متفرق مضامین

اسائلم قوانین میں ریفارم کےلیے یورپین یونین ممالک کے وزراء کا بارہ گھنٹے جاری رہنے والا اجلاس

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

دنیا کے غریب ممالک میں بڑھتی ہوئی اقتصادی بد حالی، کرپشن اور بد امنی نے ان ممالک کے شہریوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی میں زمانہ یقیناً تیزی سے اگے کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن اس ترقی کے عمومی فائدہ سے تیسری دنیا کے لوگ محروم ہیں۔ ان کی مفلسی کو ختم کرنے میں زمانہ کی اس ترقی،ان ممالک میں رائج نظام اور حکمرانوں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ کم و بیش آدھی صدی قبل اجتماعی مائی گریشن کو جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس کی راو میں سینکڑوں دیواریں کھڑی کرنے اور قدغنیں لگانے کے باوجود یہ سلسلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ نقل مکانی امیر ممالک کی طرف کی جاتی ہے۔ اس لیے یورپ کا خطہ اس کا خاص نشانہ بن رہا ہے۔ میکسیکو کے راستہ امریکہ میں داخل ہونے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں لیکن لوگ جن جن راستوں سے پاپڑبیل کر یورپ میں داخل ہوتے ہیں اس کی کہانیاں آے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ مغربی حکومتوں نے اب تک جتنی بھی پابندیاں لگائیں اور جو جو تدابیر اختیار کیں وہ سب ناکامی سے دوچار ہویں۔ زمینی راستے خاردار تاریں لگا کر بند کیے تو مجبور لوگوں نے سمندروں میں راستے پیدا کر لیے۔نگرانی اور سیکیورٹی پر مامور ایجنسیوں کے جہاز انسانوں کو ڈوبتا دیکھ کو خود ان کو کنارے تک پہنچاتے رہے۔ جرمنی اور فرانس کے دباؤ کے نتیجے میں ایک پالیسی ایسی بھی اپنائی گئی کہ پناہ کا متلاشی سب سے پہلے جس سرزمین پر قدم رکھے گا اسائلم کی درخواست لازما اسی ملک میں دینے کا پابند ہو گا۔ اس پالیسی کو پاس کروانے کے لیے جرمنی اور فرانس نے یورپی یونین کے چھوٹے ممالک کو بڑی بڑی رقمیں ادا کی تھیں۔ یورپ میں پناہ کے متلاشیوں کو ترکی میں روک کر رکھنے کی بہت بڑی قیمت طیب اردگان نے وصول کی اور معاہدہ کی پاسداری بھی نہ کی۔یہی وجہ ہے کہ یورپین ممالک اور طیب اردگان کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ یورپی یونین ممالک اپنی انفرادی حیثیت میں پناہ گزینوں اور اسائلم سیکرز کے لیے ایسے فیصلے کرتے رہے ہیں جن کو دنیا نے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ لیکن بحیثیت یورپی یونین ایک مجموعی فیصلہ جس کو یورپی پارلیمنٹ پاس کرے اور اس کو یورپی یونین پالیسی کا درجہ حاصل ہو وہ کام اپنی پہلی سٹیج پر ناکامی کا شکار ہوتا رہا۔ یورپین یونین کے ۲۷؍ وزرائے داخلہ ایسے کسی ڈرا فٹ پر متفق نہیں ہوتے تھے جس کو یورپی پارلیمنٹ سے پاس کروایا جا سکتا۔ یونان،اٹلی اور سپین یورپی یونین کے وہ ممالک ہیں جن کے ساحلوں پر کشتیوں کے ذریعہ ہر رات پناہ گزین اترتے ہیں۔ ان تین ممالک نے نئی اسائلم پالیسی کے لیے کئی سال سے دباؤ ڈال رکھا تھا۔ چنانچہ سالوں کی محنت کے بعد گذشتہ جمعرات کو یورپین یونین ممالک کے وزرائے خارجہ نے بارہ گھنٹے کی طویل بحث کے بعد نئے مسودہ قانون کو منظور کر لیا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ نے اگر اس میں کوئی تبدیلی نہ کی تو یہ ۲۰۲۴ء سے نافذالعمل ہو جاے گا۔

اب یورپی یونین کے ہر ممبر ملک کو اسائلم سیکر قبول کرنے پڑیں گے۔ہر ملک کو اس کی آبادی کے تناسب سے مہاجرین کا کوٹہ دیا جاے گا۔ اگر کوئی ملک کسی وجہ سے کسی فرد کو قبول نہیں کرتا تو وہ بیس ہزار یورو یورپی یونین فنڈ میں جمع کرواے گا۔ جن لوگوں کے اسائلم منظور نہ ہوں ان کو فوری طور پر ان کے ملک روانہ کیا جاے گا اور کسی بھی ملک کا اپنا قانون اس ملک بدری کی راہ میں حائل نہیں ہو گا۔ اس ملک میں کوئی ادارہ، اتھارٹی متاثرہ شخص کے لیے سہولت کار کا کردار ادا نہیں کر سکے گی۔

اسائلم میں مددگار اداروں خصوصاً PRO ASYL نے اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوے کہا ہے کہ یورپی ممالک نے اپنا دل چھوٹا کر لیا ہے۔ جبکہ بارہ گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں فائنل فیصلہ سے قبل ان مددگار تنظیموں کی رائے بھی سنی گئی تھی۔

یورپی یونین ایسا فیصلہ کرنے پر کیوں مجبور ہوئی۔ حقائق کا جائزہ لیں تو ۲۰۲۲ء میں ۹ لاکھ ۶۶ ہزار افراد نے یورپی ممالک میں اسائلم کی درخواست دی۔ اس کے علاوہ ۴۰ لاکھ یوکرائن سے آنے والے وہ متاثرین ہیں جن کو عارضی پناہ مہیا کی گئی ہے۔ جنہوں نے جنگ کے بعد حالات بہتر ہونے پر واپس یوکرائن جانا ہے۔اس طرح پانچ ملین افراد کا بوجھ یورپی یونین اٹھاے ہوے ہے۔ وہ ممالک جن کی خاصی تعداد گذشتہ سال آئی ان میں Syria سے ایک لاکھ بتیس ہزار، افغانستان سے ایک لاکھ انتیس ہزار، ترکی سے پچپن ہزار، وینرزیلا سے اکیاون ہزار اور کولمبیا سے ترتالیس ہزار بنگلہ دیش چونتیس ہزار، جورجیا انتیس ہزار، بھارت چھبیس ہزار، مراکش بائیس ہزار، تیونس اکیس ہزار، مصر پندرہ ہزار، Moldova سے اٹھ ہزار تین سو افراد شامل ہیں۔ ان میں ایک لاکھ پچاس ہزار کو اسائلم کا حق دے دیا گیا جبکہ ایک لاکھ چھ ہزار کا اسائلم ویزا نارمل ویزا میں تبدیل کر کے ان کو یورپی یونین میں رہنے کا حق حاصل ہو گیا۔

ایک بڑا فیصلہ اسائلم پالیسی کے اعتبار سے یورپی یونین کے وزراء نے یہ بھی کیا کہ آنے والے مہاجرین کی درجہ بندی کر دی گئی ہے۔ محفوظ ممالک جن میں India, Mecedonia,Moldova, Vietnam, Tunisia, Bosnia, Herzegvina, Serbia, Nepal شامل ہیں ان کے افراد کے اسائلم کیسوں کے فیصلے ترجیحی بنیادوں پر ہوں گے اور اپیل در اپیل کو حق ان کو حا صل نہیں ہو گا بلکہ رجیکشن کے بعد ان کو واپس ان کے ملک بھجوا دیا جاے گا۔

البتہ غیر محفوظ ممالک سے آنے والوں کو اپیل در اپیل کی اجازت برقرار رہے گی۔ ان میں سیریا، بیلا روس، یوکرائن، یمن، مالی اور اریڑیا شامل ہیں۔

یورپی یونین کے بیشتر ممالک نے ہنر مند افراد کے یورپ آنے کے لیے کئی دروازے کھلے رکھیں ہیں اور وہ ان دروازوں سے داخل ہونے والوں کی ہمت افزائی جبکہ ایجنٹوں کو ہزاروں کھلا کر سسٹم پر بوجھ بننے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی پالیسی اپنانا چاہتے ہیں۔اس میں یورپی یونین کو کہاں تک کامیابی ملتی ہے۔ اب تک تو یہی دیکھا کہ جو پالیسی بھی اپنائی گئی ایجنٹوں نے اس کا توڑ نکال لیا اور لوگوں کو غیر قانونی طریق پر یورپ میں داخل کرنے کا سلسلہ بند نہ ہو سکا۔ اسائلم لینے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ تعداد ان پناہ گزینوں کی ہے جو مغربی طاقتوں کی طرف سے شروع کی جانے والی جنگوں کے متاثرین ہیں۔ جن کے بے گھر ہونے کا سبب بھی مغرب کی متکبرانہ اور انسانیت سوز پالیسیاں بنیں۔ آج کل جرمنی میں تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقیں جاری ہیں۔ پچیس ممالک کے ۲۵۰؍جنگی طیارے اور دس ہزار فوجی حصہ لے رہے ہیں۔ ان کو Air defender ۲۳ exercise کا نام دیا گیا ہے۔ امریکہ بہادر بھی ایک سو جنگی جہازوں اور دو ہزار فوجیوں کے ساتھ موجود ہے۔ نیٹو ممالک کا پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کرنا اگر یو کرائن کی جنگ میں روس کو جواب دینے کے لیے ہے تو اس کے بعد علاوہ دوسرے نقصان اور تباہی کے مہاجرین کا ایک نیا سیلاب یورپی یونین ممالک کا رخ کر سکتا ہے۔ اس طرح برسوں کی محنت کے بعد بنائے قانون کے اپنی موت آپ مرنے کے امکانات موجود ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button