روحانی اور اخلاقی ترقی کےحصول کے لیے فساد سے بچنے کے ذرائع
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ۔(الذاریات:۵۷)اور میں نے جنّ و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمٰن کے تحت انسان کےلیےبے شمار سہولیات بِن مانگے پیدا فرمائیں۔ مثلاًایک کرہ ٔ ارض جہاں زندگی پنپ سکتی تھی۔ایسا سیارہ جہاں نہ بہت سردی ہے کہ انسان فریز ہوجائے نہ بہت گرمی ہے کہ انسان سہ نہ پائے۔ ایسامعاشرہ جہاں مل جُل کر انسان رہ سکیں۔والدین جو کہ بغیر کسی لالچ یا صلے کےبے لوث ہو کر اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں۔نسل انسانی کی بڑھوتری کے لیے یعنی افزائشِ نسل کے لیے خدا تعالیٰ نے ہر دور میں نکاح کرنے کو ثواب کا درجہ اور لازم قرار دیا۔پھر خدا تعالیٰ نے انسان کی جسمانی نشوونماکے لیے مختلف النوع پھل و سبزیاں پیدا فرمائیں جو کہ ہر معاشرے میں اپنے اپنے ماحول اور آب وہوا کے تحت انسان کےلیے متعلقہ علاقے میں بیماریوں کی روک تھام کے لیے مفید ہوتی ہیں۔ سبزیوں کے ساتھ مختلف قسم کا گوشت، میوہ جات اور پانی بھی مہیا فرمایا۔ الغرض سب سہولیات جو انسانیت کی بقاکے لیے ضروری تھیں ان کا انتظام خدائےرحمٰن نےاپنے فضل سے بغیر مانگے فرمایا۔ بالکل اسی طرح انسان کی روحانی نشوونما کے لیے خدا تعالیٰ نے ہر زمانے میں اپنے پیارے بندے،انبیاء اور رسولوں کی صورت میں مبعوث فرمائے جو انسان کی روحانی طور پر بہتر نشوونما کے لیے خدا کے بتائے ہوئے طریق پر راہنمائی کرتے رہےاور اُس دور کے تقاضوں کے تحت انبیائے کرام لوگوں کو خدا کی وحدانیت اورامن وسکون سے رہنے کے راہنما اصول سکھاتے رہے۔ سب نے اپنی اپنی امت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تعلیم دی۔ پھر خدا تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور فرمایا: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم (المائدۃ:۴)حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یہ بات ہر ایک عقل سلیم قبول کرلے گی کہ کمال اصلاح کی نوبت کمال فساد کے بعد آتی ہے۔ طبیب کا یہ کام نہیں کہ وہ چنگے بھلے لوگوں کو وہ دوائیں دے جو عین بیماری کے غلبہ کے وقت دینی چاہئیں۔ اسی لئے قرآن شریف نے پہلے یہ بیان کردیا کہ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ(الروم:۱۲) یعنی تمام دنیا میں فساد پھیل گیا اور ہر ایک قسم کے گناہ اور معاصی کا طوفان برپا ہو گیااور پھر ہر ایک بدعقیدگی اور بد عملی کے بارے میں مکمل ہدایتیں پیش کر کے فرمایا کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم یعنی آج میں نے تمہارا دین کامل مکمل کر دیا مگر کسی پہلے زمانہ میں جس میں ابھی طوفان ضلالت بھی جوش میں نہیں آیا تھا مکمل کتاب کیونکر انسانوں کو مل سکتی ہے۔‘‘( چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ۱۴۷-۱۴۸)
پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت دنیا میں مبعوث ہوئے جب دنیا ظاہری طور پہ فساد کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ایسے خطرناک اور فساد سے بھرے وقت میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت نے جوش مارا اورانسانیت کو اس جاہلانہ رویہ سے محفوظ رکھنے کےلیے اپنی صفت رحمت کا کامل اظہار کرتے ہوئے رحمۃللعالمین کو مبعوث فرمایا۔اس رؤوف و رحیم نے آکر محض خدا کے خاص فضل ورحمت کے ساتھ ساتھ اپنی متضرعانہ دعاؤں اورقابل تقلید نیک عملی نمونہ سےعرب کی حالت ہی بدل دی اور انسان کو بااخلاق اور باخدا انسان بنادیا۔
ارشادالٰہیوَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعہ:۴)کے مطابق دور ِآخرین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ ثانیہ کا ظہور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہوا۔ اس دور میں بھی ہر طرف گناہ اور بدیوں کا دور دورہ تھا۔اسلام پرہر طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہورہی تھی،بانیٔ اسلام کی ذات پر حملے ہورہے تھے اور مسلمانوں میں سے کسی میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ ان کے مقابل پر کھڑا ہو۔لیکن اسلام کے بطلِ جلیل،جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء حضرت مسیح و مہدی موعودؑ ان تمام اعتراضات اور حملوں کے سامنے سینہ سپر ہوئےاور اسلام کا غلبہ تمام ادیان پر ثابت کردکھایا اور احیائے اسلام کا ایک نیا دور شروع ہوا۔یوں آپؑ نے الٰہی منشاء کے مطابق ایک پاک اور مخلص جماعت کی بنیاد رکھی چنانچہ اس مرکز توحید سے ایک بار پھر اسلام ملک ہندوستان سے نکل کر مشرق و مغرب تک پھیل گیا۔
آپؑ فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔‘‘(الوصیت،روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ۳۰۶-۳۰۷)
خداتعالیٰ کا ہم پر یہ احسانِ عظیم ہے کہ اُس نے اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ہمیں مامورِزمانہ کی آواز پر لبّیک کہنے کی سعادت بخشی اور پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت کی بے پایاں برکات سے استفادہ کرنے کے مواقع بھی میسر فرمائے۔ خلافت علیٰ منہاج نبوت کے تحت آج کے دور میں خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پانچویں خلیفہ سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ولولہ انگیز قیادت میں جماعت احمدیہ روز بروز ترقیات کی منازل طے کرتی چلی جا رہی ہے۔
فساد ہے کیا ؟
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں :’’فساد کے لغوی معنی ہیں حد اعتدال سے نکل جانا۔‘‘(انوار القرآن، جلد اول صفحہ نمبر ۳۰۹)
فساد کا مادہ ’’ف س د‘‘ ہے، جو صلح کا ضد ہے ۔فساد کے معانی نقص، خلل اور خراب کے ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں فساد کے ضمن میں پچاس کے قریب آیات ہیں۔ چند پیشِ خدمت ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کس کس نوعیت کے فساد کا ذکر کیا ہے اور اس سے بچنے کی کیا ہدایت فرمائی ہے۔
وَاِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ۔اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَلٰکِنۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ۔(البقرہ:۱۲۔۱۳)اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کروتو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو محض اصلاح کرنے والے ہیں۔خبردار! یقیناًوہی ہیں جو فساد کرنے والے ہیں لیکن وہ شعور نہیں رکھتے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :’’اور جب ان کو کہا جائے کہ تم زمین میں فساد مت کرو اور کفر اور شرک اور بد عقیدگی کو مت پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ہی راستہ ٹھیک ہے اور ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ مصلح اور ریفارمر ہیں۔ خبردار رہو! یہی لوگ مفسد ہیں جو زمین پر فساد کررہے ہیں۔‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ، سورۃ البقرہ صفحہ۸۲)
مِنۡ اَجۡلِ ذٰلِکَ کَتَبۡنَا عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَمَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَلَقَدۡ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُنَا بِالۡبَیِّنٰتِ ۫ ثُمَّ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ بَعۡدَ ذٰلِکَ فِی الۡاَرۡضِ لَمُسۡرِفُوۡنَ۔(المائدہ: ۳۳) اسی بِنا پر ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرض کر دیا کہ جس نے بھی کسی ایسے نفس کو قتل کیا جس نے کسی دوسرے کی جان نہ لی ہو یا زمین میں فساد نہ پھیلایا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیااور جس نے اُسے زندہ رکھا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندہ کردیا اور یقیناً ان کے پاس ہمارے رسول کھلے کھلے نشانات لے کر آ چکے ہیں پھر اس کے بعد بھی ان میں سے کثیر لوگ زمین میں حدسے تجاوز کرتے ہیں۔
فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَتُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ۔(محمد:۲۳) کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ اگر تم متولّی ہو جاؤ تو تم زمین میں فساد کرتے پھرو اور اپنے رِحمی رشتوں کو کاٹ دو ؟
پھر فرماتا ہے :وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔ (البقرہ:۱۹۲) یاد رکھو!قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو فتنہ میں ڈالنا زیادہ خطرناک گناہ ہے پس تم ایساطریق مت اختیار کرو کیونکہ یہ بے دین لوگوں کا کام ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اس جگہ فتنہ سے مراد وہی دورِ آزمائش ہے جس میں سے مسلمان گذر رہے تھے اور جس کا اس سے پہلے ان الفاظ میں ذکر آچکا ہے کہ کفار بلاوجہ محض دینی اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو مارتے اور انہیں اپنے گھروں سے نکالتے ہیں۔ فرماتا ہے دین کی وجہ سے لوگوں کو دکھ دینا اور انہیں ان کے گھروں سے نکالنا دنیوی لڑائیوں اور عام سیاسی جنگوں کی نسبت کہ جن میں قومی حقوق وغیرہ کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ بہت زیادہ ہولناک جرم ہے…پھر اَلْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ بیشک قتل ایک بہت بُرا فعل ہے۔ مگر فتنہ پیدا کرنا اس سے بھی زیادہ بُری چیز ہے کیونکہ اس سے لاکھوں بلکہ کروڑوں جانیں ضائع چلی جاتی ہیں۔ قتل کرنے سے تو صرف ایک یا چند جانیں ضائع ہوتی ہیں لیکن ایک فتنہ پر داز شخص بعض دفعہ ایسی بات کر دیتا ہے جس سے قومیں آپس میں لڑ پڑتی ہیں اور جماعتوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہو جاتا ہے۔ فتنہ باز لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے تو معمولی بات کہی تھی…بیشک فتنہ شروع میں چھوٹا نظر آتا ہے مگر اس کا انجام بہت بڑا ہوتا ہے۔ اسی لئے اسلام نے قتل سے بھی منع کیا ہے مگر فتنہ سے اس سے بھی زیادہ زور کے ساتھ منع کیا ہے۔ افسوس ہے کہ لوگ عام طور پر قتل سے تو بچنے کی کوشش کرتے ہیں مگر فتنہ سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ جب تک لوگ یہ نہ سمجھیں کہ فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر بُرا فعل ہے اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد ۲صفحہ۴۲۵۔۴۲۶)
الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَیَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَیُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ۔ (البقر ہ: ۲۸)یعنی وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو اسے مضبوطی سے باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور ان (تعلقات) کو کاٹ دیتے ہیں جن کو جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو گھاٹا پانے والے ہیں۔
وَلَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَلَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ۔ (الشوریٰ: ۱۸۴)اور لوگوں کے مال ان کو کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں فسادی بن کر بدامنی نہ پھیلاتے پھرو۔
وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الۡاَرۡضِ لِیُفۡسِدَ فِیۡہَا وَیُہۡلِکَ الۡحَرۡثَ وَالنَّسۡلَ ؕ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡفَسَادَ۔ (سورہ بقر ہ: ۲۰۶)اور جب وہ صاحبِ اختیارہوجائے تو زمین میں دوڑا پھرتا ہے تاکہ اس میں فساد کرے اور فصل اور نسل کو ہلاک کرے جبکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
مذکورہ بالا آیات سے ہمیں بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ فساد کی روک تھام کے لیے ہمیں اللہ تعالیٰ نے کن امور کا ارشاد فرمایا ہے اور کن امور کو باعث فساد ٹھہرایا ہےجن کے مکمل اجتناب سے ہی ہم روحانی طور پہ ترقی کر سکتے ہیں۔
خدا اور اس کے مامور کو ماننے والوں کودرپیش مشکلات کے وقت فساد دور کرنے کا سب سے موثرذریعہ دعا ہے خداتعالیٰ فرماتا ہے: اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَ یَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ۔( النمل: ۶۳) پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’کلامِ الٰہی میں لفظ مضطر سے وہ ضرر یافتہ مراد ہیں جو محض ابتلا کے طور پر ضرر یافتہ ہوں نہ سزا کے طور پر۔ لیکن جولوگ سزا کے طور پر کسی ضرر کے تختہ مشق ہوں وہ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں ورنہ لازم آتا ہے کہ قومِ نوحؑ اور قومِ لوطؑ اور قومِ فرعون وغیرہ کی دعائیں اس اضطرار کے وقت میں قبول کی جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا اور خدا کے ہاتھ نے ان قوموں کو ہلاک کر دیا۔‘‘ (دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۳۱)
پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۴۵۵، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
فساد سے بچنے کے لیے قیام نماز بہت ضروری ہے
قرآن کریم میں ارشاد ہے :وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕاِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ ؕ (العنکبوت: ۴۶)اور نماز کو قائم کر۔ یقیناً نماز بے حیائی اور ہر ناپسندیدہ بات سے روکتی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’نماز بھی گناہوں سے بچنے کا ایک آلہ ہے۔نماز کی یہ صفت ہے کہ انسان کو گناہ اور بدکاری سے ہٹا دیتی ہے۔سو تم ویسی نماز کی تلاش کرو اوراپنی نماز کو ایسی بنانے کی کوشش کرو۔نماز نعمتوں کی جان ہے۔اللہ تعالیٰ کے فیض اسی نمازکے ذریعہ آتے ہیں سو اس کو سنوار کر ادا کرو تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کے وارث بنو۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۰۳،ایڈیشن۱۹۸۸ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے‘‘۔نماز کا حق ادا کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ مَیں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گرِپڑی ہے…جس گھر میں اس قسم کی نماز ہو گی وہ گھر کبھی تبا ہ نہ ہو گا…اس لیے جب تک پوری پوری نماز نہ ہو گی تو وہ بر کات بھی نہ ہو ں گی جو اس سے حاصل ہوتی ہیں اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہو گا۔ ‘‘(ملفوظات جلد۳ صفحہ۶۲۷، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
پھر تہجد کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں:’’راتوں کو اٹھواور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے بھی تدریجاً تربیت پائی۔ وہ پہلے کیا تھے۔ ایک کسان کی تخم ریزی کی طرح تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی۔ آپؐ نے اس کے لیے دعائیں کیں۔ بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا۔ جس طرح حضور علیہ السلام چلتے اسی طرح وہ چلتے۔ وہ دن کا یارات کاانتظار نہ کرتے تھے۔ تم لوگ سچے دل سے توبہ کرو…خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل کوبناؤ۔‘‘ (ملفو ظات جلد۱ صفحہ۲۸، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
لقائےالٰہی بذریعہ اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو! اللہ تعا لیٰ قر آن شر یف میں فر ما تا ہے: قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:۳۲) خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر و ی ہی ایک راہ ہے اور کو ئی دو سر ی راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملا دے۔ انسان کا مد عا صر ف اس ایک واحد لا شر یک خدا کی تلاش ہو نا چا ہیئے۔شرک اور بدعت سے اجتناب کرنا چاہیئے۔ رسوم کا تا بع اورہواوہوس کا مطیع نہ بننا چا ہیئے…تم یاد رکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں۔ بھولا ہوا ہے وہ جو اِن راہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے۔ ناکام مرے گا وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کا تابعدار نہیں بلکہ اَور اَورراہوں سے اسے تلاش کرتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد۳صفحہ ۱۰۲-۱۰۳، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
فساد سے بچاؤکا ایک ذریعہ زبان کی حفاظت
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’زبان سے ہی انسان تقویٰ سے دُور چلا جاتا ہے، زبان سے تکبر کر لیتا ہے اور زبان سے ہی فرعونی صفات آجاتی ہیں اور اسی زبان کی وجہ سے پوشیدہ اعمال کو ریاکاری سے بدل لیتا ہے…زبان کا زیان خطرناک ہے۔ اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۸۱ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے محمدؐ! میرے بندوں سے کہہ دو کہ ہمیشہ وہ بات کیا کرو جو سب سے زیادہ احسن (یعنی اچھی اور نیک )ہو۔ (بنی اسرائیل: ۵۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’یاد رکھیں اگر کبھی کسی سے اختلاف ہو بھی جائے تو چاہے وہ اپنا ہو یا غیرہو زبان پر ہرگز گالی نہیں آنی چاہئے۔ ایک احمدی کی زبان ہمیشہ پاک اور صاف ہونی چاہئے کیونکہ گالی آنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں، آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ ‘‘ (مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم صفحہ۱۱۰)
فساد سے بچنے کے لیے جلد صلح کورواج دینا چاہیے
اللہ تعالیٰ نے قرا ن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ (الانفال:۱)اپنے درمیان اصلاح کرو۔وَالصُّلْحُ خَیْرٌ (النسآء:۱۲۹)اور صلح (بہرحال) بہتر ہے۔وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا (الانفال:۶۲)اور اگر وہ صلح کے لیے جُھک جائیں تو تُو بھی اُس کے لیے جُھک جا۔وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا (الفرقان:۶۴) اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں۔
خطبہ جمعہ ۱۷؍ستمبر ۲۰۰۴ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’خدا کرے کہ ہم آپس میں جو چھوٹی چھوٹی باتوں میں رنجشیں ہیں اور لڑائیاں ہوتی ہیں ان کو جلد ختم کرنے والے ہوں، ہر کوئی جلد صلح کی طرف بڑھنے والا ہو۔ یہ بڑا سخت انذار ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وہ کاٹا جائے گا۔ خدا نہ کرے کہ کبھی کوئی احمدی کاٹا جائے پس استغفار کریں اور ہر احمدی کو بہت زیادہ استغفارکرنا چاہئے۔ اور یہ دعا بھی پڑھنی چاہئے کہرَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ۔ (آل عمران :۹)‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم اکتوبر ۲۰۰۴ء)