خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۲۲ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے
سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاحباب جماعت کی خلافت سے محبت کے متعلق کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:زائن میں بھی، ڈیلس میں بھی اور بیت الرحمٰن میری لینڈ میں بھی نمازوں پر عورتوں، بچوں اور مردوں کی جو حاضری ہوتی تھی وہ کافی تعداد میں ہوتی تھی اور جس طرح وہ میرے آتے جاتے وقت اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے اس سے صاف نظر آ رہا ہوتا تھا کہ ان کے دلوں میں خلافت سے محبت کا تعلق ہے اور اخلاص و وفا ہے۔ پڑھے لکھے لوگ بھی، امیر لوگ بھی، دنیاوی لحاظ سے مصروف لوگ بھی نماز کے لیے کئی کئی گھنٹے لائن میں آ کر لگ جاتے تھے تاکہ مسجد میں جگہ مل جائے۔ یہ نہیں کہ فارغ لوگ ہیں جو آ گئے۔ ان میں بھی یہ تبدیلی اس بات کا اظہار ہے یا یہ رویہ، اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین اور جماعت کی محبت ان کے دلوں میں ہے۔ خلافت سے تعلق ان کے دلوں میں ہے۔ گیارہ بارہ سال کی عمر کے بچے پانچ چھ گھنٹے لائن میں لگ جاتے تھے کیونکہ چیکنگ اور کووڈ ٹیسٹ کی وجہ سے دیر لگ جاتی تھی لیکن کبھی کسی نے بھی ، نہ مہمانوں نے ، نہ اپنوں نے ،کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ اپنوں نے بھی نظام کی مکمل اطاعت اور اخلاص و وفا کےنمونےدکھائے۔
سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمسجدفتح عظیم کے افتتاح کے موقع پرزائن شہرکےمیئرکے تاثرات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:زائن میں جو مسجد بنی ہے’’فتحِ عظیم‘‘ اس کے حوالے سے وہاں جو فنکشن ہوا تھا اس میں 161؍غیر مسلم اور غیر از جماعت مہمانوں نے شرکت کی جن میں کانگریس مین، کانگریس وومن ،میئرز، ڈاکٹرز،پروفیسرز، ٹیچرز،وکلاء، انجنیئرز، سیکیورٹی کے اداروں کے نمائندگان اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے شامل ہوئے تھے۔زائن کے شہر کے میئر آنریبل بلی میکینی (Billy Mckinney)نے اپنے تاثرات میں بیان کیا کہ میرے لیے جماعتِ احمدیہ مسلمہ کے عالمی راہنما کو مسجد فتح عظیم کے موقع پر زائن شہر میں خوش آمدید کہنا انتہائی اعزاز کی بات ہے۔ پھر کہنے لگے یہاں زائن میں ہمارا ماٹو ’’Historic past and dynamic future‘‘ہے اور ہمارے شہر کے قلب میں یہ خوبصورت مسجد اس ماٹو کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ پھر کہتے ہیں خواہش اور دعا ہے کہ یہ عبادت گاہ ہمارے ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک پل کا کام کرے۔یہ جانتے ہوئے کہ یہ مسجد ایسی شاندار ایمان سے بھرپور کمیونٹی کے نمائندوں سے بھری ہوئی ہے مجھے زائن شہر کے مستقبل کے لیے بھی امید دلاتی ہے۔ جب میں اس پیغام کو دیکھتا ہوں جو احمدیہ کمیونٹی ہمارے شہر میں لے کرآئی ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔ تو یہ امید غیروں کو بھی ہم سے ہو رہی ہے۔ پھر کہتا ہے کہ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کے پیغمبر محمد ﷺ کی تعظیم کرتی ہے جنہوں نے عیسائیوں کے ساتھ عہد کیا تھا۔پھر آگے کہتے ہیں کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی کی طرف سے اس شہر میں جو شاندار خدمات سرانجام دی گئی ہیں اور اس شہر کی ترقی اور اس کے لوگوں کی فلاح شو بہبود کو بہتر بنانے کے لیے جو کام کیے گئے ہیں ان پر میں آپ کا تہ دل سے شکرگزار ہوں اور ہم اس شہر کی کلید امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ چابی دیتے ہیں۔ پھرانہوں نے شہر کی چابی بھی پیش کی۔زائن شہر کے میئر کے مزید تاثرات یہ ہیں، کہتے ہیں کہ میں یہاں 1962ء سے مقیم ہوں۔ یہ پروگرام زائن شہر اور جماعت کے لیے ایک تاریخی پروگرام ہے۔ پھر مجھے بھی انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ آج تم نے مجھے speechlessکر دیا ہے اور کہنے لگے کہ آپ کی موجودگی کا احساس بہت عمدہ ہے۔
سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ممبرآف الینوئے جنرل اسمبلی جوئس میسن(Joyce Mason)کےتاثرات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:ممبر آف الینوئے (Illinois)جنرل اسمبلی آنریبل جوئس میسن (Joyce Mason)نے اپنے تاثرات میں کہاکہ یہاں زائن میں مسجد فتحِ عظیم کے افتتاح کی اس تاریخی تقریب کا حصہ بننا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ زائن احمدیہ مسلم کمیونٹی کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ آج اس شہر کے لیے خاص دن ہے۔ زائن ایک ایسی جگہ تھی جس کی بنیاد پچھلی صدی کے آغاز میں الیگزینڈر ڈووی نے رکھی تھی جو اسے ایک تھیوکریٹک شہر بناناچاہتے تھے جس کے دروازے اس کے ماننے والوں کے علاوہ باقی ہر ایک کے لیے بند تھے لیکن آج زائن شہر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا گھر ہے۔ اوریہ مسجد متعصبین کے بارے میں مومنوں کی دعاؤں کی فتح کی علامت ہے۔میں احمدیہ مسلم کمیونٹی کو اس شاندار کامیابی پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ غیروں کو بھی اس مقابلے کا اچھی طرح پتہ لگ گیا۔ پھر کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ امن کے فروغ کے حوالے سے ایک سرکردہ مسلم راہنما ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ انہوں نے امن کے قیام پر زور دیتے ہوئے دنیا بھر کے قانون سازوں اور دیگر راہنماؤں سے بات کی ہے۔ پھر کہتی ہیں:زائن شہر کی خوش قسمتی ہے کہ امن پسند اور دوسروں کی خدمت کرنے والی جماعت نے یہاں آباد ہونے اور اتنی خوبصورت مسجد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔میری دلی تمنا ہے کہ یہ مسجد نہ صرف اس شہر بلکہ چاروں اطراف کے لیےامید کی کرن بن جائے۔میں اس کمیونٹی کو نئی مسجد کے افتتاح پر مبارکباد دیتے ہوئے ایوان میں ایک قرار داد پیش کر رہی ہوں۔
سوال نمبر۴: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےڈاکٹرکترینہ لینٹوس کے تاثرات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:ڈاکٹر کترینہ لینٹوس (Katrina Lantos)جو کہ لینٹوس (Lantos)فاؤنڈیشن فار ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس کی صدر ہیں ،کہتی ہیں مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی میں احباب جماعت کے ساتھ ملتی ہوں تو میری روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ یہاں زائن میں ہونے والے مباہلہ کے بارے میں سن کر بہت حیرت ہوئی کہ اس زمانہ میں جبکہ موبائل فون، کمپیوٹر اور دیگر ذرائع مواصلات موجود نہیں تھےاس وقت بھی اس مقابلہ کو اتنی تشہیر ملی۔ایک نظریہ ڈاکٹر جان ڈووی کا تھا جس کی بنیاد نفرت، باہمی تفریق اور تعصّب پر تھی اور دوسرا نظریہ جو کہ بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد صاحبؑ کا تھا جو کہ باہمی عزت اور بردباری پر مشتمل تھا اور ایک ایسی شخصیت کی طرف سے تھا جنہوں نے اس کا نتیجہ کلیةً اللہ کے ہاتھ میں چھوڑ رکھا تھا۔ پھر نتیجةً ہم جانتے ہیں کہ اس مباہلے میں کس کی فتح ہوئی اور یقینا ًیہ مسجد جس کا اب افتتاح ہونے جا رہا ہے جس کا نام’’فتحِ عظیم‘‘مسجد رکھا گیا ہے، اس کا مطلب ہے ’’ایک عظیم الشان فتح ‘‘جو کہ اس مباہلہ میں جماعت احمدیہ اور بانی جماعت احمدیہ کے حصہ میں آئی۔ پھر کہتی ہیں کہ لیکن میرے خیال میں ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ وہ نہ صرف جماعت احمدیہ بلکہ انسانیت کی بھی فتح تھی کیونکہ اس سے باہمی عزت، محبت اور تحمل کی بھی فتح ہوئی جس کا نمونہ ہم اب اس عظیم الشان جماعت میں دیکھتے ہیں۔ پھر کہتی ہیں کہ آج جس طرح ہم یہاں اس خوبصورت اور پُرامن ماحول میں بیٹھے ہوئے ہیں وہاں ان احمدیوں کو بھی یاد رکھنا ہو گا جو پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے مذہب کی وجہ سے روزانہ ناقابلِ بیان ظلم و ستم، تشدد اور منافرت کا سامنا کرتے ہیں جو کہ حکومت وقت کی موجودگی میں بھی اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتے ہیں۔
سوال نمبر۵: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے پروفیسرکریگ کونسڈائن کے تاثرات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:پروفیسر کریگ کونسڈائن(Craig Considine) جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی سیرت پر ایک کتاب بھی لکھی ہوئی ہے،پروفیسر ہیں، ویسے بڑے پکے عیسائی ہیں، کہتے ہیں کہ میں اس بات سے بہت جذباتی ہو گیا کہ خلیفۂ وقت مجھے پرانے دوست کی طرح ملے۔امام جماعت کی تقریر مجھے بہت پسند آئی۔ اس سے اسلام کے بارے میں میرا علم بڑھا ہے۔جب مجھے اس خطاب کا متن ملے گا تو میں اسے اپنی اگلی کتاب میں استعمال کروں گا۔ پھر کہتے ہیں کہ امام جماعت نے بہت ہی خوبصورت انداز، آسان الفاظ میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ ہر کس و ناکس آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ جو تمام انسانی اقدار اپنانے، باہمی احترام،برداشت، وقار اور عزتِ نفس کا خیال رکھنے پر توجہ دلائی ہے یہ مجھے خاص طور پر پسند آیا ہے۔ پھر کہتے ہیں آپ دراصل ہمیں ہم سب کو باہمی محبت کی طرف بلا رہے ہیں۔ انہوں نے وہاں بیٹھ کے خطبہ جمعہ بھی سنا تھا۔ پورا ایک گھنٹہ بیٹھے رہے اور پھر اس کے بعد انہوں نے کہا، مجھے بھی کہنے لگے کہ میں نے ایسا خطبہ پہلے کبھی نہیں سنا۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےزائن کے پولیس چیف ایرک کے تاثرات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:زائن کی پولیس کے چیف ایرک (Eric) صاحب کہتے ہیں بڑا اچھا پروگرام تھا۔ سب لوگوں کی طرف سے محبت اور خلوص دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ یہ پیغام کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہیں کیا ہی عمدہ اور خوبصورت پیغام ہے۔
سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےانڈین پروفیسرشوبھانہ شنکرصاحبہ سے ملاقات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ایک انڈین پروفیسر شوبھانہ شنکر (Shobana Shankar)صاحبہ، ان کی میرے سے ملاقات بھی ہوئی تھی، اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کی پروفیسر ہیں۔ عبدالسلام ریسرچ سنٹر اٹلی سے بھی ریسرچ کر چکی ہیں۔ کچھ عرصہ یہ گھانا میں بھی رہی ہیں۔ انہوں نے اظہار کیا کہ آپ گھانا میں تھے۔آپ کا کام زندہ ہے۔ یہ مجھے باتوں میں کہیں کہا۔ پروفیسر نے بتایا کہ افریقہ میں اس کی کئی پروفیسرز سے بات ہوئی ہے جو کہ احمدیہ گرلز سکول سے تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ لڑکیوں کے لیے بہترین سکول ہیں۔ یہ افریقہ میں جماعت کی تعلیمی خدمات اور تاریخ کو اجاگر کرنا چاہتی ہیں اور مغربی افریقی احمدیوں پر ایک کتاب لکھنا چاہتی ہیں۔ پروفیسر نے یہ کہا کہ مقامی زبان اور ترجمہ کرنے والوں سے استفادہ کرنے میں جماعت کی معاونت چاہیے تو بہرحال ان کو میں نے کہا تھا جہاں بھی آپ کو مدد کی ضرورت ہو گی ان شاء اللہ ہم مدد کر دیں گے اور مَیں نے کہا بلکہ گھانا کے علاوہ باقی ملکوں کو بھی آپ کو شامل کرنا چاہیے۔
سوال نمبر۸: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےڈیلس میں بیت الاکرام کی افتتاحی تقریب کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:ڈیلس (Dallas)میں بیت الاکرام مسجد کا افتتاح ہوا۔ اس تقریب میں بھی 140؍غیر مسلم اور غیر از جماعت مہمانوں نے شرکت کی۔ ان میں سیاست دان، ڈاکٹرز، پروفیسرز، ٹیچرز ،وکلاء،انجنیئرز، سیکیورٹی کے اداروں کے نمائندگان اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل تھے۔