حضرت عائشہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
زوجہ حضرت کریم بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آپ کا تعارف:حضرت عائشہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سلسلہ احمدیہ کے مخلص بزرگ و صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت میر کریم بخش صاحب پہلوان رضی اللہ عنہ ولد جمال الدین صاحب آف لاہور کی زوجہ محترمہ تھیں۔ حضرت عائشہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کے ابتدائی حالات کا علم نہیں۔حضرت میر کریم بخش صاحب پہلوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی حضرت بابو غلام محمد اختر صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی روایات میں اپنی بھاوج کی بیعت کا ذکر کیا ہے، غالباً ان کی بھاوج سے مراد آپ ہی ہیں کیونکہ آپ ان کے بھائی حضرت کریم بخش صاحب رضی اللہ عنہ پہلوان کی اہلیہ تھیں ۔
بیعت:حضرت بابو غلام محمد اختر صاحب رضی اللہ عنہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سفر دہلی و لدھیانہ سے واپسی پر امرتسر میں ورود مسعود (1905ء)کی روداد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:‘‘دہلی سے واپسی پر جب امرتسر پہنچے تو رمضان کا مہینہ تھا…صبح ہال میں جلسہ ہوا …مگر لوگوں نے اس قدر شور مچایا کہ ایک حرف بھی سننے نہیں دیا۔جب شور بڑھ گیا تو حضوراقدس علیہ السلام کو دوسرے راستے سے نکال لینا تجویز ہوا اور حاضرین کو مشغول رکھنے کے لیے خلیفہ رجب دین صاحب کو کھڑا کردیا گیا۔ جب حضور اقدس علیہ السلام بند گاڑی میں سوار ہوئے تو اس کی سب کھڑکیاں بند کر دی گئیں،درمیان میں ایک طرف کی کھڑکی نہ تھی اس میں پائیدان پر کھڑکی کی جگہ مَیں کھڑا ہو گیا تاکہ اندر کوئی اینٹ پتھر نہ جا سکے ۔ گاڑی پر اس قدر پتھراؤ کیا گیا کہ ہم نے سمجھا کہ پتھروں کی کوئی مشین چل رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھاکہ جس قدر پتھر لوگ جمع کر سکتے تھے انہوں نے جمع کرکے گاڑی پر مارنا شروع کردیے ہیں۔ حضرت صاحب کے ساتھ جہاں تک مجھے رہنے کا اتفاق ہوا ہے اس قدر پتھر میرے خیال میں اور کہیں نہیں پڑے۔جب گاڑی اشرار کی زد سے نکل گئی تو سامنے ایک لمبی داڑھی والاسکھ لٹھ گھماتا ہوا آیااور اس زور سے گاڑی پر لٹھ ماری کہ لکڑی کی جھرمنیاں ٹوٹ گئیں ،لٹھ کا درمیانی حصہ میری کمر پر لگا۔حضور علیہ السلام نے زور سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ مَیں نے عرض کیا کہ ایک سکھ نے لٹھ مارا ہے اور یہ جھرمنیاں کھڑکی کی ٹوٹ گئی ہیں۔ فرمایا آپ کو تو نہیں لگی؟میں نے عرض کیا درمیانی حصہ تھا اگر سرا لگتا تو شاید میری کمر بھی ٹوٹ جاتی ۔حضور علیہ السلام بہت متأسف ہوئے اور اکثر یاد دِلایا کرتے تھے کہ وہ امرتسر کا لٹھ تمہیں یاد ہوگاچنانچہ میری بھاوج صاحبہ نے حضورعلیہ السلام سے بیعت کے لیے کہا اور عرض کیا کہ میں بابو غلام محمد کے بھائی کی بیوی ہوں تو حضور نے بلا تامل فرمایا کہ سوچ لو! بابو غلام محمد کو وہ لٹھ پڑا تھا کہ اگر اس کا سرا اُس کی کمر پر پڑتا تو ان کی ہڈیاں ٹوٹ جاتیں،احمدیت میں یہ چیزیں لازمی ہیں تم ان چیزوں کے لیے تیار ہو؟اس نے کہا حضور میں تیار ہوں چنانچہ بیعت حضوراقدس علیہ السلام نے لے لی۔
(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ 223،225از عبدالقادر صاحب سابق سودا گر مل)
لاہور کی پہلی صدر لجنہ اماء اللہ:1925ء میں لاہور میں لجنہ کا قیام ہو چکا تھا جس کی صدر آپ اور سیکرٹری زبیدہ خاتون اہلیہ بابو محمد نواز صاحب تھیں۔ (تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ 172)
آپ ؓ کی وفات پر لاہور کی ایک خاتون نے رسالہ ‘‘مصباح ’’میں بعنوان‘‘ایک مخلص احمدی خاتون کا انتقال ’’آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھا:۔ناظرات مصباح یکم جولائی کے مصباح میں ہماری لجنہ کی پریذیڈنٹ محترمہ عائشہ بی بی اہلیہ میر کریم بخش صاحب پہلوان کی وفات حسرت آیات کی خبر پڑھ چکی ہیں۔ آہ مرحومہ محترمہ نہایت دین دارو پرہیزگار خاتون تھیں۔احمدیت کی شیدااور اس کی زبردست حامی تھیں۔
نہایت ہو شیار و تجربہ کار خاتون تھیں ۔گو تعلیم یافتہ نہ تھیں مگر اپنی عقل و دانش کے لحاظ سے سینکڑوں علم والوں کو مات کرتی تھیں۔احمدیت کی ہر ایک تحریک پر دل کھول کر چندہ دیتیں اور اس کی ضروریات پر بخوشی حصہ لینے کو تیار رہتیں تھیں ۔
احمدیت کے لیے غیرت:احمدیت کی ان کو انتہا درجہ کی غیرت تھی ۔ تمثیلاً ان کی زندگی کا ایک واقعہ لکھتی ہوں کہ ایک دفعہ انہوں نے ایک ہزار روپیہ کسی احمدی بھائی کو بطور قرض دیا۔ ادائیگی وعدہ پر جب انہوں نے مانگا تو ان بھائی صاحب سے وعدہ کا ایفانہ ہو سکا بلکہ پھر کسی وقت دینے کا وعدہ کیا تو انہوں نے کہا احمدی ہو کر عہد شکنی کرتے ہو۔ اس کے جواب میں ان بھائی صاحب نے کہا کہ میں ایسی احمدیت کو چھوڑ نے کو تیار ہوں ۔ اس پر ان خاتون موصوفہ نے نہایت جوش غیرت میں کہا ‘‘میںاپنا روپیہ تم کو چھوڑتی ہوں مگر خدا کے لیے تم احمدیت مت چھوڑو۔ ’’ان کا یہ جواب جس کسی نے بھی سنا ، آفرین کہا ، کہ عورت ہو کر اتنی غیرت و محبت ۔غرض ایسی تھی ان کی غیرتِ احمدیت کہ اس پر ہم جتنا بھی رشک کریں کم ہے۔ لجنہ کی ترقی میں ان کا ہاتھ بڑا کام کرتا تھا۔ اس کی ہر بات میں دلچسپی لینا اپنا فرض سمجھتی تھیں۔ہر دفعہ عمدہ ہدایات دیتیں اور نئی سے نئی تجاویز پیش کرتیں اور اس کی ترقی و بہبودی میں حد سے زیادہ کام کرتیں۔وہ اس کی روح رواں تھیں اور سچ تو یہ ہے کہ ان کی موجودگی میں ہماری لجنہ نے خوب ترقی کی۔ بہت پُر رونق اجلاس ہوتے اور آپ ہر ایک جلسہ میں شامل ہوتیں۔وہ ایک ایسامبارک وجود تھیں کہ اگر کسی وجہ سے کسی جلسہ میں شامل نہ ہوتیں تو اس جلسہ میں کوئی رونق اور کوئی لطف نہ ہوتا تھا۔آپ گویا لجنہ کی شمع تھیں کہ جب تک موجود نہ ہوتیں اندھیرا رہتا… مرحومہ مکرمہ کی وفات کا مجھے انتہائی رنج ہے اس لیے بھی کہ وہ احمدیت کی مضبوط کڑی تھیں اور دوسری عورتوں کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ تھیں اور اس لیے بھی کہ ہمارے سب گھر سے ان کو خاص اُنس تھا۔ہماری والدہ صاحبہ مرحومہ (حضرت برکت بی بی صاحبہ زوجہ حضرت شیخ مولا بخش صاحب رضی اللہ عنہ آف لاہور یکے از 313۔ ناقل)کی جن کو عرصہ گذرا وفات پائے ہوئے، بہن بنی ہوئی تھیں۔واقعی ہمدرد تھیں حقیقی بہنوں سے بڑھ کرمیرے ساتھ ان کو بہت محبت تھی میرے ہر کام میں ضرورت سے بڑھ کر حوصلہ افزائی کرتیں۔ میرے ٹوٹے پھوٹے مضامین کی ان کے دل میں بہت قدر تھی۔ گو خود پڑھی ہوئی نہ تھیں مگر سلسلہ کے اخبار خریدتیں اوردوسروں سے پڑھواکرسنا کرتی تھیں…علم کی بڑی خواہش مند تھیں مگر اپنی عمرکے تقاضاکا خیال کر کے اس شوق کو جبراً دبالیتی تھیں۔حضرت صاحب کی اس تحریک پر کہ سال میں پندرہ دن کے لیے باہر کی عورتیں یہاں آویں تو میں ان کو دین کی موٹی موٹی باتیں سمجھادوں ،جو وہ باہررہنے اور گھر وں کے مشاغل کی وجہ سے نہیں سیکھ سکتیں ۔مرحومہ محترمہ بھی جانے کے لیے تیار تھیںاور بڑی خوش تھیں اگرچہ یہ دن ان کی زندگی میں نہ آیا۔مرحومہ نے مدت کی وصیت کی ہوئی تھی اور غالباً اپنی حین و حیات میں ادا بھی کر دی تھی۔
اَولاد:مرحومہ کی عمر کا مجھے کوئی ٹھیک اندازہ نہیں ، غالباً پچاس سال کے قریب ہوگی ۔ مرحومہ کی اپنی اولاد کوئی نہ تھی سوائے ایک لڑکی کے جواِن کے میاں کی پہلی بیوی سے ہے۔ اپناایک لڑکا تھا جو عرصہ ہوا عین جوانی میں وفات پاگیا تھامگر مرحومہ ہمیشہ راضی برضارہیں ۔مرحومہ کو نیک کاموں کا بہت خیال رہتا تھا اور نہیں چاہتی تھیں کہ کسی نیکی سے محروم رہ جائیں چنانچہ باوجود اس کے کہ وہ ایک سال سے کامل بیمار تھیں مگرجون کے جلسہ میں کسی نہ کسی طرح تشریف لے آئیں اور کارروائی جلسہ دیکھتی رہیں۔
وفات کا اعلان:حضرت عائشہ بی بی صاحبہ نے 23جون 1929ء کو وفات پائی۔ آپ ابتدائی موصیان (وصیت نمبر 590) میں سے تھیں ۔حضرت بابو غلام محمد صاحب کی طرف سے رسالہ ‘‘مصباح ’’میں وفات کا اعلان اس طرح شائع ہوا: محترمہ عائشہ بی بی زوجہ میر کریم بخش صاحب پہلوان جو نہایت مخلص احمدی خاتون اور سلسلہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھیں ،کچھ عرصہ بیمار رہ کر فوت ہو گئیں۔ان کا جنازہ 24جون کو دارالامان لایا گیا اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور جنت میں اعلیٰ درجات عطا فرمائے، آمین
(مصباح یکم جولائی 1929ء صفحہ 15کالم 2) (مصباح اگست 1929ء صفحہ 12تا15)( روزنامہ الفضل28 ؍فروری2011ء صفحہ5 تا 6)
٭…٭…٭