شراب اور جوئے کے تباہ کن نقصانات
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍ فروری ۲۰۱۰ء)
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز جو بنائی ہے بیشک اس کے فوائد بھی ہوتے ہیں اور نقصان بھی۔ اس لئے یہ اصولی بات یاد رکھو کہ جس چیز کے نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہوں اس کے استعمال سے بچو اور یہ دونوں چیزیں جوٴا اور شراب تو ایسے ہیں جو اِثْم کَبِیْر ہیں۔ ان میں بڑے بڑے گناہ ہیں۔باوجود فائدہ کے یہ گناہ میں بڑھانے والے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے اِثْم کے لغوی معنوں میں بتایا تھا اور قرآن کریم میں بھی ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا (الفرقان:69) یعنی اپنے گناہ کی سزا بھگتے گا۔ پس باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جوئے اور شراب میں فائدہ بھی ہے ،یہ کھول کر بیان کردیا کہ تم غور کرو لیکن غور اس بات پر نہیں کہ مَیں تھوڑا فائدہ اٹھاوٴں یا زیادہ۔ یہ دیکھوں کہ اس میں فائدہ ہے کہ نہیں ہے۔ غور اس بات پر کرنا ہے کہ اگرمَیں نے اس کو استعمال کیا یا یہ کام کیا تو گناہگار بنوں گا اور سزا کا سزا وار ٹھہروں گا ۔کیونکہ اِثْمُھُمَا اَکْبَرکہہ کر بتا دیا کہ تمہیں اس کے جرم کی سزا ملے گی۔ اور یہ ایسا گناہ ہے جس میں ایک دفعہ انسان پڑتا ہے تو پھر پڑتا چلا جاتا ہے۔ جان بوجھ کر اس گڑھے میں گرتا چلا جاتا ہے۔ دونوں کاموں کے کرنے کا ایک نشہ، ایک چاٹ لگ جاتی ہے اور یوں بغاوت کا رویہ اختیار کرتے ہوئے سزا کا بھی مستحق بن جاتا ہے۔ تو دونوں چیزیں ہی ایسی ہیں جس میں انسان اپنے پاکیزہ مال کو بھی ضائع کررہا ہوتا ہے اور نہ صرف یہ کہ پاکیزہ مال ضائع کررہا ہوتا ہے بلکہ حرام مال جو ہے اس کو اپنے طیب مال میں شامل کرکے تمام مال کو ہی حرام بنا لیتا ہے۔ جوٴا کھیلنے والا مال ضائع کردیتا ہے۔ شراب پینے والا جو ہے وہ شراب میں مال ضائع کردیتا ہے۔ اپنی صحت برباد کرلیتا ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ واضح طور پر مناہی کرکے بتایا کہ شراب، جوئے اور قرعہ اندازی کے تیر جو ہیں یہ سب شیطانی کام ہیں جو نیکیوں سے روکتے ہیں، اعلیٰ اخلاق سے روکتے ہیں۔ عبادات سے روکتے ہیں۔
سورة مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّوۡقِعَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ فِی الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِ وَ یَصُدَّکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ۔وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ احۡذَرُوۡا ۚ فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ (المائدہ:91-93) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! یقیناً مدہوش کرنے والی چیز اور جوٴا اور بت (پرستی) اور تیروں سے قسمت آزمائی یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں۔ پس ان سے پوری طرح بچو تاکہ تم کامیاب ہو جاوٴ۔ یقیناً شیطان چاہتا ہے کہ نشے اور جوئے کے دوران تمہارے درمیان بغض اور عناد پیدا کردے اور تمہیں ذکر الٰہی اور نماز سے باز رکھے تو کیا تم باز آجانے والے ہو؟ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور (برائی سے) بچتے رہو اور اگر تم پیٹھ پھیر جاوٴ تو جان لو کہ ہمارے رسول پر صرف پیغام پہنچانا ہے۔
آج کل ان ملکوں میں شراب جُوا تو عام ہے بلکہ اب تو ہر جگہ ہے۔ جہاں پابندیاں ہیں وہاں بھی بعض ایسی جگہیں ہیں جہاں لوگ جا کر پیتے ہیں ۔ ان ملکوں میں تو ہر جگہ نہ صرف یہ کہ عام ہے بلکہ کسی نہ کسی طریق سے اس کی تحریص بھی کروائی جاتی ہے۔ ہر سروس سٹیشن پر یا ہر بڑے سٹور پر جوئے کی مشینیں نظر آتی ہیں۔ کسی نہ کسی رنگ میں اس میں جوٴا کھیلا جاتا ہے اور جہاں تک شرک کا سوال ہے اگر ظاہری بت نہ بھی ہوں تو نفس کے بہانوں کے بہت سے بت انسان نے تراش لئے ہیں۔ باوجود ایمان لانے کے بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کی انسان پرواہ نہیں کرتا۔ اور پھر یہ جو بت ہیں،بعض ایسے جو مخفی شرک ہیں یہ عبادات میں روک بنتے ہیں، نمازوں میں روک بنتے ہیں۔ نمازیں جو فحشاء کو دور کرنے والی ہیں ان کی ادائیگی میں روک بن جاتے ہیں۔ پھر تیروں سے قسمت نکالنا ہے اور آج کل اس کی ایک صورت لاٹری کا نظام بھی ہے اس میں بھی لوگ بے پرواہ ہیں۔ زیادہ تر پرواہ نہیں کرتے اور لاٹری کے ٹکٹ خرید لیتے ہیں۔ یہ چیز بھی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سب شیطانی کام ہیں۔ پس ایک حقیقی مومن کاکام ہے کہ عبادات میں استقامت دکھائے۔ نیک اعمال بجالانے کی کوشش میں استقامت دکھائے۔برائیوں اور بےحیائیوں سے بچنے کے لئے استقامت دکھائے اور یہ استقامت اس وقت آئے گی جب اللہ تعالیٰ کا ذکر اور نمازوں کی طرف توجہ ہوگی۔
پھر نیکی اور تقویٰ میں بڑھنے اور گناہوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ اس طرح حکم فرمایا ہے کہ فرمایا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ (المائدہ :3) کہ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں تعاون نہ کرو۔ اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔
یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے کہ اس میں پہلے یہ بیان کرکے کہ دشمن کی زیادتی اور دشمنی بھی تمہیں کسی قسم کی زیادتی پر آمادہ نہ کرے، پھر فرمایا کہ نیکی اور تقویٰ میں ہمیشہ تمہارا تعاون رہے۔ اصل تقویٰ تو ایک مومن کے اندر ہے اور ہونا چاہئے۔ پس نیکی کے کاموں میں تقویٰ سے کام لیتے ہوئے تعاون ہمیشہ جاری رہنا چاہئے اور تقویٰ ہی ہے جو پھرمزید نیکیوں کے بیج بوتا چلا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز ایک مومن کو بار بار دوہرانے کی ضرورت ہے اور دوہرانی چاہئے تو وہ نیکیوں کی طرف توجہ اور نیکیوں کا فروغ ہے۔ اور اگر کسی چیز سے بچنا ہے تو وہ گناہ اور زیادتی ہے۔ ایک مومن کی شان نہیں کہ اِثْم اس سے سرزد ہو۔ ایسا گناہ سرزد ہو جو جان بوجھ کر کیا جائے۔ جو زیادتی کرنے والوں سے زیادتی کرواتا چلا جائے۔ زیادتی کرنے والوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ مَیں کیا کررہا ہوں۔ وہ ظلموں کی انتہا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اِثْم اور عُدْوَان یا بار بار کئے جانے والے گناہ اور زیادتی سے نہیں رکو گے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بڑا سخت ہے۔ ایسی خوبصورت تعلیم ہوتے ہوئے پھر یہ الزام اسلام پر لگایا جاتا ہے کہ ظلم و زیادتی سے اسلام پھیلا ہے اور اسلام زیادتی کرتا ہے اور ظلم کرتا ہے اور آئے دن کہیں نہ کہیں ان ملکوں میں اسلام کے خلاف کچھ نہ کچھ شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ لیکن آج کل اگر ہم دیکھیں تو مغرب میں کیا ہورہا ہے۔ عراق وغیرہ پر یا بعض اور ملکوں میں جو ظلم کئے جارہے ہیں، عراق کے ظلموں کا حال تو ہم نے سن لیا جو پبلک انکوائری ہورہی ہے اس میں بہت ساروں نے تسلیم کیا کہ یہ ظلم تھا اور ہے لیکن ظلم کے باوجود بعض ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ بالکل ٹھیک ہوا ہے اور ہونا چاہئے تھا۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ نہیں، تقویٰ کا یہ کام نہیں۔ جہاں تمہاری غلطی ہے اس غلطی کو مانو اور جہاں صلح صفائی کی ضرورت ہے یا نیک کاموں میں بڑھنے کی ضرورت ہے وہاں تقویٰ سے کام لیتے ہوئے نیکیوں کو پھیلاوٴ۔ زیادتیوں سے اپنے آپ کو روکو اور اگر یہ نہیں ہوگا تو پھر یہ چیز اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک مومن کو سزا کا مستحق بناتی ہے۔جب غیروں کو اس قدر تاکید ہے تو اپنوں سے حسن سلوک کس قدر ہونا چاہئے۔