شادیوں میں صدہا روپیہ کا فضول خرچ کرنے کی بدرسم
ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ دوسری قوم کو لڑکی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے۔ یہ سراسر تکبر اور نخوت کا طریقہ ہے جو احکام شریعت کے بالکل برخلاف ہے۔ بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں۔ رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہیئے کہ جس سے نکاح کیا جاتاہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجبِ فتنہ ہو۔ اور یاد رکھنا چاہیئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں۔ صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ( الحجرات:۱۴) یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ تر پرہیز گار ہے۔
…ہماری قوم میں ایک یہ بھی بد رسم ہے کہ شادیوں میں صدہا روپیہ کا فضول خرچ ہوتاہے۔ سو یاد رکھنا چاہیئے کہ شیخی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا یہ دونو باتیں عندالشرع حرام ہیں۔ اور آتشبازی چلانا اور رنڈی بھڑوئوں ڈوم ڈھاریوں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہے۔ ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے اور گناہ سر پر چڑھتا ہے۔ سو اس کے علاوہ شرع شریف میں تو صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کرے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکاکر کھلادیوے۔
(ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۴۶ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)