ایک آیت قرآنی کی لطیف تفسیر
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۵؍جولائی ۱۹۱۸ء بمقام ڈلہوزی )
حضرت مصلح موعودؓ نے اس خطبہ جمعہ میں قرآن کریم کے لامحدودخزانوں کاذکر کرتے ہوئے، سورۃ الانعام کی ایک آیت کی نہایت لطیف تشریح بیان فرمائی ہے۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
حضورؓ نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی :
وَاِنۡ تُطِعۡ اَکۡثَرَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ یُضِلُّوۡکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ(الانعام : ١۱۷)
قرآن شریف ایک دنیا ہے۔ جس طرح ہماری زمینی دُنیا ہے۔ مادی دنیا ہے اور جس طرح اس زمین کے علاوہ اَور عالم ہیں۔ جن کو سیار ے کہتے ہیں۔ یا یہ زمین اور اس کے متعلقات چاند، سورج،ستار ے، سیارے۔ ہر ایک بجائے خود ایک دُنیا ہے۔ اسی طرح ایک روحانی دنیا ہے اور پھر اس میں قرآن مجید بھی ایک دنیا ہے۔
قرآن مجید علمی یا عرفانی دُنیا ہے جس طرح اس زمین کے اندر بڑی بڑی کا نیں ہیں اور انسان جس جس قدر اپنے مادی علوم میں ترقی کرتا جاتا ہے اور جوف الارض کے عجائبات سے واقف ہوتا جاتا ہے اسی قدر مخفی خزانے کھلتے جاتے ہیں۔ ان کانوں میں سے کسی کو بھی انسان کبھی ختم نہیں کرسکا۔ سینکڑوں سال ہوئے جب سے علم الاقتصاد کے ماہر کوئلے کے متعلق آواز بلند کر رہے ہیں کہ وہ ختم ہونے والا ہے۔ مگر وہ نکلتا ہی چلا آتا ہے۔ جب سے تاریخ کا پتہ لگتا ہے۔ سونا چلا آتا ہے مگر ختم ہونے میں نہیں آتا۔ یہی حال اَور دھاتوں کا ہے۔ اس قدر انسان ان کو استعمال کرتا ہے کہ معمولی عقل کا آدمی اس خرچ کو دیکھ کر شاید بول اٹھے کہ بہت جلد یہ چیز ختم ہوجائے گی۔ مگر وہ ختم نہیں ہوتی۔ کروڑوں، اربوں بلکہ لاانتہاٹن ایک ایک دھات خرچ ہوتی ہے اور ختم نہیں ہوتی۔
اسی طرح قرآن کریم کی ایک دنیا ہے
اور وہ اس مادی دنیا سے کہیں بڑھ کر ہےکیونکہ مادیات بالآخر محدود ہوتی ہیں بمقابلہ عرفانی اور علمی دنیا کے، لیکن جب مادی دنیا با وجود اپنی حدود و قیود کے ہمارے علم میں حدود و قیود نہیں رکھتی جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں سال سے انسان دھاتوں کا استعمال کرتا چلا آتا ہے اور وہ ختم ہونے میں نہیں آتی ہیں تو پھر قرآن مجید کے عجائبات اور معارف کے متعلق ہم کبھی نہیں کہہ سکتے ہیں کہ فلاں جگہ پر وہ ختم ہو گئے۔ یہ بالکل سچی بات ہے کہ قرآن مجید کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ شخص جو مطہر قلب لے کر اخلاص کے ساتھ خداتعالیٰ میں محوہو کر مجاہدہ کرتا ہے وہ قرآن مجید کے حقائق و معارف سے اپنی استعداد کے مطابق حصہ پالیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنےوالے لوگ ہوتے ہیں جو ہر صدی کے سر پر آتے ہیں وہ وقتی ضرورتوں کے لحاظ سے قرآن مجید کے خزانوں سے حصہ لیتے ہیں اور جس جس قدر ضرورتیں وسیع ہوں اور آنے والے کی استعداد قوی ہو اسی قدر وہ ان خزانوں سے زیادہ حصہ لیتا ہے مگر لوگوں کی عجیب حالت ہے کہ وہ ہر مواقع پر سمجھ لیتے ہیں کہ قرآن مجید کے عجائبات اور معارف کا خزانہ ختم ہو گیا،لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ختم نہیں ہوتے۔ ایک اَور آتا ہے جو ان علوم کا وارث ہوتا ہے اور وہ جدید معارف و حقائق کا خزانہ پیش کر دیتا ہے اور یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔
جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف ختم ہو گئے۔ اس نے نہ قرآن مجید کی حقیقت کو سمجھا اور نہ اس نے اس دنیا کا کچھ مزہ چکھا۔ وہ بالکل نا آشنا اور بیگانہ ہے۔
غرض قرآنی دنیا کے اندر جو کانیں اور ذخائر ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ مگر بڑے افسوس اور تعجب کی بات ہے کہ بہت لوگ ہیں جو تدبر سے قاصر ہیں اور با وجود ایسے خزانوں اور ذخائر کی موجودگی کے وہ تدبر نہیں کرتے۔ بلکہ دیکھا ہے کہ بعض آیات سینکڑوں زبانوں پر ہیں جو اپنے کثیر الاستعمال کی وجہ سے مثال یا ضرب المثل کا رنگ رکھتی ہیں۔ جیسے بعض شعر ہوتے ہیں کہ عام طور پر زبان زد عام ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض آیات میں جو مثال کے طور پر زبان زد ہیں۔ نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی اور دوسرے لوگ بھی مضمون کو وسعت دے کر استعمال کر لیتے ہیں۔ ایسی بہت سی آیات میں جو مثال کے طور پر رائج ہیںاور باوجود اس کے کہ وہ عام طور پر پڑھی جاتی ہیںمگر پھر بھی تھوڑے ہیں جو حقیقت کے ماہر ہوں۔بلکہ ایک لاکھ میں سے شاید ایک بھی ہو تو بہت ہے۔
اس قسم کی آیات میں سے ایک یہ آیت بھی ہے جو مَیں نے ابھی پڑھی ہے۔ اس زمانہ میں اس کا استعمال عام طور پر مسلمانوں میں کم ہے، مگر اسلامی لٹریچر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں اس کا استعمال ہوتا آیا ہے۔ دشمنوں کے مقابلہ میں یہود اور عیسائیوں میں بھی یہ خیال پھیلا ہے۔ اب ہماری جماعت میں بھی اس آیت کا استعمال ہوتا ہے لیکن لوگوں نے توجہ نہیں کی۔ ایک فریق دوسرے پر حملہ کرتا ہے مگر مضمون سے ناواقف ہے۔
ایک مفہوم ،ایک غیر معین خیال، ایک غیر ممتاز اثر ان کے دلوں پر ہوتا ہے۔ مگر وہ اس کی تعیین و تبیین نہیں کر سکتے۔ اس کا ایک مفہوم دلوں میں پیدا ہوتا ہے مگر حد بندی کے بغیر استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض کو خیال ہو گیا ہے کہ اس آیت کے مفہوم کے موافق اکثر حصہ گمراہ ہوتا ہے۔
لیکن یہ خیال بالکل باطل ہے۔ اگر یہی مفہوم ہو تو پھر اَکۡثَرَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کے یہ معنی ہوں گے کہ دنیا میں جس مذہب کے زیادہ پابند ہیں وہ جھوٹا ہے۔ پھر احمدیوں پر یہ کس طرح عائد ہوگی۔ کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا۔ اَکۡثَرَ مَنۡ يَّتَّبِعُوْنَ الْاِسْلَام یہ نہیں فرمایا کرمسلمانوں، احمدیوں، سنیوں یا شیعوں میں سے جن کی تعداد زیادہ ہو وہ گمراہ ہے۔ یا دو فریق باہم جھگڑیں۔ اور ان میں سے جن کی تعداد زیادہ ہو وہ گمراہ ہو۔ پس یہ مفہوم پیدا کرنا کسی صورت میں درست نہیں ہو سکتا۔ اَکۡثَرَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِکے معنوں کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ جو دنیا میں سب سے زیادہ ہوں وہ گمراہ ہیں۔ اور وہ عیسائی یا بدھ ہیں۔ مگر سیاق و سباق میں نہ عیسائیوں کا ذکر ہے نہ بدھوں کا۔ پس اگر فی الحقیقت اس آیت کا یہ مفہوم ہوتا تو الفاظ زیادہ سے زیادہ اس بات کے متحمل ہو سکتے تھے کہ زمین میں جو سب سے زیادہ آباد ہیں وہ گمراہ ہیں۔ کیونکہ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اگر تو اطاعت کرے گا زمین پر بسنے والوں میں سے ان کی جو اکثر ہیں۔ وہ اللہ کی راہ سے گمراہ کر دیں گے۔
تو ان الفاظ کے یہ معنے ہوئے کہ سب سے زیادہ جو مذہب ہے وہ گمراہ ہے حالانکہ یہ غلط ہے
کیونکہ اگر یہی مطلب ہوتا تو پھر اسلام کے متعلق یہ پیشگوئیاں ہیں کہ وہ سب پر غالب اور سب سے زیادہ ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوبھی یہی بتایا گیا کہ باقی مذاہب اس قدر کم ہو جائیں گے کہ گویا وہ رہے ہی نہیں۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تو بعثت ہی اس غرض کے لیے ہوئی ہے۔ تو اس حالت میں نعوذ باللہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اسلام ہی جھوٹا ہے (نعوذ باللہ من ذالک)
یہاں کسی مذہب کی تعداد کا ذکر نہیں۔ اور نہ کثرت وقلت کی بحث ہے۔ بلکہ قرآن مجید کو یہ تعلیم دینا مقصود ہے کہ اطاعت کے قابل اکثر نہیں ہوتے بلکہ کم ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کی ایک تعداد قرار دینی پڑے گی۔ خواہ احمدی ہوں۔ خواہ ان سے پہلے کے مگر ہرمسلمان اس قابل نہیں کہ وہ مطاع ہو اور اس کی اطاعت کی جاوے۔ کروڑوں مسلمان ایسے ملیں گے جو اس لیےاسلام کو مانتے ہیں کہ ان کے ماں باپ مسلمان تھے اور اس سے زیادہ ان کو کوئی خبر نہیں۔ تو کیا کوئی شخص یہ تسلیم کرنے کو تیار ہو جائے گا کہ ہر ایسے شخص کی اطاعت کی جاوے۔ اگر ایسا ہو تو اس کا نتیجہ بجز گمراہی کے اَور کیا ہوگا۔
اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ اطاعت تو اس کی ہوتی ہے جس میں عرفان اور تقویٰ ہو اور وہ اس قابل ہو کہ صراط مستقیم پر دوسروں کو لے جاسکے۔ غرض اس آیت میں قابل اطاعت لوگوں کا ذکر ہے ماننے والوں کی تعداد کی قلت و کثرت کی بحث نہیں۔ پس اس آیت سے قلت و کثرت کو معیار صداقت قرار دینا غلطی ہے۔
بعض لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ بدوں غور وفکر کے یونہی کسی نے بکو اس کی اس کے ماننے کے لیے تیار ہو گئے۔ مگر قرآن مجید اس سے منع کرتا ہے۔ اور اس آیت میں تو خصوصیت کے ساتھ وہ اس اصل کو بیان کرتا ہے کہ اطاعت کے قابل تھوڑے ہوتے ہیں۔ بلکہ اقلّ کی اطاعت ہوتی ہے۔ خواہ سب کے سب سچے ہی ہوں، لیکن وہ سب اس قابل نہیں ہوتے کہ مطاع ہوسکیں۔ مثلاً احمدی ہیں۔ کیا وہ سب کے سب گمراہ ہیں؟ ہرگز نہیں۔ لیکن کیا ہر احمدی سے فتویٰ پوچھا جائے گا۔ اور اسے یہ درجہ دیا جائے گا کہ وہ شریعت کے احکام بتائے اور نماز روزہ کے مسائل اس سے بطور فتویٰ پوچھے جائیں ؟ کبھی نہیں۔ اگر ایسا ہوگا تو ٹھوکر لگنے کا احتمال ہو گا۔ وہ ایک مسلمان ہے کیونکہ میں احمدی اور مسلمان کا ایک ہی مفہوم سمجھتا ہوں۔ وہ ناجی ہے۔ قرآن مجید اور رسولوں پر یقین لاتا ہے۔ جزاو سزا اور قیامت کو مانتا ہے اللہ اور اس کے ملائکہ پر ایمان لاتا ہے۔ مسئلہ قدر کو مانتا ہے۔ پچھلی اور آنےوالی وحی پر ایمان لاتا ہے۔ مگر بایں
ہر شخص میں یہ طاقت نہیں کہ وہ مطاع ہو سکے۔پس خوب یاد رکھو کہ یہاں ہدایت یافتہ یا گمراہ کا ذکر نہیں بلکہ قابل اطاعت کا ذکر ہے۔
چنانچہ فرمایا وَاِنۡ تُطِعۡ اَکۡثَرَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِاگر تم اَکۡثَرَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِکی اطاعت کرو گے تو وہ خدا تعالیٰ کی راہ سے تمہیں دور لے جائیں گے۔ ہرشخص جس کو عرفان یا علم نہیں وہ کیا بتائے گا۔ جو شخص ایک عالم باللہ کی موجودگی میں جب ایسے شخص سے فتویٰ پوچھے گا جو اہل نہیں تو قابل الزام ہوگا۔ اور اس کا نتیجہ گمراہی کے سوا کیا ہو گا۔
یہ بھی یاد رکھو کہ جس موقع پر یہ آیت ہے وہاں مشرکوں کا ذکر ہے۔ لیکن اگر مسلمانوں کا ذکر ہو تو وہ گمر اہ نہیں مگر اطاعت کے بھی قابل نہیں۔ ہاں وہ ساتھی ہیں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مطاع تھے باقی احمدی جس قدر تھے وہ باہم بھائی تھے۔ حضرت صاحبؑ کے مطاع اور ہمارے مطیع ہونے سے ہمارےگمراہ ہونے کا نتیجہ نہیں نکلتا۔ یا پھر باقیوں میں سے فتویٰ وغیرہ کے لحاظ سے اور مطاع تھے مثلاً حضرت مولوی عبد الکریم رضی اللہ عنہ۔ حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ مگر باوجود اس کے یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ باقی سب گمراہ تھے۔ کیونکہ وہ علم و عرفان ان میں نہ تھا۔ کیوں ؟
اکثر لوگ علم پڑھے ہوئے نہیں ہوتے اور پڑھے ہوئے بھی ہوں تو اس کے ساتھ تقویٰ اور عرفان ضروری چیز ہے۔ اس لیے ایسے لوگ جو پڑھے ہوئے نہ ہوں یا علم و عرفان نہ ہو وہ ظن کی پیروی کرتے ہیں۔ قیاس کرتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ وہ علم صحیح کی بناء پر تبیین نہیں کرسکتے۔ اور اس طرح پر حقیقی تشریح نہیں ہوتی۔ بہت لوگوں سے پوچھ کر دیکھ لو کہیں گے کہ میرے خیال میں یوں ہے۔ یہ نہیں کریں گے کہ قرآن مجید کی بینات کی بناء پر کہتے ہوں۔
علم اور عرفان کی کمی کی وجہ سے یہ بات ہوتی ہے۔ غرض جو علم وعرفان والا ہوا س کی اتباع کرو۔اس آیت میں مسلمانوں کو اسی بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ گمان کرنے والے اٹکل پچو باتیں بنانے والے نہ بنو واقفیت علم کی ان سے حاصل کرو جو علم و عرفان سے ماہر ہوں۔ اگر کوئی شخص کسی جاہل سے پوچھ کر عمل کرے تو اس کا یہ کہہ دینا کہ میں نے فلاں سے پوچھ لیا تھا حجت نہیں ہو گا۔ پس یا درکھو کہ قابل اطاعت قلیل ہی ہوتے ہیں خواہ بہ لحاظ مسائل اصولی کے خواہ بہ لحاظ مسائل تفصیلی کے۔
دیکھو اگر ایک جاہل زمیندار سے خدا تعالیٰ کے موجود ہونے اور اس کی ذات یا عرش کے متعلق سوال کرو۔وہ یونہی کچھ خیالات ظاہر کر دے اور تم یقین کر لو تو یقیناً اس کا نتیجہ گمرا ہی ہوگی۔ پس یہاں یہی تعلیم ہے کہ قابل اطاعت قلیل بلکہ اقل ہوتے ہیں۔ اگر یہ اصول قرار دیا جائے گا کہ اکثر حصہ گمراہ ہوتا ہے تو اس سے اسلام پر سخت حملہ ہو گا۔ اس لیے اس حقیقت پر غور کرو جو اس میں بیان کی گئی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ لاکھوں کی زبان پر یہ آیت جاری ہے مگرا س کے مضمون پر غورنہیں کیا گیا۔
اس لیے ہمیشہ اس اصول کو مضبوط پکڑے رکھو کہ جو شخص قرآن مجید، حدیث کا علم اور عرفان نہیں رکھتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام پر اس نے تفقہ نہیں کیا اس کا حق نہیں کہ وہ فتویٰ دے یہ ایک معنی اس آیت کے ہیں جن کو لوگوں نے نہیں سمجھا اللہ تعالیٰ ہم کو توفیق دے۔ آمین
(الفضل۱۶/۱۳ جولائی ۱۹۱۸ء)