نمازیں نیکی کا بیج ہیں
نماز کی طرف توجہ ہر احمدی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن کس طرح؟ کیا صرف ایک دو نمازیں؟ نہیں، بلکہ پانچ وقت کی نمازیں۔ اگر یہ نہیں تو عبادت کے معیار حاصل کرنے کا ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔ پہلوں سے ملنے کے لئے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔ پانچ فرض نمازیں تو وہ سنگ میل ہے جہاں سے معیاروں کے حصول کا سفر شروع ہونا ہے۔ پانچ نمازیں تو نیکی کا وہ بیج ہے جس نے پھلدار درخت بننا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے، اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد۲صفحہ ۲۲۱)
جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا کہ نمازیں نیکی کا بیج ہیں پس نیکی کے اس بیج کو ہمیں اپنے دلوں میں اس حفاظت سے لگانا ہو گا اور اس کی پرورش کرنی ہو گی کہ کوئی موسمی اثر اس کو ضائع نہ کر سکے۔ اگر ان نمازوں کی حفاظت نہ کی تو جس طرح کھیت کی جڑی بوٹیاں فصل کو دبا دیتی ہیں یہ بدیاں بھی پھر نیکیوں کو دبا دیں گی۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ اپنی نمازوں کی اس طرح حفاظت کریں اور انہیں مضبوط جڑوں پر قائم کر دیں کہ پھر یہ شجر سایہ دار بن کر، ایسا درخت بن کر جو سایہ دار بھی ہو اور پھل پھول بھی دیتا ہو، ہر برائی سے ہماری حفاظت کر ے۔ پس پہلے نمازوں کے قیام کی کوشش ہو گی۔ پھر نمازیں ہمیں نیکیوں پر قائم کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک احمدی کی شناخت یہی بتائی ہے۔ پس ہر احمدی خود اپنے جائزے لے، اپنے گھروں کے جائزے لے کہ کیا ہم اپنی اس شناخت کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیاہم اس طرح پہچانے جاتے ہیں کہ عابد بھی ہیں اور اعلیٰ اخلاق بھی اپنے اندر رکھے ہوئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کو پورا کرنے والے ہیں۔ یہ جائزے جو ہم لیں گے تو یہ جائزے یقینا ہمارے تزکیہ کے معیار کو اونچا کرنے والے ہوں گے۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا شیطان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جس ہتھیار کی ضرورت ہے وہ نماز ہے۔ اور شیطان ہمیشہ اس کوشش میں رہے گا کہ یہ ہتھیار مومن سے چھن جائے۔ پس جس طرح ایک اچھا سپاہی کبھی اپنا ہتھیار دشمن کے ہاتھ لگنے نہیں دیتا۔ ایک حقیقی مومن بھی کبھی اپنے اس ہتھیار کی حفاظت سے غافل نہیں ہوتا۔ انسانی فطرت ہے کہ برائیوں کی طرف بار بار توجہ جاتی ہے اس لئے اس کی حفاظت بھی ایک مستقل عمل چاہتی ہے اور اس کی مستقل حفاظت کے لئے، اس مستقل عمل کو جاری رکھنے کے لئے خداتعالیٰ نے فرمایا کہ نمازوں کی حفاظت کرو۔ فرمایا ہے حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی۔ وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ (البقرۃ:239) کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص مرکزی نماز کی اور اللہ کے حضور فرمانبرداری کرتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ۔ تو یہ ایک اصولی بات بتا دی کہ نمازوں کی حفاظت کرو اور خاص طور پر درمیانی نماز کا خیال کرو۔ مختلف مفسرین نے درمیانی نماز کی اپنے اپنے ذوق یا علم کے مطابق تفسیر کی ہے۔ کسی نے تہجد کی نماز، کسی نے فجر کی نماز، کسی نے ظہر و عصر کی نماز مراد لی ہے۔ بہرحال یہاں ایک اصولی ہدایت آ گئی کہ صَلٰوۃُ الْوُسطٰی کی حفاظت کرو اور ہر ایک کے حالات کے لحاظ سے درمیانی نماز وہ ہے جس میں دنیاداری یا سستی اسے نماز قائم کرنے سے روکتی ہے یا نماز سے غافل کرتی ہے، جب شیطان اس کی توجہ نماز کی بجائے اَور دوسری چیزوں کی طرف کروا رہا ہوتا ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ فروری ۲۰۰۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۷؍ مارچ ۲۰۰۸ء)