شکایات اور دوسروں کے عیب بیان کرنا
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲؍ دسمبر ۲۰۱۶ء)
بعض لوگ بعض عہدیداروں کے خلاف یا بعض ایسے لوگوں کے خلاف بھی جو عہدیدار نہیں شکایت کرتے ہیں کہ یہ ایسے ہیں اور یہ ویسے ہیں۔ اس نے فلاں جرم کیا اور اس نے فلاں خلاف شریعت حرکت کی۔ پس فوری طور پر ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے کیونکہ یہ لوگ جماعت کو بدنام کر رہے ہیں۔ لیکن اکثر ایسے لکھنے والے اپنی شکایتوں میں اپنے نام نہیں لکھتے یا فرضی نام اور فرضی پتا لکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شکایتوں پر ظاہر ہے کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے اور جب کچھ عرصہ گزر جائے تو پھر شکایت آتی ہے کہ میں نے لکھا تھا ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اگر کارروائی نہ ہوئی تو بڑا ظلم ہو جائے گا۔ یہ بے نام شکایت کرنے کی بیماری جو ہے یہ پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں میں زیادہ ہے۔ باقی دنیا کے مقامی لوگوں کی طرف سے تو شاید ہی کوئی اس قسم کی شکایت آئی ہو گی لیکن پاکستانی جو باہر ملکوں میں بھی آباد ہیں ان میں بھی بعض میں یہ بیماری ہے کہ اس طرح کی بے نام شکایت کر کے بات کریںگے۔ تو یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ہر دور میں ایسے لوگ پائے جاتے رہے ہیں جو اس قسم کی شکایات کرنے والے ہیں جس طرح آجکل بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور میں بھی، خلافت ثالثہ میں بھی، خلافت رابعہ میں بھی یہ شکایت کرنے والے موجود تھے جو بے نامی شکایتیں کیا کرتے تھے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ایسی شکایت پر ایک دفعہ ایک خطبہ دیا تھا کیونکہ یہ ایسے لوگوں کا منہ بند کروانے کے لئے بڑا جامع اور واضح ہے اس لئے اس خطبہ سے استفادہ کرتے ہوئے میں نے آج کچھ کہنے کا سوچا ہے۔
جو شکایت کرنے والے اپنا نام نہیں لکھتے یا فرضی نام لکھتے ہیں ان میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یا منافقت ہوتی ہے یا وہ جھوٹے ہوتے ہیں۔ اگر ان میں جرأت اور سچائی ہو تو کسی بھی چیز کی پرواہ کرنے والے نہ ہوں۔ عہد تو یہ کرتے ہیں کہ ہم جان مال وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے اور یہاں جب معاملہ ان کے خیال میں جماعت کی عزت و وقار کا آتا ہے تو اپنا نام چھپانے لگ جاتے ہیں تاکہ کہیں ان کے وقار اور ان کی عزت کو نقصان نہ پہنچ جائے۔ پس جس نے ابتدا میں ہی کمزوری دکھا دی اس کی باقی باتیں بھی غلط ہونے کا بڑا واضح امکان ہے۔
قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے پاس اگر کوئی خبر پہنچے تو تحقیق کر لیا کرو اور یہ بات ہر عقلمند جانتا ہے کہ کسی بھی تحقیق کے لئے بات کہنے والے یا بات پہنچانے والے کی بات سن کر فوراً اس بات کے متعلق تحقیق نہیں شروع ہو سکتی، نہ ہوتی ہے۔ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ بات پہنچانے والا خود کیسا ہے اسی سے تحقیق کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں پہلے تحقیق ہو گی کہ کیا وہ ہر قسم کی برائیوں سے پاک ہے۔ خود تو وہ کسی برائی میں ملوّث نہیں۔ ایمان میں کمزور تو نہیں ہے۔ یا یہ نہ ہو کہ خود تو ایمان میں کمزورہو اور دوسروں پر الزام لگا رہا ہو کہ یہ ایسا ہے ویسا ہے۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ دوسروں پر بھیانک الزام لگانے والے چاہے وہ کوئی عہدیدار ہے یا عہدیدار نہیں۔ اس وقت کسی کے بارے میں بھیانک اور خوفناک الزام لگاتے ہیں یا بڑی شدت سے الزام لگاتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ ان کے ذاتی مفادات دوسروں سے متاثر ہونے والے ہیں۔ پس تحقیق کرنے سے پہلے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ شکایت کرنے والا کیسا ہے وہ مومن ہے یا فاسق ہے؟ جب شکایت کرنے والے کا علم ہی نہیں تو یہ بھی پتا نہیں چل سکتا کہ وہ کس زمرہ میں آتا ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اگر کوئی لکھنے والا ایسی بات لکھتا ہے جو جماعت کے مفادات کو نقصان پہنچانے والی ہے تو پھر اپنے طور پر تحقیق کر لی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر یہ بھی علم ہو جائے کہ شکایت کرنے والا کون ہے تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ پہلے اس کے اپنے کردار کے بارے میں تحقیق ہو گی۔ اسی طرح اپنے طور پر جو اس نے باتیں کی ہیں اس کی سچائی کے بارے میں بھی تحقیق ہو گی تا کہ پتا لگے کہ وہ سچ کہتا ہے یا نہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ قرآنی تعلیم یہ ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنْ جَآءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا (سورۃالحجرات آیت 7) اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شکایت لے کر آتا ہے اور کسی کے بارے میں کوئی بری بات کہتا ہے تو اس کی تحقیق کرو۔ پھر اس کے بعد کوئی کارروائی کرو۔ لیکن شکایت کرنے والے ایک تو اپنا نام نہ لکھ کر خود مجرم بنتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی بات اسی طرح قبول بھی کی جائے جس طرح انہوں نے لکھی ہے اور جس کے خلاف شکایت ہے فوراً اس کے لئے سزا کا حکم نافذ کر دیا جائے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ فاسق کے معنی صرف بدکار کے ہی نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عربی میں بدکار کو بھی فاسق کہتے ہیں لیکن لغت کے لحاظ سے فاسق اسے بھی کہتے ہیں جو تیز طبیعت کا ہو۔ بات بات پر لڑ پڑتا ہو۔ فسق کے معنی ادنیٰ اطاعت کے بھی ہیں۔ اطاعت سے باہر نکلنے والا بھی فاسق ہے۔ فاسق کے معنی تعاون نہ کرنے والے کے بھی ہیں۔ لڑاکا بھی اور تعاون بھی نہ کرنے والا ہو۔ فاسق کے معنی اس شخص کے بھی ہیں جو لوگوں کے چھوٹے چھوٹے قصوروں کو لے کر بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور پھر یہ بھی سمجھتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ جو اس نے بیان کیا ہے اس کے مطابق دوسرے کو انتہائی سزا ملنی چاہئے۔ کوئی معافی کا امکان نہیں ہے۔ تیز مزاج کو بھی فاسق کہتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک احمدی دوست کے بارے میں بیان فرماتے ہیں، جو پرانے مخلص احمدی تھے کہ جہاں تک ان کے اخلاص کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن ان کو چھوٹی سی بات پر انتہائی فتویٰ لگانے کی عادت تھی۔ آپؓ کہتے ہیں کہ ان کی طبیعت میں یہ مرض تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر کفر سے ورے نہیں ٹھہرتے تھے۔ کوئی بات پکڑی اور کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ مثلاً آپ لکھتے ہیں کہ فرض کرو کہ تشہدّ میں بیٹھے ہوتے ہیں، جب التّحیات میں بیٹھتے ہیں تو اپنے دائیں پاؤں کی انگلیاں جو سیدھی نہیں رکھتا، (پاؤں سیدھا رکھنے کا حکم ہے) تو ان کے نزدیک وہ کفر کی حد تک پہنچ جاتا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نقرس کی تکلیف کی وجہ سے(ان کو gout تھا) دائیں پاؤں کی انگلیاں تشہد کی حالت میں سیدھی نہیں رکھ سکتا۔ پہلے جب پاؤں ٹھیک ہوتا تھا تو رکھا کرتا تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ اگر حافظ صاحب (وہ حافظ تھے) زندہ ہوتے تو غالباً شام تک وہ مجھ پر بھی کفر کا فتویٰ لگا دیتے۔ تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے لگاتے کہ یہ پاؤں کی انگلیاں سیدھی نہیں رکھتے اور ایسا کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے خلاف ہے۔ پس معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر ایمان نہیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر ایمان نہیں تو قرآن کریم پر بھی ایمان نہیں اور اگر قرآن کریم پر ایمان نہیں تو اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان نہیں لہٰذا کافر ہو گئے۔ بہرحال حضرت مصلح موعودؓنے ایسے جلد بازوں کی چاہے وہ مخلص بھی ہوں یہ مثال دی ہے۔ لیکن جو نام بھی چھپاتا ہو اور خود ایمان میں بھی کمزور ہو اور دوسروں پر فتوے بھی لگاتا ہے تو وہ ان تمام معنی کے لحاظ سے جو فاسق کے بیان کئے گئے ہیں فاسق ہی ٹھہرتا ہے۔