شادی کرنے کی اغراض و مقاصد
اسلام نے اعتدال کے اندر رہتے ہوئے جن جائز باتوں کی اجازت دی ہے اُن کے اندر ہی رہنا چاہئے اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے۔ حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے کہ دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے۔ اس لئے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک مومن کے لئے ایک ایسے انسان کے لئے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے شادی نیکی پھیلانے، نیکیوں پر عمل کرنے اور نیک نسل چلانے کیلئے کرنی چاہئے۔ اور یہی بات شادی کرنے والے جوڑے کے والدین، عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی یاد رکھنی چاہئے۔ ان کے ذہنوں میں بھی یہ بات ہونی چاہئے کہ یہ شادی ان مقاصد کے لئے ہے نہ کہ صرف نفسانی اغراض اور لہو و لعب کے لئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شادیاں کی تھیں اور اسی غرض کے لئے کی تھیں اور یہ اسوہ ہمارے سامنے قائم فرمایا کہ شادیاں کرو اور دین کی خاطر کرو۔ یہی آپؐ نے نصیحت فرمائی۔ نہ ان لوگوں کو پسند فرمایا جو صرف عبادتوں میں لگے رہتے ہیں اور دین کی خدمت میں ڈوبے رہتے ہیں۔ نہ اپنے نفس کے حقوق ادا کرتے ہیں نہ بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف تو جہ دیتے ہیں۔ نہ ان لوگوں کو پسند کیا جو دولت کے لئے، خوبصورتی کے لئے، اعلیٰ خاندان کے لئے رشتے جوڑتے ہیں یا جو ہر وقت اپنی دنیاداری اور بیوی بچوں کے غم میں ہی مصروف رہتے ہیں۔ نہ ان کے پاس عبادت کے لئے وقت ہوتا ہے اور نہ دین کی خدمت کے لئے کوئی وقت ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ نہ اسلام یہ کہتا ہے کہ دنیا میں اتنے پڑ جاؤ کہ دین کو بھول جاؤ، نہ یہ کہ بالکل ہی تجرد کی زندگی اختیار کرنا شروع کر دو اور دنیا داری سے ایک طرف ہو جاؤ۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلاکہ کسی صحابی نے کہا ہے کہ میں شادی نہیں کروں گا اور مسلسل عبادتوں میں اور روزوں میں وقت گزاروں گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ مَیں تو عبادتیں بھی کرتاہوں، روزے بھی رکھتا ہوں، بندوں کے دوسرے حقوق بھی ادا کرتا ہوں شادیاں بھی کی ہیں۔ پس جو شخص میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے۔(خطبہ جمعہ ۲۵؍نومبر ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍ دسمبر ۲۰۰۵ء)