دوسری شرط بیعت اور خیانت
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ وَ تَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ(سورۃ الانفال: ۲۷)ترجمہ:اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول سے خیانت نہ کرو ورنہ تم اس کے نتیجے میں خود اپنی امانتوں سے خیانت کرنے لگو گے جبکہ تم اس خیانت کو جانتے ہو گے۔
دوسری شرطِ بیعت
یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔
کسی بھی معاملے میں اعتماد کو ٹھیس پہنچانا خیانت کہلاتا ہے۔ خیانت کرنے والا خائن ہوتاہے۔ خیانت ایسی برائی ہے جس کا کرنے والا اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق ادا نہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خائن کو مختلف جگہوں میں سخت ناپسند فرمایا ہے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی ایک علامت یہ بھی بتائی ہے کہ اس میں جھوٹ اور خیانت دونوں برائیاں نہیں ہوتیں۔ بعض برائیاں ایسی ہیں جو دوسری برائیوں کو جنم دیتی چلی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک برائی خیانت کرنا بھی ہے۔ اسی لیے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پاک جماعت کے قیام کے لیے جو شرائط مقرر فرمائیں ان میں سے دوسری شرط میں خیانت جیسی بیماری سے بچنا بھی ہے۔
درج بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے حقوق اللہ کی ادائیگی پر زور دیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرنے کے نتیجے میں ہی ہم حق اللہ کو ادا کر سکتے ہیں اور یہی چیز حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف لے کرجاتی ہے۔ لیکن اگر ہم خدا اور اس کے رسول سے کیے ہوئے وعدوں میں خیانت سے کام لیں گے خدا سے یہ کہہ کر کہ میں مسلمان ہوں اور ایمان لاتا ہوں پھر اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو پھر معاشرے کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکیں گے، ایک دوسرے پر اعتماد بھی نہیں کر سکیں گے، جب ہم اعتماد نہیں کریں گے تو خیانت کریں گے اور اس سے معاشرے کا امن و سکون بھی قائم نہیں رہے گا۔
خیانت، احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کسی شخص کے دل میں ایمان اور کفر نیز صدق اور کذب اور نہ ہی امانت اور خیانت اکٹھے ہو سکتے ہیں۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۳۴۹ مطبوعہ بیروت)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو عندالطلب امانت لوٹا دو جس نے تمہارے پاس امانت رکھی تھی اور اس شخص سے بھی خیانت نہ کروجو تجھ سے خیانت کرتا ہے۔(سنن ترمذی، باب البیوع)
اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں آدمی کے پیسے ہم اس لئے نہیں دے رہے کہ اس شخص نے فلاں وقت میں ہمارے ساتھ لین دین میں خیانت کی۔ توفرمایا کہ نہیں، اگر کسی نے خیانت کی بھی تھی اور پھر اس نے تمہارے پر اعتماد کرکے کوئی چیز تمہارے پاس امانت کے طورپر رکھوائی ہے تو تمہیں یہ زیب نہیں دیتاکہ اس کی امانت دبا لو۔ اگر وہ واپس مانگے تو اس کو بہرحال ادا کرو۔ تو تمہارے ساتھ پہلے کا لین دین ہے اس کے بارہ میں جو بھی قانونی چارہ جوئی کرنی ہے کرو۔ یا اگر نہیں کرنا چاہتے اور خدا پر معاملہ چھوڑنا ہے تو چھوڑو لیکن یہ حق بہرحا ل نہیں پہنچتا کہ کسی کی دی ہوئی امانت کو اس لئے دبالوکہ اس نے تمہارے ساتھ خیانت کی تھی۔ اگر تم ایسا کرو گے تو اپنے ایمان کو ضائع کرنے والے بنوگے۔‘‘(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ ۶؍فروری ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍اپریل ۲۰۰۴ء)
خیانت کرنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کہا ہے اور منافق اللہ تعالیٰ کا قرب ہرگز پا نہیں سکتا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار عادتیں جس میں ہوں تو وہ پورا منافق ہے اور جس کسی میں ان چار میں سے ایک عادت ہو تو وہ بھی نفاق ہی ہے جب تک وہ اسے چھوڑ نہ دے، ( وہ یہ ہیں)۔ جب امین بنایا جائے تو امانت میں خیانت کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب کسی سے عہد کرے تو اسے دھوکا دے اور جب کسی سے لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔(مسلم کتاب الایمان)
مسلمان کا دل تین امور میں خیانت نہیں کر سکتا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
۱۔خدا تعالیٰ کی خاطر کام میں خلوص نیت
۲۔ ہر مسلمان کے لیے خیر خواہی
۳۔ جماعت مسلمین کے ساتھ مل کر رہنا(ابن ماجہ كتاب السنة)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی جماعت میں خیانت سے بچنے کا کیا معیار دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’جو شخص… بد نظری سے اور خیانت سے، رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے توبہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے … ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۸، ۱۹)
آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:’’خدا کے واحد ماننے کے ساتھ یہ لازم ہے کہ اس کی مخلوق کی حق تلفی نہ کی جاوے جو شخص اپنے بھائی کا حق تلف کرتا ہے اور اس کی خیانت کرتا ہے وہ لا الٰہ الا اللہ کا قائل نہیں۔‘‘(ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۱۰۶ ایڈیشن1984ء)
ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خیانت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خیانت سے بچنے کی یہ دعا سکھائی ہے:
اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْجُوْعِ فَإِنَّهُ بِئْسَ الضَّجِيعُ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْخِيَانَةِ فَإِنَّهَا بِئْسَتِ الْبِطَانَةُیعنی اے اللہ! میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ بہت بری ساتھی ہے اور میںخیانت سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ یہ بدترین مشیرکارہے۔(ابوداؤدحدیث:۱۵۴۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عہد بیعت کو کماحقہ نبھانے اور ہر ایک برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللّٰہم آمین
واٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین