متفرق شعراء
لوگوں میں مسکرا کے شفا بانٹتا رہا
(صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب کی وفات پر)
لوگوں میں مسکرا کے شفا بانٹتا رہا
وہ حبس میں بھی ٹھنڈی ہوا بانٹتا رہا
کرتا وہ سب کو حرف تسلی سے سرفراز
وہ سب میں حوصلے کے عصا بانٹتا رہا
سمجھا کسی مرض کو بھی اُس نے نہ لاعلاج
بےچینیوں میں حرفِ دعا بانٹتا رہا
مایوسیوں سے جنگ کی اُس نے تمام عمر
لوگوں میں شفقتوں کی ردا بانٹتا رہا
اپنے میں اور پرائے میں اس نے نہ کی تمیز
دورِ خزاں میں بادِ صبا بانٹتا رہا
ورثے میں اس کو دست سخی تھا ملا ہوا
جو کچھ بھی اس کے ہاتھ لگا بانٹتا رہا
بےچارگی کے مارے مریضوں کے درمیاں
خوشیوں کے گھر کا قدسی پتا بانٹتا رہا
(عبد الکریم قدسی۔ امریکہ)