جنگ بدر کی تیاری کےحالات و واقعات اور صحابہ کرام ؓکی اپنے آقا ومطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی والہانہ اطاعت کا بیان: خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۳؍جون۲۰۲۳ء
٭… حضرت مقدادبن عمرو ؓنے کہا کہ ہم آپؐ کے ساتھ ہیں جو بھی آپؐ فیصلہ کریں اور آپؐ کی معیت میں دشمن کے ساتھ جنگ کریں گے
٭… حضرت علیؓ نے فرمایا کہ صحابہ میں سب سے زیادہ بہادر اوردلیر حضرت ابوبکرؓ تھےجنہوں نے خطرے کے موقع پر آپؐ کی حفاظت کا کام سر انجام دیا
٭… جنگ بدر کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! تُو نے جو نصرت کا وعدہ فرمایا ہے اُسے پورا کر اور آج ہی دشمن کا خاتمہ کر
٭… محترم قاری محمد عاشق صاحب سابق استاذ جامعہ احمدیہ ربوہ و پرنسپل و نگران مدرسۃ الحفظ ربوہ اورمحترم نور الدین الحصنی صاحب آف شام کا ذکر خیر اورنمازجنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۳؍جون۲۰۲۳ء بمطابق۲۳؍احسان ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۳؍جون ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانافیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جیسا کہ گذشتہ خطبے میں بیان ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے مخبروں نےجب یہ اطلاع دی کہ قریش کا لشکر تجارتی قافلے کے بچاؤ کے لیے بڑھا چلا آرہا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو صورتحال سے آگاہ کیا اور مشورہ طلب کیا۔
حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بعدحضرت مقدادبن عمرو ؓنےکہاکہ ہم ایساجواب نہ دیں گےجس طرح بنی اسرائیل نےموسیٰ ؑکودیاتھا
کہ فَاذۡھَبۡ اَنۡتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ھٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ یعنی جا تُو اورتیراربّ دونوں لڑوہم تو یہیں بیٹھے رہیں گےبلکہ ہم آپؐ کے ساتھ ہیں جو بھی آپؐ فیصلہ کریں اور آپؐ کے ساتھ مل کر آپؐ کی معیت میں دشمن کے ساتھ جنگ کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ سُن کر انہیں کلمہ خیر سے نوازا اور اُن کے لیے دعا فرمائی۔
بعض سیرت نگاروں نے سوال اٹھایا ہے کہ حضرت مقدادؓ نے سورت مائدہ کی آیت پڑھی تھی جو بہت بعد میں نازل ہونے والی سورت ہےلیکن پھر مفسرین خود ہی اس کا جواز بھی پیش کرتے ہیں کہ بعد کے کسی راوی نے یہ آیت شامل کردی ہوگی۔ بہرحال یہ اعتراض معنی نہیں رکھتا کیونکہ کثرت سے یہ روایت بیان ہوئی ہے۔
حضرت ابوبکر ؓ، حضرت عمر ؓاور حضرت مقدادؓ تینوں مہاجرین میں سے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ انصار کی رائے طلب کریں۔
حضرت سعد بن معاذؓ نے کہا کہ ہم آپؐ پر ایمان لے آئے ہیں اورآپؐ کے دین کی گواہی دی ہے اور ہم نے آپؐ کا حکم سننے اور اُس کو بجا لانے کا وعدہ کیا ہےاس لیےآپؐ ہمیں جہاں لے جائیں ہم چلنے کے لیے تیار ہیں۔
پس اللہ کی برکت پر آپؐ ہمارے ساتھ روانہ ہوجائیں۔بعض دیگر روایات میں یہ الفاظ حضرت سعد بن عبادہ ؓسے منسوب ہیں۔بہرحال حضرت سعدؓ کی یہ بات سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے مجھے دو گروہوں میں سے ایک پر غلبہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ میں وہ جگہ دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہوکر گریں گے۔
صحابہ نے پوچھا کہ اگر آپؐ کو پہلے سے یہ علم تھا تو آپؐ نے ہمیں مدینہ میں ہی کیوں نہ فرمایا تاکہ ہم تیاری کرکے نکلتے لیکن باوجود ان سب کے مسلمانوں کو یہ علم نہ تھا کہ ان کا مقابلہ کس گروہ سے ہوگا۔
حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ بدر کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ا نصار کا مشورہ چاہتے تھے۔انصار کے ذہن میں یہ تھا کہ لڑنے والے مکہ کے لوگ ہیں اوروہ کوئی مشورہ دیں گے تو مہاجرین یہ سمجھیں گے کہ یہ ہمارے بھائیوں اور رشتے داروں سے لڑنے کا کہہ رہے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار بار فرمانے کے بعد آخر انصار نے اپنی ہچکچاہٹ کا ذکر کرنے کے بعد مشورہ دیا کہ ہم ہر حال میں آپؐ کے ساتھ ہیں۔ انصار کے مشورہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہوئے اور بدر کے قریب نزول فرمایا۔کچھ دیر بعد آپؐ اور حضرت ابوبکرؓ نکلے اور ایک عربی بوڑھے کےپاس جاکر رُک گئے اور قریش کے متعلق دریافت فرمایا۔بوڑھے نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ فلاں دن روانہ ہوچکے ہیں اور اگر یہ درست ہے تو اس وقت وہ اس مقام پر ہوں گے۔مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قریش فلاں دن روانہ ہوئے ہیں اور اگر یہ درست ہے تو وہ فلاں مقام پر ہوں گے۔ بوڑھے کے پوچھنے پرکہ آپ لوگ کون ہو تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی حکمت سے جواب دیا کہ ہم پانی سے ہیں۔ یہ غالب امکان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے چشمے کا حوالہ دیا ہو۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔
واپس آنے کے بعدشام کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ،حضرت زبیر بن عوامؓ اورحضرت سعد بن ابی وقاص ؓکو چند دیگر صحابہ کے ہمراہ بدر کے چشمے کی طرف روانہ فرمایا تاکہ دشمن کی مزید خبریں لاسکیں۔وہ دو افراد کو پکڑ لائے جنہوں نے بتایا کہ قریش نے ہمیں پانی لانے بھیجا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پرانہوں نے بتایا کہ بہت سے قریش اس پہاڑی کے پیچھے موجود ہیں اوروہ کسی دن نَو اور کسی دن دس اونٹ ذبح کرتے ہیں۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ لگایا کہ وہ لوگ نَو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہیں۔پھر انہوں نے قریش کے کئی سرداروں کے نام بتائے جو اس لشکر میں شامل تھے۔ ا ٓنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مکہ نے تمہارے سامنے اپنے جگر گوشے نکال کر ڈال دیے ہیں۔ یہ نہایت دانشمندانہ اور حکیمانہ الفاظ تھے جو آپؐ کی زبان مبارک سے بے ساختہ نکلے جس کی وجہ سے صحابہ کے دل مضبوط ہوگئے کہ خدا نے ان کو یقیناً فتح عطا کرنی ہے۔
اس موقع پر حضرت حباب بن منذرؓ نےکہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپؐ نے حکم الٰہی سے اس جگہ قیام کیا ہے یا صرف آپؐ کی رائے یا جنگی چال ہے؟
آپؐ نے فرمایا کہ جنگی چال ہے۔تب انہوں نے عرض کیا کہ یہ جگہ مناسب نہیں بلکہ دشمن کےپانی سےقریب ترین جگہ پر قیام کیا جائے اور تمام کنویں بند کردیے جائیں اوراپنےلیے ایک حوض میں پانی بھر دیا جائے اور ہم دشمن سے مقابلہ کرتے ہیں تو ہمارے لیے پانی میسر ہوگا اور دشمن پانی سے محروم ہوگا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورہ کو پسند فرمایا اور دشمن کے قریب ترین کنویں پر پڑاؤڈال کرباقی کنویں بیکار کردیےاور ایک حوض بناکر اُسے پانی سے بھردیا گیا۔ سعد بن معاذؓ رئیس اوس کی تجویز پر میدان کے ایک حصے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک سائبان تیار کیا اور آپؐ کی سواری بھی وہاں باندھ دی۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپؐ یہاں قیام کریں اور ہم لڑیں گے اگر ہمیں شکست ہوئی تو آپؐ اس سواری پر مدینہ پہنچ جائیں وہاں ہمارے بھائی آپؐ کی حفاظت کریں گے۔
حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ جب بدر کے میدان میں پہنچے تو صحابہؓ نے مشورہ کرکےآپؐ کو ایک اونچی جگہ پر سائبان میں بٹھا دیا اور سب سے تیز رفتار اونٹنی وہاں باندھ دی اور کہا کہ
ہم تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے۔ہمیں اپنی موت کا کوئی غم نہیں ہمیں آپؐ کا خیال ہے۔ہم اگر مر گئے تو اسلام کا کچھ نقصان نہیں ہوگا لیکن آپؐ کے ساتھ اسلام کی زندگی وابستہ ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم آپؐ کی حفاظت کا سامان کردیں۔اگر خدانخواستہ ہم ایک ایک کرکے شہید ہوجائیں تو اس اونٹنی پر سوار ہوکر مدینہ پہنچ جائیں وہاں ہمارے بھائی آپ کی حفاظت کریں گے۔
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ ان کی بات مانی اور نہ مان سکتے تھے لیکن یہ صحابہ ؓکا ایک جذبہ تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ صحابہ میں سب سے زیادہ بہادر اوردلیر حضرت ابوبکرؓ تھے۔
جنگ بدرمیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک علیحدہ چبوترہ بنایا گیا توحضرت ابوبکر ؓفوراً ننگی تلوار لے کر کھڑے ہوگئے اور اس خطرے کے موقع پر آپؐ کی حفاظت کا کام سرانجام دیا۔
صبح کے وقت جب قریش آگے بڑھے تو آپؐ نے خدا کے حضور دعا فرمائی کہ
اے اللہ! تُو نے جو نصرت کا وعدہ فرمایا ہے اُسے پورا کر اور آج ہی ان کا خاتمہ کردے۔
جب قریش بدر کے میدان میں اُترے تو اُن میں سے ایک گروہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض پر آکر پانی پینے لگا۔اُن میں حکیم بن حزام بھی شامل تھے۔اُس دن اُس حوض سے جس نے بھی پانی پیا وہ سب قتل ہوئے سوائے حکیم بن حزام کےجو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔قریش کے آنے سے قبل آپؐ نے صحابہ کی صف بندی کروائی۔آپؐ تیر کے ساتھ اشارہ کررہے تھے۔مصعب بن عمیرؓ کو جھنڈا عطا فرمایا۔صفوں کے جائزے کے دوران جب آپؐ کا گزر سواد بن غزیہ ؓکے پاس سے ہوا تو وہ صف سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ آپؐ نے اُن کے پیٹ پر تیر لگا کر فرمایا کہ سیدھے ہوجاؤ۔ سوادؓ نے کہا کہ آپؐ نے مجھے تکلیف دی ہے مجھے بدلہ دیں۔آپؐ نے پیٹ سے کپڑا اُٹھاکر فرمایابدلہ لے لو۔
حضرت سواد ؓآپؐ سے بغل گیر ہوگئے اورآپؐ کے جسم کا بوسہ لینے لگےاور کہا کہ میں نے چاہا کہ آپؐ کے ساتھ میرے آخری لمحات اس طرح گزریں کہ میرا جسم آپؐ کے جسم مبارک کے ساتھ مَس کرے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے لیے دعائے خیر فرمائی۔یہ تھے محبت و عشق کے نظارے۔باقی انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
حضور انور نے آخر میں مکرم قاری محمد عاشق صاحب سابق استاذ جامعہ احمدیہ ربوہ و پرنسپل و نگران مدرسۃ الحفظ ربوہ اور سعودی عرب کی ایک جیل میں دوران اسیری وفات پانے والے مکرم نور الدین الحصنی صاحب آف شام کی وفات پر دونوں مرحومین کے حالات زندگی اور جماعتی خدمات کا تفصیل سے تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ ان کے نماز جنازہ غائب پڑھانے کا بھی اعلان فرمایا۔
٭…٭…٭