ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
(حضورِانور کے دورہ Scandinavia مئی ۲۰۱۶ء سے چند واقعات ،حصہ چہارم)
اطفال کی کلاس
پچھلے پہر حضورِانور کے ساتھ سویڈن کے اطفال کی کلاس کا انعقاد ہوا۔ اس کلاس کے دوران کئی اطفال کو حضورِانور سے سوالات پوچھنے کا موقع میسر آیا۔ایک بچے نے پوچھا کہ اسے سکول میں فرنچ، جرمن یا سپینش میں سے کون سی زبان سیکھنی چاہیے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ جماعت کے پاس پہلے ہی بہت سے فرنچ اور جرمن زبان بولنے والے ہیں، اس لیے اسے سپینش سیکھنی چاہیے۔ حضورِانور ہر معاملے میں جماعت کے مفاد کو مقدم رکھتے ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے یورپ میں رہنے والوں کی فرنچ اور جرمن سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کیونکہ یہ زبانیں تجارت اورسیاست میں اہمیت کی حامل ہیں ۔تاہم خلیفۂ وقت کا نقطہ نظر یکسر مختلف ہے۔آپ کے نقطہ نظر کا محور اسلام کی تعلیمات کو پوری دنیا میں پھیلانا ہے۔
ہاتھ ملانے کے معاملے پر سوال
ایک طفل نے حضورِانور سے سویڈن میں ہاتھ ملانے کے معاملے کے بارے میں سوال کیا جس کے جواب میں حضورِانور نے چند دن قبل ڈنمارک میں وقوع پذیر ہونے والا ایک واقعہ بیان فرمایا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ ایک ڈینش خاتون سیاستدان نے مصافحہ کے لیے آپ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن آپ نے ان سے ہاتھ نہ ملایا۔یہ سنتے ہی مجھے فوراً وہ واقعہ یاد آ گیا جس کا حضورِانور نے ذکر فرمایا جو کوپن ہیگن میں استقبالیہ کی تقریب سے قبل پیش آیا تھا۔
جب اس خاتون سیاستدان نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو حضورِانور نے ادب کے طور پر اپنا سر جھکایا اور معذرت کی کہ آپ اس طریق پر ہاتھ نہیں ملاتے۔ بعد ازاں ایک دوسری ممبر آف پارلیمنٹ خاتون نے جو اس موقع پر موجود تھیں ہمیں بتایا کہ ان کی ساتھی سیاستدان حضورِانور کے ہاتھ نہ ملانے کی وجہ سے خفا تھیں۔ تاہم انہوں نے اس خاتون سیاستدان کو بتایا کہ عزت کے اظہار کے کئی طریقے ہیں اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس معاملے کو لے کر ناراض ہوا جائے۔ یوں اس معاملے میں ایک ڈینش خاتون سیاستدان نے ایک دوسری ساتھی خاتون کے سامنے اسلامی تعلیمات کا دفاع کیا۔
اس طرح حضورِانور نے بچوں کو باور کروایا کہ ان میں اپنے عقائد کے حوالے سےدلیری ہونی چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ ہر اسلامی حکم میں ایک گہری حکمت ہوتی ہے۔ یقینا ًہمیں حضورِانور کو کسی بھی قسم کی ناخوشگوار صورتحال میں نہیں ڈالنا چاہیے اور Copenhagen میں جو واقعہ رونما ہوا اس سے بھی بچا جا سکتا تھا اگر مقامی جماعت پُرحکمت انداز میں مہمانوں کو اس حوالہ سے قبل از وقت آگاہ کر دیتی تاہم اس موقع پر وہ ایسا کرنا بھول گئے۔
حضورِانور کا اسلامی تعلیمات پر پختہ ایمان
کلاس کے اختتام پر اطفال تیزی سے مسجد سے باہر نکل گئے کیونکہ اس کے معاً بعد حضورِانور کے ساتھ ناصرات کی کلاس کا انعقاد ہونا تھا ۔ جس دوران اطفال باہر نکل رہے تھے میں حضورِانورکے پاس گیا اور آپ کو پانی پیش کیا۔ اس دوران حضورِانور نے ایک اخبار کی رپورٹ کا ذکر فرمایا جو اس دن صبح شائع ہوئی تھی جس میں حضورِانور کے دو دن قبل کیے گئے انٹرویو کو شائع کیا گیا تھا۔ اس اخبار نے حضورِانور کا تبصرہ شائع کیا تھا کہ قرآن اور بائبل دونوں ہم جنس پرستی کے خلاف ہیں جس کے نتیجے میں ایک یا دو سیاستدانوں نے جماعت سے رابطہ کیا تھا تاکہ وہ یہ بتا سکیں کہ اس تبصرے سے وہ مایوس ہوئے ہیں۔
اس بارے میں حضورِانور نے فرمایا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا نیز یہ کہ جماعت کو کسی شخص کی تائید کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ ہمیں کبھی بھی ان تعلیمات کو جو ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہےچھپانا نہیں چاہیے۔ ہمیشہ کی طرح حضورِانور کو اپنے عقائد کی سچائی اور اسلامی تعلیمات کی حکمت پر کامل ایمان تھا۔
ایک افراتفری کا منظر
۱۴؍مئی ۲۰۱۶ءکو سویڈن جماعت نے مسجد محمود کے افتتاح کے موقع پر ایک خاص استقبالیہ کا انتظام کیا تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ یہ استقبالیہ ملٹی پرپز ہال میں ہوگا جو مسجد کے اوپر تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم لوکل انتظامیہ نے اس ہال کو ناقابل استعمال قرار دیتے ہوئے اجازت نہ دی، جس کی وجہ سے جماعت کو فوری طورپر کسی دوسری جگہ کے متعلق سوچنا پڑا۔
یہ استقبالیہ کسی دوسری جگہ منعقد کرنا ممکن نہ تھا۔ کیونکہ دعوت نامے کافی عرصہ قبل تقسیم کیے جا چکے تھے۔ خاکسار نے مکرم امیر صاحب سے درخواست کی کہ کیا ممکن ہے کہ اس جگہ (مسجد کے احاطے میں) کوئی مارکی لگا دی جائے۔ لیکن انہوں نے بتایا کہ سب کچھ اس قدر تیزی سے ہوا ہے کہ ایسا کرنا ممکن نہیں۔یوں بالآخر جماعت کو یہ استقبالیہ مسجد میں ہی منعقد کرنا پڑا۔
ازراہِ شفقت حضورِانور نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی اور یوں استقبالیہ کی صبح مقامی احمدیوں نے اس ہال میں تقریب کی تیاری شروع کی۔ دیگر کئی انتظامات کے ساتھ ساتھ سٹیج کی تیاری اور میزوں کو بھی ترتیب سے لگانا تھا اور ایم ٹی اے نے بھی اپنا setup لگانا تھا۔
یہ استقبالیہ صبح گیارہ بجے شروع ہونا تھا۔ خاکسار دفتر کے دوسرے سٹاف ممبران کے ہمراہ صبح دس بجے وہاں پہنچ گیا۔ جب میں گاڑی سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ کئی مہمان پہلے ہی تشریف لا چکے تھےلیکن بجائے مسجد کے اندر موجود ہونے کے وہ باہر برآمدے میں انتظار کر رہے تھے۔اگلے ایک گھنٹے میں مزید مہمان تشریف لائے اور اس دوران بھی انتظامیہ ہال کی تیاری میں مصروف تھی جبکہ مہمان نہایت صبر اور حوصلے سے باہر انتظار کرتے رہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اس پروگرام کا انتظام بہت اچھے طریق پر نہیں ہوا تھا اور ہمیں مہمانوں کو باہر کھڑا دیکھ کر کچھ شرمندگی بھی محسوس ہو رہی تھی۔ دس بج کر چالیس منٹ پر میز لگائے جاچکے تھے لیکن پلیٹیں اور دیگر سامان ابھی نہیں رکھا گیا تھا۔ ہماری ایم ٹی اے لندن کے ٹیم ممبران بھی جنہوں نے کیمرے نکال لیے تھے میزوں پر موجود سامان کی ترتیب درست کرنے میں مدد کرنے لگے تاکہ یہ سب کام جلدی ہو سکے۔یہ دیکھنے پر خاکسار نے بھی اپنی نوٹ بک ایک طرف رکھی اور ان کے ساتھ اور دیگر کئی خدام کے ساتھ میز درست کرنے لگا ۔مجھے ایک خاص طریق پر napkinsکو طے کرنے کا کہا گیا اور ان کو درست طور پر طے کرنے کی مہارت حاصل کرنے میں چند منٹ لگے۔تاہم جب مجھےصحیح طور پر پتا چلا کہ یہ کیسے کرنا ہے تو مجھے بتایا گیا کہ سب napkinsکو دوبارہ طے کرنا ہو گا کیونکہ ان کو پہلے جس طریق پر طے کیا گیا تھا وہ تصویروں میں اچھا نہیں لگ رہا۔ یہ سننے پر ہم میں سے کئی دو ستوں کو ناخوشگواری کا احساس ہوا اور مجھے یاد ہے کہ میں سوچ رہا تھا کہ چند منٹ میں حضورِانور تشریف لا رہے ہیں اور مہمان باہر انتظار کر رہے ہیں اور ہم اس بات پر وقت ضائع کر رہے تھے کہ napkinsکو کیسے طے کرنا ہے۔ بلاشبہ کسی حد تک وہاں افراتفری کا سماں تھا۔ مکرم عطا الاول عباسی صاحب جو ایم ٹی اے ٹیم کے ممبر تھے اور napkins طے کر رہے تھے،مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے عابد صاحب کیا آپ نے پہلے کبھی ایسا استقبالیہ دیکھا ہے؟ سچ تو یہ تھا کہ میں نے نہیں دیکھا تھا اور یہ فکر مندی مزید بڑھ گئی جب گھڑی پر گیارہ بجنے کا وقت بالکل قریب آگیا۔ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب بھی مہمانوں کے ساتھ کوئی تقریب ہوتی ہے تو ہمیشہ حضورِانور مقررہ وقت پر تشریف لاتے ہیں جبکہ یہاں تو ابھی تک کوئی مہمان تشریف فرما نہیں تھے۔
افراتفری کا پرسکون حالت میں بدلنا
چند منٹوں کے بعد میں نے اوپر دیکھا تو گھڑی پر گیارہ بج چکے تھے۔ مسجد میں اور اس سے ملحقہ کمرے میں چند احمدی احباب ابھی بھی افراتفری میں میزوں پر سامان ترتیب لگا رہے تھے ۔اس دوران میں نے داخلی راستے کی طرف دیکھا تو حضورِانور اپنی رہائش گاہ سے نیچے تشریف لا رہے تھے او ر مقررہ وقت پر کمرے میں رونق افروز ہو چکے تھے۔
افراتفری کی صورتحال دیکھنے پرحضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ مہمانوں کو فوری طور پر اندر بلایا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ میزوں کو بعد میں بھی ترتیب دیا جا سکتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ مہمانوں کو باہر کھڑا نہیں رکھنا چاہیے اور نہ ہی غیر ضروری طور پر استقبالیہ میں تاخیر کرنی چاہیے۔ خلافت کی برکات ایسی ہیں کہ حضورِانور کے الفاظ سے فوری طور پر ماحول پر ایک مثبت اثر پڑا اور جہاں مقامی جماعت پہلے افراتفری کی حالت میں تھی وہاں وہ اب ان میں منظم انداز میں کام کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور انہوں نے مہمانوں کو اندر بلانا شروع کیا اور چند منٹ میں ہال بھرنے لگا اور ہر کوئی پہلے سے زیادہ پُرسکون لگنے لگا۔
حضورِانور کے ساتھ چند لمحات
یہ جان کر کہ ابھی تقریب کی تیاری میں چند منٹ مزید درکار ہیں حضورِانور اپنے دفتر میں تشریف لے گئے اور خاکسار کو ازراہ شفقت بلالیا۔ خاکسار کے دفتر میں داخل ہونے پر حضورِانور نے مجھے کھڑکی اور پنکھا بند کرنے کا کہتے ہوئے فرمایا کہ مالمو کا موسم ڈنمارک کے مقابلے میں زیادہ ٹھنڈا ہے۔
حضورِانور نے استفسار فرمایا کہ کتنے مہمان آ چکے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ مقامی جماعت کے مطابق کم و بیش ایک سو مہمان آ چکے ہیں جبکہ میرا اندازہ ہے کہ اس سے کچھ کم ہیں۔ جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ اگر صرف تیس یا چالیس مہمان بھی آئے ہوں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کم از کم وہ تیس یا چالیس لوگ تو حقیقی اسلام کا پیغام سن لیں گے اور پھر اس کو اپنے اپنے دائرے میں پھیلائیں گے۔
بالآخر مقامی جماعت کی بتائی ہوئی تعداد ہی درست ثابت ہوئی اور سو سے زائد مہمانوں نے اس تقریب میں شمولیت اختیار کی۔ بہرحال مجھ پر حضورِانور کے خوبصورت الفاظ کا سحرطاری ہو کر رہ گیا کہ آپ کو اس بات کی فکر نہ تھی کہ سامعین کی تعداد درجنوں میں ہے یا ہزاروں میں،آپ کو صرف اس بات کی فکر تھی کہ حقیقی اسلام کی تعلیمات کے پرچار کا موقع پیدا ہو رہا ہے۔
حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ عابد تم ٹشو طے کر رہے تھے اور میز کی ترتیب ٹھیک کر رہے تھے؟میں نے مثبت انداز میں سر ہلاتے ہوئے عرض کی جی حضور۔لیکن میں اس بات پر حیران تھا کہ حضورِانور کو اس بات کا علم کیسے ہوا۔
بعد ازاں میں نے عرض کی کہ مقامی جماعت کے چند ممبران نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ حضورِانور نے ایک روز قبل اپنے خطبہ جمعہ میں مقامی احمدیوں کی مالی قربانی کو سراہا تھا۔ اس پر حضورِانور نے فرمایاکہ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ مسجد کی تعمیر پہلا قدم تھا اب یہ ان کا فرض ہے کہ اس کو نمازیوں سے بھریں اور ہمیشہ ان سے حقیقی اسلامی تعلیمات کا اظہار ہوتا رہے۔
(مترجم: ’ابو سلطان‘۔ معاونت: مظفرہ ثروت)