امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ اٹلی کی(آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ۱۴؍مئی۲۰۲۳ء کو لجنہ اماء اللہ اٹلی کی آن لائن ملاقات ہوئی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ لجنہ اماء اللہ کی ممبرات نے مسجد بیت التوحید (Bologna)سے آن لائن شرکت کی۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم مع اطالوی ترجمہ سے ہوا۔
اس کے بعد مختلف امور پر لجنہ اماء اللہ کو حضور انور سے سوالات کرنے کا موقع ملا۔
ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیاکہ ایسی حالت میں جبکہ میاں بیوی دونوں اپنی خواہشات کو ایک دوسرے کے حقوق پر ترجیح دیں تو کیا یہ رویہ ممکنہ طور پر بچوں کی پرورش پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ شادی میاں بیوی کے درمیان ایک بندھن ہے۔چنانچہ دونوں کو ایک دوسرے کا ادب و احترام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میاں بیوی دونوں کو امن سے زندگی بسر کرنی چاہیے اور یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے نمونہ بنیں۔ اگر کوئی ایک فریق بھی، خواہ میاں یا بیوی کا سلوک روایات اور اسلامی تعلیم کے مطابق اچھا نہیں تو وہ اپنا فرض صحیح ادا نہیں کر رہے جیسا کہ ان کو چاہیے تھا۔
شادی سے قبل ایک دوسرے سے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں تاہم شادی کے بعد عام طور پر اکثر مرد اور بعض اوقات عورتیں بھی بھول جاتی ہیں جو انہوں نے دوسرے فریق سے وعدہ کیا تھا ۔لہٰذا آپ کو ہمیشہ احساس ہونا چاہیے کہ اب آپ کی زندگی اپنی نہیں رہی، آپ کے کندھوں پر دوسری جانوں کی بھی ذمہ داری ہے اور آپ کو ان کی پرورش اس طرح سے کرنی ہو گی جو کہ اسلامی تعلیم کے مطابق ہو اور اگر آپ ایک دوسرے کے ساتھ ادب و احترام سے نہیں پیش آرہے تو اسلامی تعلیم پر نہیں چل رہے، آپ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا نہیں کر رہے، آپ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل نہیں کر رہے ، آپ اخلاق کا مظاہرہ نہیں کر رہے تو پھر اس کا مطلب ہوا کہ آپ اپنی آئندہ نسل کو خراب کر رہے ہیں۔
چنانچہ آپ کو اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں تا کہ آپ کے بچے بھی آپ سے یہ سبق حاصل کریں کہ اس طرح ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور ان کی اس طریق سے پرورش ہو رہی ہو گی جو کہ خالصۃً اسلامی طریق ہے۔ یہ ایک دوسرے کو ترجیح دینے کی بات نہیں بلکہ ایک دوسرے سے ادب و احترام سے پیش آنے کی بات ہے اگر میاں اور بیوی دونوں اپنے فرائض کا احساس کریں تو ایسا کبھی نہ ہو کہ میں تم سے برتر ہوں یا تم مجھ سے کمتر ہو۔مَیں جانتا ہوں کہ افریقن اور ایشین کلچر میں مرد بعض دفعہ عورتوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنا حکم چلاتے ہیں مگر یہ درست نہیںبلکہ غیر اسلامی ہے۔دونوں کو اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ سورۃ المنافقون کا سبب نزول کیا ہے اور اگر ہم کسی احمدی میں منافقت محسوس کریں، جماعت اور اس کے بانی کی بے توقیری کرتاہو، بے جا باتیں بھی کرے اور شک کرتا ہو کہ جماعت سچی ہے یا نہیں اور اس کے بات کرنے کے انداز سے محسوس ہوتا ہو کہ وہ نہ تو یہاں کا ہے اور نہ وہاں کا اور جماعت سے خود نکلنے کی جرأت بھی نہ رکھتا ہو۔ کیا ہمیں چاہیے کہ جماعت کواس کی شکایت کریں یا پھر معاملہ خدا پر چھوڑ دیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ منافق تو ہر زمانے میں ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی منافقین تھے اور منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ آنحضرتﷺ پتا ہونے کے باوجود اس کی منافقت سے صَرف نظر فرماتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے مرنے پر فرما دیا کہ یہ منافق ہے اور تُو چاہےجتنی مرضی اس کے لیے مغفرت کی دعا مانگے،قبول نہیں ہو گی۔ منافقوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے۔
منافقت تو ہر زمانے میں رہی اور اب بھی بعض لوگ ایسے ہیں لیکن منافق کہتے ہی اس کو ہیں جس میں کھل کے اپنے اظہار کی جرأت نہ ہو۔ وہ سامنے کچھ کہتا ہو۔جماعتی عہدیداروں سے یا مخلصین سے ملے تو اس کا نظریہ جماعت یا خلافت کے بارے میں اَور ہو لیکن جب وہ اپنے دوستوں اور ہم خیالوں کے ساتھ بیٹھا ہوتو مختلف باتیں کرے۔ ایسے لوگ اگر ظاہر ہو جاتے ہیں تو جماعت پھر بھی ان سے اس لیے صَرف نظر کرتی ہے کہ شاید ان کی تربیت ہو جائے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی تربیت ہو جائے لیکن جب دیکھا جاتا ہے کہ ان کے بگاڑ سے جماعت میں زیادہ فتنہ اور بے چینی پیدا ہو رہی ہے تو پھر ان کو سزا دے کر جماعت سے نکالا بھی جاتا ہے۔
ہاں! اگر کوئی ایسا ہے جس کے بارے میں جماعت کو پتا نہیں اور وہ ایسی باتیں کر رہا ہے اور کسی کے علم میں ایسی باتیںآرہی ہیں تو جماعت سے اخلاص کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے بارے میں بتایا جائے کہ یہ شخص ایسی باتیں کر رہا ہے۔پھر اس کو بلا کے تحقیق بھی کر لی جائے گی اور پوچھا بھی جائے گا۔اس پہ نظر بھی رکھی جائے گی اور اگر پھر بھی وہ اپنی ایسی باتیں جاری رکھتا ہے تو اس کے خلاف جماعتی نظام کارروائی بھی کرتا ہے اور کرے گا۔
ایک خاتون نے سوال کیا کہ اسلام عورتوں کو غلامی، ظلم اور دوسروں کی برائی سے آزاد کرنے کے لیے آیا ہے۔ آپ کی ان لوگوں کے بارے میں کیا رائے ہے جو عورتوں کے ساتھ ظلم کرتے ہیںاور ان پر کوئی رحم و کرم نہیں کرتے چاہے بیٹی ، بیوی یا بہن ہی کیوں نہ ہو؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جو لوگ ظلم کرتے ہیں وہ ظالم ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اگر قوّام بنایا ہے تو ان پہ ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں اور ان کویہ کہا ہے کہ تم نرمی اور پیار کا سلوک کرو لیکن لوگ تو بعض دفعہ اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو بھی ظالموں کی طرح مارتے ہیں بلکہ بعض ایسے کیس بھی میرے سامنے آ جاتے ہیں کہ ماں بہن سے بھی صحیح سلوک نہیں کرتے۔تو ایسے سب لوگ ظالم ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایاکہ ہم ایسے شخص کو انتہائی نامرد سمجھتے ہیں جو اپنی بیویوں پر اس طرح ظلم کرتے ہیں اور ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑمجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی احمدی شخص کے بارے میں یہ پتا لگا کہ اس نے اپنی بیوی پہ ظلم کیا ہے تو آپؑ بڑے سخت ناراض ہوئے اور اتنے ناراض ہوئے کہ وہ صحابی جو پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے آج تک کبھی آپؑ کو اتنے غصہ میں نہیں دیکھا تھا۔ پھر ایک اَورصحابی تھے وہ بھی اپنی بیوی سے سرسری سا سلوک رکھا کرتے تھے ۔کبھی کوئی نرمی و پیار کا سلوک نہیں کیا۔جب بھی بات کرنی تو سخت لہجے میں ہی کرتے تھے۔وہ پہلے بازار گئے وہاں سے کچھ چیزیں بیوی کے لیے بطور تحفہ خریدیںپھر گھر آئے اور بیوی کو تحفہ دیا اور بڑے پیار اور لجاجت سے اس سے باتیں کرنے لگے۔بیوی نے بڑا حیران ہو کر پوچھا کہ آج کیا ہو گیا ہے آپ کی طبیعت ٹھیک تو ہے ؟ آپ کا مزاج بڑا بدلا ہوا ہے۔ تو کہنے لگےکہ آج مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا غصہ دیکھ کر آیا ہوں ۔اس کے بعدآئندہ سے میری توبہ کہ مَیں تم سے سختی سے بات کروں۔
تو اس طرح جن کی ا صلاح ہونی ہوتی ہے ہو جاتی ہے۔ بہرحال جو بھی ظلم کرتے ہیں وہ ظالم ہیں اور اگر یہاں نہ بھی پکڑے جائیں تو اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ ضرور ان کو سزا دے گا۔ اس لیے عورت کو دعا بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر دے،ان مردوںکے ظلم سے نجات دے اور ان کی اصلاح بھی کرے۔
ایک سوال کیا گیا کہ حضور انور ایدہ الله اکثر رات کو اپنے خیال میں دنیا کے مختلف ممالک کی جماعتوں کو یاد کرتے ہیں تو جب آپ کے خیال میں اٹلی آتا ہے توہم اطالوی لوگوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟نیز اٹلی میں جماعت کی جلد ترقی کے لیے آپ ہمیں خاص طور پر کیا نصیحت کرنا چاہیں گے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جس طرح ساروں کے لیے دعا کرتے ہوئے ان کی طرف توجہ پھیرتا جاتا ہوں اٹلی جماعت کے لیے بھی یہی سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی حفاظت میں رکھے اور ہر پریشانی سے بچائے اور وہ آرام سے رات کی نیند سوئیں اور صبح تازہ دم ہو کر اٹھیں۔پھر اللہ کو یاد کریں اور نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہوں۔اللہ تعالیٰ ان کو ہر شر سے بچائے۔ مختلف دعائیں ہیں ۔اسی طرح مَیں آپ لوگوں پر پھونکیں مار دیتا ہوں۔
ایک لجنہ ممبرنے جو تحریک وقف نو میں شامل نہیں ، سوال کیا کہ کیا اب مَیں اپنی زندگی وقف کر سکتی ہوں؟اور شادی شدہ ہوتے ہوئے کیسےجماعت کی خدمت کر سکتی ہوں نیز خلافت کی آنکھوں کی ٹھنڈک کیسے بن سکتی ہوں؟
اس پر حضور انور نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ماشاء اللہ، اتنے اونچے اونچے خیالات ہیں تو آنکھوں کی ٹھنڈک تو ویسے ہی بن جاؤ گی۔
جب وقف نو سکیم نہیں تھی تو کیا عورتیں جماعت کی خدمت نہیں کرتی تھیں؟ کیا مرد وقف کر کے جماعت میں نہیں آتے تھے؟مَیں نے جب وقف کیا تو کون سی وقف نو سکیم تھی؟یا اور بہت ساری عورتیں وقف کر کے افریقہ میں ہمارے سکولوںمیں جاتی ہیں، جماعتوں کا کام بھی کرتی ہیں ، وہ کون سی وقف نو ہوتی ہیں؟ آپ لوگ جب جماعت کا کام کرتے ہیں، لجنہ کا کام کریں، تبلیغ کا کام کریں ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تعلیم پر عمل کریں، قرآن کریم، حدیث اور اسلام کا علم حاصل کریں اور جو تعلیم حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں قرآن و حدیث کی تعلیم کی روشنی میں دی ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں، تبلیغ کریں تو آپ خدمت اسلام کر رہی ہیں۔
شادی شدہ ہوتے ہوئے آپ کچھ وقت لجنہ کے لیے نکالیں اور تبلیغ کے لیے جائیں۔ گھر ، بچوں اور خاوند کا بھی خیال رکھیں ۔اور جب یہ چیزیں خلیفۂ وقت کو پتا لگتی ہیں تو وہ اظہار خوشنودی کرتا ہے اور آپ کے لیے دعا بھی کرتا ہے اور اسی چیز کو آنکھوں کی ٹھنڈک کہتے ہیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ کیا لڑکا necklace پہن سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر فیشن کی خاطر ہویا سونے کا necklace ہو تو نہیں پہننا چاہیے۔ اگر necklace کسی بت پرست کی علامت ہو یا اس کے آخر میں صلیب ہو تو نہیں پہننا چاہیے۔ یہ کہاجاسکتا ہے کہnecklace صرف لڑکیوں کو پہننا چاہیے، لڑکوں کو نہیں لیکن اگر کوئی شخص پہن لے تو ہم اسے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مسلمان نہیں رہا یا اس نے کچھ غلط کر دیا ہے۔لیکن اگر کوئی صلیب کی علامت والا necklace پہنتا ہےتو یہ غلط ہے۔
ایک سوال ہوا کہ کیا غیر احمدی سہیلیاں رکھنا جائز ہے؟ اور انہیں مذہب کے بارے مزید جاننے کی ترغیب کیسے دلائی جا سکتی ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر کوئی غیر مسلموں سے دوستی نہیں کرے گا تو انہیں تبلیغ کیسے کرے۔ ظاہر ہے کہ آپ کو غیر مسلموں اور مختلف مذاہب کے لوگوں کو دوست بنانا پڑے گا اور اگر آپ ایک باعمل مسلمان ہیں، اسلام کی تعلیمات پر عمل کر رہی ہیں، اپنی پانچوں نمازیں ادا کر رہی ہیں اور دوران بحث انہیں بتاتی ہیں کہ قرآن کریم خواتین، مذہب، عورتوں اور مخلوق کے حقوق کے بارے میں کیا کہتا ہے تو اس طرح آپ کے لیے تبلیغ کی راہیں کھلیں گی۔لہٰذا آپ دوسروں سے دوستی کر سکتی ہیں اور پھر انہیں تبلیغ کر سکتی ہیں۔ اس طرح آپ اسلام کا پیغام پھیلائیں گی۔
ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ کیا والدین اپنے بچوں کے سامنے جوابدہ ہیں خاص طور پر جب وہ ان پر ظلم کرتے ہیں؟کیا بچوں کو اپنے والدین سے پوچھنے کا حق ہے کہ انہوں نے کچھ ایسے فیصلے کیوں کیے جو ان کی زندگی پر براہ راست اثر ڈالنے والے تھے۔مثلاًاگر والدین علیحدگی کر لیں اور بچے اس فیصلہ کی وجوہات کے بارے متجسس ہو ں کیونکہ والدین کا یہ فیصلہ ان کی زندگی پر براہ راست اثر ڈالنے والا ہے۔کیا ایسی صورت میں والدین اپنےمحرکات کی وضاحت کرنے کے پابند ہوں گے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بچے بہت ہوشیار ہوتے ہیں، وہ پہلے ہی جانتے ہیں کہ ماں باپ کے مابین تنازعہ چل رہا ہے۔لہٰذا اگر کوئی طلاق لینے کا فیصلہ کرتا ہےاور بچے پوچھیں تو انہیں وجہ بتا دینی چاہیے۔ان کو بتانے میں کوئی ہرج نہیں۔ وہ سمجھدار ہوتے ہیں اور بات سمجھتے ہیںلیکن ساتھ ہی ماں باپ دونوں کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اگرچہ ہم الگ ہونے اور طلاق لینے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے دونوں والدین سے حسن سلوک کرو۔
سوال کرنے والی خاتون نےمزید استفسار کیا کہ کیا عورت اپنے آپ کو نکاح میں برابر کا شریک سمجھ سکتی ہے؟اس سلسلہ میں توازن کیسے برقرار رکھا جاسکتا ہے، جیسا کہ بعض صورتوں میں مرد عورتوں پر برتری جتاتے ہوئے بعض کاموں کو بالخصوص خواتین سے پورا کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔
اس پر حضور انور ایدہ الله نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، تم دونوں میاں بیوی کے برابر حقوق ہیں۔ مَیں نے کئی مواقع پر لجنہ سے خطابات میں اس مسئلہ پر بات کی ہے۔ اپنی صدر لجنہ سے وہ اقتباسات حاصل کریں ان سے آپ کو مدد مل جائےگی۔جہاں تک کہ آپ کے حقوق اور آزادی کا تعلق ہے یہ درست ہے آپ برابر کے شریک ہیں، آپ کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام نے شوہر اور بیوی دونوں کے لیےکچھ کام مختص کیے ہیں۔شوہر گھر کے معاملات چلانے کا ذمہ دار ہے اور اسے گھر کی روزی روٹی کا کفیل ہونا اور پیسےکمانے چاہئیں۔ اگر عورت کام کر رہی ہے تو شوہر یہ نہ کہے کہ اب تم کام کر رہی ہو تو تم بھی گھر کے روزمرہ کے اخراجات میں اسی طرح حصہ ڈالو جس طرح مَیں خرچ کرتا ہوں۔ نہیں، یہ شوہر کی ذمہ داری ہے۔ لیکن عورت جو پیسہ کماتی ہے اگر وہ اس رقم کو گھر، بچوں اوردیگر مصارف پر خرچ کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کی اپنی صوابدید پر ہے۔جس طرح مرد باہر کے کاموں، گھر اور بچوں کے روزمرہ کے اخراجات پورا کرنے کا ذمہ دار ہے اسی طرح بیوی کے اخراجات بھی اسی کے ذمہ ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کا یہ فرض ہے کہ اپنے شوہر کا احترام کرے، جب وہ کام سے واپس آئے تو اس کے لیے کھانا تیار کرے، بچوں کی دیکھ بھال کرے اور ان کی بہترین تربیت کرے۔ جب بچےسکول سے آئیں تو انہیں پتا ہونا چاہیے کہ میری ماں گھر پر ہے۔ وہ میرا استقبال کرے گی اور وہ تمام کام کرے گی جو میری پرورش کے لیے ضروری ہیں۔ اگر دونوں کو اپنے فرائض کا احساس ہو جائے، خاوندکے اپنے فرائض ہیں اور بیوی کے اپنے فرائض،توپھر کوئی تنازعہ نہیں ہوگا۔پھرانسان کے گھریلو معاملات خوش اسلوبی اور افہام و تفہیم کے ساتھ چلتے رہیں گے۔
ایک سوال ہوا کہ دنیا کی موجودہ غیر یقینی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہم لجنہ انفرادی اور تنظیمی طورپر آنے والے حالات کے لیے خود کو کیسے تیار کر سکتی ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس صورت حال سے آپ کو بچائے۔اس کے علاوہ تو ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔
ایک بات یہ ہے کہ دنیا کی عمومی اخلاقی صورت حال کے لیے لجنہ کو چاہیے کہ اپنے گھروں میں اپنے ماحول کو ایسا پاک صاف رکھیں کہ آپ کے بچے آپ پہ نظر رکھیں۔خاوند اور بیوی دونوں اپنے نمونے قائم کریں۔اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں۔اپنے اور اپنے بچوں کے لیے بھی دعائیں کریں اور جب بچے باہر سے آئیں تو ان کو سکھائیں کہ اسلامی اخلاق اور آداب کیا چیزیں ہیں۔اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے۔کس طرح ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔جب بچے دیکھیں گے کہ ماں باپ اسلامی تعلیم کے مطابق عمل کر رہے ہیں اور ان کی زندگیاں اسلامی تعلیم کے مطابق گزر رہی ہیں تو عموماً الّا ماشاء اللہ یہی ہوتا ہے کہ پھر بچے نیکی کی طرف جاتے ہیں۔
جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ اگر دنیا میں جو جنگی حالات ہیں اس کے بعد کیا ہو گا تو وہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا ہو گا۔
ابھی تودنیا جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، جو دنیا بچے گی اس کو آپ نے بتانا ہے۔اول تو پہلے ہی بتانا شروع کر دیں کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ امن سے رہو، اللہ تعالیٰ کو یاد رکھو تو پھر تمہاری بچت ہے، نہیں تو تم لوگ تباہی کی طرف جا رہے ہو۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہمیں اس طرح رہنا چاہیے اور خدا تعالیٰ کو یاد رکھنا چاہیے۔ جس طرح مردوں کو تبلیغ کرنی چاہیے اس طرح عورتوں کو بھی اپنے اپنے حلقہ میں اپنےماحول میں کرنی چاہیے۔اسی طرح اپنے بچوں کی تربیت بھی کرنی چاہیے کہ وہ اپنے ماحول میں بتائیں کہ ہم کس طرح تباہی سے بچ سکتے ہیں۔
پھر اگر جنگ ہونی ہی ہونی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے تو پھر اس کے بعد جو لوگ بچیں گے ان کی خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور یہ توجہ پیدا ہو گی کہ کچھ ایسے لوگ تھے جو ہمیں خدا کی طرف بلایا کرتے تھے ۔ہم ان کی طرف چلتے ہیں۔پھر تبلیغ کے میدان مزید کھلیں گے۔ اس میں لجنہ ، مرد اور بچے بھی involveہیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ بعض ایسےلوگ جو اپنی شناخت مختلف طریقوں سے تبدیل کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ تواپنی جنس تبدیل کرنے کے لیے دوائیاں لیتے ہیںجبکہ بعض سرجری کرواتے ہیں۔حضور انور ایدہ الله کے اس بارے میں کیا خیالات ہیں نیز ہم ایسے لوگوں کی کیسے مدد کر سکتی ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر والدین سمجھدار ہیں تو پھر وہ بچپن سے ہی اپنے بچوں سے اس طرح پیش آئیں گے کہ ہر بچہ خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، جو بھی ان کی جنس ہے، اپنے آپ کو پُرسکون محسوس کریں ۔تاہم بعض اوقات جب ان کو محسوس ہو کہ ان کے بہن بھائیوں میں کسی سے مختلف برتاؤ کیا جا رہا ہے اور دوسرے سے اَور سلوک ہو رہا ہے تو اس قسم کے خیالات ان کے ذہن میں آ سکتے ہیں اور بعض اوقات وہ باہر کی دنیا سے متاثر ہوتے ہیں، اپنےا سکول کے ماحول سے اور بعض اوقات اساتذہ جنس کے بارے میں جو پڑھاتے ہیں۔ایک بیرونی اثر ان پر ہوتا ہے جس سے ان کے جذبات اور احساسات متاثر ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی جنس تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم اس طرح اپنی جنس بدل لیں تو ہماری زیادہ عزت افزائی اور احترام ہو گا۔تو یہ ایک نفسیاتی معاملہ ہے اگر وہ چاہیں تو ان کا نفسیاتی علاج کیا جائے مگر آج کل یہ بہت مشکل ہو گیا ہے۔جب وہ پندرہ یا سولہ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو جو فیصلہ وہ کرلیتے ہیں اس کے مطابق ہی کرتے ہیں۔وہ بہت ضدی ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ اس طرح ہی رہنا چاہتے ہیں تو کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔
لہٰذا ہم دعا اور ان کو نصیحت ہی کر سکتے ہیں۔اگر وہ آپ کے قریب ہیں تو ان کو نصیحت کرتی چلی جائیں مگر عام طور پر موجودہ حالات کے پیش نظر یہ بہت مشکل ہے کہ ان کی ذہنیت کو بدلا جائے۔ بہرحال یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں اور اپنے بچوں کا احترام کریں اور ہر ایک بچہ کے ساتھ بالکل بچپن سے ہی عزت سے پیش آئیں اور دینی تعلیم کے بارے میں ان کو نصیحت کرتے رہیں۔اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے اور ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
لجنہ اماء اللہ کی ایک ممبر نے سوال کیا کہ کیا خاوند کو اپنی بیوی کو جیب خرچ دینا چاہیے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بالکل دینا چاہیے اور فکس ہونا چاہیے۔ میرے پاس تو جو لوگ آتے ہیں ان کو کہہ دیتا ہوں کہ اگر خاوندنہیں دیتا تو اس کی جیب میں سے نکال لیا کرو۔بعض لوگوں کا مجھے پتا ہے کہ وہ زیادہ کماتے ہیں، جب مَیں کہوں کہ کتنا جیب خرچ دے رہے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم پچاس یورو دے رہے ہیں، مَیں کہتا ہوں تمہاری income اتنی ہے کہ تمہیں دو سو یورو دینا چاہیے۔ بیویاں خوش ہو جاتی ہیں اور خاوند بیچارے مایوس ہو جاتے ہیں۔ تو بہرحال جیب خرچ دینا چاہیے اور اس پہ پھر خاوند کا کوئی حق نہیں۔بیوی کا حق ہے چاہے اس کو جمع کرتی جائے اور اپنا reserveبناتی جائے یا اپنی چیزوں پہ خرچ کرے۔اس کا خاوند یہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ مَیں نے تمہیں جیب خرچ دے دیا تھا ، اب تم فلاں فلاں خرچ خود کرو، باقی خرچے تب بھی خاوند نے ہی پورے کرنے ہیں لیکن جیب خرچ بیوی نے اپنی مرضی سے خرچ کرنا ہے۔
ایک سوال کیا گیا کہ آج کل کے مغربی ماحول میں شادی کو نقصان دہ، backward اور ایک ڈرامہ سمجھا جاتا ہے۔ان خیالات سے صرف لامذہب ہی نہیں بلکہ مسلمان بھی متاثر ہیں۔ہم ایسے لوگوں کو دلائل سے کیسے بتا سکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس قسم کے فتنے دجال نے پھیلانے تھے، وہ پھیلا رہا ہے۔جو یہ فتنہ پھیلا رہا ہے کہ خدا کوئی چیز نہیں ہے، atheistکی تعداد بڑھتی چلی جار ہی ہے، مذہب سے دُور ہوتے جا رہے ہیں اور مذہب کو ماننے کو تیار نہیں، مذہب کو مذاق سمجھتے ہیں تو وہ مذہب کے احکامات کو بھی نقصان دہ اور backward چیزیں سمجھیں گے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ partner بنا لیا اور دوست رکھ لیا جو میاں بیوی کی طرح رہے اور جب بچے ہو گئے تو بس ٹھیک ہے یا نہ بھی رہے تو جو غلطیاں کرنی ہیں کر لی جائیں۔ اس کا آج تو ان کو پتا نہیں لگ رہا لیکن آہستہ آہستہ اس کے نقصانات ان کو پتا لگ جائیں گے۔ قومیں تباہی اور بربادی کی طرف جاتی ہیں اور اخلاقی برائیوں کی وجہ سے بربادی کی طرف جا رہی ہیں اور ultimately آپ دیکھیں گے کہ ایک وقت آئے گا، بے شک دس، بیس سال بعد آئے، جب یہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ ہم مذہب سے دُور ہٹ کے غلطی پر تھے۔
اس لیے آپ نے مذہب کی روشنی میں ان کو بتاتے رہنا ہے کہ تم لوگ جن باتوں میں پڑے ہوئے ہو وہ غلط ہیں اور اس کے نقصان تمہاری آئندہ نسلوں میں بہت زیادہ ہونے ہیں ۔ آج تو تم مذاق اڑا رہے ہو، کل کو تمہیں اس دنیا میں بھی نظر آجائے گا ۔اور پھر اگلا جہان ہے، ہم مذہبی آدمی تو اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد کی زندگی ہے ،تو وہاں جا کے جو اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔ لیکن یہ دنیا والے اس دنیا میں بھی دیکھ لیں گے اور خود اب ان کو احساس پیدا ہونے لگ گیا ہے، کہیں کہیں یہ آوازیں اٹھنے لگ گئی ہیں کہ یہ چیزیں غلط ہیں اس طرح نہیں ہونا چاہیے، partnership اور عورتوں کے ساتھ جو بعض سلوک ہوتے ہیں وہ غلط ہیں ۔ تو اس طرح کی باتیں جب اٹھنے لگ جائیں تو اس کا مطلب ہے ایک بات اٹھی ہے پھر کل کو دوسری بات اٹھے گی، پھر تیسری بات تو آہستہ آہستہ احساس بھی پیدا ہو جائے گا لیکن اگرنہیں ہو گا تو تباہی بھی ہو گی۔
اس لیے ہم نے اپناکام کرنا ہے کہ ان کو اسلامی تعلیم کی روشنی میں بتاتے رہنا ہے کہ یہ چیزیں جو تم لوگ کر رہے ہو یہ اخلاقیات سے بھی گری ہوئی ہیں اور قوموں کو تباہی کی طرف بھی لے کے جاتی ہیں اور پہلی قومیں بھی اس طرح تباہ ہوئی ہیں۔ اس لیے اپنے آپ کوبدلو، یہ نہ سمجھو کہ ہمیشہ کی زندگی ہے۔ایک شخص چند سال زندہ رہے گا اور عیاشی کر کے چلا جائے گا لیکن قوموں کی زندگی اس سے برباد ہو جاتی ہے۔ تو بہرحال ہمارا کام سمجھانا ہے، سمجھاتے رہنا چاہیے۔
سوال کرنے والی نے عرض کی کہ وہ لوگ آگے سے کہتے ہیں کہ جس تیزی سے دنیا اور ماحول بدل رہا ہےتو تم لوگ ابھی بھی اسی چیز کو لے کے چل رہے ہو۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کہو دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بقائے نسل کے لیے پیدا کیا۔ کوئی صرف عیاشیوں کے لیے نہیں پیدا کیا گیا۔ اگر بقائے نسل کا نظام نہ ہوتا تو دنیا میں آبادی بھی نہ بڑھتی۔
پھر یہ بھی کہتے ہیںکہ بچے پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔بعض ملکوں میں اب یہ سوچ چل پڑی ہے کہ ہماری پالیسیاں غلط تھیں اور بچے پیدا ہونے چاہئیں۔ بعض اگر بچے پیدا کرتے ہیں تو غلط طریقے سے کرتے ہیں۔پھر جب ایسے بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کے parentsکی ان حرکتوں کا ان پہ اثر ہوتا ہے۔ بلکہ یہاں اٹلی میں ہی پوپ نے چند دن پہلے birth rate crisis کے بارے میں کہاہے کہ اس کرائسز کی وجہ سے اٹالین قوم کم ہو جائے گی اور ایشین یا افریقن امیگرنٹس کا یہاں اٹلی میںقبضہ ہو جائے گا۔پھر جو مذہب پہ چلنے والے ہیں وہ قبضہ کر لیں گے۔
کہو ٹھیک ہے ہم بیک ورڈ تو ہیں لیکن ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چل رہے ہیں۔ دراصل ہم بیک ورڈ نہیں بلکہ اللہ کا جو حکم ہے وہ دنیا میں ہمیشہ سے ہی ہے۔ صرف عارضی عیاشی کو مقصد نہ سمجھو، زندگی کا مقصد بہت بڑا ہے، انسان کو اس لیے اشرف المخلوقات بنایا ہے کہ اس میں عقل اور دماغ بھی ہے۔ اگر عقل اور دماغ استعمال نہیں کریں گے تو پھر ان کا جانوروں کی طرح اصول ہو جائے گا۔بلکہ جانوروں کو ہی دیکھ لو۔اب جانوروں میں بھی نسل چلانے کے لیے جوڑا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کی فطرت میں رکھا ہوا ہے کہ نسل کو چلانے کے لیے کس طرح انہوں نے آپس میں جوڑے بنانے ہیں۔ انسان کی فطرت میں یہ رکھا ہوا ہے کہ تم نے شادی کر کےجوڑے بنانے ہیں تو اگر اس کے مطابق نہیں چلیں گے تو ٹھیک ہے، نہ جوڑے بنا کے بھی بچہ ہو سکتا ہے لیکن پھر تھوڑے سے بچے پیدا کر لیں گے۔بہر حال عمومی طور پر یہ کرائسز میں جا رہے ہیں اور پوپ نے دو دن پہلے خود تسلیم کیا ہے کہ ہم اٹلی میں کرائسز میں جا رہے ہیں ۔
ان کو اپنی دلیلوں سے سمجھاؤ کہ تم لوگ خود ہی اس بات کو مانتے ہو۔ہمیں کیا کہتے ہو ،ہم تو مذہبی لوگ ہیں ۔ہم تو اللہ کے حکم کو مانیں گے کیونکہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبادت ، ایک دوسرے کے حق ادا کرنے، اچھے اخلاق اور بقائے نسل کے لیے پیدا کیا ہے۔ اور جب تک ہم اس اصول پر چلتے رہیں گے ہماری نسلیں بھی چلتی رہیں گی، ہم بہتر بھی ہوتے رہیں گے۔ اور تم لوگ کرائسز کا شکار ہو رہے ہو اور آئندہ ایشین اور افریقن آ کر تمہارے پہ قبضہ کر لیں گے اور تمہاری نسلیں بھی ختم ہو جائیں گی اور تم دیکھ رہے ہو اور تم نے محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔ خود تمہارے اپنے لوگ اس پر بیان دے رہے ہیں۔ ہم کہاں سے بیک ورڈ ہو گئے؟ ہم تو صحیح رستے پہ ہیں، یہ لوگ جہالت کی طرف جا رہے ہیں جو جانوروں کی طرح صرف کھانا، پینا ، سونا اور جنسی تعلقات کواپنا سب کچھ سمجھتے ہیں ۔
گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، آپ اپنا stand لیں۔ ہمارا مذہب سچا ہے اور ہم مذہبی تعلیم کے مطابق عمل کر رہے ہیں اس لیے کسی سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ان سے بحث کیا کریں۔ان سے کہو تم غلط ہو، ہم صحیح ہیں اور تم بیس، پچیس سال بعد اس کا نتیجہ دیکھ لو گے ۔ ہم نے دنیا کو اسی طرح فتح کرنا ہے، لجنہ نے بھی کرنا ہے، گھبرائیں نہیں۔ ہم جس چیز کو صحیح سمجھتے ہیں اس کو کرنے کا ہمیں حق ہے اور ہم کریں گے۔ تم اس کو غلط سمجھتے ہو تو نہ مانو لیکن کل تمہیں ماننا پڑے گا اور اس کی شروعات ہو گئی ہیں۔ تمہارے اپنے پوپ کا یہ بیان آ گیا ہے اور عقل مند لکھنے والے لوگ ، سائنٹسٹ ، وہ بھی اس بارے لکھنا شروع ہو گئے ہیں۔
ملاقات کے آخر پرحضور انورنے فرمایا کہ اللہ حافظ ہو۔ السلام علیکم ۔
(مرتبہ: قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل )