اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابہ ؓکی سیرتِ مبارکہ کا دلنشیں تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍ستمبر2019ءبمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن ، لندن،یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 20؍ستمبر 2019ء کو مسجد بیت الفتوح،مورڈن،لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایاجو مسلم ٹیلیوژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ اس خطبے کے متعدد زبانوں میں تراجم بھی براہِ راست نشر کیے گئے۔ جمعے کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیضان راجپوت صاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد،تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:
بدری صحابہ کے ذکر میں آج جن کے ذکر سے شروع کروں گا وہ ہیں حضرت یزیؓد بن رقیش۔ آپؓ کا تعلق قریش کے خاندان بنو اسد بن حزیمہ سے تھا۔ جنگِ بدر سمیت تمام غزوات میں شمولیت کی توفیق ملی۔حضرت یزیدؓ بن رقیش جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے۔ یہ جنگ 11ہجری اور بعض مؤرخین کے نزدیک 12 ہجری میں ہوئی تھی۔ حضورِ انور نے اس جنگ کی بعض تفاصیل پیش فرمائیں۔
یہ جنگ مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے مقام پر لڑی گئی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عکرمہؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر روانہ کیا اور اُس کی مدد کےلیے حضرت شرحبیل بن حسنہ کی سربراہی میں ایک اور لشکر بھجوایا۔ حضرت عکرمہؓ نے شرحبیل کی آمد سے پیشتر لڑائی شروع کی اور شکست کھائی۔ جب حضرت ابوبکرؓ کو اس شکست کی اطلاع ملی توآپؓ نے عکرمہؓ کولکھا کہ شکست خوردہ حالت میں مدینےواپس نہ آنا کہ یوں لوگوں میں بزدلی پیدا ہوگی بلکہ اہلِ عمان اور مھرہ اور یمن اور حضرموت کے باغیوں کے ساتھ جاکر لڑائی کرو۔ نیز حضرت شرحبیلؓ کو لکھا کہ خالدؓ بن ولید کے آنے تک ٹھہرے رہو۔ حضرت ابوبکرؓ نے مسیلمہ کے مقابلے کے لیے انصار ومہاجرین کی ایک بڑی تعداد حضرت خالدؓ کی کمان میں روانہ فرمائی۔ اس جنگ میں مسلمانوں اور مسیلمہ کے لشکروں کی تعدادبالترتیب تیرہ ہزار اور چالیس ہزار تھی۔ جب مسیلمہ کو حضرت خالدؓ کی آمد کا علم ہوا تو اس نے عقربا مقام پر پڑاؤ ڈالا اور لوگوں کو اپنی مدد کےلیے بلایا۔ اسی دوران مجاعہ بن مرارہ جنگ کی نیت سےایک گروہ کے ساتھ باہر نکلا تو مسلمانوں نے اسے ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا۔ مسیلمہ کے بیٹے شرحبیل کی انگیخت پر اِس قبیلے نے مسلمانوں سے جنگ کی۔ گھمسان کا رن پڑا،وہ جنگ ایسی تھی کہ اس سے قبل مسلمانوں کو ایسی جنگ کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس جنگ میں حضرت سالمؓ، حضرت ابو حذیفہؓ اور حضرت زید بن خطابؓ جیسے معزز صحابہ شہید ہوئے۔ مسیلمہ ابھی تک اپنی جگہ پر قائم تھا۔ حضرت خالدؓ نے اندازہ لگالیا کہ جب تک مسیلمہ زندہ ہے یہ جنگ نہیں رکے گی۔ آپؓ باہر نکلے اور مبارزت کا نعرہ ‘یامحمداہ’ بلند کیا۔ جو بھی خالدؓ کے مقابل پر آیا،قتل ہوا۔ جب حضرت خالدؓ نے مسیلمہ کو مقابلے کےلیے پکارا تو وہ نہ آیا اور اپنے ساتھیوں سمیت باغ میں جاچھپا۔ مسلمان حکمت کے ساتھ باغ میں داخل ہوئے اور ایک بار پھر زوروں کی جنگ شروع ہوگئی۔ بالآخر وحشی اور ایک انصاری نے مشترکہ طور پر مسیلمہ کذاب کو قتل کردیا۔ حضرت خالد اور مجاعہ کے درمیان مذاکرات ہوئے اور مجاعہ کی شاطرانہ چال کے باعث اس بات پر صلح ہوئی کہ تمام سونا،چاندی،مویشی اور نصف لونڈی و غلام حضرت خالد ؓ کے قبضے میں دیے جائیں گے۔ جنگِ یمامہ میں صحابہ کرام کی بکثرت شہادتوں کےبعد حضرت ابوبکرؓ نے تدوینِ قرآن کا حکم صادر فرمایا۔
دوسرے صحابی جن کا حضورِ انور نے ذکر فرمایا ان کا نام حضرت عبداللہ بن مخرمہؓ تھا۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ بنو عامر بن لوئی سے تھا اور انہیں حبشہ اور مدینہ دونوں ہجرتوں میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ رسول اللہﷺ نے ان کی مؤاخات حضرت فروہ بن عمرو انصاریؓ کےساتھ قائم فرمائی۔ عبداللہ بن مخرمہ کو غزوہ ٔبدر سمیت تمام غزوات میں شمولیت کی سعادت ملی۔ جنگِ یمامہ میں شہادت کے وقت آپؓ کی عمر اکتالیس برس تھی۔حضرت عبداللہ بن مخرمہ کا جذبۂ شہادت بہت بڑھا ہواتھا چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ سےدعا کیا کرتے کہ مجھے اس وقت تک وفات نہ دینا جب تک اپنے جسم کے ہرجوڑ پرخدا کی راہ میں زخم نہ دیکھ لوں۔ آپؓ بہت زیادہ عبادت گذار تھے ۔حضورِ انور نے ابنِ عمرؓ کی بیان کردہ ایک روایت پیش فرمائی جس سے علم ہوتا تھا کہ جنگ کےدرمیان بوقتِ شہادت حضرت عبداللہ بن مخرمہؓ روزے کی حالت سے تھے۔
تیسرے صحابی حضرت عمرو بن معبدؓ کا حضورِ انور نے تذکرہ فرمایا۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلے اوس کی شاخ بنوضبیعہ سے تھا۔حضرت معبدؓ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ غزوۂ حنین کےروز رسول اللہﷺ کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرنےوالے سَوصحابہ میں آپؓ بھی شامل تھے۔
چوتھے صحابی جن کا حضورِ انور نے تذکرہ فرمایا اُن کا نام حضرت نعمان بن مالکؓ تھا۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو غنم سے تھا۔ اِن کی چال میں لنگڑا پن پایا جاتا تھا۔ آپؓ کو غزوۂ احد میں صفوان بن امیہ نے شہید کیاتھا۔ ایک روایت کے مطابق بروزِ شہادت حضرت نعمانؓ نے دعا کی تھی کہ اےمیرےرب! ابھی سورج غروب نہیں ہوگا کہ مَیں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت کی سرسبزی میں چل رہا ہوں گا۔ چنانچہ وہ اسی روز شہید ہوگئے۔
ایک مرتبہ حضرت نعمان ؓ نے رسول کریمﷺ سے دریافت کیا کہ اگر مَیں فرض نمازیں ادا کروں، رمضان کےروزے رکھوں اور حرام چیزوں کو حرام اور حلال کو حلال قرار دوں اور اس سے کچھ زیادہ نہ کروں، تو کیا مَیں جنت میں داخل ہوجاؤں گا؟آپؐ نے فرمایا ‘ہاں’۔
اسی طرح ایک دفعہ آپؓ مسجد میں داخل ہوئےتو رسول اللہﷺ جمعے کا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ آپؐ نے نعمانؓ سے فرمایا کہ اے نعمان! دو رکعتیں ادا کرواور ان میں اختصار سے کام لو۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دو رکعت نماز پڑھے اور وہ دونوں رکعتیں ہلکی ہوں۔
آخری صحابی جن کا آج حضورِ انور نے ذکر فرمایا ان کا نام حضرت خبیب بن عدیؓ انصاری تھا ۔ آپؓ قبیلہ اوس کے خاندان بنو جَحْجَبی بن عوف سے تعلق رکھتے تھے۔ غزوۂ بدر میں مجاہدین کے اسباب کی نگرانی ان کے سپرد تھی۔ آپؓ نے غزوۂ بدر میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔
حضرت خبیبؓ کی شہادت کے پس منظر میں ،حضورِ انور نے چارہجری میں پیش آنے والے واقعۂ رجیع کی تفاصیل صحیح بخاری سے پیش فرمائیں۔ غزوۂ بدر کے بعدرسول اللہ ﷺ نے حالات معلوم کرنے کے لیے دس افراد پر مشتمل ایک دستہ بھجوایا۔ بنو لحیان کو کہیں سے اس دستے کی خبر ہوگئی چنانچہ وہ دو سو تیر اندازوں کے ساتھ ان تک جاپہنچے۔ سات افراد کی شہادت کے بعد بنو لحیان نے خبیبؓ اور ایک اَور شخص اور ا بن دثنہؓ کو قیدی بنالیا اور مکّے لے جاکر فروخت کردیا۔ حارث بن عامر کے بیٹوں نے خبیبؓ کو خرید لیاتاکہ اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔
بنو حارث کی قید میں ایک روز خبیبؓ کے استرا مانگنے پر حارث کی بیٹی نے استرا دے دیا۔ کچھ دیربعد اس عورت کا بیٹا خبیب کے پاس آیا جسے آپؓ نے اپنی ران پر بٹھالیا۔ وہ عورت کہتی ہے کہ جب مَیں نے یہ نظارہ دیکھا تو مَیں اس قدر گھبرائی کہ خبیبؓ نے میرے چہرے سے گھبراہٹ کےآثار بھانپ لیے۔آپؓ نے فرمایا تم ڈرتی ہو کہ مَیں اسے مار ڈالوں گا؟ مَیں توایسا نہیں ہوں کہ یہ کروں۔ وہ عورت کہا کرتی تھی کہ مَیں نے کبھی ایسا قیدی نہیں دیکھا جو خبیب سے بہتر ہو۔
اسی طرح اس عورت نے ایک دفعہ دیکھا کہ خبیبؓ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور آپؓ کے ہاتھوں میں انگور کا خوشہ تھا۔ وہ کہتی ہے کہ اُن دنوں مکّے میں کوئی بھی پھل نہ تھا۔ یہ انگور اللہ کی طرف سے رزق تھا جو اس نے خبیبؓ کو دیا۔
جب لوگ حضرت خبیبؓ کو قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لےگئے تو آپؓ نے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت چاہی۔ نماز کے بعد آپؓ نے فرمایا اگر مجھے یہ گمان نہ ہوتا کہ تم یہ خیال کرو گے کہ مَیں مرنے کی گھبراہٹ میں ہوں تو ضرورمَیں یہ نماز لمبی پڑھتا۔ پھر آپؓ نے دعا کی کہ اے اللہ! ان میں سے ایک ایک کو ہلاک کر۔ اسی طرح آپؓ نے اشعار بھی پڑھے۔ حضرت خبیبؓ نے یہ بھی دعا کی کہ اے اللہ! میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ تیرے رسولﷺ تک سلام پہنچا سکوں پس تُو خود میری طرف سے آپؐ کو سلام پہنچادے۔ حضرت خبیبؓ کی دردناک شہادت کے واقعات بیان کرنے کے بعد حضورِ انور نے فرمایا کہ ان کے کچھ واقعات و حوالے اور بھی ہیں ۔ اب وہ آئندہ بیان ہوں گے۔
اس کے بعد حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شعبہ تاریخِ احمدیت کی ویب سائٹ کے آغاز کا اعلان فرمایا۔ اس ویب سائٹ پر اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تاریخِ احمدیت اور سیرت و سوانح سے متعلق طبع شدہ جماعتی مواد فراہم کیاجائے گا۔
خطبہ جمعہ کے اختتام پر حضورِ انور نے پرانے مشنری مکرم صفی الرحمٰن خورشید صاحب کی نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان کیا اور مرحوم کا ذکرِ خیر فرمایا۔آپ 16ستمبر کو 75 برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ مکرم صفی الرحمٰن صاحب نے 1970ء میں جامعہ احمدیہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کی تھی۔ کچھ عرصہ مرکزی دفاتر میں تعیناتی کےبعدآپ ایک سال چکوال میں مربی رہے۔ 1971ء میں آپ کو سیرالیون بھجوایا گیا۔ مرحوم نےسیرالیون اور نائیجیریا میں پریس جاری کیے۔ اسی طرح رقیم پریس کے قیام میں بھی آپ نے کام کیا۔ سترہ برس آپ کو افریقہ کے ممالک میں خدمات کی توفیق ملی۔ 1991ء سے نصرت آرٹ پریس کے مینیجر کےطور پر خدمت کی توفیق پائی پھر کچھ عرصہ قبل بیماری کے باعث آپ نے ریٹائرمنٹ لےلی تھی۔ آپ کی دو شادیاں تھیں۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹی مکرمہ روشن آرا صاحبہ اہلیہ جمیل احمد صاحب ہیں۔ جبکہ دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں۔
حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان سے رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند کرے۔ ان کی بیٹی اور اہلیہ کو صبر اور حوصلہ عطافرمائے۔ آمین
٭…٭…٭