عورتوں پر تابعداری لازم ہے
خدا اور رسول کی اطاعت کے بعد یہ سلسلہ والدین، بزرگ ،اُستاداور شوہر پر ختم ہوتا ہے ۔ اس لیے نجات کے لیے بھی اطاعت ضروری ہے ۔اطاعت کا ہر شعبہ اپنی اپنی جگہ ازبس ضروری ہے ۔ اطاعت کی زنجیر کا ایک سرا خدا وند تعالیٰ، خالقِ کُل سے شروع ہوتا ہے اور دوسرا خاوند پر ختم ہوتا ہے ۔ گویا نکاح میں بھی ایک اطاعت ہوتی ہے۔
‘‘…اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہوسکتی جب تک پوری پوری خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم بجا نہ لائے اور پس پشت اس کی خیر خواہ نہ ہو ۔اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار رہیں ورنہ اُن کاکوئی عمل منظور نہیں …اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بد زبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اُس کو دیکھتی ہے اور حکم ربّانی سُن کر پھر بھی باز نہیں آتی تو وہ لعنتی ہے ۔خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں…’’
(ملفوظات جلد 5صفحہ 47۔48)
اطاعت کے تفصیلی معنے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نکاح کے ضمن میں بہت وضاحت سے سمجھاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ نکاح میں ایک اطاعت ہوتی ہے …بیسیوں باتیں ہیں جن میں خاوند کی اطاعت کرنی پڑتی ہے کوئی خاوند نہیں جو بیوی کی نہ مانے اور کوئی بیوی نہیں جسے کئی باتیں اپنے خاوند کی نہ ماننی پڑیں ۔یہ علیحدہ بات ہے کئی زور سے منواتے ہیں ۔اور کئی محبت سے مگر چاہے وہ غلط طریق سے منوائیں یا صحیح طریق سے انہیں ایک دوسرے کی اطاعت کرنی پڑتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک دوسرے کی اطاعت کی جائے ۔اور ایک دوسرے کو محض خدا کے لیے خوش رکھنے کی کوشش کی جائے تو نتیجہ اچھا پیدا ہوگا ۔ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص خدا کی رضا کے لیے کام کرے اس کے احکام پر عمل کرے اور پھر اسے دُکھ پہنچے جو اسے تباہ کردے۔
(ماخوذ از خطبات محمود)
تقویٰ پیشِ نظر رہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:‘‘تقویٰ اگر حاصل ہو جائے تو پھر معاشرے کی بنیادی اکائی مرد اور عورت ہیں جو گو مختلف صنف سے اُن کا تعلق ہے۔ لیکن میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد ایک اکائی بن جاتے ہیں۔ یہی وہ رشتہ اور جوڑ ہے جس سے آگے نسل چلتی ہے۔ اگر اس اکائی میں تقویٰ نہ ہو، اس جوڑے میں تقویٰ نہ ہو تو پھر آئندہ نسل کے تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں اور معاشرے کے اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں، کیونکہ ایک سے دو اور دو سے چار بن کے ہی معاشرہ بنتا ہے۔ پس ایک مومن جب تقویٰ کی تلاش میں ہوتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے نہیں ہوتا بلکہ اپنی نسلوںکے لیے بھی، اپنے معاشرے کے لیے بھی۔ اور جب اس بنیادی اکائی میں یہ تقویٰ ہوگا تو آئندہ نسل میں بھی تقویٰ کی ضمانت بن جائے گی اور پھر معاشرے کے تقویٰ کی ضمانت ہو گی۔ اعلیٰ اخلاق معاشرے میں ہمیں نظرآئیں گے۔…
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کی قوت بخشتی ہے اور جب یہ قوت حاصل ہو جائے تو پھر انسان کے پاس وہ انمول تعویذ آ جاتا ہے جو سلامتی کی ضمانت ہے۔ انسان ایک ایسے مضبوط قلعے میں آ جاتا ہے جس کے ارد گرد خدا تعالیٰ نے پہرہ بٹھایا ہوا ہے جس تک کوئی شیطانی حربہ نہیں پہنچ سکتا۔ شیطانی خیالات اور جذبات اُسی وقت اُبھرتے ہیں جب انسان خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے، جب خدا تعالیٰ کا خوف نہیں رہتا۔ پس اگر خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو کبھی کوئی ایسی حرکت انسان سے سرزد نہیں ہو سکتی جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہو اور دنیا کے امن کو برباد کرنے والی ہو، اپنے معاشرے کے امن کو برباد کرنے والی ہو، اپنے گھروں کے سکون اور امن کو برباد کرنے والی ہو۔…
پس آج کے معاشرے میں ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم لغویات اور فضولیات سے بچیں۔ اپنی زندگیوں میں امن و سکون پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے انسان کو مختلف قسم کے فتنوں سے بچنے ، فتنوں اور خطرناک جھگڑوں سے بچنے اور بچانے کے راستے سکھائے ہیں ۔لیکن بدقسمتی سے انسان ان راستوں پر توجہ نہ دے کر اپنی زندگیوں کو برباد کر لیتا ہے۔ اس خوبصورتی سے اپنے آپ کو محروم کر لیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایک مومن اور مومنہ کے لیے مہیا فرمائی ہے۔ جو ایک مومن اور مومنہ کا طرّہ امتیاز ہونا چاہیے جو اس کے حسن کو چار چاند لگا دے۔
کپڑے یا ظاہری حسن کوئی چیز نہیں ہے۔اصل حُسن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ عورت کو اپنے حسن اور زینت کا بڑا خیال رہتا ہے لیکن بہت سی ایسی ہیں جو اپنی اصل زینت سے بے خبر رہتی ہیں۔ میک اَپ کرنے سے، کپڑے پہننے سے، زیور پہننے سے زینت نہیں ملتی۔اصل زینت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے۔ اُس حسن سے بے خبر رہتی ہیںجس سے اُن کا حسن و زینت کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور جو آزادی حاصل کر کے نہیں ملتی۔ اس معاشرے کی فضولیات میں گم ہو کر نہیں ملتی۔ جو حجاب ختم کر کے نہیں ملتی۔ جو سر ننگے کرنے سے نہیں ملتی۔ جو اپنے خاوندوں کے سامنے دنیاوی خواہشات پیش کرنے سے نہیں ملتی۔ یا مَردوں کے لیے بھی ایک زینت ہے، مَردوں کو وہ زینت، فیشن ایبل عورت سے رشتہ کرنے سے نہیں ملتی، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے سے ملتی ہے۔ آج کل مغرب کے زیرِ اثر ہو کر ہماری بعض عورتیں بھی اس قسم کا اظہار کر دیتی ہیں کہ شاید یہی زینت ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ زینت تقویٰ کا لباس پہننے سے ملتی ہے۔ اور لباسِ تقویٰ اُن کو میسر آتاہے جو اپنے ایمانی عَہدوں اور اَمانتوں کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ مَرد ہوں یا عورتیں ہوں۔
(جلسہ سالانہ یو کےکے موقع پر خواتین سے خطاب۔ مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل04مئی 2012ء)
(باقی کسی آئندہ شمارہ میں۔ انشاء اللہ)