احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
منارۃ المسیح کاظاہری رنگ میں بنایاجاناہی مسیح موعود علیہ السلام کامقصودتھااوریہی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی تھی
اور خداکاحکم بھی یہی تھااور یہ کہ اس ظاہری منار کی تعمیرپراعتراض کرنے والانادان اور گستاخ ہے
منارۃ المسیح کا سنگِ بنیاد رکھا جانا
منارۃ المسیح کے لیےکچھ چندہ جمع ہوا۔ مگر اس کی تعمیر میں تاخیر ہی ہوتی گئی یہاں تک کہ ۱۹۰۳ء میں اس کا سنگِ بنیاد آپؑ نے رکھا۔ بنیادوں سے دیواریں ذرا سی ہی اوپر چڑھی تھیں کہ دشمنوں اور شریکوں نے مخالفت شروع کی کہ یہ منارہ بےپردگی کا باعث ہو گا۔ اس لیے اس کی تعمیر بند ہونی چاہئے۔ ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے تحصیلدار بٹالہ کو موقع پر بھیجا وہ حضرت اقدسؑ سے مسجد مبارک کے ساتھ والے حجرہ میں ملا۔ اس وقت قادیان کے بعض لوگ جو شکایت کرنے والے تھے اس کے ہمراہ تھے۔ حضرت صاحبؑ نے تحصیلدار سے باتوں کی ضمن میں فرمایا کہ یہ بڈھامل بیٹھا ہے آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لےکر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے موقع ملا ہو اور میں نے فائدہ پہنچانے میں کوئی کمی کی ہو۔ اور پھر اسی سے پوچھیں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقع ملا ہو اور اس نے مجھے تکلیف دینے میں کوئی کسر چھوڑی ہو۔
بڈھامل کا چہرہ شرم کی وجہ سے سرخ ہو گیا اور ایک لفظ نہ منہ سے بول سکا۔ بلکہ سر نیچے ڈال کر بیٹھا رہا۔ یہ لالہ بڈھامل قادیان کے آریوں کا ممتاز رکن تھااور اسلام اور مسلمانوں کا سخت دشمن۔ تحصیلدار صاحب نے یہ سب کچھ سن سنا کر پھر بھی بوجہ تعصب رپورٹ خلاف ہی کی اور لکھ دیا کہ یہ منارہ لوگوں کی سیرگاہ بن جائے گااور بےپردگی ہوگی۔ اس کے جواب میں پھر لکھا گیا کہ یہ مسجد کا مینار ہو گا اور صرف ماذنہ کا کام دے گا۔ یعنی مؤذن اس پر چڑھ کر اذان دیا کرے گا اور سیرگاہ نہیں بنے گا۔ چنانچہ ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو جب اطمینان ہو گیا تو اس نے تعمیر کی اجازت دےدی۔ لیکن حضرت اقدسؑ نے اجازت آ جانے کے باوجود اس کی تعمیر رکوا دی اور پھر اس کی طرف سے آپ کی توجہ بالکل ہٹ گئی۔ یہاں تک کہ آپ اس جہان سے گزر گئے۔ ظاہر ہے کہ اس کی تعمیر رک جانے کی وجہ مالی تنگی تو نہیں ہو سکتی تھی بعد میں جماعت اس قدر بڑھ گئی تھی اور چندہ اس کثرت سے آنے لگا تھا کہ حضرت اقدسؑ اگر چاہتے تو ایسے کئی منارے بنوا سکتے تھے۔
منارۂ روحانی
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی اشارۂ غیبی یا القائے ربّانی نے آپ کی توجہ کو اس طرف سے ہٹا کر اس منارۂ روحانی کی طرف پھیر دیا جو دراصل آپ کے علم کلام اور بے بہا لٹریچر کے ذریعہ تیار ہو رہا تھا۔ یہی وہ علم و حکمت اور فیض روحانیت کا منارہ تھا جس پر محمدیوں کا پاؤں پڑنے سے دین کی حفاظت اور اشاعت کی بنیادیں تمام خطروں اور باطل کے حملوں سے محفوظ اور مستحکم ہو گئیں۔ یہی وہ منارۂ علم و حکمت تھا جس کے اوپر آنحضرت صلعم نے مسیح موعود کا نزول دیکھا۔ اور جس کے متعلق خود مسیح موعود کو یہ الہام ہوا کہ ’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسیدو پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد۔‘‘
آخر غور کیجئے کہ وہ کونسا منارہ ہو سکتا ہے جس پر آپ کے ذریعہ مسلمانوں کا قدم محکم ہو جانے کا اس الہام میں ذکر ہے۔ کیا وہ کوئی اینٹ پتھر کا منارہ ہو سکتا ہے۔ ایسا خیال تو اس قدر لغو اور مضحکہ انگیز ہے کہ کوئی عقلمند اسے ایک لمحہ کے لیے بھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ مذہب کا استحکام ہمیشہ دلائل و براہین نیّرہ سے ہوا کرتا ہے نہ کہ اینٹ پتھروں سے۔ پس اگر کوئی ایسا منارہ ہو سکتا ہے جس پر قدم پڑنے سے کسی قوم کا مذہب ہر قسم کے خطرہ اور خوف سے امن میں آ سکتا ہے تو استعارہ کے رنگ میں وہ علم کلام ہی ہو سکتا ہے جو بجائے خود دلائل و براہین سے محکم اور مضبوط ہو۔ پس وہ منارہ جس کا اس الہام میں ذکر ہے وہ اسی علم کلام مبنی بر قرآن و حدیث کا منارۂ روحانی و علمی ہے جو حضرت اقدس مرزا صاحبؑ نے اسلام کی حفاظت اور اس کے غلبہ بر ادیان عالم کے متعلق پیدا کیا۔ اور یہ علم آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا جس نے حق کا بول بالا کر دیا اور باطل کا سر کچل دیا اور جس کے ذریعہ آپ نے اسلام کو تمام دینوں پر غالب کر کے دکھایا اور اتنا ہی نہیں اپنے فیض روحانیت و صحبت سے اپنے خدام میں وہ روح پھونکی جس سے ان میں اسلام کی سچائی پر ایک محکم ایمان اور اس کی خدمت کے لیے ہر قسم کی قربانی اور ایثار کا جوش پیدا ہو گیا۔ اور ان کے دل و دماغ کو خدا کے فضل سے وہ روشنی بخشی کہ وہ خود اسلام کے غلبہ اور اشاعت کے لیے بہترین لٹریچر پیدا کرنے کے قابل ہو گئے۔ کسی اینٹ پتھر کے منارہ پر قدم رکھنے سے تو یہ کیفیت نہیں پیدا ہو سکتی۔ پس یُعَلِمُہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ کے ماتحت یہ تعلیم کتاب و حکمت ہی کا روحانی و علمی منارہ ہے جس کا ذکر اس الہام میں ہے کہ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد۔ اور یہی اس کشف کی تعبیر ہے جس میں آنحضرتﷺ نے مسیح موعود کو ایک منارہ پر دیکھا تھا جس میں یہ صاف اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے ذریعہ مسلمانوں کا قدم ایک ایسے بلند مینار پر جاپڑے گا جہاں سے اسلام تمام ادیانِ باطلہ کے حملوں سے محفوظ ہو جائے گا اور ایک منارہ کی طرح اس کی شانِ بلند ایک عالم کو نظر آنے لگے گی۔ اور اس منارۂ علمی و روحانی کی روشنی سے دنیا منور ہو جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ
ظاہری اور باطنی مناروں کا ورثہ
حضرت اقدس مرزا صاحب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ نے قادیان میں اس ظاہری اینٹ پتھر کے منارہ کی تعمیر اور تکمیل کر دی۔ لیکن حضرت اقدسؑ کے وہ خدام جنہوں نے اپنا مرکز لاہور بنایا انہوں نے اسی حقیقی منارۃ المسیح کو جس کا آپ کے الہام میں ذکر تھا اور جس کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے مسیح موعود کو وابستہ کیا تھا بلند کرنا شروع کیا۔ یعنی آپ کی اتباع میں اسلام کی حفاظت و اشاعت کے لیے لٹریچر مہیا کرنا اور اسلام پر جہاں سے بھی حملہ ہو وہیں جاکر سینہ سپر ہونا اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے چار کھونٹ میں پہنچانا اپنی زندگی کے اغراض و مقاصد میں سے بنا لیا۔ اینٹ پتھر کا منارہ تو ایک حد تک بلند ہو کر رہ گیا۔ مگر یہ منارۂ روحانی جو صحیح معنوں میں منارۃ المسیح ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز افزوں ترقی پاتا ہوا بلند تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ انشاء اللہ القدیر یہ اتنا بلند ہو جائے کہ اس کی روشنی تمام دنیا کے لوگوں کے قلوب کو منور کر دے۔ و باللہ التوفیق
ان دونو مناروں کی تفریق میں جناب الٰہی کی طرف سے یہ اشارہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدسؑ کے بعد آپ کا جسم اور جسمانی تعلقات تو قادیان میں رہ جائیں گے اور روح اور روحانی فیوض لاہور میں منتقل ہو جائیں گے۔ جیسا کہ آپ کے الہام ’’داغ ہجرت‘‘ سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔‘‘(مجدّد اعظم از ڈاکٹر بشارت احمد جلد اوّل صفحہ ۶۸۸ تا ۶۹۳)
یہ وہ تفصیلی مضمون ہے جومحترم ڈاکٹربشارت صاحب نے اپنی کتاب میں لکھاہے جس کاماحصل اور خلاصہ گویایہ بنتاہے کہ
i۔ منارہ کی بابت روایات واحادیث ضعیف اور قابل اعتراض ہیں ایسی کہ روایت اور درایت دونوں کے لحاظ سے اس پر اس قدر اعتراضات پڑتے ہیں کہ اس کی مثال ایک چیونٹیوں بھرے کباب کی سی ہے۔منارہ والی احادیث محض ایک کشفی نظارہ تھا جوکہ تعبیر طلب ہے۔
ii۔ لیکن آپ کو یہ خیال ہوا کہ اگر حدیث مذکورہ بالا اور اس الہام کو اپنے ظاہری رنگ میں بھی پُورا کرنے کی کوشش کی جائے تو بطور تفاول نیک کے ہرج کوئی نہیں۔ پس آپ نے اس منارہ کو جس کا وجود استعارہ اور مجاز کے رنگ میں مسیح موعود کے وجود سے وابستہ تھا ظاہری رنگ میں بھی بطور یادگار کے تعمیر کرنا چاہا۔
iii۔لیکن حضرت اقدسؑ نے اجازت آ جانے کے باوجود اس کی تعمیر رکوا دی اور پھر اس کی طرف سے آپ کی توجہ بالکل ہٹ گئی۔ یہاں تک کہ آپ اس جہان سے گزر گئے۔ ظاہر ہے کہ اس کی تعمیر رک جانے کی وجہ مالی تنگی تو نہیں ہو سکتی تھی۔
iv۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی اشارۂ غیبی یا القائے ربّانی نے آپ کی توجہ کو اس طرف سے ہٹا کر اس منارۂ روحانی کی طرف پھیر دی جو دراصل آپ کے علم کلام اور بے بہا لٹریچر کے ذریعہ تیار ہو رہا تھا۔
v۔پس وہ منارہ جس کا اس الہام میں ذکر ہے وہ اسی علم کلام مبنی بر قرآن و حدیث کا منارۂ روحانی و علمی ہے جو حضرت اقدس مرزا صاحب نے اسلام کی حفاظت اور اس کے غلبہ برادیان عالم کے متعلق پیدا کیا۔
vi۔حضرت اقدس مرزا صاحبؑ کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ نے قادیان میں اس ظاہری اینٹ پتھر کے منارہ کی تعمیر اور تکمیل کر دی۔ لیکن حضرت اقدس کے وہ خدام جنہوں نے اپنا مرکز لاہور بنایا انہوں نے اسی حقیقی منارۃ المسیح کو جس کا آپ کے الہام میں ذکر تھا اور جس کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے مسیح موعود کو وابستہ کیا تھا بلند کرنا شروع کیا۔
vii۔اینٹ پتھر کا منارہ تو ایک حد تک بلند ہو کر رہ گیا۔ مگر یہ منارۂ روحانی جو صحیح معنوں میں منارۃ المسیح ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز افزوں ترقی پاتا ہوا بلند تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
viii۔ان دونوں مناروں کی تفریق میں جناب الٰہی کی طرف سے یہ اشارہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدسؑ کے بعد آپ کا جسم اور جسمانی تعلقات تو قادیان میں رہ جائیں گے اور روح اور روحانی فیوض لاہور میں منتقل ہو جائیں گے۔
حسدوتعصب اتنی بری بلاہوتی ہے یہ اب معلوم ہواکہ جودلوں کے ساتھ ساتھ علم وعقل اور فہم وفراست کوبھی مسخ کردیتی ہے۔اوراس کی دلیل یہ مذکورہ بالااقتباس ہے۔ یہاں موقعہ نہیں کہ اس کاتفصیلی جواب دیاجائے۔نہایت اختصارسے صرف یہ بیان کرتا ہوں کہ اس مذکورہ بالااقتباس پرایک نظرڈالی جائے تو خلاصہ مذکورہ بالانکات کی صورت میں یہی نکلتاہے کہ مینار کی بابت آنحضرت ﷺ کی احادیث تونعوذباللہ چیونٹی بھرے کباب کی طرح ہیں اوران سے مراد اینٹ اورپتھرکامنارہرگزنہیں وہ تومحض ایک تفاؤل کے طورپربناناچاہاتھالیکن کسی القائے ربانی اور اشارۂ غیبی سے آپ کوروک دیاگیا۔
خاکسارکے نزدیک اس توجیہ پرجتنا بھی افسوس کیاجائے وہ کم ہے۔کیونکہ اگر ان احادیث سے یہی مرادتھی توکتنی حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ یہ سارے معارف اور علمی نکات حضرت اقدس علیہ السلام کے ذہن میں نعوذباللہ نہیں آئے۔’’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ توساراجانے ہے‘‘!
جبکہ امرواقعہ یہ ہے کہ جومنارکے بارے میں اس طرح کی رائے رکھتاہے جیسی کہ مصنف مجدداعظم نے بیان کی ہے اس نے منارۃ المسیح کی بابت ان دواشتہاروں پرغورہی نہیں کیاجوحضرت اقدسؑ نے مئی ۱۹۰۰ء اور جولائی ۱۹۰۰ء میں شائع فرمائے ہیں۔ کیونکہ صرف ان دواشتہارات کوہی غورسے پڑھاجائے تو ایک دونہیں درجن بھرامورایسے سامنے آئیں گے کہ جواس بات کی دلیل ہیں کہ منارۃ المسیح کاظاہری رنگ میں بنایاجاناہی مسیح موعود علیہ السلام کامقصودتھااوریہی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی تھی اور خداکاحکم بھی یہی تھااور یہ کہ اس ظاہری منار کی تعمیرپراعتراض کرنے والانادان اور گستاخ ہے۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭