حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی رو سے بیعت کی حقیقت، ضرورت اور اس کی برکات
’’بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے۔ اس کی برکات اور تاثیرات اسی شرط سے وابستہ ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد۳صفحہ۴۵۴، ایڈیشن ۱۹۸۸ء) ’’یہی بیعت کی کشتی ہے جو انسانوں کی جان اور ایمان بچانے کے لئے ہے…بیعت کے معنے بیچ دینے کے ہیں۔ پس جو شخص در حقیقت اپنی جان اور مال اور آبرو کو اس راہ میں بیچتا نہیں مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ خدا کے نزدیک بیعت میں داخل نہیں ۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۱۴،۱۱۳)
حضرت مسیح موعودؑ نے ہمارے سامنے مختلف مواقع پر بیعت کی اصل حقیقت ، ضرورت اور اس کی برکات کو بڑے واضح طور پر بیان فرمایا ہے جو کہ اکثر آپؑ کی تحریرات سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ بیعت کی اصل حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بیعت ایمان کی حقیقت کا پتہ دیتی ہے
’’یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے۔ یہ تو صرف پوست ہے۔ مغز تو اس کے اندر ہے۔ اکثر قانون قدرت یہی ہے کہ ایک چِھلکا ہوتا ہے اور مغز اس کے اندر ہوتا ہے۔ چھلکا کوئی کام کی چیز نہیں ہے۔ مغز ہی لیا جاتا ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مغز رہتا ہی نہیں اور مرغی کے ہوائی انڈوں کی طرح جن میں نہ زردی ہوتی ہے نہ سفیدی، جو کسی کام نہیں آسکتے اور ردّی کی طرح پھینک دئیے جاتے ہیں …۔ اسی طرح پر وہ انسان جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اگر وہ ان دونوں باتوں کا مغز اپنے اندر نہیں رکھتا،تو اُسے ڈرنا چاہئے کہ ایک وقت آتا ہے کہ اُس ہوائی انڈے کی طرح ذرا سی چوٹ سے چکنا چور ہو کر پھینک دیا جائے گا۔
اسی طرح جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اُس کو ٹٹولنا چاہئے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی اور اسلام کا مدعی سچامدعی نہیںہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ۴۱۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
فرمایا:’’بیعت بازیچۂ اطفال نہیں ہے۔ درحقیقت وہی بیعت کرتا ہے جس کی پہلی زندگی پر موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ ہر ایک امر میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۲۵۷، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
بیعت زندگی کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے
پھرآپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’بیعت کی حقیقت سے پوری واقفیت حاصل کرنی چاہئے اور اس پر کاربند ہونا چاہئے۔ اور بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوفِ خدا اپنے دل میں پیدا کرے۔ اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کر کے دکھاوے۔ اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ بیعت پھر اس کے واسطے اور بھی باعثِ عذاب ہو گی کیونکہ معاہدہ کر کے جان بوجھ اور سوچ سمجھ کر نافرمانی کرنا سخت خطرناک ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۶۰۴-۶۰۵، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
بیعت کی اغراض
پھر آپؑ بیعت کی اغراض کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’مجھ سے اس غرض سے بیعت کرو کہ تا تمہیں مجھ سے روحانی تعلق پیدا ہو اور میرے درخت وجود کی ایک شاخ بن جاؤ اور بیعت کے عہد پر موت کے وقت تک قائم رہو‘‘۔(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۵۲۵۔۵۲۶)
پھر فرمایا:’’ مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ سو یہی افعال میرے وجود کی علّتِ غائی ہیں۔‘‘ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۲۹۳، حاشیہ)
’’بیعت کی اصل غرض اور غایت کو نہ سمجھا یا پرواہ نہ کی تو اس کی بیعت بے فائدہ ہے… دیکھو مولوی عبد اللطیف صاحب شہید اسی بیعت کی وجہ سے پتھروں سے مارے گئے…مگر وہ… ثابت قدم رہ کر ایک نہایت عمدہ زندہنمونہ اپنے کامل ایمان کا چھوڑ گئے… یہ ہےبیعت کی حقیقت اور غرض و غایت‘‘۔ (ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۵۷، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
بیعت سے برکات حاصل ہوتی ہیں
حضرت مسیح موعود ؑ بیعت سے حاصل ہونے والی برکات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے۔ غفور و رحیم خدا اُس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے۔ تب فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۹۴، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
فرمایا: ’’جو سچا اقرار کرتا ہے اس کے بڑے بڑے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کو ایک نئی زندگی ملتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد۳صفحہ۶۵، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
نیز فرمایا کہ ’’جب وہ بیعت کرتا ہے … تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے۔ اسی طرح سے اس پیوند سے بھی وہ فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں بشرطیکہ … اس کے ساتھ سچا تعلق ہو‘‘۔(ملفوظات جلد اول صفحہ ۵، ایڈیشن۱۹۸۴ء)