خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ ۱۲؍مئی ۲۰۲۳ء

دنیا میں، تمام ممالک میں شوریٰ اس لیے منعقد کی جاتی ہے کہ جہاں ہم اپنی عملی حالتوں کو درست کرنے کے لیے منصوبہ بندی کریں وہاں خدائے واحد کا پیغام پہنچانے کے لیے اور دنیا کو امت واحدہ بنانے کے لیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لانے کے لیے ایسی منصوبہ بندی کریں جو ایک انقلاب پیدا کرنے والی ہو

ممبران کی بعض ذمہ داریاں مجلسِ شوریٰ کی سفارشات اور خلیفۂ وقت کے ان پر فیصلے کے بعد ہی شروع ہوتی ہیں اوران کا انجام دینا اور اپنا کردار ادا کرنا ہر ممبر شوریٰ کا فرض ہے

جن کے سپرد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو آگے بڑھانا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آنے والے مسیح موعودؑ اور مہدی معہودؑ کے مشن کو پورا کرنا ہے ان کا بھی یہ کام ہے کہ محبت، پیار اور نرمی سے کام کریں

مجلس شوریٰ مشورہ دینے والی مجلس ہے فیصلہ کرنے والی نہیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے اصحاب سے مشورہ لینے والا نہیں پایا

خلیفۂ وقت بھی اللہ تعالیٰ کے حکم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق دنیا میں پھیلی ہوئی جماعتوں سے وہاں کے حالات کے مطابق مشورے لیتا ہے

جہاں جہاں ہمارے شوریٰ کے ممبران ہیں ان کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں وہ مشورہ دیتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے آپ کو اس بات کے لیے تیار کریں کہ ہم نے ان مشوروں پر منظوری کے فیصلے کے بعد عمل کرنا ہے یا جو بھی خلیفۂ وقت فیصلہ کریں گے سب سے پہلے ہم نے اس پر عمل کرنے کے لیے ہر قربانی دینی ہے

مشورہ دینے والوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے مشورے نیک نیتی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کے مطابق ہونے چاہئیں

ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ مجلس شوریٰ خلافت کا مددگار ادارہ ہے اور اس لحاظ سے جماعت میں خلافت کے بعد اس کی بہت اہمیت ہے

جہاں ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے وہاں عملی کوشش کی ضرورت ہے۔ اپنی عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی ضرورت ہے

اپنے عملی نمونے، لوگوں سے پیار محبت کا تعلق، ان کا درد دل میں رکھنا، ان کے لیے بھی اور اپنے لیے بھی دعا کرنا، خلیفۂ وقت کی اطاعت کے معیار کو بلند کرنا ہر عہدیدار اور ہر ممبر شوریٰ کا خاص امتیاز ہو گا تو تبھی ایک انقلابی تبدیلی مجموعی طور پر ہم جماعت میں پیدا ہوتی دیکھیں گے

ہمارے چندوں کی آمد کی ایسے احسن رنگ میں منصوبہ بندی ہونی چاہیے جس سے ہم کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ اشاعت دین اور تبلیغ کے کام کو سرانجام دے سکیں

شوریٰ کی اہمیت اور نمائندگان کی ذمہ داریوں کے بارے میں بصیرت افروز بیان

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 12؍مئی 2023ءبمطابق 12؍ہجرت 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ(آل عمران:160)

آیت کا ترجمہ ہے: پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تُو ان کے لیے نرم ہو گیا۔ اور اگر تُو تُندخُو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گِرد سے دُور بھاگ جاتے۔ پس ان سے درگزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور (ہر) اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کر۔ پس جب تُو (کوئی) فیصلہ کر لے تو پھر اللہ ہی پر توکّل کر۔یقیناً اللہ توکّل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔

ان دنوں میں مختلف ممالک میں جماعتی مجالسِ شوریٰ منعقد ہو رہی ہیں۔ بعض ملکوں میں ہو چکی ہیں، بعض میں اس ہفتے ہیں اور بعض آئندہ ہفتے میں ہوں گی۔ جرمنی کی آج شروع ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اَور بہت سے ملک ہیں۔ اسی طرح یوکے کی مجلس شوریٰ اگلے ہفتے ہے اور اس کے ساتھ اَور بھی ممالک شامل ہیں۔

شوریٰ کی اہمیت اور نمائندگان کی ذمہ داریوں کے بارے میں

مَیں پہلے بھی خطبات میں توجہ دلا چکا ہوں لیکن اس کو کیونکہ اب کچھ سال گزر چکے ہیں اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ آج پھر اس بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور جماعتی روایات اور طریق کے مطابق کچھ کہوں۔ جہاں شوریٰ کی مجالس منعقد ہو بھی چکی ہیں وہاں کے نمائندگان شوریٰ بھی ان باتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو ممبران شوریٰ کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ہیں اور ممبران شوریٰ کو یاد رکھنی چاہئیں کیونکہ

ممبران کی بعض ذمہ داریاں مجلسِ شوریٰ کی سفارشات اورخلیفۂ وقت کے ان پر فیصلے کے بعد ہی شروع ہوتی ہیں اور ان کا انجام دینا اور اپنا کردار ادا کرنا ہر ممبر شوریٰ کا فرض ہے۔

بہرحال ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے سے پہلے یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کی روشنی میں کچھ باتیں کروں گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور آپؐ کا طریق بیان کروں گا۔ اس آیت میں جہاں اس بات کی تصدیق فرمائی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے اپنی امّت کے افراد کے لیے انتہائی نرم دل رکھنے والے تھے وہاں اس بات کی طرف بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی اور ہدایت فرمائی کہ

جن کے سپرد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو آگے بڑھانا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آنے والے مسیح موعود اور مہدی معہود کے مشن کو پورا کرنا ہے ان کا بھی یہ کام ہے کہ محبت، پیار اور نرمی سے کام کریں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر نرمی نہ دکھائی اور سخت دلی دکھائی اور غصہ میں آنے والا ہوا تو یہ لوگ دُور ہوجائیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ درگذر کرنے اور بخشش کی دعا کرنے کا حکم فرماتا ہے اور پھر ساتھ ہی مشورہ کرنے کا بھی حکم فرمایا ہے۔

پس اس اصول اور تعلیم کے تابع مجالس شوریٰ منعقد کی جاتی ہیں لیکن جیساکہ نام سے ظاہر ہے

یہ مشورہ دینے والی مجلس ہے فیصلہ کرنے والی نہیں۔

اس لیے فرمایا کہ مشوروں کے بعد جو فیصلہ تُو کرے اس پر اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے عمل کر اور جب اللہ تعالیٰ پر توکّل ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے نتائج بھی بےانتہا برکتوں والے نکالے گا۔

توکّل کی اعلیٰ ترین مثال تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہمیں نظر آتی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو بہت سے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست راہنمائی ملتی تھی لیکن خاص طور پر ان معاملات میں آپؐ ضرور ضروری مشورہ طلب فرماتے تھے جہاں اللہ تعالیٰ کا کوئی واضح حکم نہ ہوتا تھا اور آپؐ کا یہ عمل اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہمیں بتانے کے لیے ہے کہ جماعتی عہدیداروں کے افرادِ جماعت کے ساتھ کیسے رویے ہونے چاہئیں اور ہمیں باہم مشورے سے کام کرنے چاہئیں۔

اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے نوازا ہے اس لیے

خلیفۂ وقت بھی اللہ تعالیٰ کے حکم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق
دنیا میں پھیلی ہوئی جماعتوں سے وہاں کے حالات کے مطابق مشورے لیتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر معاملے میں راہنمائی فرما دیتا لیکن آپؐ کو بعض معاملات میں مشورے کا حکم دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض معاملات میں مشورہ لینا حقیقت میں ہمیں صحیح راستے پر چلانے اور باہمی تعاون اور مشورےسے کام کرنے کی طرف راہنمائی کے لیے ہے اور امّت میں وحدت پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اس بارے میں ایک حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے: حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ جب شَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ کی آیت نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرچہ اللہ اور اس کا رسول اس سے مستغنی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے میری امّت کے لیے رحمت کا باعث بنایا ہے۔ پس ان میں سے جو مشورہ کرے گا وہ رشد و ہدایت سے محروم نہیں رہے گا اور جو مشورہ نہیں کرے گا وہ ذلت سے نہ بچ سکے گا۔

(الجامع لشعب الایمان جلد 10 صفحہ 41 حدیث 7136 مطبوعہ مکتبۃ الرشد ناشرون ریاض 2003ء)

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ان مشوروں سے مستغنی تھے اور ہیں لیکن اس کے باوجود آپؐ نے مشورے لیے تا کہ امّت کے سامنے وہ نمونہ قائم فرما دیں جس سے امّت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لیتی رہے اور ہمیشہ رشد و ہدایت کے رستوں پر چلتی رہے اور ذلّت سے بچتی رہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر خاص احسان ہے کہ ہمارے اندر شوریٰ کا نظام رائج ہے۔ پس اس کی ہر احمدی کو عام طور پر اور ہر شوریٰ ممبر کو خاص طور پر قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ہمارے لیے رشدو ہدایت کا سامان پیدا فرما دیا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کن موقعوں پر مشورے لیےاور آپؐ کے مشورے کا کیا طریق تھا

اس بارے میں ہمیں تاریخ سے جو پتہ چلتا ہے وہ کچھ بیان کرتا ہوں۔ یہی طریق خلفائے راشدین نے بھی جاری رکھا اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی اسی پر عمل کیا۔

عموماً مشورہ لینے کے لیے تین طریق

ہمیں نظر آتے ہیں۔

ایک یہ طریق تھا

کہ جب مشورے کے قابل کوئی معاملہ ہوتا تو ایک شخص اعلان کرتا کہ لوگ جمع ہو جائیں اور لوگ جمع ہو جاتے اور پھر جو رائے ہوتی، جو مشورہ ہوتا اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاء فیصلہ کر دیتے کہ ان مشوروں کے بعد ہمارا یہ فیصلہ ہے، اس طرح اس پر عمل ہو گا۔ اس زمانے میں کیونکہ سرداری نظام تھا اس لیے عموماً گو قبیلے کے بہت سارے لوگ جمع ہو جاتے تھے لیکن رائے سردار یا امیر ہی دیتے تھے۔ ان کا ایک نمائندہ ہوتا تھا۔ اور لوگ اس بات پر بخوشی راضی ہوتے تھے کہ ہمارا سردار یا امیر ہماری نمائندگی میں رائے دے۔ بلکہ اس وقت کے رواج کے مخالف اگر کوئی جوش میں اپنی رائے دینے کی کوشش بھی کرتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اپنے سردار یا امیر سے کہو کہ وہ آگے آ کر اپنی رائے دے۔ تمہاری بات کی اس طرح کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پس یہ ایک طریق تھا۔

دوسرا طریق

یہ تھا کہ جن لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مشورے کا اہل سمجھتے انہیں بلا لیتے اور عمومی طور پر سب کو نہ بلایا جاتا اور پھر ان چند لوگوں کی مجلس سے مشورہ لیا جاتا۔

تیسرا طریق

یہ تھا کہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے کہ دو آدمی بھی اکٹھے جمع نہیں ہونے چاہئیں وہاں آپؐ علیحدہ علیحدہ بلا کر مشورہ لیتے۔ پہلے ایک کو بلا کر مشورہ لیتے پھر دوسرے کو بلا کر مشورہ لیا جاتا۔(ماخوذ از خطاباتِ شوریٰ جلد اوّل صفحہ 6-7 مجلس مشاورت 1922ء)بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ تین طریق تھے مشورہ لینے کے اور خلفائے راشدین نے بھی اس کے مطابق ہی مشورہ لیا۔ جیساکہ بیان ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اور اس کا رسول ان مشوروں سے مستغنی ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر مشورے لیے بلکہ آپؐ تو بہت زیادہ صحابہؓ سے مشورے لیا کرتے تھے چنانچہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے اصحاب سے مشورہ لینے والا نہیں پایا۔

(سنن الترمذی ابواب الجہاد باب ما جاء فی المشورۃ حدیث 1714)

اور یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ جیساکہ میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا نبی جس کو اللہ تعالیٰ کی راہنمائی براہ راست حاصل ہے مشورہ لیتا ہے تو تم لوگوں کو کس قدر مشورے کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ایک روایت میں آتا ہے: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن بھجوانے کا فیصلہ فرمایا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے صحابہؓ سے مشورہ طلب کیا۔ ان صحابہؓ میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بہت سے صحابہؓ تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے مشورہ نہ طلب فرماتے تو ہم کوئی بات نہ کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ

جن امور کے بارے میں مجھے وحی نہیں ہوتی ان کے بارے میں مَیں تمہاری طرح ہی ہوتا ہوں۔

جن امور کے بارے میں مجھے وحی نہیں ہوتی ان کے بارے میں مَیں تمہاری طرح ہی ہوتا ہوں۔ معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بتاتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ مجھے مشورہ دو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم رائے لے رہے تھے تو ہر شخص نے اپنی اپنی رائے بیان کی اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ! تم بتاؤ۔ تمہاری کیا رائے ہے۔تو میں نے عرض کیا کہ میری وہی رائے ہے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔

(المعجم الکبیر للطبرانی جلد 20 صفحہ 67 حدیث 124 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)

تو آپ سے بھی انہوں نے پوچھا۔ پس جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اظہار اپنی سادگی اور عاجزی اور مشورے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے وہاں ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے کہ ہمیں کس قدر مشوروں کو اہمیت دینی چاہیے اور صحابہؓ کا نمونہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مشورہ دیتے تھے تو پھر اپنی صلاحیتوں اور تجربے کے مطابق تقویٰ پر چلتے ہوئے مشورہ دیا کرتے تھے۔

پھر مدینہ ہجرت کے بعد بھی جب کفار مکہ نے مسلمانوں کے امن و سکون کو برباد کرنے کی کوشش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سدِّباب کے لیے صحابہؓ سے مشورہ لیا اور انصار کے سرداروں کو بھی اس میں شامل فرمایا، مہاجرین کے سرداروں کو بھی شامل فرمایا اور پھر مہاجرین اور انصار کے سرداروں کے مشورے اور رضامندی سے آپؐ بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ اور انصار کے سرداروں نے اس مشورے کے دوران جو اخلاص و وفا کا نمونہ دکھایا اور عہد کیا اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی خوشی اور اطمینان کا بھی اظہار فرمایا۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ 354-355)

اس لیے کہ

مشورہ صرف مشورہ کی حد تک نہیں ہے بلکہ مشورہ دینے والوں کا عمل اور روّیہ اور اس مشورے پر خود سب سے پہلے عمل کرنے کا عہد ہے۔

اگر عمل کرنے کا عہد نہیں اور پھر حقیقت میں اس پر عمل نہیں تو پھر مشورہ بے فائدہ ہے۔ اور ہم نے دیکھا کہ کس طرح بدر کے میدان میں اخلاص و وفا کا عملی اظہار پھر ان صحابہؓ نے فرمایا۔ جب مشورہ دیا تو پھر اپنی جان کی بازی لگا دی۔ پس

جہاں جہاں ہمارے شوریٰ کے ممبران ہیں ان کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں وہ مشورہ دیتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے آپ کو اس بات کے لیے تیار کریں کہ ہم نے ان مشوروں پر منظوری کے فیصلے کے بعد عمل کرنا ہے یا جو بھی خلیفۂ وقت فیصلہ کریں گے سب سے پہلےہم نے اس پر عمل کرنے کے لیے ہر قربانی دینی ہے۔

جب اپنے عملی نمونے قائم ہوں گے تو پھر ہی افراد جماعت بھی خوشی سے اس پر عمل کرنے کے لیے ہر قربانی کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں گے۔ شوریٰ کے ممبران کو یہ ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ ہر احمدی کا خلافت سے وفا اور اطاعت کا عہد ہے تو اس کے لیے سب سے اعلیٰ نمونہ عہدیداران اور شوریٰ کے ممبران کو دکھانا چاہیے کیونکہ آپ اس ادارے کے ممبر بنائے گئے ہیں جو نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت کا مددگار ادارہ ہے۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ جہاں یہ حکم خلیفۂ وقت کو ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلتے ہوئے دین کے اہم کاموں میں امّت کے لوگوں سے مشورہ لو، اسی طرح نرم دل رہنے اور دعا کا بھی حکم ہے۔ ان لوگوں کو بھی یہ حکم ہے جن سے یہ مشورہ لیا جاتا ہے کہ نیک نیت ہو کر تقویٰ پر چلتے ہوئے مشورہ دو۔ پس

مشورہ دینے والوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے مشورے نیک نیتی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کے مطابق ہونے چاہئیں۔

پس اس لحاظ سے مشورہ دینے والوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ جائزہ لیں کہ ان کا تقویٰ کس معیار کا ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت تو یہاں تک وضاحت کرتی ہے، آپؓ نے فرمایا کہ شَاوِرُوْا الْفُقَہَاءَ وَالْعَابِدِیْنَ(کنز العمال جلد 3 صفحہ 411 حدیث 7191 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء) یعنی

سمجھدار اور عبادت گزار لوگوں سے مشورہ کرو

ہر ایک سے نہیں۔ پس

یہ معیار ہے نمائندگان کا۔

اس میں ان لوگوں کے لیے بھی نصیحت ہے جو نمائندگان شوریٰ چنتے ہیں کہ

اپنے میں سے ایسے لوگ چنیں جو بظاہر صائب رائے رکھنے والے ہیں، دینی علم میں بہتر ہیں اورعبادت کے معیار بھی اچھے ہیں۔

جہاں بھی اس معیار کو سامنے رکھتے ہوئے نمائندگان چنے جاتے ہیں ان نمائندگان کی رائے میں مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک نمایاں فرق نظر آ رہا ہوتا ہے۔ اور یہ ذمہ داری ہے ان نمائندگان کی بھی کہ اگر حسنِ ظن رکھتے ہوئے افراد جماعت نے کسی کو شوریٰ کا نمائندہ چنا ہے تو وہ اس حسن ظن پر پورا اترے۔ ایک دن میں یا چند ہفتوں میں کوئی علم کے اعلیٰ معیار اور دین کی گہرائی کو تو نہیں جان سکتا، حاصل نہیں کر سکتا لیکن تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی رائے ہر قسم کے مفاد سے بالا تر ہو کر تو ہر کوئی دے سکتا ہے۔ اسی طرح

اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے، دعا کے ساتھ جہاں جہاں شوریٰ منعقد ہو رہی ہیں وہاں کے نمائندگان کو اپنی رائے دینی چاہیے

نہ کہ کسی مقرر کی تقریر سے متاثر ہو کر اور نہ ہی کسی تعلق اور دوستی کا خیال رکھتے ہوئے اپنی رائے کو دوسروں کی رائے کے ساتھ ملانا چاہیے اور نہ ہی کسی خوف یا لحاظ کی وجہ سے اپنی رائے بدلنی چاہیے بلکہ

تقویٰ سامنے رکھتے ہوئے جماعت کے مفاد کو ہر بات پر مقدّم کرتے ہوئے جب رائے دیں گے تو تبھی حقیقت میں وہ اپنی نمائندگی کا حق ادا کرنے والے بنیں گے۔

ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کے حال بھی جانتا ہے اور ہمارے ہر عمل کو بھی دیکھ رہا ہے۔ اگر میں اس کی رضا کو سامنے رکھ کر کام نہیں کر رہا تو کہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لینے والا نہ بن جاؤں۔ اسی طرح

جہاں شوریٰ ہو چکی ہے وہاں شوریٰ کے ممبران اپنا حق اب اس طرح ادا کریں کہ اپنے عملی نمونے ہمیشہ اپنی روحانی اور عملی حالت پر نظر رکھتے ہوئے گزارنے کا عہد کریں اور جو فیصلے ہوں یا ہوئے ہیں ان پر تقویٰ سے چلتے ہوئے عمل کرنے اور کروانے کی کوشش کریں۔

جب ہم یہ حالت پیدا کریں گے تبھی ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والے بھی ہوں گے اور ہمارے فیصلوں میں برکت بھی پڑے گی ورنہ ہمارا جمع ہونا اور اپنی رائے کے لیے پُرزور تقریریں کرنا ان دنیاوی اسمبلیوں کی طرح ہو گا جہاں تقویٰ مفقود ہے اور ایسے فیصلے ہوتے ہیں جو بسا اوقات اخلاق کو بھی پامال کرنے والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کے بھی خلاف ہوتے ہیں۔ اپنی پارٹی کے مقاصد کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات جلد ہی ایسے غلط فیصلوں کے نتائج بھی نکل آتے ہیں جو امن و سکون برباد کرنے والے ہوتے ہیں اور بعض اوقات دیر سے بھی نتائج نکلتے ہیں لیکن برکت ان میں کوئی نہیں ہوتی لیکن بہرحال

ایسے فیصلے جو اللہ تعالیٰ کے قانون اور حکموں کے خلاف ہوں پھر آخر میں قوموں کی تباہی کا ذریعہ بنتے ہیں۔

پس دنیاداروں کی حالتوں کو دیکھ کر بھی ہمیں اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی طرف توجہ رکھنی چاہیے۔

جیساکہ میں نے کہا شوریٰ کے ممبران کے مشورے خلیفۂ وقت کو پیش کیے جاتے ہیں اور خلیفۂ وقت کے کہنے پر ہی یہ شوریٰ بلائی جاتی ہے۔ پس

ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ مجلس شوریٰ خلافت کا مددگار ادارہ ہے اور اس لحاظ سے جماعت میں خلافت کے بعد اس کی بہت اہمیت ہے

اور ہر ممبر جو شوریٰ کے لیے منتخب ہوتا ہے وہ ایک سال کے لیے ممبر ہوتا ہے۔ اسے اپنی اس اہمیت کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے۔ شوریٰ کے ایجنڈے اور مشورے سے ہی خلیفۂ وقت کو ان مسائل سے بھی آگاہی ہوتی ہے جو مختلف ممالک میں ہیں اور پھرجو آرا آتی ہیں ان سے ان مسائل کے حل کا لائحہ عمل بھی سامنے آ جاتا ہے۔ بعض اوقات بعض باتیں کسی مسئلے کے حل کے بارے میں پوری تفصیل سے بیان نہیں ہوتیں یا ممبرانِ شوریٰ کے سامنے ہی نہیں آتیں تو خلفاء ان باتوں کو بھی لائحہ عمل میں شامل کر لیتے ہیں اور بعض جگہ میں بھی یہی طریق اپناتا ہوں۔تو بہرحال

ہر ممبر شوریٰ کو اس بات کا مکمل ادراک ہونا چاہیے کہ اس کی ایک خاص اہمیت ہے اور یہ اہمیت صرف تین دن کے لیے نہیں ہے بلکہ سارا سال کے لیے ہے اور جو بھی لائحہ عمل بنتا ہے اس پر عمل درآمد کروانے میں اور انتظامیہ کو اس پر عمل درآمد کے لیے مکمل تعاون پیش کرنے کی ہر شوریٰ ممبر کو کوشش کرنی چاہیے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے

اور جب یہ ہوگا تو تبھی جماعتی ترقی کے منصوبے صحیح راستے پر گامزن ہو ں گے اور ان پر احسن رنگ میں عمل ہو سکے گا اور رشد و ہدایت کا جو مشن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے سپرد ہوا ہے ہم اس میں معاون و مددگار بن سکیں گے۔ اگر یہ نہیں تو شوریٰ کا ممبر ہونا بے فائدہ ہے۔

یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ دنیا کے ہر ملک میں شوریٰ عموماً وہاں کے امیر کے زیر صدارت منعقد ہوتی ہے اور بعض دفعہ رائے دینے والے جوشِ خطابت میں ایسے الفاظ استعمال کر جاتے ہیں جو شوریٰ کے تقدس کے خلاف ہے۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ

ممبران جب بھی اپنی رائے دیں تو جوشِ خطابت دکھانے کی بجائے، ہوش و حواس سے عاری ہو کر تقریر کرنے کی بجائے، جذباتی تقریریں کرنے کی بجائے مناسب الفاظ میں اپنی رائے دیا کریں۔

بعض دفعہ رائے دینے والے ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن سے عاملہ کے ممبران یا امیر جماعت جن کی صدارت میں شوریٰ ہو رہی ہوتی ہے یہ سمجھتے ہیں کہ رائے دینے والا بالواسطہ یا بلاواسطہ یا براہ راست ہمارے خلاف بات کر رہا ہے اور پھر صدرِ مجلس ہونے کی حیثیت سے بولنے والے کو سخت الفاظ میں روک دیا جاتا ہے، جھڑک دیا جاتا ہے۔ تو امرا ءکو بھی حوصلہ دکھانا چاہیے۔ یہ حسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ کہنے والا جو کہہ رہا ہے وہ جماعتی مفاد کے لیے اور درد رکھتے ہوئے کہہ رہا ہے۔

اگر سخت الفاظ استعمال کیے ہیں یا ایسے الفاظ استعمال کیے ہیںجو شوریٰ کے تقدس کے خلاف ہیں تو نرمی سے اسے ٹوک دیں۔ ایسا رویہ نہ اختیار کریں جس سے شبہ ہو کہ صدر مجلس نے اس بات کو ذاتی عزت کا سوال بنا لیا ہے۔

خاص طور پر بجٹ کے معاملے میں جب بحث ہوتی ہے تو زیادہ جذبات کا اظہار ہو جاتا ہے اور بعض تحفّظات کا بھی اظہار ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں بھی متعلقہ سیکرٹری کو، سیکرٹری مال کو اور صدر مجلس کو تحمل سے بات سن کر اس کا جواب دینا چاہیے اور تسلی کروانی چاہیے کہ کس طرح کا بجٹ بنا، کس طرح آمد ہے، کس طرح اس کے اخراجات ہیں۔ اس کو justifyکس طرح کیا جاتا ہے۔ کہنے والا تو اپنی طرف سے جماعتی مفاد کو پیش نظر رکھ کر بات کرتا ہے اس لیے بدظنی نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح ایجنڈے کی دوسری تجاویز ہیں اس میں

بعض دفعہ بلاوجہ کی بحث میں انتظامیہ بھی اور نمائندگان بھی الجھ جاتے ہیں یا پھر بالکل ہی خاموش ہو کر اس طرح ہو جاتے ہیں جیسے انتظامیہ کا خوف ہو۔ ایسے لوگ بھی اپنی امانت کا حق ادا نہیں کرتے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ نمائندگان کو لوگوں نے اس لیے چنا ہے کہ وہ نمائندگی کا اور امانت کا حق ادا کریں۔

اس لیے نہ ہی ذاتیات کا سوال ہونا چاہیے، نہ کسی قسم کا خوف ہونا چاہیے اور ہمیشہ سمجھیں کہ لوگوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق منتخب کیا ہے کہ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهْلِهَا (النساء:59) کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو۔ اور خلیفۂ وقت بھی یہی سمجھتا ہے کہ جب لوگوں نے نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق اپنے نمائندے بنائے ہیں تو پھر وہ اس کے مطابق ہی اپنی امانتوں کا حق ادا کر رہے ہوں گے۔ اور اگر نمائندگان اپنا یہ حق شوریٰ اور بعد میں بھی ادا نہیں کر رہے تو نہ صرف وہ افراد جماعت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں بلکہ خلیفۂ وقت کے ساتھ بھی اپنی امانت کا حق ادا نہ کر کے خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لیکن

یہاں ایک اَور صورت بھی ہو سکتی ہے۔ بعض نمائندے چننے والوں نے بھی تقویٰ سے کام نہ لیتے ہوئے نمائندے چنے ہوں۔ رشتہ داریوں کے تعلق کی وجہ سے یا دوستیوں کا پاس کرتے ہوئے منتخب کیے ہوں۔

بہرحال وہ چننے والے تو اپنے اس عمل میں گناہگار ہیں کہ انہوں نے یہ غلط کام کیا۔ اگر انہوں نے حق ادا نہیں کیا تو انہیں استغفار کرنی چاہیے۔ لیکن جو نمائندگان بلکہ عہدیداران کو بھی میں شامل کرتا ہوں کہ جب وہ منتخب ہو گئے ہیں اور عملی اور روحانی حالت کے وہ معیار ان میں نہیں ہیں جو ہونے چاہئیں تو پھر اب وہ استغفار کرتے ہوئے، اپنی حالتوں میں مثبت تبدیلی کا عہد کرتے ہوئے اور تقویٰ پر چلنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے، اپنے آپ کو امانت کے ادا کرنے کا اہل بنانے کی کوشش کریں۔ اور جب یہ کوشش ہو گی تو جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر رہے ہوں گے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن میں بھی مددگار بن رہے ہوں گے اور اپنی عملی اور روحانی حالتوں کو بھی بہتر کر رہے ہوں گے۔

جیسا کہ میں نے کہا

نمائندگی ایک سال کے لیے ہے اور اس عرصہ میں انتظامیہ سے تعاون بھی کرنا ہے اور فیصلوں پر خود بھی عمل کرنا ہے اور کروانا بھی ہے۔ اس بات کے حصول کے لیے ہمیشہ یہ نگرانی کرتے رہیں کہ آپ کی جماعت میں اس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں یا کس حد تک ہو رہا ہے اور اس کے مطابق عمل ہو رہا ہے جس طرح خلیفۂ وقت نے فیصلہ دیا تھا؟

پس اس طرح آپ نے خلیفۂ وقت کے مددگار بننا ہے۔ بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جماعتوں میں جا کر فیصلے عہدیداروں کی سستیوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور جو فیصلے ہوتے ہیں ان پر عمل نہیں ہو رہا ہوتا۔ پس ایسی صورت میں نمائندگان کا کام ہے کہ صرف افرادِ جماعت کو ہی توجہ نہیں دلانی بلکہ عہدیداروں کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانی ہے اور اگر پھر بھی توجہ پیدا نہیں ہو رہی اور اس تجویز پر اس طرح عمل نہیں ہو رہا جس طرح ہونا چاہیے تو پھر مرکز کو لکھیں۔ اسی طرح بہت سے عہدیدار بھی شوریٰ کے ممبر ہوتے ہیں۔ ان کا صرف یہ کام نہیں ہے کہ اپنے شعبہ کے کام کو دیکھ لیں بلکہ شوریٰ کی تجاویز اور ان پر خلیفۂ وقت کے فیصلے پر عدم تعمیل ہونے اور عملدرآمد نہ ہونے کو بھی انہیں سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اور چاہے ان کا اپنا شعبہ ہے یا کسی دوسرے کا، متعلقہ عہدیدار اور امیر کو توجہ دلانی چاہیے اور عاملہ میں بھی یہ معاملہ رکھنا چاہیے ورنہ پھر ایسے عہدیدار بھی اور ایسے نمائندے بھی اپنی امانت کا حق ادا نہیں کر رہے۔ اس دنیا میں تو بعض بہانے بنا کر بچ جائیں گے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے اور وہ امانتوں کے ادا کرنے کے بارے میں پوچھے گا۔ پس بہت فکر کا مقام ہے۔ اس بات پر ہمیں فخر نہیں کرنا چاہیے کہ ہم شوریٰ کے نمائندے ہیں یا عہدیدار ہیں بلکہ اپنی ذمہ داری کی ہر ایک کو فکر کرنی چاہیے۔

جیساکہ میں نے کہا اگر جماعتوں میں عہدیداروں کو توجہ دلانے پر بھی شوریٰ کے فیصلوں پر عمل نہیں ہورہا، نمائندگان کوشش کرتے ہیں اور توجہ دلانے پروہ پھر بھی اس پر عمل نہیں کرتے تو مرکز کو اطلاع کریں۔ اس پر بعض لوگ اب بھی عمل کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ عمل نہیں ہو رہا۔ بعض لوگ اس پر عمل کرتے ہیں کہ اگر عہدیدار عمل نہیں کر رہے تو مرکز کو اطلاع کرتے ہیں لیکن عموماً اس وقت یہ بات کرتے ہیں جب کسی عہدیدار سے ذاتی رنجش کی بنا پر اختلاف پیدا ہو جائے۔ یہ طریق تقویٰ کا طریق نہیں ہے۔ اگر تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہر نمائندہ اور ہر عہدیدار شوریٰ کی منظور شدہ تجاویز پر عمل کرنے اور کروانے کی کوشش کرے تو پھر کبھی یہ صورت پیدا نہ ہو کہ وہ تجویز دوبارہ اگلے سال یا دو تین سال بعد پیش ہونے کے لیے آ جائے۔

دوبارہ تجویز آنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس پر یا تو مکمل طور پر عمل نہیں ہوا یا جس طرح ہونا چاہیے تھا اس طرح نہیں ہوا۔

پس ایسی جماعتوں اور عہدیداروں کو سوچنا چاہیے کہ کیا یہ تقویٰ پر چلنے اور اپنی امانتوں کے حق ادا کرنے کا عمل ہے؟ کیا یہ خلافت سے اطاعت اور وفا کے نبھانے کے عہد کو پورا کرنے کا عمل ہے؟ ملک کے اندر جو جماعتیں ہیں وہ اپنے مرکز کو بھی ایسی تجاویز بھیجتی ہی اس وقت ہیں جب وہ دیکھتی ہیں کہ ان باتوں پر عمل نہیں ہو رہا۔ اگر عمل ہو رہا ہو اور ہر سطح پر ہر جماعت کی نگرانی ہو رہی ہو کہ کس حد تک عمل ہو رہا ہے تو تجاویز دوبارہ آئیں ہی نہ اور نہ ملکی مرکز کو ان تجاویز کو خلیفۂ وقت کے پاس اس سفارش کے ساتھ بھیجنے کی ضرورت پڑے کہ کیونکہ یہ ایک سال پہلے یا دو سال پہلے پیش ہو چکی ہے اس لیے اس کو شوریٰ میں پیش کرنے کی سفارش نہیں کی جاتی۔ یہ جواب لکھتے ہوئے ملکی مرکزی نظام کو شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھنا چاہیے کہ ہم شرمندہ ہیں کہ ہم اس پر عمل نہیں کروا سکے۔ اب اس سال ہم اس پر عمل کریں گے۔ اگر عمل نہ کروائیں تو ہم مجرم ہوں گے اور ان لوگوں میں شامل ہوں گے جو اپنی امانتوں کا حق ادا نہیں کر رہے۔ لہٰذا یہ تحریر ان کو لکھنی چاہیے اور پھر لکھیں کہ لہٰذا نہایت عجز کے ساتھ ہم معافی مانگتے ہوئے اس تجویز کو اس سال پیش نہ کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ جب اس طرح کریں گے تو ذمہ داری کا احساس پیدا ہو گا۔ کم از کم اس سے انتظامیہ اور نمائندگان کو یہ احساس تو ہو گا کہ وہ بڑے بڑے لائحہ عمل بنا کر خلیفۂ وقت کو پیش کرتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے اور پھر اس پر عمل نہیں کرتے تو وہ مجرم ہیں اور خلیفۂ وقت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے ہیں۔ پس اس لحاظ سے جہاں اجتماعی لحاظ سے محاسبہ ہو وہاں انفرادی طور پر بھی عہدیدار اور نمائندہ شوریٰ اپنا محاسبہ کرے اور استغفار کرے اور پھر اس پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجوہات بھی ہر سطح پر جاننے کی کوشش کی جائے۔ پس یہ جائزے ہی ہیں جو جماعتی نظام کو صحیح راستے پر چلا سکتے ہیں ورنہ زبانی باتیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتیں۔ ملکوں کے اندر یہ جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے کہ بعض activeجماعتیں اگر سو فیصد نہیں تو ستر اسّی فیصد تجاویز پر عمل کر لیتی ہیں اور ایک لگن کے ساتھ کرتی ہیں کہ خلیفۂ وقت کی منظوری سے یہ لائحہ عمل ہمیں ملا ہے اور ہم نے خلیفۂ وقت کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانی تو ان میں وہ کیا جذبہ ہے؟ یہ معلوم کرنا چاہیے کہ کیا جذبہ ہے جس کے تحت اس جماعت کے افراد میں یہ انقلاب ہے۔ ایسی فعال جماعتوں کے عہدیداروں کی کمزور جماعتوں کے عہدیداروں کے ساتھ میٹنگ کروائی جائے بلکہ مرکزی عہدیداروں سے بھی میٹنگ کروائی جائے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔

اگر کسی جگہ ایک جماعت بھی فعال اور اپنے عملی اور روحانی پروگراموں میں بھرپور عمل کرنے والی ہے تو دس دوسری جماعتوں کواپنے طریقۂ کار کو شیئر کرنے سے فائدہ پہنچا سکتی ہے

لیکن بات وہی ہے کہ اگر مرکزی نظام میں ہر سیکرٹری اور عہدیدار اور نمائندگان شوریٰ اپنا کردار ایمانداری سے ادا کرنے والے ہوں تبھی یہ ہوگا۔

بعض جماعتوں یا ملکوں نے یہ جائزہ بھی لیا ہے اور اس کا فائدہ ہوا ہے کہ گذشتہ تین سال میں جو جو شوریٰ کے فیصلے ہوئے ہیں ان پر کس حد تک عملدرآمد ہوا ہے اور ہو رہا ہے اور پھر وہ اس کی سہ ماہی جائزہ رپورٹ مرکز میں بھجواتے ہیں۔ ان میں یہ احساس ہے کہ ہم نے صرف یہ کہہ کر نہیں بیٹھ جانا کہ یہ تجویز دو سال پہلے پیش ہو چکی ہے اس لیے پیش نہیں ہو گی بلکہ مرکز کو یہ رپورٹ دینی ہے کہ ہم نے اس لائحہ عمل پر عمل کر کے اس حد تک اپنے مقصد کو حاصل کر لیا ہے اور مزید کوشش جاری ہے۔ اس سے ایسی جماعتوں میں پھر احساس ذمہ داری بڑھا ہے۔ صرف باتوں سے ہم دنیا فتح نہیں کر سکتے اس کے لیے عمل کی ضرورت ہے۔

جہاں ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے وہاں عملی کوشش کی ضرورت ہے، اپنی عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر عہدیدار اور نمائندگان شوریٰ اپنی عبادتوں کے معیار بہتر کرنے کی طرف توجہ کریں اور مسجدوں کو آباد کرنے کے لیے اپنے عملی نمونے دکھائیں تو مسجدوں کی آبادی بھی تین چار گنا بڑھ سکتی ہے۔ اس کے بھی جائزے ہمیں لینے چاہئیں۔

پس اپنے عملی نمونے، لوگوں سے پیار محبت کا تعلق، ان کا درد دل میں رکھنا، ان کے لیے بھی اور اپنے لیے بھی دعا کرنا، خلیفۂ وقت کی اطاعت کے معیار کو بلند کرنا ہر عہدیدار اور ہر ممبر شوریٰ کا خاص امتیاز ہو گا تو تبھی ایک انقلابی تبدیلی مجموعی طور پر ہم جماعت میں پیدا ہوتی دیکھیں گے۔

ایک بہت بڑا کام ہمارے سپرد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کا مقصد اور آپؑ کا مشن کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ دنیا میں اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچا کر دنیا کو خدائے واحد کی پرستش کرنے والا بنانا مسلسل کوشش چاہتا ہے۔

دنیا میں، تمام ممالک میں شوریٰ اس لیے منعقد کی جاتی ہےکہ جہاں ہم اپنی عملی حالتوں کو درست کرنے کے لیے منصوبہ بندی کریں وہاں خدائے واحد کا پیغام پہنچانے کے لیے اور دنیا کو امّت واحدہ بنانے کے لیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لانے کے لیے ایسی منصوبہ بندی کریں جو ایک انقلاب پیدا کرنے والی ہو۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس سارے کام کو انجام دینے کے لیے اخراجات کی بھی ضرورت ہے، مال کی بھی ضرورت ہے۔ اس لیے اپنے مالی بجٹ کو بھی اس طرح بنائیں کہ کم سے کم اخراجات میں ہم زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہوں۔ جماعت کے افراد کی اکثریت غریب اور اوسط درجہ کے لوگوں کی ہے۔ اس لیے

ہمارے چندوں کی آمد کی ایسے احسن رنگ میں منصوبہ بندی ہونی چاہیے جس سے ہم کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ اشاعتِ دین اورتبلیغ کے کام کو سرانجام دے سکیں

اور یہ کام ہم اسی صورت میں کر سکیں گے جب ہم اس حقیقت کو سمجھنے والے بن جائیں کہ ہم نے تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں اور امانتوں کو ادا کرنا ہے اور خدمت دین کو ایک فضل الٰہی سمجھنا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تقویٰ پر چلنے کی نصیحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ (الانفال:30) (پھر فرمایا۔) وَيَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ (الحدید:29)یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آ جائے گا۔ تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قویٰ کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ177-178)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہماری غلطیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کی پردہ پوشی فرماتے ہوئے اپنے فضل سے ہمیں ہمیشہ نوازتا چلا جائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button