سُود دینا اور لینا گناہ ہے
جو شخص اللہ تعالیٰ کے حکم کو توڑتا ہے اسے سزا ملتی ہے ۔خدا تعالیٰ نے پہلے سے فرما دیا کہ اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤگے تو لڑائی کا اعلان ہے ۔ خدا تعالیٰ کی لڑائی یہی ہے کہ ایسے لوگوں پر عذاب بھیجتا ہے… یاد رکھو جیسے اور گناہ ہیں مثلاً زنا، چوری ایسے ہی یہ سود دینا اور لینا ہے۔کس قدر نقصان دہ یہ بات ہے کہ مال بھی گیا،حیثیت بھی گئی اور ایمان بھی گیا۔ معمولی زندگی میں ایسا کوئی امر ہی نہیں کہ جس پر اتنا خرچ ہو جو انسان سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو… ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اسے حاجت ہی نہیں پڑتی۔مسلمان اگر اس ابتلاء میں ہیں تویہ ان کی اپنی ہی بد عملیوں کا نتیجہ ہے۔ ہندو اگر یہ گناہ کرتے ہیں تو مالدار ہو جاتے ہیں۔مسلمان یہ گناہ کرتے ہیں تو تباہ ہو جاتے ہیں۔خَسِرَ الدُّنْیآ وَالْآخِرَۃَ کے مصداق ہیں۔ پس کیا ضروری نہیں کہ مسلمان اس سے باز آ جائیں ؟
انسان کو چاہیے کہ اپنے معاش کے طریق میں پہلے ہی کفایت شعاری مد نظر رکھے تا کہ سودی قرضہ اُٹھانے کی نوبت نہ آئے جس سے سود اصل سے بڑھ جاتا ہے۔ابھی کل ایک شخص کا خط آیا تھا کہ ہزار روپیہ دے چکا ہوں۔ ابھی پانچ چھ سو باقی ہے۔ پھر مصیبت یہ ہے کہ عدالتیں بھی ڈگری دے دیتی ہیں۔ مگر اس میں عدالتوں کا کیا گناہ جب اس کا اقرار موجود ہے تو گویا اس کے یہ معنے ہیں کہ سود دینے پر راضی ہے۔ پس وہاں سے ڈگری جاری ہو جاتی ہے۔اس سے یہ بہتر تھا کہ مسلمان اتفاق کرتے اور کوئی فنڈ جمع کر کے تجارتی طور سے اُسے فروغ دیتے تا کہ کسی بھائی کو سود پر قرضہ لینے کی حاجت نہ ہوتی بلکہ اسی مجلس سے ہر صاحب ضرورت اپنی حاجت روائی کر لیتا اور میعاد مقررہ پر واپس دے دیتا۔
(ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۳۴۔۴۳۵،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)