خطبہ عیدالاضحی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۵؍ اگست ۱۹۲۲ء
سیّدنا حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مورخہ ۵؍اگست ۱۹۲۲ء بروز عید الاضحی جو خطبہ عید ارشاد فرمایا اس میں عید اور بعث مابعد الموت کی بابت لطیف پیرائے میں بعض تشریحات فرمائیں نیز عید الاضحی سے متعلق مختلف فقہی مسائل پر جماعت کی راہنمائی فرمائی۔ اس خطبے کا متن قارئین کے استفادے کے لیے پیش ہے۔(ادارہ)
میں آج آپ لوگوں کے سامنے لمبا مضمون بیان کرنے کے لئے کھڑا نہیں ہوا بلکہ مختصراً بعض باتیں بیان کرتا ہوں تا کہ خطبہ عید کی جوغرض ہے وہ پوری ہو۔
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طریق تھا کہ آپؐ عید کے خطبوں میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید بیان فرماتے اور قیامت کے متعلق صحابہؓ کو توجہ دلاتے تھے۔ (سنن نسائی کتاب صلوٰۃ العیدین باب قیام الامام متوکئا علی انسان – نیل الاوطار ۱۸۱/۳)عید کے خطبوں میں آپؐ کا مضمون زیادہ تر اس بات کے متعلق ہوتا تھا کہ بعث مابعد الموت کے متعلق توجہ ہو۔
اس میں شبہ نہیں کہ عید کا دن بھی بعث ما بعد الموت کے ساتھ ملتا ہے۔ عید کے دن بہت سے لوگ جمع ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک قسم کا حشر ہوتا ہے۔
حشر کے معنے اکٹھا کرنے کے ہیں۔ چنانچہ عید کے دن بھی لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ حتی کہ اس دن جمع ہونے کے متعلق یہاں تک تاکید ہےکہ حائضہ عورتیں بھی جمع ہوں۔(صحیح بخاری کتاب العیدین باب اذا لم يكن لها جلباب في العيد) وہ نماز نہ پڑھیں مگر دوسروں کے ساتھ دعا میں شامل ہوں۔ پس یہ وہ دن ہے کہ اس دن مسلمان خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے سب جمع ہوتے ہیں ایسے اجتماعوں کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ زینت کرنی چاہیئے اور خوشبو لگانی چاہیئے۔(صحیح بخاری کتاب الجمعة باب الطيب للجمعة – نيل الأوطار۱۶۵/۳) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستور تھا کہ جمعہ کے دن عید کے دن، حج کے ایام میں احرام باندھنے سے پہلے خوشبو لگاتے تھے۔ (سنن ابی داؤد کتاب المناسك باب الطيب عند الاحرام) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجمع میں تزئین کرنی چاہیئے۔ اور یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ مجمع میں خوبصورت نظر آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم میں فطرت انسانی کی ترجمانی فرمائی ہے۔
لوگ میلے میں، جلسوں، شادیوں میں کیوں خوشبو لگاتے ہیں اسی لئے کہ وہ اچھے نظر آئیں جب ان کی یہ خواہش ہوتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کا منشا یہ ہے کہ اس سے اس طرف توجہ ہو کہ قیامت کے دن جہاں اگلے پچھلے سب جمع ہوں گے خوبصورت نظر آنے کی کس قدر کوشش کی ضرورت ہے۔ آپؐ کا منشاء تھا کہ لوگ اس سفر اور اگلے جہان کے لئے تیاری کریں۔
پھر آپؐ اس عید کے خطبہ میں قربانی کے احکام بیان فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس عید کے احکام یہ ہیں کہ
ہر ایک خاندان کی طرف سے ایک بکرے کی قربانی ہو سکتی ہے۔ اگرکسی میں وسعت ہو تو ہرایک شخص بھی کر سکتا ہے۔
ورنہ ایک خاندان کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے۔ (جامع ترمدی ابواب الاضاحي باب ما جاء ان الشاة الواحدة تجزى عن اهل البيت) یہاں خاندان سے دور و نزدیک کے رشتے مراد نہیں بلکہ خاندان کے معنے ایک شخص کے بیوی بچے ہیں۔ اگر کسی شخص کے لڑکے الگ الگ ہیں اور اپنا علیحدہ کماتے ہیں تو ان پر علیحدہ قربانی فرض ہے۔ اگر بیویاں آسودہ ہوں اور اپنے خاوندوں سے علیحدہ ان کے ذرائع آمد ہوں تو وہ علیحدہ قربانی کر سکتی ہیں۔ ورنہ ایک قربانی کافی ہے۔
بکرے کی قربانی ایک آدمی کے لئے ہے اور گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات آدمی شامل ہو سکتے ہیں۔(صحیح مسلم کتاب الحج باب الاشتراك في الھدى و اجزاء البقره والبدنت كل منهما عن سبغۃ) ائمہ کا خیال ہے کہ ایک گھر کے لئے ایک حصہ کافی ہے (کتاب الفقہ علیٰ المذاہب الاربعۃ جلد۱صفحہ۷۱۶)اگر گھر کے سارے آدمی سات حصے ڈالیں تو وہ بھی ہو سکتا ہے۔ ورنہ ایک گھر کی طرف سے ایک حصہ بھی کافی ہے۔ اور اس طرح ہر ایک شخص کی طرف سے آج کے دن قربانی ہو جاتی ہے۔ لیکن کئی لوگ غریب ہوتے ہیں۔ اس لئے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ کوئی شخص قربانی سے محروم نہ رہ جا ئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستور تھا کہ غرباء امّت کی طرف سے ایک قربانی کر دیا کرتے تھے(سنن ابی داؤ د كتاب المناسك باب في ھدى البقر – نیل الاوطار۱۰۹/۵ مطبوعہ مصر۱۳۵۷ھ)
اسی طریق کے مطابق میرا بھی قاعدہ ہے کہ اپنی جماعت کے غرباء کی طرف سے ایک قربانی کر دیا کرتا ہوں
اس کے بعد یہ بات یاد رکھو کہ ہماری جماعت میں اس بات کی سستی ہے کہ نماز عید وقت پر پڑھیں۔ گو پہلے کے لحاظ سے آج ہم نے جلدی نماز پڑھی ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے زمانہ میں یہ عید اس وقت پڑھی جاتی تھی جب کہ آفتاب ایک نیزہ کی بلندی پر ہوتا تھا۔(نیل الاوطار ۱۷۷/۳ فقہ احمدیہ حصہ اول صفحہ۴۹ مطبوعہ مارچ ۱۹۲۴ء) اور رمضان کے بعد کی عید اس وقت پڑھی جاتی تھی۔ جب کہ آفتاب دو نیزے کی بلندی پر آجاتا تھا(نیل الاوطار ۱۷۷/۳ فقہ احمدیہ حصہ اول صفحہ۴۹ مطبوعہ مارچ ۱۹۲۴ء) لیکن ہم نے آج جس وقت عید کا خطبہ شروع کیا ہے چار نیزے کے برابر سورج بلند ہو چکا تھا حالانکہ آج ہم نے جلدی کی تھی۔
اصل بات یہ ہے کہ بعض غلطیاں غلط فہمیوں کے باعث ہوجاتی ہیں۔ ایک دعوت میں میں نے ایک شخص کو بائیں ہاتھ سے پانی پینے سے روکا تو اس نے کہا کہ حضرت صاحبؑ بھی بائیں ہاتھ سے پانی پیا کرتے تھے۔ حالا نکہ حضرت صاحبؑ کے ایسا کرنے کی ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ آپؑ بچپن میں گر گئے تھے۔ جس سے ہاتھ میں چوٹ آئی اور ہاتھ اتنا کمزور ہو گیا تھا کہ اس سے گلاس تو اٹھا سکتے تھے مگر منہ تک نہ لے جا سکتے تھے۔ مگر
سنت کی پابندی کے لئے آپؑ گو بائیں ہاتھ سے گلاس اٹھاتے تھے مگر نیچے دائیں ہاتھ کا سہارا بھی دے لیا کرتے تھے۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں عید کی نماز کے لئے دیر ہو جایا کرتی تھی اور اس میں ایک حکمت تھی اور وہ یہ کہ باہر کی جماعتیں تھوڑی تھیں، احباب بیرون جات سے یہیں آتے تھے۔ اس لئے ریل کے وقت کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ کیونکہ ریل تو کسی کے اختیار میں نہیں تھی۔ اور نو یا ساڑھے نو بجے بٹالہ میں ریل سے اتر کر یہاں پہنچ جاتے تھے اور اس صورت میں انتظار جائز ہےاور اگر ضرورت ہو تو زوال تک بھی انتظار ہو سکتا ہے لیکن اب یہ حالت نہیں ہر جگہ ہماری جماعتیں کافی تعداد میں ہوگئی ہیں۔ اس طرح انتظار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اب اگر ہو گا تو محض سستی سے ایسا کیا جائے گا۔ چونکہ احیائے سنت ہمارا فرض ہے اس لئے عید کی نمازیں بمطابق سنت ہونی چاہئیں۔ اور اس عید میں جلدی کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ لوگوں نے قربانی کرنی ہوتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ قربانی کے گوشت سے کھانا کھاتے تھے۔(السنن الکبریٰ امام بہیقی۲۸۳/۳) اب اگر اس وقت نماز پڑھی جائیگی تو قربانی کا گوشت کھانے کے وقت تک تیار نہیں ہو سکتا۔
قربانی کے جانور کے لئے یہ شرط ہے کہ بکرے وغیرہ دوسال کے ہوں۔ دُنبہ اس سے چھوٹا بھی قربانی میں دیا جاسکتا ہے۔
قربانی کے جانور میں نقص نہیں ہونا چاہیئے۔ لنگڑا نہ ہو۔ بیمار نہ ہو۔ سینگ ٹوٹا نہ ہو یعنی سینگ بالکل ہی ٹوٹ نہ گیا ہو۔ اگر خول اوپر سے اُتر گیا ہو اور اس کا مغز سلامت ہو تو وہ ہو سکتا ہے۔ کان کٹا نہ ہو لیکن اگر کان زیادہ کٹا ہوا نہ ہو تو جائز ہے۔ (جامع ترمذی ابواب الاضاحی باب ما يكره من الاضاحي)
قربانی آج اور کل اور پرسوں کے دن ہو سکتی ہے۔ (مشكوٰة المصابيح باب فى الاضحية نيل الأوطار۱۲۵/۵ مطبوعہ مصر ۱۳۵۷ھ) لیکن اگر سفر ہو یا کوئی اور مشکل ہو تو حضرت صاحبؑ کا بھی اور بعض اور بزرگوں کا بھی خیال ہے کہ اس سارے مہینہ میں قربانی ہوسکتی ہے۔ (مشكوٰة المصابيح باب فى الاضحية ۔نيل الأوطار۱۲۵/۵ مطبوعہ مصر۱۳۵۷ھ) اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپؐ ان دنوں میں تیسرے دن تک تکبیر تحمید کیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب العیدین باب فضل العمل في ايام التشريق – السنن الکبریٰ امام بیہقی ۱۳۱۳تکبیر و تحمید کے الفاظ یہ ہیں۔ اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰہُ أَكْبَرُ اللّٰه أَكْبَر وَلِلّٰهِ الْحَمْد) ۔اور اس کے مختلف کلمات ہیں۔
اصل غرض تکبیر و تحمید ہے خواہ کسی طرح ہو۔ اور اس کے متعلق دستور تھا کہ جب مسلمانوں کی جماعتیں ایک دوسری سے ملتی تھیں تو تکبیریں کہتی تھیں مسلمان جب ایک دوسرے کو دیکھتے تو تکبیر کہتے۔
اٹھتے بیٹھتے تکبیر کہتے کام میں لگتے تو تکبیر کہتے لیکن ہمارے ملک میں جو یہ رائج ہے کہ محض نماز کے بعد کہتے ہیں اس خاص صورت میں کوئی ثابت نہیں اور یہ غلط رائج ہو گیا ہے باقی یہ کہ تکبیر کس طرح ہو یہ بات انسان کی اپنی حالت پرمنحصر ہے جس کا دل زور سے تکبیر کہنے کو چاہے وہ زور سے کہے جس کا آہستہ وہ آہستہ مگر آواز نکلنی چاہیئے۔ قربانیوں کے گوشت کے متعلق یہ ہے کہ یہ صدقہ نہیں ہوتا چاہیئے کہ خود کھائیں۔ دوستوں کو دیں چاہے تو سکھا بھی لیں۔( صحیح بخاری کتاب الاضاحي باب ما يؤكل من لحوم الاضاحي وما يتزود ) امیر غریبوں کو دیں۔ غریب امیروں کو کہ اس سے محبت بڑھتی ہے لیکن محض امیر وں کو دینا اسلام کو قطع کرنا ہے اور محض غریبوں کو دینا اور امیروں کونہ دینا اسلام میں درست نہیں۔ امیروں کے غریبوں اور غریبوں کے امیروں کو دینے سے محبت بڑھتی ہے۔ اورمذہب کی غرض جو محبت پھیلانا ہے پوری ہوتی ہے۔ پس چاہیئے کہ امیر غر یبوں کو دیں اور غریب امیروں کو تا کہ محبت بڑھے۔ بس یہی چند نصائح ہیں جومیں کرنی چاہتا ہوں۔
( الفضل، ۱۷؍ ا گست۱۹۲۲ءصفحہ۳۔۴)