آنحضورﷺ کی عاجزی اور انکساری
آپؐ کی انتہائی عاجزی کا ایک اور روایت میں یوں ذکر آتا ہے۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا: اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم)، اے ہم میں سے سب سے بہترین اور اے ہم میں سے بہترین لوگوں کی اولاد، اور اے ہمارے سردار اور ہمارے سرداروں کی اولاد! آپ نے سنا تو فرمایا کہ دیکھو تم اپنی اصل بات کہو اور شیطان کہیں تمہاری پناہ نہ لے۔ مَیں محمدبن عبداللہ ہوں اور اللہ کا رسول ہوں۔ مَیں نہیں چاہتا کہ تم لوگ میرا مقام اس سے بڑھا چڑھا کر بتاؤ جو اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔ یہ ساری باتیں جو آنے والے نے کہی تھیں سچ تھیں ایک بھی غلط نہیں تھی لیکن آپؐ کی عاجزی نے یہ گوارا نہ کیا کہ اس طرح کوئی آپؐ کی تعریف کرے۔ فوراً اسے ٹوک دیا۔ کسی دنیاوی بادشاہ کے دربار میں جائیں بلکہ کسی عام امیر آدمی کے پاس ہی چلے جائیں توجب تک اس کی تعریف نہ کریں وہ آپ کی بات سننا نہیں چاہتا۔ اکثر یہی ہوتا ہے اور وہ بھی جھوٹی تعریفیں ہوتی ہیں، مبالغہ سے پُر ہوتی ہیں۔ لیکن آپؐ کے بارے میں حقیقت بیان کی جا رہی ہے اس کوبھی آپ کہہ رہے ہیں کہ نہیں اس طرح بیان نہ کرو۔ پھر باوجود اس کے کہ آپؐ کو اپنے اعلیٰ مقام کا خوب خوب علم تھا لیکن عاجزی کا اظہار اس سے بڑھ کر تھا۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍مارچ ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۵؍مارچ ۲۰۰۵ء)