بعض معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے کی نصیحت
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍مئی۲۰۰۶ء)
بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں سے کسی ناراضگی یا کسی غلط فہمی یا بدظنی کی وجہ سے اس حد تک اپنے دلوں میں کینے پالنے لگ جاتے ہیں کہ دوسرے شخص کا مقام اَوروں کی نظر میں گرانے کے لئے، معاشرے میں انہیں ذلیل کرنے کے لئے، رسوا کرنے کے لئے۔ ان کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرکے پھر اس کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں اور اس بات سے بھی دریغ نہیں کرتے کہ یہ من گھڑت اور جھوٹی باتیں مجھے پہنچائیں تاکہ اگر کوئی کارکن یا اچھا کام کرنے والا ہے تو اس کو میری نظروں میں گرا سکیں۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ بڑے اعتماد سے بعض لوگوں کے نام گواہوں کے طور پر بھی پیش کر دیتے ہیں اور جب ان گواہوں سے پوچھو، گواہی لو، تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ گواہ بیچارے کے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ کوئی ایسا واقعہ ہوا بھی ہے یا نہیں جس کی گواہی ڈلوانے کے لئے کوشش کی جا رہی ہے۔
اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ مجھے مجبور کیا جاتا ہے کہ مَیں ان جھوٹی باتوں پر یقین کرکے جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے ضرور اسے سزا بھی دوں۔ گویا یہ شکایت نہیں ہوتی ایک طرح کا حکم ہوتا ہے۔ بہت سی شکایات درست بھی ہوتی ہیں۔ لیکن اکثر جو ذاتی نوعیت کی شکایات ہوتی ہیں وہ اس بات پر زور دیتے ہوئے آتی ہیں کہ فلاں فلاں شخص مجرم ہے اور اس کو فوری پکڑیں۔ ان باتوں پرمَیں خود بھی کھٹکتا ہوں کہ یہ شکایت کرنے والے خود ہی کہیں غلطی کرنے والے تو نہیں، اس کے پیچھے دوسرے شخص کے خلاف کہیں حسد تو کام نہیں کر رہا۔ اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ حسد کی وجہ سے یہ کوشش کی جا رہی ہوتی ہے کہ دوسرے کو نقصان پہنچا یا جائے۔ یہ حسد بھی اکثر احساس کمتری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس خیال کے دل میں نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ خدا جھوٹے اور حاسد کی مدد نہیں کرتا۔ اور حسد کی وجہ سے یا بدظنی کی وجہ سے دوسرے پر الزام لگانے میں بعض لوگ اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اپنی عزت کا بھی خیال نہیں رکھتے۔ آج کل کے معاشرے میں یہ چیزیں عام ہیں اور خاص طور پر ہمارے برصغیر پاک و ہند کے معاشرے میں تو یہ اور بھی زیادہ عام چیز ہے۔ اور اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی بعض دفعہ ایسی گھٹیا سوچ رکھ رہے ہوتے ہیں اور دنیا میں یہ لوگ کہیں بھی چلے جائیں اپنے اس گندے کیریکٹر کی کبھی اصلاح نہیں کر سکتے یا کرنا نہیں چاہتے۔
اور آج کل کے اس معاشرے میں جبکہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے، غیروں سے گھلنے ملنے کی وجہ سے ان برائیوں میں جن کو ہمارے بڑوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ترک کیا تھا بعضوں کی اولادیں اس سے متاثر ہو رہی ہیں۔ ہمارے احمدی معاشرہ میں ہر سطح پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ احمدی نسل میں پاک اور صاف سوچ پیدا کی جائے۔ اس لئے ہر سطح پر جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کے نظام کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ خاص طور پر یہ برائیاں، حسد ہے، بدگمانی ہے، بدظنی ہے، دوسرے پر عیب لگانا ہے اور جھوٹ ہے اس برائی کو ختم کرنے کے لئے کوشش کی جائے، ایک مہم چلائی جائے۔
کچھ عرصہ ہوا ہربرائی کو لے کرمَیں نے ایک ایک خطبہ بڑی تفصیل سے اس بارے میں دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے اچھے نتائج بھی نکلے تھے لیکن انسان کی فطرت ہے کہ اگر بار بار یاددہانی نہ کرائی جائے تو بھول جاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں فَذَکِّرْکا حکم دیا ہے۔ اس یاددہانی سے جگالی کرنے کا بھی موقع ملتا رہتا ہے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو اگر اصلاح کے لئے ذرا سی توجہ دلا دی جائے تو اصلاح کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ان کو صرف ہلکی سی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہاں بعض ایسے بھی ہیں جو کوئی نصیحت سن کریا کوئی خطبہ سن کر جو کبھی مَیں نے کسی خاص موضوع پر دیا۔ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں نہیں بلکہ فلاں کے بارے میں ہے اور پھر بڑی ڈھٹائی سے خطبے کا حوالہ دے کر مجھے بھی لکھتے ہیں کہ آپ نے فلاں خطبہ دیا تھا اس کے حوالے سے مَیں آپ کو لکھ رہا ہوں کہ فلاں عہدیدار یا فلاں احمدی ان حرکتوں میں ملوث ہے، ان برائیوں میں گھرا ہوا ہے اس کی اصلاح کی طرف آپ توجہ دیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اگر تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ اس برائی میں وہ شکایت کنندہ خود گرفتار ہے۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ جب بھی کوئی نصیحت سنے یا خلیفہ وقت کی طرف سے کسی معاملے میں توجہ دلائی جائے تو سب سے پہلا مخاطب اپنے آپ کو سمجھے۔ اگر اپنی اصلاح کرنی چاہتے ہیں، اگر معاشرے سے گند ختم کرنا چاہتے ہیں، اگر خداتعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنا چاہتے ہیں تو یہ تمام برائیاں ایسی ہیں۔ ان کو اپنے دلوں سے نکالیں۔ اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ہمیں توجہ دلائی ہے۔ پس یہ اہم بیماریاں ہیں جو انسان کے اپنے اندر سے بھی روحانیت ختم کرتی ہیں اور پھر شیطانیت کی دلدل میں دھکیل دیتی ہیں اور معاشرے کا امن و سکون بھی برباد کرتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی پاکیزہ کتاب میں ان سے بچنے کی طرف توجہ دلائی ہے تاکہ ایک مومن ہر لمحہ پاکیزگی اور روحانیت میں ترقی کرتا چلا جائے۔
اس مقصد کے لئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تاکہ روحانیت میں ترقی کی طرف ہمیں لے کر چلیں اور ایک احمدی نے آپؑ سے عہد بیعت باندھا ہے۔ اگر اس عہد بیعت کے بعد بھی برائیوں میں مبتلا رہے اور معاشرے میں فتنہ و فساد پیدا کرتے رہے تو پھر اس عہد بیعت کا کیا فائدہ ہے۔ پس ہر ایک کو پہلے اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے، نیکی کے جو احکامات ہیں ان کی جگالی کرتے رہنا چاہئے اور جب اپنے آپ کو ہر طرح سے پاک و صاف پائیں تو پھر دوسرے پر الزام لگانا چاہئے۔
اب ان برائیوں کے بارے میں ذرا تفصیل سے کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے مَیں حسد کو لیتا ہوں۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح بھسم کر دیتا ہے جس طرح آگ ایندھن کو اور گھاس کو بھسم کر دیتی ہے۔(ابو داؤد کتاب الادب، باب فی الحسد حدیث نمبر 4903)
تو اگر انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو تو وہ یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتا کہ میرے اندر بڑی نیکی ہے اور یہ کہ یہ نیکی ہمیشہ میرے اندر قائم بھی رہنی ہے۔ پس اگر کسی سے کوئی نیکی کی بات ہوتی ہے تو اللہ کا خوف رکھنے والے اور حقیقت میں نیک بندے اس پر ہمیشہ قائم رہنے کی دعا کرتے ہیں۔ اور ہر احمدی کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے نیکیوں کو اپنے اندر قائم رکھنے کی کوشش کرے اور سب سے زیادہ جونیکیوں کو جلا کر خاک کرنے والی چیز ہے اس سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں اور جیسا کہ اس حدیث میں جو مَیں نے پڑھی ہےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ حسد ہے۔ پس اس حسد کی بیماری کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں۔ تمام زندگی کی نیکیاں حسد کے ایک عمل سے ضائع ہو سکتی ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مسلمان آگ میں داخل نہیں ہو گا جس نے کسی کافر کومارا ہو گا اور پھر میانہ روی اختیار کی ہو اور مومن کے پیٹ میں اللہ کی راہ میں پڑی ہوئی غبار اور جہنم کی پیپ دونوں جمع نہیں ہوں گے اور نہ کسی شخص میں ایمان اور حسد جمع ہو سکتا ہے۔ (سنن نسائی، کتاب الجہاد باب فضل من عمل فی سبیل اللہ علی قدمہ حدیث نمبر3109)
یعنی اس موجودہ زمانے کے لئے اصل میں بعد والی دونوں چیزیں ہیں۔ یعنی حسد کرنے والے کی حالت ایسی ہے جیسے جہنم کی پیپ پینے والے کی۔ اللہ تعالیٰ پر جو ایک مومن کا ایمان ہے، حسداس کو ضائع کرنے کا بھی باعث بنتا ہے۔ یا حسد کرنا جو ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جہنم میں لے جانے والی چیز ہے۔ پس یہ انتہائی خوف کا مقام ہے۔ یہ حسد کرنے والے دوسرے کوعارضی اور وقتی طور پر جو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اس کا تو مداوا ہو جاتا ہے لیکن یہ اس حسد کی وجہ سے اپنے ایمان کو ضائع کرکے پھر جہنم اپنے اوپر سہیٹر رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے کسی کی ترقی دیکھ کر، کسی کا خلافت کے ساتھ زیادہ قرب دیکھ کر، کسی پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش دیکھ کر حسد کرنے کی بجائے اس پر رشک کرنا چاہئے اور خودوہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔