قبولیتِ دعا کے لیے استقامت شرط ہے
یاد رکھو کہ یہ جو خدا تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی ابتداء بھی دعا سے ہی کی ہے اور پھر اس کو ختم بھی دعا پرہی کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان ایسا کمزور ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر پاک ہو ہی نہیں سکتا اور جب تک خدا تعالیٰ سے مدد اور نصرت نہ ملے یہ نیکی میں ترقی کر ہی نہیں سکتا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ سب مُردے ہیں مگر جس کو خدا زندہ کرے اور سب گمراہ ہیںمگر جس کو خدا ہدایت دے اور سب اندھے ہیں مگر جس کو خدا بینا کرے۔
غرض یہ سچی بات ہے کہ جب تک خدا کا فیض حاصل نہیں ہوتا تب تک دنیا کی محبت کا طوق گلے کا ہار رہتا ہے۔
(ملفوظات جلد۱۰ صفحہ۶۲، ایڈیشن۱۹۸۴ء)
صلوٰۃ کا لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نرے الفاظ اور دعا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ ایک سوزش، رقّت اور درد ساتھ ہو۔ خدا تعالیٰ کسی دعا کو نہیں سنتاجب تک دعا کرنے والا موت تک نہ پہنچ جاوے۔ دعا مانگنا ایک مشکل امر ہے اور لوگ اس کی حقیقت سے محض ناواقف ہیں۔ بہت سے لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہم نے فلاں وقت فلاں امر کے لئے دعا کی تھی مگر اس کا اثر نہ ہوا۔اور اس طرح پر وہ خدا تعالیٰ سے بدظنّی کرتے ہیں اور مایوس ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جب تک دعاکے لوازم ساتھ نہ ہوں وہ دعا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔
دعا کے لوازم میں سے یہ ہے کہ دل پگھل جاوے اور روح پانی کی طرح حضرتِ احدیت کے آستانہ پر گرے اور ایک کرب اور اضطراب اس میں پیدا ہواور ساتھ ہی انسان بے صبر اور جلد باز نہ ہوبلکہ صبر اور استقامت کے ساتھ دعا میں لگا رہے۔ پھر توقع کی جاتی ہے کہ وہ دعا قبول ہو گی۔
(ملفوظات جلد ۹صفحہ ۱۰۹، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
دعا کے معاملہ میں حضرت عیسیٰؑ نے خوب مثال بیان کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک قاضی تھا جو کسی کا انصاف نہ کرتا تھا اور رات دن اپنی عیش میں مصروف رہتا تھا۔ ایک عورت جس کا ایک مقدمہ تھا وہ ہر وقت اُس کے دروازے پر آتی اور اُس سے انصاف چاہتی۔ وہ برابر ایسا کرتی رہتی یہاں تک کہ قاضی تنگ آ گیااور اُس نے بالآخر اس کا مقدمہ فیصلہ کیا اور اُس کا انصاف اُسے دیا۔ دیکھو!کیا تمہارا خدا قاضی جیسا بھی نہیں کہ وہ تمہاری دعا سنے اور تمہیں تمہاری مراد عطا کرے۔ ثابت قدمی کے ساتھ دعا میں مصروف رہنا چاہئے۔ قبولیت کا وقت بھی ضرور آ ہی جائے گا۔ استقامت شرط ہے۔
(ملفوظات جلدنمبر ۹صفحہ ۴۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)