سچائی کی اہمیت
ویک اینڈ کے باعث سکول کی چھٹی تھی۔موسم قدرے خوش گوار تھا۔ محمود ابھی تک سویا ہوا تھا۔ گڑیا اور احمد باغیچے میں کھیل میں مگن تھے کہ پڑوس سے فوزان بھی آگیا۔
فوزان: یہ تم دونوں کے لیے۔ اس کے ہاتھ میں ٹافیاں تھیں۔
احمد نے ٹافی اٹھا کرمنہ میں ڈالی اور اگلے لمحے زور زور سے کھانسنے لگا۔گڑیا تیزی سےپانی لینے کچن میں بھاگی اور گلاس بھر کر واپس مڑی تو پیچھے کھڑی دادی جان سے ٹکرا گئی اور معذرت دادی جان!کہتی ہوئی باہر چلی گئی۔دادی جان اس کے پیچھے آئیں تو دیکھا کہ احمد غٹاغٹ پانی پی رہا تھااور فوزان ہنس رہا تھا۔
احمد کھانستے ہوئے: گڑیا آپی ٹافی نہ کھانا! ٹافی میں مرچیں ڈلی ہوئی ہیں۔
فوزان قہقہہ مار کے بولا: اپریل فول! اپریل فول!
دادی جان نے احمد سے چینی کا چمچ کھانے کو کہا تاکہ جلن کا احساس کم ہو اور فوزان سےکہا: فوزان بیٹا!بری بات۔ یہ گندی رسمیں ہمارے مذہب کا حصہ نہیں۔ اور سب سے بڑھ کر ہم احمدی مسلمان ہیں۔
گڑیا:دادی جان! جب یہ سب گندی رسمیں ہیں تو لوگ یہ کام کیوں کرتے ہیں دوسرو ں کوتنگ کرکے دکھ دے کر انہیں کیا ملتا ہے ؟اُسے فوزان پر سخت غصہ تھا۔
دادی جان: آئیں بیٹا ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ سب باغیچے میں ہی گھاس پر بیٹھ گئے۔
دادی جان سب سے پہلے تو فوزان آپ گڑیا اور احمد سے معذرت کریں اور وعدہ کریں کہ آئندہ کبھی ایسا مذاق نہیں کریں گے کیونکہ آپ احمدی بچے ہیں اور ہمیں اپنی الگ پہچان قائم رکھنی چاہیے۔اور آپ دونوں بھی فوزان کو معاف کردیں۔ یہ اب کبھی ایسا کام نہیں کرے گا کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور ایک مسلمان تو دوسرے مسلمان کو دکھ نہیں دیتا۔
فوزان: مجھے معاف کر دیں احمد اور گڑیا آپی۔میں اب کسی کو تنگ نہیں کروں گا۔
دادی جان: شاباش! اپریل فول اصل میں جھوٹ سکھاتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ ’’دیکھو اپریل فول کیسی بُری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اِس میں تہذِیب کی بات سمجھی جاتی ہے‘‘۔ یعنی اچھا سمجھا جاتاہے۔
احمد کھانستے ہوئے : مربی صاحب نے بھی بتایا تھا کہ جھوٹ سے لوگوں کو فوری فائدہ مل جاتا ہے اس لیے بولتے ہیں۔
دادی جان: جھوٹ بولنا ہمیشہ آسان نظر آتا ہے اور اس کے مقابل سچائی کو اپنانا مشکل مگر سچ بولنا ہی فائدہ مند ہوتاہے۔ سچ بولنے سے زیادہ فائدے ملتے ہیں۔ میں آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کا ایک واقعہ سناتی ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک بار ایک عیسائی رَلیا رام کے پاس ایک مضمون شائع کرنے کے لیے بھجوایا اور مضمون کے ساتھ اسی پارسل میں ایک خط بھی رکھ دیا۔اب ہوا یہ کہ اس دور میں ایسا کرناایک قانونی جرم تھا او راس پر پانچ سو روپے جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا بھی مقررتھی۔سونے پہ سہاگہ مضمون اسلام کی تائید میں تھا اوراب رَلیا رام اسلام کاسخت مخالف تھا۔ چنانچہ اس کے ہاتھ بہانہ آگیا۔ اس نے فوراً مقدمہ کردیا۔ حضورؑ کو جب عدالت میں بلا لیا گیاتو ان کے وکیلوں نے حضورؑکو جھوٹ بولنے کا مشورہ دیا۔
گڑیا: کیا واقعی! وکیل نے جھوٹ بولنے کو کہا؟
دادی جان: جی بیٹا!وکیل نےکہا کہ آپ کہہ دیں کہ پارسل میں خط مَیں نے نہیں رکھا۔ رَلیا رام نے خود ہی رکھ دیا ہوگا۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ اگر سچ بولنے سے سزا ہوتی ہے تو ہونے دو، میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔
جب آپؑ کو انگریز جج کے سامنے پیش کیا گیا تو جج نے پوچھا کہ کیا یہ پارسل آپ کا ہے؟ اس میں خط آپ نے رکھا تھا؟ آپؑ نے سچ سچ بتایا کہ یہ خط اس مضمون کےمتعلق تھا تو اس لیے میں نے رکھ دیا۔جج پر آپ کی سچائی کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے آپؑ کو بَری کر دیا اور مقدمہ خارج ہوگیا۔
دادی جان یہ بَری کیا ہوتا ہے؟ احمد نے پوچھا۔
دادی جان: یعنی آپؑ کوکوئی جرمانہ یا سزا نہیں دی۔ یہ ہے سچ کی طاقت۔حضورؑفرماتے تھے کہ سچ تویہ ہے کہ سچ کے بغیر گزارہ نہیں۔ میں جب بھی اپنے اس واقعہ کو یاد کرتاہوں تو ایک مزا آتاہے۔
دادی جان: بچو! آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ شعر یاد ہے ناں۔؎
راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھلا
قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے
بھلا کیا مطلب ہے اس شعر کا ؟
گڑیا: جی یہ کہ سچ کے سامنے جھوٹ کی کوئی حیثیت نہیں اور سچائی ایک خوبصوت لعل کی طرح ہے جو عام پتھر سے قیمتی اور انمول ہوتا ہے۔
شاباش گڑیا۔دادی جان نے خوش ہوکر کہا۔
اتنے میں گھر کے اندر سے ٹی وی پر ’’بچوں کی دنیا‘‘ شروع ہونےکی آواز آئی۔ احمد ایک دم کھڑا ہوکرکہنے لگا کہ بچوں کی دنیا شروع ہو گیا ہے۔ چلو اندر چلتے ہیں۔
پھرتینوں بچے دادی جان سے اجازت لے کر اندر چلے گئے۔
( اقتباس ماخوذ از نور القرآن حصہ دوم صفحہ 221۔واقعہ ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ 636تا639)