خطبہ جمعہ فرمودہ 28 دسمبر 2018ء
مطابق28؍فتح 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
آج جن بدری صحابہ کا میں ذکر کروں گا ان میں سے پہلا نام حضرت عبداللہ بن اَلَّربِیْع انصاری کا ہے۔ حضرت عبداللہ بن الربیع کا تعلق خزرج قبیلے کی شاخ بَنُو اَبْجَرْ سے تھا اور آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت عمرو تھا۔ آپ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل تھے اور آپ کو غزوۂ بدر اور احد اور جنگ مؤتہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ جنگ مؤتہ میں آپ نے شہادت کا رتبہ پایا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 407 عبد اللہ بن الربیعؓ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(تاریخ مدینۃ دمشق جلد 2 صفحہ 11 باب سرایا رسول اللہﷺ الیٰ الشام وبعوثہ الاوائل مطبوعہ دار الفکر بیروت1995ء)
دوسرے صحابی ہیں حضرت عَطِیَّہ بن نُوَیْرَۃ۔ یہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور ان کے متعلق بس اتنی ہی معلومات ہیں کہ آپ غزوہ بدر میں شامل ہوئے۔
(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 45 عطیہ بن نویرہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
پھر حضرت سَہْل بن قَیْس ہیں۔ ان کی والدہ کا نام نائلہ بنت سَلَامَہ تھا اور مشہور شاعر حضرت کعب بن مالک کے آپ چچازاد بھائی تھے۔ سہل نے غزوۂ بدر اور احد میں شرکت کی اور غزوۂ احد میں جام شہادت نوش کیا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 436 سہل بن قیسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال شہدائے اُحُد کی قبروں کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے۔ جب آپ اس گھاٹی میں داخل ہوتے تو بلند آواز سے فرماتے :
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّار۔ سورہ رعد کی آیت ہے۔ وہاں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کی بجائے سَلَامٌ عَلَیْکُمْ (الرعد25:)سے شروع ہوتی ہے کہ سلام ہو تم پر بسبب اس کے جو تم نے صبر کیا۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّار۔پس کیا ہی اچھا ہے، اس گھر کا انجام۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے بھی اسی روایت کو جاری رکھا۔ پھر حضرت معاویہ بھی جب حج یا عمرہ کے لئے آتے تو شہدائے احد کی قبروں کی زیارت کے لئے جاتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ لَیْتَ اَنِّیْ غُوْدِرْتُ مَعَ اَصْحَابِ الْجَبَلِ۔ کہ اے کاش! میں ان پہاڑ والوں کے ساتھ ہو جاتا یعنی مجھے بھی اس دن شہادت عطا ہوتی۔ اسی طرح جب حضرت سعد بن ابی وقاص غابۃ جو کہ مدینہ کے شمال مغرب میں واقعہ ایک گاؤں ہے، اپنی جائیدادوں پر جاتے تو شہدائے احد کی قبروں کی زیارت کرتے۔ تین مرتبہ انہیں سلام کہتے۔ پھر اپنے ساتھیوںکی طرف مڑتے اور انہیں کہتے کہ کیا تم ان لوگوں پر سلامتی نہیں بھیجو گے جو تمہارے سلام کا جواب دیں گے۔ جو بھی انہیں سلام کہے گا یہ قیامت کے دن اس کے سلام کا جواب دیں گے۔
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مُصْعَب بن عُمَیر کی قبر کے پاس سے گزرے تو وہاں رک کر دعا کی اور اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللہَ عَلَيْهِ۔ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۔ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۔ (الاحزاب24:)کہ مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا اسے سچا کر دکھایا۔ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللہَ عَلَيْهِ ۔ پس ان میں سے وہ بھی ہیں جس نے اپنی مَنت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو ابھی انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے ہرگز اپنے طرزِ عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک شہید ہوں گے۔ تم ان کے پاس آیا کرو۔ اِن کی زیارت کیا کرو اور ان پر سلامتی بھیجا کرو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے قیامت کے دن تک جو بھی ان پر سلامتی بھیجے گا یہ اس کا جواب دیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یہاںآتے ان کے لئے دعا کرتے اور سلامتی بھیجا کرتے۔
(کتاب المغازی ذکر من غزوۃ احد جلد اوّل صفحہ 267 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2004ء)
حضرت سَہْل بن قَیْس کی بہنیں حضرت سُخْطَی اور حضرت عُمْرہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی بیعت سے فیضیاب ہوئیں۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 301 سخطی بنت قیس، عمرۃ بنت قیس مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر اگلے صحابی ہیں حضرت عَبْدُاللہ بِن حُمَیِّر اَلْاَشْجَعِی۔ ان کا تعلق بنو دُھْمَان سے ہے جو کہ انصار کے حلیف تھے آپ نے غزوۂ بدر میں اپنے بھائی حضرت خَارِجَہ کے ہمراہ شرکت کی اور آپ غزوۂ احد میں بھی شامل ہوئے۔(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 218-219 عبد اللہ بن حمیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)ان کی زوجہ کا نام حضرت ام ثابت بنت حارِثَہ ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ (الاصابہ جلد 8 صفحہ 366 ام ثابت بنت حارثہؓ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت عبداللہ بن حُمَیِّر ان چند اصحاب میں سے تھے جو غزوہ احد میں حضرت عبداللہ بن جُبَیر کے ساتھ درّے پر ڈٹے رہے۔ جب باقی صحابہ فتح کا نظارہ دیکھنے کے بعد مسلمانوں کی باقی جماعت سے ملنے کے لئے نیچے جانے لگے تو حضرت عبداللہ بن حُمَیِّر انہیں نصیحت کرنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ آپؓ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور پھر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کی نصیحت کی لیکن انہوں نے آپ کی بات نہ مانی اور چلے گئے یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن جُبَیر کے ساتھ درے پر دس سے زیادہ صحابہ نہ بچے۔ اتنے میں خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابو جہل نے درّہ خالی دیکھ کر جو اصحاب وہاں باقی رہ گئے تھے ان پر حملہ کر دیا۔ اس قلیل جماعت نے ان پر تیر برسائے یہاں تک کہ وہ ان تک پہنچ گئے اور آن کی آن میں ان سب کو شہید کردیا۔
(امتاع الاسماع جلد 9 صفحہ 229 فصل فی ذکر من استعلہ رسول اللہؐ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1999ء)
احد کےاس واقعہ کی مزید تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں لکھی ہے۔ کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور احد کے دامن میں ڈیرہ ڈال دیا۔ ایسے طریق پر کہ احد کی پہاڑی مسلمانوں کے پیچھے کی طرف آ گئی اور مدینہ گویا سامنے رہا اور اس طرح آپؐ نے لشکر کا عقب محفوظ کر لیا۔ عقب کی پہاڑی میں ایک درّہ تھا جہاں سے حملہ ہو سکتا تھا۔ اُس کی حفاظت کا آپؐ نے یہ انتظام فرمایا کہ عبداللہ بن جُبَیر کی سرداری میں پچاس تیر انداز صحابی وہاں متعین فرما دئیے اور ان کو تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہو جاوے وہ اس جگہ کو نہ چھوڑیں اور دشمن پر تیر برساتے جائیں۔ آپؐ کو اس درّہ کی حفاظت کا اس قدر خیال تھا کہ آپؐ نے عبداللہ بن جُبَیر سے بہ تکرار فرمایا‘‘ یعنی بار بار فرمایا ’’کہ دیکھو یہ درہ کسی صورت میں خالی نہ رہے۔ حتٰی کہ اگر تم دیکھو کہ ہمیں فتح ہو گئی ہے اور دشمن پسپا ہو کر بھاگ نکلا ہے، تو پھر بھی تم اس جگہ کو نہ چھوڑنا اور اگر تم دیکھو کہ مسلمانوں کو شکست ہو گئی ہے اور دشمن ہم پر غالب آ گیا ہے تو پھر بھی تم اس جگہ سے نہ ہٹنا حتٰی کہ ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ ’’اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمارا گوشت نوچ رہے ہیں تو پھر بھی تم یہاں سے نہ ہٹنا حتی کہ تمہیں یہاں سے ہٹ آنے کا حکم جاوے۔‘‘ یعنی آپ کی طرف سے حکم جائے۔ ’’اس طرح اپنے عقب کو پوری طرح مضبوط کر کے آپؐ نے لشکر اسلامی کی صف بندی کی اور مختلف دستوں کے جدا جدا امیر مقرر فرمائے …
جب عبداللہ بن جُبَیر کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اب تو فتح ہو چکی ہے تو انہوں نے اپنے امیر عبداللہ سے کہا کہ اب تو فتح ہو چکی ہے اور مسلمان غنیمت کا مال جمع کر رہے ہیں آپ ہم کو اجازت دیں کہ ہم بھی لشکر کے ساتھ جا کر شامل ہو جائیں۔ عبداللہ نے انہیں روکا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکیدی ہدایت یاد دلائی مگر وہ فتح کی خوشی میں غافل ہو رہے تھے، اس لئے وہ باز نہ آئے۔ اور یہ کہتے ہوئے نیچے اتر گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف یہ مطلب تھا کہ جب تک پورا اطمینان نہ ہو لے درّہ خالی نہ چھوڑا جاوے اور اب چونکہ فتح ہو چکی ہے اس لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور سوائے عبداللہ بن جُبَیر اور ان کے پانچ سات ساتھیوں کے درّہ کی حفاظت کے لئے کوئی نہ رہا۔ خالد بن ولید کی تیز آنکھ نے دور سے درّہ کی طرف دیکھا تو میدان صاف پایا جس پر اس نے اپنے سواروں کو جلدی جلدی جمع کر کے فوراً درّہ کا رخ کیا اور اس کے پیچھے پیچھے عکرمہ بن ابوجہل بھی رہے سہے دستہ کو ساتھ لے کر تیزی کے ساتھ وہاں پہنچا اور یہ دونوں دستے عبداللہ بن جُبَیر اور ان کے چند ساتھیوں کو ایک آن کی آن میں شہید کر کے اسلامی لشکر کے عقب میں اچانک حملہ آور ہو گئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 491, 487-488)
اگلا ذکر حضرت عُبَیْد بِنْ اَوْسْ انصاری کا ہے۔ ولدیت اَوس بن مالک۔ حضرت عُبَید بن اوس نے غزوۂ بدر میں شرکت کی اور آپ نے غزوۂ بدر میں حضرت عَقِیل بن اَبُو طالِب کو قیدی بنایا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ آپ نے حضرت عباسؓ اور حضرت نَوفَلؓ کو بھی قیدی بنایا۔ جب آپ ان تینوں کو رسی سے باندھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ لَقَدْ اَعَانَکَ عَلَیْھِمْ مَلَکٌ کَرِیْمٌ۔ کہ یقینا اس معاملہ میں ایک معزز فرشتے نے تمہاری مدد کی ہے۔ اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مُقَرِّن کا لقب عطا فرمایا یعنی زنجیر میں جکڑنے والا۔(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 528-529 عبید بن اوسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عباس کو غزوہ بدر میں قیدی بنانے والے حضرت اَبُو الْیَسَر کَعْب بن عَمرْو تھے۔
(اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 326-327 ابو السیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت عبید بن اوس نے حضرت اُمَیْمَہ بنتِ النُّعْمَان سے شادی کی۔ حضرت اُمَیْمَہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی بیعت سے فیضیاب ہوئیں۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 257 امیمہ بنت النعمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
اب ذکر حضرت عبداللہ بن جُبَیْر کا ہے جن کا ذکر پہلے، ایک اَور صحابی کے ذکر میں آ چکا ہے۔ آپؓ ان ستر انصار میں سے تھے جو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے اور آپ غزوۂ بدر اور اُحُد میں شریک ہوئے اور غزوۂ اُحُد میں آپ کو شہادت نصیب ہوئی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 362 عبد اللہ بن جُبَیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت اَبُوالْعَاص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب کے شوہر تھے جنگ بدر میں مشرکین کی طرف سے شامل ہوئے تھے اور حضرت عبداللہ بن جُبَیر نے انہیں قید کیا تھا۔(المستدرک علی الصحیحین کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب ابی العاص بن ربیع حدیث 5037 جلد 3 صفحہ 262 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء) اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہ لکھا ہے کہ:
’’آنحضرتؐکے داماد ابوالعاص بھی اسیران بدرمیں سے تھے ان کے فدیہ میں ان کی زوجہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینبؓ نے جو ابھی تک مکہ میں تھیں کچھ چیزیں بھیجیں۔ اُن میں اُن کا ایک ہار بھی تھا۔ یہ ہار وہ تھا جو حضرت خدیجہؓ نے جہیز میں اپنی لڑکی زینبؓ کو دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو مرحومہ خدیجہؓ کی یاد دل میں تازہ ہو گئی اور آپؐ چشم پُرآب ہو گئے اور صحابہ سے فرمایا اگر تم پسند کرو تو زینبؓ کا مال اسے واپس کر دو۔ صحابہ کو اشارہ کی دیر تھی زینبؓ کا مال فوراً واپس کر دیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نقد فدیہ کے قائمقام ابوالعاص کے ساتھ یہ شرط مقرر کی کہ وہ مکہ میں جا کر زینبؓ کو مدینہ بھجوا دیں اور اس طرح ایک مؤمن روح دارِ کفر سے نجات پا گئی۔ کچھ عرصہ بعد ابوالعاص بھی مسلمان ہو کر مدینہ میں ہجرت کر آئے اور اس طرح خاوند بیوی پھر اکٹھے ہو گئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ 368)
غزوہ اُحُد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جُبَیر کو ان پچاس تیر اندازوں کے دستے کا سالار مقرر فرمایا جسے آپؐ نے مسلمانوں کے عقب میں واقع درّے کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا۔ باقی تفصیل تو عبداللہ بن حُمَیِّر کے واقعہ میں بیان ہو گئی ہے اور کچھ مزید یہ ہے جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ہی لکھی ہے کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اُحُد کے دامن میں ڈیرہ ڈال دیا ایسے طریق پر کہ اُحُد کی پہاڑی مسلمانوں کے پیچھے کی طرف آ گئی اور مدینہ گویا سامنے رہا اور اس طرح آپؐ نے لشکر کا عقب محفوظ کر لیا … آپؐ نے یہ انتظام فرمایا کہ عبداللہ بن جُبَیر کی سرداری میں پچاس تیر انداز صحابی وہاں متعین فرما دئیے اور ان کو تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہو جاوے وہ اس جگہ کو نہ چھوڑیں اور دشمن پر تیر برساتے جائیں۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 487)
جیسا کہ پہلے بھی ذکر آ چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس درے کی حفاظت کا اس قدر خیال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن جُبَیر سے یہ تکرار سے فرمایا کہ دیکھو یہ درّہ کسی صورت میں خالی نہ رہے اور اگر فتح بھی ہو جائے، دشمن پسپا ہو کر دوڑ جائے تب بھی تم نے جگہ نہیں چھوڑنی اور مسلمانوں کو اگر شکست ہو جائے اور دشمن ہم پہ غالب آ جائیں تب بھی تم نے نہیں چھوڑنی۔
حضرت بَرَاء بن عَازِب بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اُحُد کے دن پیادہ فوج پر حضرت عبداللہ بن جُبَیر کو مقرر فرمایا اور یہ پچاس آدمی تھے اور ان سے فرمایا کہ اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا خواہ دیکھو کہ پرندے ہم پر جھپٹ رہے ہیں۔ اپنی جگہ پر رہنا تاوقتیکہ میں تمہیں نہ بلا بھیجوں اور اگر تم ہمیں اس حالت میں بھی دیکھو کہ لوگوں کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں ہم نے روند ڈالا ہے تب بھی یہاں سے نہ سرکنا جب تک کہ میں تمہیں نہ کہلا بھیجوں۔ چنانچہ مسلمانوں نے ان کوشکست دے کر بھگا دیا۔ حضرت براء کہتے تھے کہ بخدا میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا کہ وہ بھاگ رہی تھیں اور وہ اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے تھیں۔ (اس زمانے میںفوجوں کے ساتھ عورتیں بھی ان کے جذبات ابھارنے کے لئے جایا کرتی تھیں۔) ان کی پازیبیں اور پنڈلیاں ننگی ہو رہی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن جُبَیر کے ساتھیوں نے یہ دیکھ کر کہا کہ لوگو! چلو غنیمت حاصل کریں۔ تمہارے ساتھی غالب ہو گئے تم کیا انتظار کر رہے ہو؟ حضرت عبداللہ بن جُبَیر نے کہا کیا تم وہ بات بھول گئے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے فرمائی تھی؟ انہوں نے یعنی ان لوگوںنے جو جگہ چھوڑنا چاہتے تھے کہا کہ بخدا ضرور ہم بھی ان لوگوں کے پاس پہنچیں گے اور غنیمت کا مال لیں گے۔ یہ باقی وہاں غنیمت کا مال لے رہے ہیں تو ہم بھی جائیں گے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو ان کے منہ پھیر دئے گئے اور شکست کھا کر بھاگتے ہوئے لوٹے یعنی پھر دشمن نے حملہ کیا اور یہ جو فتح ہے وہ الٹی پڑ گئی۔ حضرت بَرَاء لکھتے ہیں کہ یہی وہ واقعہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جبکہ رسول تمہاری سب سے پچھلی جماعت میں کھڑا تمہیں بلا رہا تھا۔ آل عمران کی آیت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بارہ آدمیوں کے سوا اور کوئی نہ رہا اور کافروں نے ہم میں سے ستر آدمی شہید کئے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے جنگ بدر میں مشرکوں کے 140آدمیوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ ستر قیدی اور ستر مقتول۔
ابوسفیان نے تین بار پکار کر کہا، (یہ سارا واقعہ جنگ اُحُد کا ہی بیان ہو رہا ہے) کہ کیا ان لوگوں میں محمد ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اسے جواب دینے سے روک دیا۔ کافروں کی جو شکست تھی وہ جب میں فتح بدل گئی ہے اور انہوں نے دوبارہ حملہ کر کے درے سے مسلمانوں کو زیر کر لیا۔ تب اس نے کہا کہ کیا تم میں محمد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اسے جواب دینے سے روک دیا۔ پھر اس نے تین بار پکار کر پوچھا کیا لوگوں میں ابوقحافہ کا بیٹا ہے یعنی حضرت ابوبکر ہیں؟ پھر تین بار پوچھا کیا ان لوگوں میں ابن خطاب ہے یعنی حضرت عمر کے بارے میں پوچھا؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دفعہ پوچھنے پر یہی فرمایا تھا کہ جواب نہیں دینا۔ پھر کہتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور کہنے لگا کہ یہ جو تھے وہ تو مارے گئے۔ یہ تین ان کے لیڈر ہو سکتے تھے یہ تینوں تو مارے گئے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بولے اے اللہ کے دشمن! بخدا تم نے جھوٹ کہا ہے۔ جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں۔ جو بات ناگوار ہے اس میں سے ابھی تیرے لئے بہت کچھ باقی ہے۔ ابوسفیان بولا یہ معرکہ بدر کے معرکے کا بدلہ ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہے کبھی اس کی فتح اور کبھی اس کی فتح۔ تم ان لوگوں میں سے کچھ ایسے مردے پاؤ گے جن کے ناک کان کاٹے گئے ہیں یعنی مُثلہ کیا گیا ہے۔ اُس نے کہا کہ میں نے اس کا حکم نہیں دیا اور میں نے اسے برا بھی نہیں سمجھا۔ پھر اس کے بعد وہ یہ رَجزیہ فقرہ پڑھنے لگا۔ اُعْلُ ھُبَل۔ اُعْلُ ھُبَل۔ ھبل کی جَے، ھبل کی جَے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اب اسے جواب نہیں دو گے؟ صحابہ نے کہا یارسول اللہ ہم کیا کہیں؟ آپؐ نے فرمایا تم کہو اَللہُ اَعْلیٰ وَاَجَلُّ۔ اللہ ہی سب سے بلند اور بڑی شان والا ہے۔ پھر ابوسفیان نے کہا کہ عُزَّی نامی بت ہمارا ہے اور تمہارا کوئی عُزَّی نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ کیا تم اسے جواب نہیں دو گے۔ حضرت بَرَاء بن عَازِب کہتے ہیں کہ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ہم کیا کہیں؟ آپ نے فرمایا کہو اَللہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلیٰ لَکُمْ۔ کہ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔
(صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب ما یکرہ من التنازع والاختلاف فی الحرب…حدیث نمبر 3039)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس واقعہ پر کافی تفصیلی بحث کی ہے۔ اور غزوۂ احد پہ روشنی ڈالی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’وہ صحابہؓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گر د تھے اور جو کفّار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دئیے گئے تھے کفار کے پیچھے ہٹتے ہی وہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے۔ آپ کے جسم مبارک کو انہوں نے اٹھایا اور ایک صحابی عُبَیْدَہ بن الجَرّاحؓ نے اپنے دانتوں سے آپ کے سر میں گھسی ہوئی کیل کو زور سے نکالا جس سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آ گیا اور صحابہؓ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دئیے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں۔ بھاگا ہوا لشکر پھر جمع ہونا شروع ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے۔ جب دامن کوہ میں بچا کھچا لشکر کھڑا تھا تو ابوسفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا ہم نے محمد (ﷺ) کو مارد یا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی بات کا جواب نہ دیا تا ایسا نہ ہو دشمن حقیقت حال سے واقف ہو کر حملہ کر دے۔‘‘ کیونکہ مسلمان ابھی کمزور حالت میں تھے ’’اور زخمی مسلمان پھر دوبارہ دشمن کے حملہ کا شکار ہو جائیں۔ جب اسلامی لشکر سے اس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابوسفیان کو یقین ہو گیا کہ اُس کا خیال درست ہے اور اس نے بڑے زور سے آواز دے کر کہا ہم نے ابوبکرؓ کو بھی مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کو بھی حکم فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں۔ پھر ابوسفیان نے آواز دی ہم نے عمرؓ کو بھی مار دیا۔ تب عمرؓ جو بہت جوشیلے آدمی تھے اُنہوں نے اُس کے جواب میں یہ کہنا چاہا کہ ہم لوگ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارے مقابلہ کے لئے تیار ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ مسلمانوں کو تکلیف میں مت ڈالو اور خاموش رہو۔ اب کفّار کو یقین ہو گیا کہ اسلام کے بانی کو بھی اور ان کے دائیں بائیں بازو کو بھی ہم نے مار دیا ہے۔ اس پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اُعْلُ ھُبَل۔ اُعْلُ ھُبَل۔ ہمارے معزز بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اس نے آج اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ …‘‘حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی موت کے اعلان پر، ابوبکرؓ کی موت کے اعلان پر اور عمرؓ کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرمارہے تھے تا ایسا نہ ہو کہ زخمی مسلمانوں پر پھر کفّار کا لشکر لَوٹ کر حملہ کر دے اور مٹھی بھر مسلمان اس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں۔ اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں مارا گیا تو آپ کی روح بیتاب ہو گئی اور آپؐ نے نہایت جوش سے صحابہ کی طرف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ! ہم کیا کہیں؟ فرمایا کہو اَللہُ اَعْلیٰ وَاَجَلُّ۔اَللہُ اَعْلیٰ وَاَجَلُّ۔ تم جھوٹ بولتے ہو کہ ہبل کی شان بلند ہوئی۔ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی معزز ہے اور اس کی شان بالا ہے۔ اور اس طرح آپ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچا دی۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’اس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑا کہ باوجود اس کے کہ ان کی امیدیں اس جواب سے خاک میںمل گئیں اور باوجود اس کے کہ ان کے سامنے مٹھی بھر زخمی مسلمان کھڑے ہوئے تھے جن پر حملہ کر کے ان کو مار دینا مادی قوانین کے لحاظ سے بالکل ممکن تھا لیکن اس نعرے کو سن کے، یہ جوش دیکھ کر وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور جس قدر فتح ان کو نصیب ہوئی تھی اُسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکہ کو واپس چلے گئے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 252-253)
حضرت مصلح موعود مزید فرماتے ہیں ایک آیت کی تشریح میں کہ
’’ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِهٖ أَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔یعنی جو لوگ اس رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آفت نہ پہنچ جائے یا وہ کسی دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں چنانچہ دیکھ لو…‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ دیکھ لو کہ ’’جنگ احد میں اس حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے اسلامی لشکر کو کتنا نقصان پہنچا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پہاڑی درّہ کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقرر فرمائے تھے اور یہ درّہ اتنا اہم تھا کہ آپ نے اُن کے افسر عبداللہ بن جُبَیرؓ انصاری کو بلا کر فرمایا کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑنا۔ مگر جب کفار کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے اُن کا تعاقب شروع کر دیا تو اس درّہ پر جو سپاہی مقرر تھے انہوں نے اپنے افسر سے کہا کہ اب تو فتح ہو چکی ہے۔ اَب ہمارا یہاں ٹھہرنا بے کار ہے۔ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی جہاد میں شامل ہونے کا ثواب لے لیں۔ اُن کے افسر نے انہیں سمجھایا کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خواہ فتح ہو یا شکست تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑنا۔ اس لئے مَیں تمہیں جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ انہوں نے کہاکہ رسول کریم…‘‘(ان کے باقی ساتھیوں نے یہ کہا کہ) ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ خواہ فتح ہو جائے پھر بھی تم نے نہیں ہلنا۔ آپ کا مقصد تو صرف تاکید کرنا تھا۔ اب جبکہ فتح ہو چکی ہے ہمارا یہاں کیا کام ہے۔ چنانچہ انہوں نے خدا کے رسول کے حکم پر…‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے خدا کے رسول کے حکم پر اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہوئے اس درّہ کو چھوڑ دیا۔ صرف اُن کا افسر اور چند سپاہی…‘‘ (یعنی عبداللہ بن جُبَیر اورچند سپاہی) ’’باقی رہ گئے۔ جب کفّار کا لشکر مکہ کی طرف بھاگتا چلا جا رہا تھا تو اچانک خالد بن ولید نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا تو درّہ کو خالی پایا۔ انہوں نے عمرو بن العاص کو آواز دی یہ دونوں ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے اور کہا دیکھو کیسا اچھا موقعہ ہے آؤ ہم مڑ کر مسلمانوں پر حملہ کر دیں۔ چنانچہ دونوں جرنیلوں نے اپنے بھاگتے ہوئے دستوں کو سنبھالا اور اسلامی لشکر کا بازو کاٹتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے ۔ چند مسلمان جو وہاں موجود تھے اور جو دشمن کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ان کو انہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اسلامی لشکر پر پشت پر سے حملہ کر دیا۔ کفار کا یہ حملہ ایسا اچانک تھا کہ مسلمان جو فتح کی خوشی میں ادھر ادھر پھیل چکے تھے ان کے قدم جم نہ سکے۔ صرف چند صحابہؓ دوڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ بیس تھی مگر یہ چند لوگ کب تک دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ آخر کفار کے ایک ریلے کی وجہ سے مسلمان سپاہی بھی پیچھے کی طرف دھکیلے گئے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں تن تنہا رہ گئے۔ اسی حالت میں آپ کے خَود پر ایک پتھر لگا جس کی وجہ سے خَود کے کیل آپ کے سر میں چبھ گئے اور آپ بیہوش ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے۔‘‘ (جو کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ پھر ایک صحابی نے وہ کیل نکالے اور ان کے دانت بھی ٹوٹ گئے۔) ’’جو بعض شریروں نے اسلامی لشکر کو نقصان پہنچانے کے لئے کھود کر ڈھانپ رکھے تھے۔‘‘ (ایک گڑھا بنایا ہوا تھا اور اس پر گھاس پھوس رکھا ہوا تھا۔ پتہ نہیں لگ رہا تھا یہ گڑھا ہے۔ اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گرے۔) ’’اس کے بعد کچھ اور صحابہؓ شہید ہوئے اور ان کی لاشیں آپ کے جسم مبارک پر جا گریں اور لوگوں میںیہ مشہور ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ مگر وہ صحابہؓ جو کفار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دئے گئے تھے کفار کے پیچھے ہٹتے ہی پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گردجمع ہو گئے اور انہوں نے آپ کو گڑھے میںسے باہر نکالا۔ تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آ گیا اور آپ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں اور آپ انہیں ساتھ لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے۔
اسلامی لشکر کوکفار پرفتح حاصل کرنے کے بعد ایک عارضی شکست کا چرکہ اس لئے لگا کہ ان میں سے چند آدمیوں نے…‘‘ (اب یہ سننے والی بات ہے۔ آپؓ اب نتیجہ نکال رہے ہیںکہ اسلامی لشکر کو کفار پر فتح حاصل کرنے کے بعد ایک عارضی شکست کا چرکہ اس لئے لگا۔ اس لئے نقصان پہنچا کہ ان میں سے چند آدمیوں نے) ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی اور آپ کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اپنے اجتہاد سے کام لینا شروع کر دیا۔ اگر وہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اسی طرح چلتے جس طرح نبض حرکتِ قلب کے پیچھے چلتی ہے۔ اگر وہ سمجھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کے نتیجہ میں اگر ساری دنیا کو بھی اپنی جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں تو وہ ایک بے حقیقت شے ہیں۔ اگر وہ ذاتی اجتہاد سے کام لے کر اس پہاڑی درّہ کو نہ چھوڑتے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس ہدایت کے ساتھ کھڑا کیا تھا کہ خواہ ہم فتح حاصل کریں یا مارے جائیں تم نے اس مقام سے نہیں ہلنا تو نہ دشمن کو دوبارہ حملہ کرنے کا موقع ملتا اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو کوئی نقصان پہنچتا‘‘۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ اس آیت میں مسلمانوںکو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پوری اطاعت نہیں بجا لاتے اور ذاتی اجتہادات کو آپ کے احکام پر مقدم سمجھتے ہیں۔‘‘ (اپنی ذاتی توجیہیں نکالتے ہیں یا خود ہی تشریحیں کرنے لگ جاتے ہیں یا حکموں کی تاویلیں کرنے لگ جاتے ہیں۔) ’’انہیں ڈرنا چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں کہیں اُن پر کوئی آفت نہ آ جائے یا وہ کسی شدید عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ گویا بتایا کہ اگر تم کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ تم ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھو اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جاؤ۔ جب تک یہ روح زندہ رہے گی مسلمان بھی زندہ رہیں گے اور جس دن یہ روح مٹ جائے گی اس دن اسلام تو پھر بھی زندہ رہے گا مگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان لوگوں کا گلا گھونٹ کر رکھ دے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے انحراف کرنے والے ہوں گے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 410 تا 412)
آج دیکھ لیں کہ یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد ان سے اٹھ گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کہ آنے والے مسیح و مہدی کو مان لینا، اُسے میرا سلام پہنچانا اور اسے حکَم اور عدل سمجھنا ان سب باتوں کی تاویلیں اب یہ لوگ کرنے لگ گئے ہیں اور اس کا نتیجہ بھی یہ دیکھ لیں۔ پس یہاں احمدیوں کے لئے بھی ایک سبق ہے، ایک تنبیہ ہے کہ مسیح موعودؑ کو قبول کر کے پھر کامل اطاعت ہی کامیابیوں اور فتوحات کی ضمانت ہے۔ پس ہر ایک کو اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک اس کے اطاعت کے معیار ہیں۔
یہاں پہلے بیان ہوا تھا کہ ابو سفیان کے ساتھ عکرمہ بن ابوجہل تھے۔ دوسرے ایک حوالے میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دوسرے صحابی عمرو بن عاص کا ذکر کیا کہ انہوں نے درّے پر حملہ کیا۔ بعض دوسری روایات میں دوسرے نام بھی ہیں۔ اس بارے میں ریسرچ سیل نے جو مزید تحقیق کی ہے وہاں بھی کتبِ سیرت میں خالد بن ولید کے ساتھ عکرمہ کے حملے کا ذکر ہی ملتا ہے۔
(شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 412 غزوہ احد مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
لیکن یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ مشرکین نے اپنے لشکر کے گھڑ سواروں کو جن کی قیادت میں دیا تھا ان میں سے ایک عمرو بن عاص بھی تھے۔
(تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 191 غزوہ احد دار الکتب العلمیہ بیروت 2009ء)
تو اس ضمن میں یہ کہتے ہیں کہ خالد بن ولید نے پہاڑ کے درّے پر خالی جگہ دیکھ کر گھڑ سواروں کے ساتھ حملہ کیا اور عکرمہ بن ابوجہل ان کے پیچھے پیچھے آیا۔ یوں ان تینوں امور کو اگر ایک طرف سے دیکھا جائے تو پھر حضرت مصلح موعود کے اس حوالے میں بھی اور باقی تاریخ کی کتابوں میں بھی اس طرح مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے کہ چونکہ مشرکین کے گھڑ سواروں کے نگران حضرت عمرو بن عاص تھے اس لئے یہ بھی ساتھ ہوں گے۔ یعنی خالد بن ولید، عکرمہ اور عمر ابن العاص تینوں ساتھ ہوں گے۔ اور اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو پھر روایت میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔
حضرت عبداللہ بن جُبَیر کی شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ جب خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابوجہل حملہ آور ہوئے تو حضرت عبداللہ بن جُبَیر نے تیر چلائے یہاں تک کہ آپ کے تیر ختم ہو گئے۔ پھر آپ نے نیزے سے مقابلہ کیا حتٰی کہ آپ کا نیزہ بھی ٹوٹ گیا۔ پھر آپ نے اپنی تلوار سے لڑائی کی یہاں تک کہ آپ شہید ہو کر گرے۔ آپ کو عکرمہ بن ابوجہل نے شہید کیا۔ جب آپ گر گئے تو دشمنوں نے آپ کو گھسیٹا اور آپ کی نعش کا بدترین مُثلہ کیا۔ آپ کے جسم کو نیزے سے اتنا چیرا کہ آپ کی انتڑیاں بھی باہر نکل آئیں۔
حضرت خَوَّاتْ بن جُبَیر کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جُبَیر کی جب یہ حالت ہوئی تو اس وقت مسلمان وہاں گھوم کر پہنچ گئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ کہتے ہیں کہ میں اس مقام پر ہنسا جہاں کوئی نہیں ہنستا، (اپنی حالت بیان کر رہے ہیں) اور اس مقام پر اونگھا جہاں کوئی نہیں اونگھتا اور اس مقام پر میں نے بخل کیا جہاں کوئی بخل نہیں کرتا۔ (یہ تینوں چیزیں ایسی حالت میں کسی انسان سے نہیں ہو سکتی۔ ان سے کہا گیا کہ یہ کیا کیفیت ہے؟ آپ نے یہ کیوں کیا؟ حضرت خَوَّاتْ نے کہا کہ میں نے دونوں بازوؤں سے اورابُو حَنَّہ نے دونوں پاؤں سے پکڑ کر حضرت عبداللہ کو اٹھایا۔ میں نے اپنے عمامے سے ان کا زخم باندھ دیا۔ جس وقت ہم انہیں اٹھائے ہوئے تھے مشرکین ایک طرف تھے۔ میرا عمامہ ان کے زخموں سے کھل کر نیچے گر پڑااور حضرت عبداللہ بن جُبَیر کی آنتیں باہر نکل پڑیں۔ میرا ساتھی گھبرا گیا اور اس خیال سے کہ دشمن قریب ہے اپنے پیچھے دیکھنے لگا۔ اس پر میں ہنس پڑا (کہ یہ اس وقت کیا کر رہا ہے۔) پھر ایک شخص اپنا نیزہ لے کر آگے بڑھا اور وہ اسے میرے حلق کے سامنے لا رہا تھا کہ مجھ پر نیند غالب آ گئی اور نیزہ ہٹ گیا۔ (یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی ایک مدد ہوئی۔ کہتے ہیں اونگھ کیوں آئی؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی اونگھ آ گئی۔ اس حالت میں مَیں کر تو کچھ سکتا نہیں تھا۔ نیزہ میرے بالکل گلے کے قریب تھا لیکن پھر وہ نیزہ ہٹ گیا) اور جب میں حضرت عبداللہ بن جُبَیر کے لئے قبر کھودنے لگا تو اس وقت میرے پاس میری کمان تھی۔ چٹان ہمارے لئے سخت ہو گئی تو ہم اس کی نعش کو لے کر وادی میں اترے اور میں نے اپنی کمان کے کنارے کے ساتھ قبر کھودی۔ کمان میں وَتر بندھی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ میں اپنی وتر کو خراب نہیں کروں گا۔ پھر میں نے اسے کھول دیا اور کمان کے کنارے سے قبر کھود کر حضرت عبداللہ بن جُبَیر کو وہاں دفن کر دیا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 362-363 عبد اللہ بن جُبَیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت عبداللہ بن جُبَیر اور ان کے ساتھیوں کو وفا کے ساتھ اور حکم کی روح کو سمجھنے والا بنایا تھا ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے اسی طرح حکم کو سمجھنے والے اور کامل اطاعت کرنے والے ہوں اور اس طرح ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں۔
نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو نادر الحصنی صاحب کینیڈا کا ہے جو 20؍دسمبر کو 85 سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم ایک صالح، مخلص اور شریف النفس انسان تھے۔ ان کی مالی قربانیاں بھی معیاری تھیں۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور بیٹا ہیں جو احمدی نہیں ہیں۔ آپ عبدالرؤوف الحصنی صاحب کے بیٹے تھے جنہوں نے 1938ء میں اپنے بھائی محترم منیر الحصنی صاحب کے بعد بیعت کی تھی۔ عبدالرؤوف صاحب بھی پرہیزگار اور خاموش طبع اور تقویٰ شعار انسان تھے۔ جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام کا دورہ کیا تو عبدالرؤوف الحصنی صاحب کے گھر میں ایک رات کھانے کے لئے تشریف لے گئے۔ نادرالحصنی صاحب کے اندر بھی اپنے باپ کی خوبیاں موجود تھیں اور آپ نے بھی اخلاص و وفا میں اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔
امیر صاحب کینیڈا لکھتے ہیں کہ مسجد بیت الاسلام کے بننے کے بعد سے ہر جمعہ کے لئے یہ چار گھنٹے ڈرائیو کر کے باقاعدگی سے مسجد پہنچتے تھے اور اسی روز واپس بھی اپنے گھر سدبری(Sudbury) چلے جاتے تھے۔ آپ سے متعدد بار کہا گیا کہ نماز جمعہ کے بعد آرام کر کے اگلے روز واپس چلے جائیں لیکن آپ ہمیشہ اپنے مخصوص انداز میں کوئی نہ کوئی عذر کر دیتے تھے اور واپس چلے جاتے تھے تا کہ جماعت پر کسی قسم کا بوجھ نہ پڑے۔ یہ طریق آپ نے اپنی آخری بیماری میں بھی جاری رکھا۔ اور سالہا سال سے مسجد بیت الاسلام کے نماز جمعہ کے مؤذن بھی تھے۔ اذان دینے کا بھی ان کا ایک منفرد انداز اور اسلوب تھا اور عجیب جذبہ رکھتے تھے جس سے سننے والوں پر بھی ایک خاص وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔
مرحوم کی غیر احمدی اہلیہ سُمیہ صاحبہ نے یہ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نادر الحصنی صاحب کو اپنی وسیع جنتوں میں جگہ دے۔ وہ اپنے گھر والوں اور جماعت کے لئے بہت سچے اور سیدھے، صاف، دیانت دار اور مخلص انسان تھے۔ ہر ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتے اور اس سے بہت مشفقانہ سلوک کرتے۔ ایک غیر احمدی غریب خاتون کی حسبِ استطاعت پوشیدہ مدد کیا کرتے تھے۔ جب ہم اُس سے ملنے جاتے تو مرحوم نادر صاحب پہلے بازار جا کر اس کے لئے ضروری اشیاء خریدتے۔ پھر ان کے گھر جاتے اور وفات سے قبل تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ کہتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں ان جیسا بیماری پر صبر کرنے والا انسان نہیں دیکھا۔ ہر وقت الحمد للہ کے الفاظ زبان پر رہتے تھے۔ خشیت اللہ سے لبریز دل کے ساتھ خدا تعالیٰ سے مناجات کرتے۔ پنجوقتہ نماز اور تہجد پابندی سے ادا کرتے۔ ان کا ہر جاننے والا ان کے نیک مزاج کا معترف ہے۔
معتز قزق صاحب کینیڈا سے لکھتے ہیں کہ سیریا میں قیام کے دوران نادر الحصنی صاحب کے بارے میں سنا ہے۔ حصنی فیملی جماعت کے ساتھ اپنے اخلاص اور خلافت سے وابستگی کے لئے معروف ہے۔ کینیڈا پہنچنے کے بعد میری مکرم نادر الحصنی صاحب سے مسجد میں ملاقات ہوئی۔ آپ بہت نیک طبع اور ہنس مکھ انسان تھے۔ ان کے ساتھ گفتگو کے دوران مَیں اُن کی خلافت سے محبت اور مسجد میں دوستوں سے ملاقات کے شوق سے بہت متأثر ہوا۔ کہتے ہیں ان کی نمازوں کی پابندی ہم سب کے لئے ایک مثال تھی جس سے ہمیں سبق سیکھنا چاہئے۔ کہتے ہیں کہ ان کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ اور بیٹا ٹورانٹو آئے اور خاکسار کو جماعتی انتظام کے تحت ان کی خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ ان کے کفن دفن میں مدد کی توفیق ملی۔ ان کی اہلیہ نے مجھے بتایا کہ ہمارے علاقے میں تین مساجد ہیں اور یہ سب مسلمانوں کی مسجدیں ہیں۔ سب نے مجھ سے مرحوم کے جنازے وغیرہ کے بارے میں پوچھا لیکن میںنے انہیں جواب دیا، (یہ غیر احمدی ہیں) کہ مرحوم کا جنازہ اسی مسجد سے اٹھے گا جہاں وہ نماز پڑھا کرتے تھے۔ پھر یہ قزق صاحب کہتے ہیں کہ مرحوم کا تابوت قبر میں اتارا جا رہا تھا تو اپنے چچا مکرم الحاج سامی قزق صاحب کی ایک بات یاد کر کے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ قزق صاحب کے چچا جب فوت ہوئے تو کہتے ہیں کہ میں مرض الموت میں ان کے قریب تھا۔ انہوں نے ایک دن روتے ہوئے مجھے کہا کہ سیدی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کو اطلاع کر دو کہ مجھے ان سے محبت ہے اور میں زندگی کے آخری دم تک خلافت کا وفادار رہوں گا۔ میرا خیال ہے ان کی وفات غالباً خلافتِ ثالثہ میں ہوئی ہوگی۔ بہرحال جب بھی تھی یہ ان کے الفاظ تھے۔ مرحوم نادر صاحب کے بارے میں بھی قزق صاحب لکھتے ہیں کہ مرحوم نادر صاحب کے بارے میں بھی میرا یہی تأثر ہے۔ آپ بھی خلافت کے ساتھ بہت اخلاص اور وفا کا تعلق رکھتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے کہ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللہَ عَلَيْهِ۔ فَمِنْهُم مَّن قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُم مَّنْ يَّنْتَظِرُ۔ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۔ (الاحزاب24:)۔
اور پھر قزق صاحب یہ کہتے ہیں کہ مرحوم کی خلفاء کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ 1955ء میں سیریا تشریف لے گئے تو ان کو حضور کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا اور 3؍مئی 1955ء میں سیریا کے احمدیوں کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ وہاں مجلس ہوئی۔ کہتے ہیں اس مجلس میں حضرت مصلح موعودؓ نے اُن سے عربی میں ہی باتیں کیں اور اس تاریخی نشست کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ نشست جو ہے، یہ مجلس جو آج جمی ہے یہ تاریخی ہے اس لئے کہ آج سے نصف صدی سے زائد عرصہ قبل جبکہ آپ حضرات میں سے کئی پیدا بھی نہیںہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی طرف وحی کی تھی کہ یَدْعُوْنَ لَکَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَ عِبَادُاللہِ مِنَ الْعَرَبِ۔ کہ ابدالِ شام اور عربوں میں سے اللہ کے نیک بندے تیرے لئے دعائیں کریں گے اور آج آپ کی موجودگی سے (حضرت مصلح موعودؓ ان سیرین(Syrian) احمدیوں کو کہہ رہے تھے کہ آج آپ کی موجودگی سے) خدا کی یہ بات پوری ہو گئی۔
اس سفر کے موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مکرم نادرالحصنی کی بعض یادگار تصویریں بھی ان کے پاس ہیں۔ ان کے بھانجے عمار المِسکی صاحب جو یہاں تبشیر میں ہیں۔ لندن میں ہی رہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ آپ کا حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے ساتھ بہت قریبی تعلق تھا۔ مرحوم نے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی ایک کتاب کا عربی ترجمہ بھی کیا تھا۔ جماعت کے ساتھ آپ کا بہت مضبوط تعلق تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کے بارے میں کوئی ناروا بات برداشت نہیں کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ اپنے دو بھائیوں کے ساتھ کسی غیر احمدی کے ہاں تعزیت کے لئے گئے۔ وہاں پر سیریا کے ایک معروف عالم شیخ البانی بھی اپنے کئی شاگردوں کے ہمراہ موجود تھے جن کو مرحوم نادر الحصنی صاحب اور ان کے بھائیوں کے احمدی ہونے کا پتہ تھا۔ اس پر ان لوگوں نے احمدیوں اور دیگر مولویوں کے درمیان اختلافی امور کا ذکر کرنا شروع کر دیا۔ جب ان میں سے ایک نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کئے تو میرے ماموں مرحوم نادر الحصنی صاحب جوش سے کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ اگر تم میں سے کسی میں ہمت ہے تو میرے ساتھ مناظرہ کر لو حالانکہ یہ تین بھائی تھے اور شیخ البانی صاحب کے ساتھیوں کی تعداد پندرہ سے زائد تھی۔ ان میں سے کسی ایک کو اس بات کی جرأت نہیں ہوئی کہ مناظرہ کرے بلکہ مناظرے کی بجائے انہوں نے جھگڑا کرنا شروع کر دیا اور آپ تینوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن تعزیت پر آئے ہوئے دیگر لوگوں نے بیچ بچاؤ کرا دیا۔ اپنی پڑھائی کے دوران حضرت (مسیح موعود )کا پیغام پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مکینیکل انجینئرنگ پڑھنے کے لئے امریکہ چلے گئے۔ آخری سال کے دوران یہودیوں کے ایک فرقے سے عقائد پر بحث شروع ہو گئی۔ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی تو انہوں نے، مخالف گروہ نے، پرنسپل کو جا کر کہا کہ اس کو کالج سے نکال دیں ورنہ ہم اس پر ایسا الزام لگائیں گے کہ یہ پڑھائی مکمل نہیں کر سکے گا۔ بہرحال پھر پرنسپل کے کہنے پر مرحوم نے خود ہی اپنا کالج تبدیل کر لیا اور امریکہ چھوڑ کر پھر کینیڈا آ گئے۔ آپ کی ساری توجہ کا مرکز حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی کتب رہتی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب آپ نے اپنی آواز میں پڑھ کر ریکارڈ کروائیں۔ اردو زبان سیکھنے کی بھی کوشش کر رہے تھے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی شعر کا عربی شعر میں ترجمہ بھی کرتے تھے۔ اپنی عربی اور انگریزی زبان کی ساری صلاحیت تراجم کے کام میں صرف کی۔ Five Volume English Commentary کی پہلی جلد کا عربی ترجمہ کرنے والی ٹیم میں بھی آپ شامل تھے۔ اسلام کے مخالفین کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے استفادہ کرتے ہوئے آپ نے عربی زبان میں بعض کتب بھی لکھی ہیں جن میں سے ایک کتاب کا عنوان ہے ’رسول اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق سابقہ پیشگوئیاں‘۔ اسلامی کتب پر مشتمل ان کی ایک بڑی ذاتی لائبریری تھی جس کے بارے میں انہوں نے وصیت کر رکھی تھی کہ میری وفات کے بعد یہ جماعت کے حوالہ کر دی جائے۔
عبدالقادر عودے صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ نے جماعت کے متعلق بعض کتب بھی تحریر کیں۔ پھر ان کتب کی ذاتی خرچ سے اشاعت بھی کروائی۔ جماعت اور خلافت سے بہت محبت کرنے والے مخلص انسان تھے۔ چندوں کی اہمیت بھی لوگوں پر واضح کیا کرتے تھے۔
عبدالرزاق فراز صاحب مربی سلسلہ ہیں اور جامعہ کینیڈا کے استاد بھی ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ بڑے ہی صابر اور شاکر تھے۔ آپ آخری چند سال اپنی بیماری کی وجہ سے خوراک منہ سے نہیں لے سکتے تھے بلکہ مشین کے ذریعہ سے معدے میں خوراک دی جاتی تھی۔ آپ اس حالت میں بھی طبیعت بہتر ہونے پر سفر کر کے جمعہ کے لئے مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے۔ سیریا میں حالات خراب ہونے پر جب عرب احمدی کینیڈا آئے تو آپ ان سے انتہائی پیار اور گرمجوشی سے ملتے اور جماعت کے ساتھ جڑے رہنے کی تلقین کرتے اور فرماتے تھے کہ اس ملک میں اپنی اولاد کو بچانے کا واحد ذریعہ جماعت اور مسجد سے جڑے رہنا ہی ہے۔
مصلح الدین شنبور صاحب کینیڈا میں مربی ہیں۔ کہتے ہیں مجھے لکھ رہے ہیں کہ نادر الحصنی صاحب خلیفۂ وقت کے خطبات جمعہ سن کر پھر ان کو پرنٹ کیا کرتے تھے اور دوبارہ پڑھتے تھے اور پھر انہیں ایک فائل میں محفوظ کرتے تھے۔ گھر میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی عربی کتب اور حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر کبیر کی دس جلدوں کا عربی ترجمہ اپنی آواز میں ریکارڈ کر کے محفوظ کیا اور جمعہ کے لئے آتے جاتے وقت انہیں سنا کرتے تھے یا کبھی تلاوت سنتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے درس قرآن کا عربی ترجمہ جب ایم۔ٹی۔اے پر نشر ہونا شروع ہوا تو اس کی بھی ریکارڈنگ شروع کی اور اپنے پاس محفوظ رکھی۔ کہتے ہیں میں کئی دفعہ ان کے گھر گیا ہوں۔ جب بھی وہاں ٹھہرتا تھا ہر روز نماز فجر سے ڈیڑھ یا دو گھنٹے پہلے خاکسار تہجد کے وقت رونے اور گڑگڑانے کی آواز سنتا تھا اور اگر وہ ٹی وی کبھی دیکھتے تھے تو صرف ایم۔ٹی۔اے دیکھا کرتے تھے یا کبھی خبریں دیکھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کا ایم۔ٹی۔اے خراب ہو گیا تو انہوں نے فوری طور پر پیغام بھجوایا کہ آ کے میرا ایم۔ٹی۔اے ٹھیک کریں کیونکہ اس کے بغیر گزارہ مشکل ہے۔ شنبور صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ نماز میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اَتْمِمْ عَلَیْنَا نِعْمَۃَ الْخِلَافَۃِ۔ کہ یا اللہ ہمیں خلافت کی برکتوں سے بہترین فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرما۔ اور جب بھی اس دعا کو پڑھتے تھے تو رونے لگتے تھے۔ کہتے ہیں یہ واقعہ میرے سامنے کئی مرتبہ پیش آیا۔
اللہ تعالیٰ مرحوم و مغفور کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بیٹے اور اہلیہ کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میںآنے والے بن جائیں اور اِن کی اُن کے لئے جو دعائیں ہیں وہ ساری قبول ہوں۔