خلافت کے ساتھ عبادات کا بڑا تعلق ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍ اپریل ۲۰۰۷ء)
قُلۡ لِّعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَلَا خِلٰلٌ۔ (ابراہیم :32)تو میرے ان بندوں سے کہہ دے جو ایمان لائے ہیں کہ وہ نماز کو قائم کریں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطاکیا ہے اس میں سے مخفی طور پر بھی اور علانیہ طور پر بھی خرچ کریں، پیشتر اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں کوئی خرید و فروخت نہیں ہو گی اور نہ کوئی دوستی کام آئے گی۔
پس جو جزا سزا کے دن پر یقین رکھتے ہیں، جن کو اس بات کا مکمل فہم و ادراک ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک یوم الدین ہے وہ یاد رکھیں کہ نمازیں اور خداتعالیٰ کی راہ میں کی گئی قربانیاں ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک انسان کی بچت کے سامان کرنے والی ہوں گی۔ اس کے علاوہ نہ کوئی تجارت کام آئے گی، نہ مال کازیادہ ہونا کام آئے گا۔ نہ خداتعالیٰ یہ پوچھے گا کہ کتنا بینک بیلنس چھوڑاہے۔ نہ یہ پوچھے گا کہ تمہارے دوست کون کون سے بڑے لوگ تھے۔ نہ یہ دنیاوی دوستیاں کسی قسم کے بچت کے سامان کر سکتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر حقیقی مومن ہو تو ان دو چیزوں کی طرف بہت توجہ دو۔ یہ نمازیں اور قربانیاں ظاہراً بھی ہوں اور چھپ کر بھی ہوں۔ چھپ کر کی گئی عبادتیں اور قربانیاں ایمان میں مزید مضبوطی کا باعث بنیں گی اور پہلے سے بڑھ کر خداتعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والی ہوں گی اور ظاہراً کی گئی قربانیاں، نہ اس لئے کہ بڑائی ظاہر ہو بلکہ اس لئے کہ دوسروں کو بھی تحریک ہو، یہ بھی خداتعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی ہوتی ہیں، کیونکہ یہ نیک نیتی سے کی گئی ہوتی ہیں۔ پس ہر احمدی کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر اپنے آپ کو مومنین کی جماعت میں شامل سمجھتا ہے ان دو امور کی طرف خاص طور پر بہت توجہ دینی چاہئے۔ پہلی چیزنماز کا اہتمام، باقاعدگی سے ادائیگی ہے۔ حتی الوسع باجماعت نماز ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر ان نمازوں کو نوافل کے ساتھ سجایا بھی جائے۔
آنحضرتﷺ سے ایک روایت ہے آپؐ نے فرمایا کہ بَیْنَ الْکُفْرِ وَالْاِیْمَانِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ۔ (ترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فی ترک الصلوٰۃ حدیث:۲۶۱۸)کہ کفر اور صلوٰۃ کے درمیان فرق کرنے والی چیز ترک نماز ہے۔ پس اس بات کو معمولی نہیں سمجھناچاہئے۔ صرف اتنا نہیں کہ تارک نماز، نماز کو چھوڑنے والا یا نمازوں میں کمزوری دکھانے والا، کمزور ایمان والا ہے۔ بلکہ آپؐ نے فرمایا کہ کفر اور ایمان میں فرق کرنے والی چیز ترک نماز ہے۔ پھر اس بات کا صحابہ کو اس قدر خیال تھا کیونکہ آنحضرتﷺ نے اپنے صحابہؓ میں یہ بات راسخ فرما دی تھی، ان کو اس بات پر بڑا پکّا کر دیا تھا۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا اس درجہ احساس دلا دیا تھا کہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن شقیق عُقَیْلیؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے صحابہ ؓ نماز کے علاوہ کسی عمل کو بھی ترک کرنا کفر نہ سمجھتے تھے۔ (ترمذی ابواب الایمان باب ما جاء فی ترک الصلوٰۃ حدیث:۲۶۲۲)
… ہمیشہ یاد رکھیں کہ خلافت کے ساتھ عبادت کا بڑا تعلق ہے۔ اور عبادت کیا ہے؟ نماز ہی ہے۔ جہاں مومنوں سے دلوں کی تسکین اور خلافت کا وعدہ ہے وہاں ساتھ ہی اگلی آیت میں اَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ (النور:۵۷) کا بھی حکم ہے۔ پس تمکنت حاصل کرنے اور نظام خلافت سے فیض پانے کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ نماز قائم کرو، کیونکہ عبادت اور نماز ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہوگی۔ ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس انعام کے بعد اگر تم میرے شکرگزار بنتے ہوئے میری عبادت کی طرف توجہ نہیں دو گے تو نافرمانوں میں سے ہو گے۔ پھر شکر گزاری نہیں ناشکرگزاری ہو گی اور نافرمانوں کے لئے خلافت کا وعدہ نہیں ہے بلکہ مومنوں کے لئے ہے۔ پس یہ انتباہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اپنی نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتا کہ نظام خلافت کے فیض تم تک نہیں پہنچیں گے۔ اگر نظام خلافت سے فیض پانا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرو کہ یَعْبُدُونَنِیْ (النور:۵۶) یعنی میری عبادت کرو۔ اس پر عمل کرنا ہو گا۔ پس ہر احمدی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا، جو خلافت کی صورت میں جاری ہے، فائدہ تب اٹھا سکیں گے جب اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نمازوں کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں حمد الٰہی ہے، استغفار ہے اور درود شریف۔ تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ‘‘ یعنی تمام قسم کے ورد اسی میں ہیں ’’ یہی نماز ہے۔ اور اس سے ہر ایک قسم کے غم و ہم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپؐ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اسی لئے فرمایا ہے اَلَابِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب(الرعد:۲۹)۔ اطمینان، سکینت قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر او رکوئی ذریعہ نہیں۔ لوگوں نے قسم قسم کے ورد اور وظیفے اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے اور ایک نئی شریعت آنحضرتﷺ کی شریعت کے مقابل میں بنا دی ہوئی ہے۔ مجھ پر تو الزام لگایا جاتا ہے کہ مَیں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر میں دیکھتا ہوں اور حیرت سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے خود شریعت بنائی ہے اور نبی بنے ہوئے ہیں اور دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ان وظائف اور اور اد میں دنیا کو ایسا ڈالا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی شریعت اور احکام کو بھی چھوڑبیٹھے ہیں۔ بعض لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ اپنے معمول اور اور اد میں ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ نمازوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے۔ میں نے مولوی صاحب سے سنا ہے (حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے سنا ہے) کہ بعض گدی نشین شاکت مت والوں کے منتر اپنے وظیفوں میں پڑھتے ہیں۔ میرے نزدیک سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے۔ نماز ہی کو سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور مسنون دعاؤں کے بعد اپنے لئے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہو گا اور سب مشکلات خدا چاہے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی۔ نماز یاد الٰہی کا ذریعہ ہے اس لئے فرمایا ہے اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ(طٰہٰ:15)‘‘ (الحکم جلد ۷نمبر۲۰مورخہ۳۱؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۹)
دوسری بات جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے نمازوں کے ساتھ مالی قربانیوں کی طرف توجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً احمدی مالی قربانی کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جو قربانیاں کرنے والے ہیں بار بار ہر مالی قربانی میں وہی لوگ حصہ ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ایک طبقہ جن کی کشائش بہت زیادہ ہے، جن کی استطاعت زیادہ ہے، وہ اس کے مطابق اپنے چندوں کی ادائیگی نہیں کرتے۔ میں نے نماز کے سلسلے میں ذکر کیا تھا کہ جہاں اللہ تعالیٰ خلافت کے ذریعہ تمکنت عطا کرنے کا وعدہ فرماتا ہے، وہاں اسے اپنی عبادت سے مشروط کرتا ہے اور اگلی آیت میں عبادت کی وضاحت کی کہ نماز کو قائم کرنے والے لوگ ہوں گے۔ لیکن جہاں یہ ذکر ہے کہ نماز کو قائم کرنے والے ہوں گے وہ صرف نماز کے بارے میں ہی نہیں فرمایا، بلکہ ساتھ ہی فرمایا کہ وَاٰتُواالزَّکوٰۃَ (النور:۵۷)کہ زکوٰۃ ادا کرو۔ زکوٰۃ اور مالی قربانی بھی استحکام خلافت اور تمہارے اس انعام پانے کا ذریعہ ہے۔ اور پھر آگے فرمایا وَاَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْن (النور:۵۷) اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے مسیح و مہدی کو مانا جس کے ساتھ آنحضرتﷺ نے خلافت کی دائمی خوشخبری فرمائی تھی۔