیرہ میں۔ گویا اونٹ کی سرشت میں اتباع امام کا مسئلہ ایک مانا ہوا مسئلہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِکہہ کر اس مجموعی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ اونٹ ایک قطار میں جا رہے ہوں۔ اسی طرح پر ضروری ہے کہ تمدنی اور اتحادی حالت کو قائم رکھنے کے واسطے ایک امام ہو۔
پھر یہ بھی یاد رہے کہ یہ قطار سفر کے وقت ہوتی ہے۔ پس دنیا کے سفر کو قطع کرنے کے واسطے جب تک ایک امام نہ ہو انسان بھٹک بھٹک کر ہلاک ہو جاوے۔
پھر اونٹ زیادہ بار کش اور زیادہ چلنے والا ہے اس سے صبر و برداشت کا سبق ملتا ہے۔
پھر اونٹ کا خاصہ ہے کہ وہ لمبے سفروں میں کئی کئی دنوں کا پانی جمع رکھتا ہے۔ غافل نہیں ہوتا۔ پس مومن کو بھی ہر وقت سفر کے لئے طیار اور محتاط رہنا چاہیئے اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔…
اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیکھنا بچوں کی طرح نہیں ہے بلکہ اس سے اتباع کا سبق ملتا ہے کہ جس طرح پر اونٹ میں تمدنی اور اتحادی حالت کو دکھایاگیا ہے اور ان میں اتباع امام کی قوت ہے اسی طرح پر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اتباع امام کو اپنا شعار بناوے کیونکہ اونٹ جو اس کے خادم ہیں ان میں بھی یہ مادہ موجود ہے۔ کَیْفَ خُلِقَتْمیں ان فوائد جامع کی طرف اشارہ ہے جو ابل کی مجموعی حالت سے پہنچتے ہیں۔‘‘ (الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۰ء بحوالہ تفسیر بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جلد ۳ صفحہ ۳۵۷، ۳۵۸)
سورۃ الطارق کے اسرار
’’وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجۡعِ وَالۡاَرۡضِ ذَاتِ الصَّدۡعِ اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ وَّمَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ یعنی اس آسمان کی قسم ہے جس کی طرف سے بارش آتی ہے اور اس زمین کی قسم ہے جو بارش سے طرح طرح کی سبزیاں نکالتی ہے کہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے۔ اور اس کی وحی ہے اور وہ باطل اور حق میں فیصلہ کرنے والا ہے اور عبث اور بیہودہ نہیں۔ یعنی بے وقت نہیں آیا موسم کے مینہ کی طرح آیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’ پس اے عزیزو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ آیت ان اسرار کا موجیں مارتا ہوا ایک سمندر ہے جس کا کسی کی سوچ نے احاطہ نہیں کیا اور نہ ہی مخلوق کی عقل نے ان کو چھواہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس آیت کے اسرار سمجھائے ہیں اور ان کے ساتھ مجھے ہی مخصوص کیا ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ آسمان مؤثرات کا مجموعہ ہے اور زمین متأثرات کا مجموعہ۔ اور امر الٰہی آسمان سے زمین پر نازل ہوتا ہے اور زمین اس کو قبول کر لیتی ہے اور انکار نہیں کرتی…آسمان نزول اور رجع کی بے شمار اقسام کے ساتھ زمین کی طرف توجہ کرتا ہے اور زمین اسے اپنے اندر لینے اور نشوونما دینے کی ان گنت اقسام کے ساتھ اسے قبول کرتی ہے۔
اس رجع اور صدع کے عمل کے نتیجے میں بہت سی چیزیں طبقات الارض میں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً چاندی، سونا، لوہا، جواہرات نفیسہ اور ایسی ہی اور اشیاء۔ اور اس کی اقسام میں سے کھیتیاں، درخت، نباتات، پھل، چشمے اور دریا وغیرہ ہیں۔ نیز جملہ وہ اشیاء جن کے ظاہر کرنے کے لیے زمین پھٹتی ہے اور پھر اس کی اقسام میں سے اونٹ، گدھے، گھوڑے اور اسی قسم کے دوسرے تمام چارپائے ہیں جو زمین پر چلتے ہیں اور ہوا میں اڑنے والے تمام پرندے ہیں اور اس کی اقسام میں سے انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے احسن تقویم میں پیدا کیا ہے… ‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد ۸ صفحہ ۳۴۰۔۳۴۱ حاشیہ)
اونٹ بطور سواری
سورۃ الحج آیت ۲۷۔۲۸میں اللہ تعالیٰ نےفرمایا: ’’ اور جب ہم نے ابراہیم کو دوبارہ بنانے کے لئے وہ مکان دکھلایا جہاں ابتداء میں بیت اللہ تھا یہ کہتے ہوئے کہ میرا کسی کو شریک نہ ٹھہرا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھ۔ وَاَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍاور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے وہ تیرے پاس پا پیادہ آئیں گے اور دبلی پتلی اونٹنیوں پر آئیں گے وہ سواریاں اور چیزیں ہر گہرے اور دور کے رستے سے آئیں گی ‘‘
ضَامر دبلی اونٹنی کو کہتے ہیں جو حج کی معروف سواری تھی لوگ اونٹوں پر سوار ہو کر بیت اللہ کا حج کرنے آتے تھے۔ ضَامِر اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو چارے کی قلت اور سفر کی دوری اور تھکاوٹ سے لاغر اور کمزور ہو جائے۔
قربانی کے اونٹ
مناسکِ حج کے تعلق میں فرمایا :وَالۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ ٭ۖ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَاَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَالۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ( الحج آیت :۳۷)اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تمہارے لئے شعائراللہ میں شامل کر دیا ہے ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے۔ پس ان پر قطار میں کھڑا کر کے اللہ کا نام پڑھو۔ پس جب ذبح کرنے کے بعد ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت کرنے والوں کو بھی کھلاؤ اور سوال کرنے والوں کو بھی۔ اسی طرح ہم نے انہیں تمہاری خدمت پر لگا رکھا ہے تا کہ تم شکر کرو۔
ا ونٹ کی سواری کا بیکار ہونا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’ابھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے لوگوں کے لئے ایک بھاری نشان ظاہر ہوا ہے اور وہ یہ کہ تیرہ سو برس سے مکہ سے مدینہ میں جانے کے لئے اونٹوں کی سواری چلی آتی تھی اور ہر ایک سال کئی لاکھ اونٹ مکہ سے مدینہ کو اور مدینہ سے مکہ کو جاتا تھا اور ان اونٹوں کے متعلق قرآن اور حدیث میں بالاتفاق یہ پیشگوئی تھی کہ ایک وہ زمانہ آتا ہے کہ اونٹ بیکار کئے جائیں گے اور کوئی ان پر سوار نہیں ہوگا چنانچہ آیت وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ اور حدیث یترک القلاص فلا یسعی علیھا اس کی گواہ ہے۔ پس یہ کس قدر بھاری پیشگوئی ہے جو مسیح کے زمانہ کے لئے اور مسیح موعود کے ظہور کے لئے علامت تھی جو ریل کی طیاری سے پوری ہو گئی۔‘‘ فا لحمد للہ علی ذالک (اربعین نمبر ۲ صفحہ ۲۷ حاشیہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد ۸ صفحہ ۳۱۰)
’’و اذا العشار عطلتکے موافق اونٹنیاں بیکار ہو گئیں جو اس آخری زمانہ کا ایک نشان ٹھہرایا گیا تھا۔ عشار حاملہ اونٹنیوں کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ اس لئے اختیار کیا گیا ہے تا یہ وہم نہ رہے جیسا بعض لوگ کہتے ہیں کہ قیامت کے متعلق ہے۔ قیامت میں تو حمل نہ ہوگا۔ اور بیکار ہونا یہاں تو الگ رہا۔ مکہ مدینہ کے درمیان بھی ریل طیار ہو رہی ہے۔ اخبارات نے بھی اس آیت اور مسلم کی حدیث سے استنباط کر کے مضامین لکھے ہیں۔‘‘ (الحکم ۲۸؍فروری ۱۹۰۳ء تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد ۸ صفحہ ۳۱۳)
حرمین تیز رفتار ریل منصوبہ
سعودی عرب میں ۴۵۳ کلو میٹر (۲۸۱ میل) طویل تیز رفتار حرمین ریل چلائی گئی ہے۔ اس کا افتتاح ۲۵؍ستمبر ۲۰۱۸ء کو ہوا۔ یہ مسلمانوں کے مقدس شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو براستہ شاہ عبد العزیز اقتصادی شہر(King Abdullah Economic City)، شاہ عبدالعزیز بین الاقوامی ہوائی اڈہ(King Abdulaziz International Airport)،جدہ آپس میں ملاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ پر مکہ سے مدینہ کا سفر
رسول اللہﷺ نے بھی اپنی حیاتِ طیبہ میں متعدد مرتبہ اونٹ کی سواری فرمائی۔ مکہ سے مدینہ ہجرت کے لیے بھی آپ نے اونٹ پر ہی سفر کرنا پسند فرمایا اور بعض روایات کے مطابق یہ سفر معمول سے جلد طے پا گیا۔