خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 30؍جون 2023ء
اَللّٰھُمَّ اَنْجِزْ لِیْ مَا وَعَدْتَّنِیْ۔ اَللّٰھُمَّ اٰتِ مَا وَعَدْتَّنِیْ۔ اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَةَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْاَرْضِ
یعنی اے اللہ! جو تُو نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے اُسے پورا فرما۔ اے اللہ! جو تُو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ مجھے عطا فرما۔
اے اللہ! اگر تُو نے مسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک کر دیا تو زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی
یارسول اللہؐ! دشمن سامنے ہے کچھ خبر نہیں کہ یہاں سے بچ کر جانا ملتا ہے یا نہیں۔ مَیں نے چاہا کہ شہادت سے پہلے آپؐ کے جسم مبارک سے اپنا جسم چھوجاؤں: سواد بن غزیّہؓ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا عجیب اظہار
جنگ کے دوران بعض لوگوں کو قتل کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا بھی تھا
قدرتِ الٰہی کاعجیب تماشہ ہے کہ اس وقت لشکرکے کھڑے ہونے کی ترتیب ایسی تھی کہ اسلامی لشکر،قریش کو اصلی تعداد سے زیادہ بلکہ دوگنا نظرآتا تھا۔ جس کی وجہ سے کفار مرعوب ہوئے جاتے تھے اوردوسری طرف قریش کا لشکر مسلمانوں کو ان کی اصلی تعداد سے کم نظر آتا تھا۔ جس کے نتیجےمیں مسلمانوں کے دل بڑھے ہوئے تھے۔
جنگ بدر کی تیاری، صحابہ کرام ؓکی اپنے آقا ومطاع صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت نیز جنگِ بدر کے موقع پر نبی اکرمﷺ کی متضرعانہ دعاؤں کا بیان
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 30؍جون 2023ءبمطابق 30؍احسان 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
سواد بن غزیّہؓ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کے عجیب اظہار کا واقعہ
گذشتہ خطبہ میں بیان ہوا تھا۔ ان کے بارے میں مزید تفصیل اس طرح ہے کہ سواد بن غزیّہؓ اس جنگ میں فاتحانہ شان کے ساتھ لَوٹے اور مشرکین میں سے ایک شخص خالد بن ہشام کو قیدی بھی بنایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں ان کو جنگِ خیبر کے اموال جمع کرنے کے لیے عامل مقرر فرمایا تھا۔ بعض کے نزدیک مندرجہ بالا واقعہ حضرت سواد بن غزیہؓ کے علاوہ سواد بن عمرو ؓکی طرف منسوب ہے لیکن یہی لگتا ہے کہ واقعہ کوئی اَور ہے اور اکثر کتبِ تاریخ و سیرت میں یہ واقعہ سواد بن غزیہ کے نام سےہی بیان ہوا ہے۔
(اسد الغابہ جزء الثانی صفحہ 590 دار الکتب العلمیۃ بیروت )
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں اس واقعہ کے بارے میں جو تفصیل بیان فرمائی ہے وہ اس طرح ہے۔ لکھا ہے کہ ’’اب رمضان سنہ ۲ھ کی سترہ تاریخ اور جمعہ کا دن تھا اورعیسوی حساب سے ۱۴؍مارچ ۶۲۴ءتھی۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے نماز ادا کی گئی اور پرستارانِ احدیت کھلے میدان میں خدائے واحد کے حضور سربسجود ہوئے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد پرایک خطبہ فرمایا اور پھر جب ذرا روشنی ہوئی تو آپؐ نے ایک تیر کے اشارہ سے مسلمانوں کی صفوں کودرست کرنا شروع کیا۔ ایک صحابی سوادؓ نامی صف سے کچھ آگے نکلا کھڑا تھا۔ آپؐ نے اسے تیر کے اشارہ سے پیچھے ہٹنے کو کہا مگر اتفاق سے آپؐ کے تیر کی لکڑی اس کے سینہ پر جا لگی۔ اس نے جرأت کے انداز سے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہؐ! آپؐ کوخدا نے حق وانصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے مگر آپؐ نے مجھے ناحق تیر مارا ہے۔ واللہ! مَیں تو اس کا بدلہ لوں گا۔‘‘ صحابہؓ انگشت بدنداں تھے’’حیران پریشان تھے ‘‘کہ سوادؓ کوکیا ہوگیا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ ’’اچھا سواد تم بھی مجھے تیر مار لو۔‘‘ اور آپؐ نے اپنے سینہ سے کپڑا اٹھا دیا۔ سواد نے فرطِ محبت سے آگے بڑھ کر آپؐ کاسینہ چوم لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’سواد! یہ تمہیں کیا سوجھی۔‘‘ اس نے رِقّت بھری آواز میں عرض کیا۔
’’یارسول اللہؐ! دشمن سامنے ہے کچھ خبر نہیں کہ یہاں سے بچ کر جانا ملتا ہے یا نہیں۔ مَیں نے چاہا کہ شہادت سے پہلے آپؐ کے جسم مبارک سے اپنا جسم چھوجاؤں۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ357-358)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب اسی طرح کے واقعہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جنگِ بدر میں نہیں بلکہ وفات کے وقت کا واقعہ بیان فرمایا ہے جو اس سے ملتا جلتا ہے۔ فرمایا کہ ’’جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا: دیکھو! مَیں بھی انسان ہوں جیسے تم انسان ہو ممکن ہے مجھ سے تمہارے حقوق کے متعلق کبھی کوئی غلطی ہو گئی ہو اور میں نے تم میں سے کسی کو نقصان پہنچایا ہو اب بجائے اِس کے کہ میں خدا تعالیٰ کے سامنے ایسے رنگ میں پیش ہوں کہ تم مدعی بنو، مَیں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اگر تم میں سے کسی کو مجھ سے کوئی نقصان پہنچا ہو تو وہ اِسی دنیا میں مجھ سے اپنے نقصان کی تلافی کرا لے۔ صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عشق تھا اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن الفاظ سے ان کے دل پر کتنی چھریاں چلی ہوں گی اور کس طرح ان کے دل میں رقت طاری ہوئی ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ صحابہؓ پر رقت طاری ہو گئی۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور ان کے لئے بات کرنا مشکل ہو گیا۔ مگر ایک صحابیؓ اٹھے اور انہوں نے کہا۔ یارسول اللہؐ! جب آپؐ نے کہا ہے کہ اگر کسی کو مَیں نے کوئی نقصان پہنچایا ہو تو وہ مجھ سے اِس کا بدلہ لے لے تو مَیں آپؐ سے ایک بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ جلدی بتاؤ تمہیں مجھ سے کیا نقصان پہنچا ہے۔ وہ صحابیؓ کہنے لگے یار سول اللہؐ! فلاں جنگ کے موقع پر آپؐ صفیں درست کروا رہے تھے کہ ایک صف سے گزر کر آپؐ کو آگے جانے کی ضرورت پیش آئی۔ آپؐ جس وقت صف کو چیر کر آگے گئے تو آپؐ کی کہنی میری پیٹھ پر لگ گئی آج مَیں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ صحابہؓ بیان کرتے ہیں اس وقت غصہ میں ہماری تلواریں میانوں سے باہر نکل رہی تھیں اور ہماری آنکھوں سے خون ٹپکنے لگا۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہمارے سامنے موجود نہ ہوتے تو یقیناً ہم اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے۔مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیٹھ اس کی طرف موڑ دی اور فرمایاکہ لو! اپنا بدلہ لے لو اور مجھے بھی اسی طرح کہنی مار لو۔ اس آدمی نے کہا۔ یار سول اللہؐ! ابھی نہیں۔ جب آپؐ کی کہنی مجھے لگی تھی اس وقت میری پیٹھ ننگی تھی اور آپؐ کی پیٹھ پر کپڑا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا۔ میری پیٹھ پر سے کپڑا اٹھا دو کہ یہ شخص اپنا بدلہ مجھ سے لے لے۔ جب صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر سے کپڑا اٹھا دیا تو وہ صحابی ؓکانپتے ہونٹوں اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ آگے بڑھا اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ننگی پیٹھ پر محبت سے ایک بوسہ دیا اور کہا۔
یار سول اللہؐ ! کجا بدلہ اور کجا یہ ناچیز غلام!
جس وقت حضورؐ سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ شاید وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جس کے تصور سے بھی ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تو مَیں نے چاہا کہ میرے ہونٹ ایک دفعہ اس بابرکت جسم کو مَس کر لیں جسے خدا نے تمام برکتوں کا مجموعہ بنایا ہے۔ پس مَیں نے اِس کہنی لگنے کو اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کا ایک بہانہ بنایا اور مَیں نے چاہا کہ آخری دفعہ آپؐ کابوسہ تو لے لوں۔ یار سول اللہؐ! کہنی لگنا کیا چیز ہے۔ ہماری تو ہر چیز آپؐ کے لئے قربان ہے۔ میرے نفس نے تو یہ ایک بہانہ بنایا تھا تا کہ آپؐ کا بوسہ لینے کا موقع مل جائے۔ وہ صحابہؓ جو اس شخص کو قتل کرنے پر آمادہ ہو رہے تھے۔‘‘ اس کی یہ بات سن کے اس وقت بڑے غصہ میں تھے۔ ’’جب انہوں نے یہ نظارہ دیکھا‘‘ کہ یہاں تو اس کے دل میں کچھ اَور ہی بات ہے ’’تو وہ کہتے ہیں پھرہم میں سے ہر شخص کو اپنے آپ پر غصہ آنے لگا کہ ہمیں کیوں نہ یہ موقع ملا کہ ہم اپنے پیارے کا بوسہ لے لیتے۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہ وہ شخص تھا جو ہمارا ہادی اور راہنما تھا‘‘ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ’’جس نے اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارے لئے وہ نمونہ دکھایا جس کی مثال اَور کسی نبی میں نہیں مل سکتی۔‘‘
(اسوۂ حسنہ، انوار العلوم جلد 17 صفحہ 128تا 130)
جنگِ بدر میں صحابہ ؓکا شعار یعنی نشان یا نعرہ
کیا تھا؟ اس بارے میں آتا ہے کہ حضرت عُروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ جنگ والے دن مہاجرین کا شعار یَا بَنِیْ عَبْدِالرَّحْمٰن تھا اور قبیلہ خزرج کا شعار یَا بَنِیْ عَبْدِ اللّٰہ تھا اور قبیلہ اوس کا شعار یَا بَنِیْ عُبَیْدِ اللّٰہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھڑسواروں کو خَیْل اللّٰہ کا نام دیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس روز سب کا شعار یَامَنْصُوْرُ اَمِتْ تھا یعنی اے منصور! مار دو۔
(سبل الھدیٰ والرشاد باب غزوۃ بدرالکبریٰ، جلد 4 صفحہ 44، دارالکتب العلمیۃ بیروت،1993ء)
ایک روایت میں ہے کہ غزوۂ بدر میں انصار مدینہ کا شعار یا جیساکہ مَیں نے بیان کیا ہے نشان یا نعرہ اَحَد اَحَد تھا جو اس لیے متعین کیا گیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں یابےحد گھمسان کی لڑائی میں اس نعرے سے پہچانا جا سکے کہ یہ انصاری ہیں۔ اسی طرح مہاجرین مسلمانوں کا شعار یا نعرہ یَا بَنِیْ عَبْدِالرَّحْمٰن تھا۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 242۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ کے متعلق ہدایات
جو تھیں ان کی مزید تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کو سیدھا کر لیا تو صحابہؓ سے فرمایا جب تک مَیں تمہیں حکم نہ دوں تم حملہ نہ کرنا اور اگر دشمن تم سے قریب آجائے تو ان کو تیر اندازی کر کے پیچھے دھکیلنا کیونکہ فاصلے سے تیر اندازی اکثر اوقات بیکار ثابت ہوتی ہے اور تیر ضائع ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح تلواریں بھی اس وقت تک نہ سونتنا جب تک دشمن بالکل قریب نہ آ جائے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خطبےکا ذکر
آتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کے سامنے خطبہ دیا جس میں جہاد کی ترغیب دی اور صبر کی تلقین فرمائی۔ نیز فرمایا مصیبت کے وقت صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ پریشانیاں دُور فرماتا ہے اور غموں سے نجات عطا فرماتا ہے۔
(السیرۃ الحلبیہ ،باب ذکر مغازیہﷺ ، جلد 2صفحہ221، دارالکتب العلمیۃ، 2002ء)
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 32 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ایک جگہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جو خطبہ ہے اس کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا مَیں تمہیں اس بات پر اُبھارتا ہوں جس پر اللہ نے اُبھارا ہے اور اس چیز سے تمہیں منع کرتا ہوں جس سے اس نے تمہیں منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو بزرگ و برتر ہے وہ تمہیں حق کا حکم دیتا ہے وہ سچائی کو پسند کرتا ہے وہ نیکوکاروں کو بلند مقامات عطا فرماتا ہے جو اس کے ہاں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ان کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور آج تم حق کی منازل میں سے ایک منزل پر ہو۔ اس میں اللہ تعالیٰ وہی قبول کرتا ہے جو اس کی رضا کے لیے کیا جاتا ہے۔ سختی کے مقامات میں صبر ایسی چیز ہے جس سے اللہ غم کو دُور کر دیتا ہے دکھ سے نجات دیتا ہے۔ آخرت میں اس کے ساتھ نجات پاؤ گے، اس کے ساتھ یعنی صبر دکھانے کے ذریعہ نجات پاؤ گے۔ تم میں اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے۔ وہ تمہیں ڈراتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ آج اللہ سے حیا کرو کہ وہ تمہارے معاملے میں کسی ایسی چیز سے آگاہ ہو جو اس کی ناراضگی کا سبب بنے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمَقْتُ اللّٰهِ اَكْبَرُ مِنْ مَقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ(المؤمن:11)۔ اللہ کی ناراضگی تمہاری آپس کی ناراضگیوں کے مقابلے پر زیادہ بڑی تھی۔ اس چیز کی طرف دیکھو جس کا اس نے تمہیں کتاب میں حکم دیا ہے اور اس نے تمہیں اپنے نشانات دکھائے اور ذلت کے بعد تمہیں عزت بخشی ہے۔ اللہ کا دامن مضبوطی سے تھام لو کہ وہ تم سے راضی ہو جائے۔ اس جگہ تم اپنے رب کی آزمائش پر پورا اترو۔ تم اس کی رحمت اور مغفرت کے مستحق ہو جاؤ گے جس کا اس نے تم سے وعدہ کیا ہے۔ اس کا وعدہ حق ہے اس کی بات سچ ہے اس کی سزا شدید ہے۔ مَیں اور تم لوگ اللہ کے ساتھ ہیں جو حیّ و قیوم ہے۔ ہم اس سے اپنی فتح کے لیے دعا کرتے ہیں، اس کا دامن تھامتے ہیں، اسی پر توکّل کرتے ہیں، اسی کی طرف لَوٹ کر جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور مسلمانوں کو بخش دے۔ (سبل الھدیٰ والرشاد باب غزوۃ بدرالکبریٰ، جلد 4 صفحہ 34، دارالکتب العلمیۃ بیروت،1993ء)یہ اس کی تفصیل تھی۔
جنگ کے دوران بعض لوگوں کو قتل کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا بھی تھا
اس بارے میں آتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے دن اپنے اصحابؓ سے فرمایا تھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ بنو ہاشم اور کچھ دوسرے لوگ قریش کے ساتھ مجبوراً آئے ہیں۔ خوشی سے نہیں آئے۔ وہ ہم سے لڑنا نہیں چاہتے۔ پس تم میں سے جو کوئی بنو ہاشم کے کسی آدمی سے ملے تو وہ اس کو قتل نہ کرے اور جو ابوالبختری سے ملے وہ اس کو قتل نہ کرے اور جو عباس بن عبدالمطلب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں ان سے ملے تو وہ ان کو بھی قتل نہ کرے کیونکہ یہ لوگ مجبوراً قریش کے ساتھ آئے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہؓ نے کہا کہ ہم اپنے باپوں، بیٹوں، بھائیوں اور رشتہ داروں کو تو قتل کریں اور عباس کو چھوڑ دیں۔ اللہ کی قسم! اگر مَیں اسے یعنی عباس کو ملا تو مَیں تلوار سے ضرور اسے قتل کر دوں گا۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپؐ نے حضرت عمر بن خطابؓ سے فرمایا۔ اے ابوحفص۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! یہ پہلا دن تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ابوحفص کی کنیت سے مخاطب فرمایا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا رسول اللہؐ کے چچا پر تلوار ماری جائے گی؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مجھے اجازت دیں کہ مَیں تلوار سے اس کی یعنی ابوحذیفہ کی گردن اڑا دوںجنہوں نے منافقت دکھائی ہے۔ عرض کیا کہ اللہ کی قسم! اس نے یعنی ابوحذیفہ نے منافقت دکھائی ہے۔ حضرت ابوحذیفہ بعد میں کہا کرتے تھے کہ میں اس کلمے کی وجہ سے جو مَیں نے اس دن کہا تھا چین میں نہیں رہا اور ہمیشہ اس سے ڈرتا رہا سوائے اس کے کہ شہادت میری اس بات کا کفارہ کر دے۔ چنانچہ حضرت ابوحذیفہؓ جنگِ یمامہ کے دن شہید ہو گئے۔
(سیرت ابن ہشام صفحہ 429 باب غزوہ بدر مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
اس کی تفصیل کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے مخاطب ہو کر یہ بھی فرمایا کہ لشکر کفار میں بعض ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے دل کی خوشی سے اس مہم میں شامل نہیں ہوئے بلکہ رؤسائے قریش کے دباؤ کی وجہ سے شامل ہوگئے ہیں۔ ورنہ وہ دل میں ہمارے مخالف نہیں۔ اسی طرح بعض ایسے لوگ بھی اس لشکر میں شامل ہیں جنہوں نے مکہ میں ہماری مصیبت کے وقت میں ہم سے شریفانہ سلوک کیا تھا اورہمارا فرض ہے کہ ان کے احسان کا بدلہ اتاریں۔‘‘ ان کی اس شرافت کی وجہ سے جو مکہ میں مسلمانوں سےکرتے رہے۔ ’’پس اگر کسی ایسے شخص پر کوئی مسلمان غلبہ پائے تو اسے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائے۔ اور آپؐ نے خصوصیت کے ساتھ قسم اوّل میں عباس بن عبدالمطلب اور قسم ثانی میں ابوالبختری کانام لیا اوران کے قتل سے منع فرمایا۔‘‘ کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کی تکلیف دُور کرنے کی کوشش کرتے تھے اس لیے منع فرمایا۔ ’’مگر حالات نے کچھ ایسی ناگریز صورت اختیار کی کہ ابوالبختری قتل سے بچ نہ سکا گو اسے مرنے سے قبل اس بات کاعلم ہوگیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل سے منع فرمایا ہے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 360-361)
تاریخ میں آتا ہے کہ اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سائبان میں جاکر جو جگہ آپؐ کے لیے بنائی گئی تھی اس میں پھردعا میں مشغول ہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی ساتھ تھے اورسائبان کے ارد گرد انصار کی ایک جماعت حضرت سعدبن معاذؓ کی زیرکمان پہرے پر متعین تھی۔
(ماخوذازالسیرۃ الحلبیہ ،باب ذکر مغازیہﷺ ، جلد 2صفحہ221، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپؐ بدر کے دن ایک بڑے خیمہ میں تھے کہ اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اَللّٰهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ۔کہ اے میرے اللہ! مَیں تجھے تیرے ہی عہد اور تیرے ہی وعدے کی قسم دیتا ہوں۔ اے میرے رب! اگر تُو ہی مسلمانوں کی تباہی چاہتا ہے تو آج کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔
اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! بس کیجئے۔ آپؐ نے اپنے رب سے دعا مانگنے میں بہت اصرار کر لیا ہے اور آپؐ زرہ پہنے ہوئے تھے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہنے ہوئے تھے۔
آپؐ خیمے سے نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پڑھ رہے تھے۔ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ(القمر:46-47) عنقریب یہ سب کے سب شکست کھا جائیں گے اور پیٹھ پھیر دیں گے اور یہی وہ گھڑی ہے جس سے ڈرائے گئے تھے اور یہ گھڑی نہایت سخت اور نہایت تلخ ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الجہاد و السیر، باب ما قیل فی درع النبیﷺ و القمیص فی الحرب حدیث :2915)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے مجھ سے بدر والے دن بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپؐ کے صحابہؓ تین سو انیس تھے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلے کی طرف منہ کیا پھر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور اپنے رب کو بلند آواز سے پکارتے رہے۔
اَللّٰھُمَّ اَنْجِزْ لِیْ مَا وَعَدْتَّنِیْ۔ اَللّٰھُمَّ اٰتِ مَا وَعَدْتَّنِیْ۔ اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَةَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْاَرْضِ۔یعنی اے اللہ! جو تُو نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما۔ اے اللہ! جو تُو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ مجھے عطا فرما۔ اے اللہ! اگر تُو نے مسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک کر دیا تو زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔
قبلہ کی طرف منہ کیے دونوں ہاتھ پھیلائے آپ مسلسل اپنے رب کو بلند آواز سے پکارتے رہے یہاں تک کہ آپؐ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گئی۔ حضرت ابوبکرؓ آپؐ کے پاس آئے اور آپ کی چادر اٹھائی اور آپؐ کے کندھوں پر ڈال دی۔ پھر آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے سے چمٹ گئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبیؐ!آپ کی اپنے رب کے حضور الحاح سے بھری ہوئی دعا آپؐ کے لیے کافی ہے۔ وہ آپؐ سے کیے گئے وعدے ضرور پورے فرمائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ (الانفال: 10) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اس نے تمہاری التجا کو قبول کر لیا اس وعدے کے ساتھ کہ مَیں ضرور ایک ہزار قطار در قطار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔ پس اللہ نے ملائکہ کے ذریعےآپؐ کی مدد فرمائی۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب الجہاد و السیر، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر و اباحۃ الغنائم حدیث نمبر 4588)
اس واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی کتاب میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ پھر ’’آپؐ سائبان میں جاکر دعا میں مشغول ہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی ساتھ تھے اور سائبان کے ارد گرد انصار کی ایک جماعت سعد بن معاذ ؓکی زیر کمان پہرہ پر متعین تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میدان میں سے ایک شور بلند ہوا اور معلوم ہوا کہ قریش کے لشکر نے عام حملہ کردیا ہے۔ اس وقت آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نہایت رقت کی حالت میں خدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے دعائیں کررہے تھے اورنہایت اضطراب کی حالت میں فرماتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَنْشُدُکَ عَھْدَکَ وَ وَعْدَکَ۔ اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْاَرْضِ۔اے میرے خدا! اپنے وعدوں کو پورا کر۔ اے میرے مالک! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج اس میدان میں ہلاک ہو گئی تودنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘ اور اس وقت آپؐ اس قدر کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپؐ سجدہ میں گرجاتے تھے اور کبھی کھڑے ہو کر خدا کو پکارتے تھے اور آپؐ کی چادر آپؐ کے کندھوں سے گر گر پڑتی تھی اور حضرت ابوبکرؓ اسے اٹھا اٹھا کر آپؐ پر ڈال دیتے تھے۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ مجھے لڑتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخیال آتا تھا تو مَیں آپؐ کے سائبان کی طرف بھاگا جاتا لیکن جب بھی مَیں گیامَیں نے آپؐ کو سجدہ میں گڑگڑاتے ہوئے پایا۔ اور مَیں نے سنا کہ آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ یَا حَیُّ یَاقَیَّوْمُ یَا حَیُّ یَاقَیُّوْمُ۔ یعنی ’’اے میرے زندہ خدا! اے میرے زندگی بخش آقا!‘‘ حضرت ابوبکر آپؐ کی اس حالت کودیکھ کر بے چین ہوئے جاتے تھے اورکبھی کبھی بے ساختہ عرض کرتے تھے ’’یارسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ آپؐ گھبرائیں نہیں۔ اللہ اپنے وعدے ضرور پورے کرے گا مگراس سچے مقولہ کے مطابق‘‘ فارسی کا مقولہ ہے ’’کہ ہرکہ عارف تر است ترساں تر۔‘‘ یعنی ہر کوئی جو جتنی معرفت رکھتا ہے اتنا ہی وہ ڈرتا بھی ہے۔ ’’آپؐ برابر دعا اور گریہ وزاری میں مصروف رہے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 361)
توکّل کیا ہے؟
اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے یہ واقعہ بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقام پر صحابہؓ کی ایک ترتیب قائم کی۔ ان کو اپنی اپنی جگہوں پر کھڑا کیا۔ انہیں نصیحتیں کیں کہ یوں لڑنا ہے اور اس کے بعد ایک عرشہ پر بیٹھ کر دعائیں کرنے لگ گئے۔ یہ نہیں کیا کہ صحابہؓ کو مدینہ میں چھوڑ جاتے اور آپ اکیلے وہاں بیٹھ کر دعائیں کرنے لگ جاتے۔ بلکہ پہلے آپؐ صحابہؓ کو لے کر مقامِ جنگ پر پہنچے پھر ان کو ترتیب دی اور ان کو نصیحتیں فرمائیں۔ اس کے بعد عرشہ پر بیٹھ گئے اور دعائیں کرنی شروع کر دیں۔ یہ توکل ہے جو اختیار کرنا چاہئے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ541)
یعنی اسباب کا بھی استعمال ہو، انسان جو کچھ اپنی کوشش سے کر سکتا ہے وہ کرے اور پھر دعاؤں میں لگ جائے۔ اس کو توکّل کہتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف میں بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں پر فتح پانے کا وعدہ دیا گیا تھا مگر جب بدر کی لڑائی شروع ہوئی جو اسلام کی پہلی لڑائی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رونا اور دعا کرنا شروع کیا اور دعا کرتے کرتے یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے اَللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ أَبَدًا۔ یعنی اے میرے خدا! اگر آج تُو نے اس جماعت کو (جو صرف تین سو تیرہ آدمی تھے) ہلاک کر دیا تو پھر قیامت تک کوئی تیری بندگی نہیں کرے گا۔ ان الفاظ کو جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے سنا تو عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اس قدر بےقرار کیوں ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے تو آپ کو پختہ وعدہ دے رکھا ہے کہ مَیں فتح دوں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ سچ ہے مگر اس کی بے نیازی پر میری نظر ہے یعنی کسی وعدہ کا پورا کرنا خدا تعالیٰ پر حق واجب نہیں ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 255-256)
اللہ تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے
اس لیے ہمیں ہر دفعہ، ہر وقت خوفزدہ رہنا چاہیے، فکر مند رہنا چاہیے۔
جب آپؐ سائبان میں دعا کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اونگھ طاری ہوئی پھر یکایک بیدار ہوئے اور فرمایا اے ابوبکر! خوش ہو جاؤ تمہارے پروردگار کی مدد آ گئی ہے۔ یہ دیکھو! جبرئیل اپنے گھوڑے کی باگ تھامے اسے چلاتے آ رہے ہیں اس کے پاؤں پر غبار کے نشان ہیں۔(سیرت ابن ہشام صفحہ 428۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)سیرت ابن ہشام کی یہ روایت ہے۔
پھر ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر! تمہیں بشارت ہو یہ جبرئیل ہیں جو زرد عمامہ پہنے ہوئے ہیں وہ زمین اور آسمان کے مابین اپنے گھوڑوں کی لگام تھامے ہوئے ہیں۔ جب وہ زمین پر اترے تو کچھ دیر کے لیے مجھ سے غائب ہوئے پھر نمودار ہوئے۔ ان کے گھوڑے کے پاؤں غبار آلود تھے وہ کہہ رہے تھے کہ جب آپؐ نے دعا مانگی ہے تو اللہ کی نصرت آپؐ کے پاس آ گئی ہے۔
(سبل الھدی و الرشاد جلد 4 صفحہ 37 ذکر غزوۃ بدر الکبریٰ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
جنگِ بدر میں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شمولیت، جنگ میں ذاتی طور پر شمولیت کے بارے میں
لکھا ہے کہ میدانِ بدر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر بن عوام ؓکو میمنہ پر مقرر کیا۔ مقداد بن عمرو ؓکو میسرہ پر اور قیس بن ابی صَعْصَہْؓکو سَاقہ یعنی پیادہ فوج پر مقرر کیا۔ لشکر کی بالعموم قیادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگلی صفوں میں تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہؓ کو اپنی ہدایات کا پابند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک پیش قدمی نہ کرے جب تک مَیں اس کے آگے نہ ہوں۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلحہ کے بامقصد استعمال کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا جب دشمن تمہاری پہنچ میں آ جائے تو تیر چلانا اور تیروں کو حتی الامکان بچا کر رکھنا۔
یہ جو بیٹھ کے دعا کرنے کا سارا قصہ بیان ہو اہے یہ اس پوری جنگ شروع ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے کیونکہ وہ لکھا اس طرح گیا ہے اس لیے سمجھا جاسکتا ہے کہ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں شامل نہیں ہوئے۔ آپؐ شامل تھے لیکن یہ دعا اس سے پہلے آپؐ نے کی جس کے نتیجے میں فرشتوں کی مدد بھی اللہ تعالیٰ نے بھیجی۔ بہرحال بدر کے میدانِ کارزار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی شرکت کے بارے میں حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم بدر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے قریب تر تھے۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب مجاہدین سے زیادہ سخت جنگ کرنے والے تھے۔
(ماخوذ از دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 6صفحہ 174 و 201بزم اقبال لاہور ، اپریل 2022ء)
میدانِِ جنگ میں لشکر قریش کی آمد اور ان کی آپس میں تکرار
جو ہوئی، اختلافات جو ہوئے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ جب قریش میدان بدر میں اترے تو انہوں نے عُمَیر بن وَہْب کو بھیجا کہ جاؤ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنے جنگجو ہیں؟ تو عُمیر نے اپنے گھوڑے کو لشکر اسلام کے گرد دوڑایا اور پھر قریش مکہ کے پاس آ کر کہا کہ میرے نزدیک تو یہ لوگ تین سو کے اندازے میں کچھ کم یا زیادہ ہوں گے۔ پھر یہ دوبارہ دیکھنے کی غرض سے لوٹا کہ کہیں لشکر اسلام کی مدد کے لیے کوئی پوشیدہ کمین گاہ تو نہیں۔ عمیر بن وہب اپنے گھوڑے کو دوڑا کر بہت دُور تک نکل گیا وہاں سے واپس آ کر کہا کہ ان کی مدد تو معلوم نہیں ہوتی مگر اے قریش! مَیں نے دیکھا ہے کہ تم پر بلائیں موت کو لے کر نازل ہو رہی ہیں۔ مَیں نے ایسی اونٹنیاں دیکھی ہیں جو موتوں کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ یثرب کے اونٹ یقینی موت اٹھائے ہوئے ہیں وہ ایسی قوم ہیں جن کے پاس دفاع کا کوئی سامان نہیں اور ان کے پاس تلواروں کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں۔ ان میں سے کوئی قتل نہ کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ ہم میں سے ایک ایک آدمی کو قتل کر لے۔ اگر انہوں نے اپنی گنتی کے مطابق ہمارے آدمیوں کو قتل کر ڈالا تو اس کے بعد زندگی میں کیا لطف رہے گا۔ اب جو تم مناسب سمجھو کرو۔ اس نے سارا جائزہ لے کے اپنا ایک خیال پیش کیا۔
حکیم بن حزام یہ باتیں سن کر عتبہ بن ربیعہ کے پاس آیا اور اسے کہا کہ تو قریش میں برگزیدہ اور سردار ہے۔ لہٰذا لوگوں کو واپس لے جاؤ اور عمرو بن حضرمی کا خون بہا ادا کر دو۔ عتبہ نے کہا مجھے منظور ہے۔ پس تم ابن حَنْظَلِیَّہْیعنی ابوجہل، ابوجہل کی والدہ کا نام حَنْظَلِیَّہْ تھا، اُس کے پاس جاؤ۔ چنانچہ حکیم بن حزام اس مقصد کے لیے ابوجہل کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے عتبہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ وہ دیت ادا کر دے گا تم قریش کو واپس لے چلو۔ ابوجہل کہنے لگا کہ عتبہ نے جب سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے وہ ڈر گیا ہے اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے لگا ہے۔ ہرگز نہیں۔
بخدا! ہم نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان فیصلہ کر دے۔
ابوجہل نے یہ بھی کہا کہ عتبہ اس لیے ہمیں جنگ سے روک رہا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ مسلمان ہمارے لیے اونٹ کے ایک نوالے کی طرح ہیں یعنی بہت ہی آسانی سے ہم انہیں قتل کر دیں گے اور ان مسلمانوں میں عتبہ کا بیٹا بھی ہے۔ عتبہ کا بیٹا مسلمان ہو گیا تھا۔ شاید اپنے بیٹے کی وجہ سے یہ جنگ نہیں کرنا چاہتا۔ عتبہ کے یہ بیٹے حضرت ابوحذیفہؓ تھے جو مسلمانوں کی طرف سے میدانِ بدر میں موجود تھے۔ جب عتبہ کو ابوجہل کی طرف سے بزدلی کے اس طعنے کی خبر پہنچی تو اس نے کہا اس بزدل یعنی ابوجہل کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ کون بزدل ہے اور ڈرا ہوا ہے۔
(ماخوذ از سیرت ابن ہشام صفحہ 424 تا 426۔ دار الکتب العلمیۃ۔ الطبعۃ الاولیٰ 2001ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اب فوجیں بالکل ایک دوسرے کے سامنے تھیں۔ پہلے جنگ کی حالت میں فوجیں اکٹھی ہو رہی تھیں اور وزنی فوج تھی کافروں کی، اس وقت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعاؤں میں تھے۔ جب فوجیں سامنے آگئیں، جنگ شروع ہونے لگی تھی اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی میدانِ جنگ میں تھے۔ فرمایا
اب فوجیں بالکل ایک دوسرے کے سامنے تھیں مگر قدرتِ الٰہی کاعجیب تماشہ ہے کہ اس وقت لشکرکے کھڑے ہونے کی ترتیب ایسی تھی کہاسلامی لشکر قریش کو اصلی تعداد سے زیادہ بلکہ دوگنا نظرآتا تھا۔ جس کی وجہ سے کفار مرعوب ہوئے جاتے تھے اوردوسری طرف قریش کا لشکر مسلمانوں کو ان کی اصلی تعداد سے کم نظر آتا تھا۔ جس کے نتیجےمیں مسلمانوں کے دل بڑھے ہوئے تھے۔
قریش کی یہ کوشش تھی کہ کسی طرح اسلامی لشکر کی تعداد کا صحیح اندازہ یا پتہ لگ جاوے تاکہ وہ چھوٹے ہوئے دلوں کو سہارا دے سکیں۔ جو دل ڈرے ہوئے تھے ان کو سہارا دے سکیں۔ اس کے لیے رؤسائے قریش نے عُمَیر بن وَہْب کو بھیجا کہ اسلامی لشکر کے چاروں طرف گھوڑا دوڑا کردیکھے کہ اس کی تعداد کتنی ہے اورآیا ان کے پیچھے کوئی کمک تو مخفی نہیں؟ چنانچہ عمیر نے گھوڑے پر سوار ہوکر مسلمانوں کاایک چکر کاٹا مگر اسے مسلمانوں کی شکل وصورت سے ایسا جلال اور عزم اور موت سے ایسی بے پروائی نظر آئی کہ وہ سخت مرعوب ہو کر لوٹا اور قریش سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ مجھے کوئی مخفی کمک وغیرہ تو نہیں نظر آئی لیکن اے معشر قریش! یعنی قریش کی جماعت مَیں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں گویا اونٹنیوں کے کجاووں نے اپنے اوپر آدمیوں کونہیں بلکہ موتوں کواٹھایا ہوا ہے اوریثرب کی سانڈنیوں پرگویا ہلاکتیں سوار ہیں۔ قریش نے جب یہ بات سنی توان میں ایک بے چینی سی پیدا ہو گئی۔
سراقہ جو ان کا ضامن بن کر آیا تھا کچھ ایسا مرعوب ہواکہ الٹے پاؤں بھاگ گیا اور جب لوگوں نے اسے روکا تو کہنے لگا کہ مجھے جو کچھ نظر آرہا ہے وہ تم نہیں دیکھتے۔
حکیم بن حِزام نے عُمَیر کی رائے سنی تو گھبرایا ہوا عتبہ بن ربیعہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے عتبہ !تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے آخر عَمْرو حَضْرمیکا بدلہ ہی لیناچاہتے ہو۔ وہ تمہارا حلیف تھا۔کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم اس کی طرف سے خون بہا ادا کر دو اور قریش کو لے کر واپس لوٹ جاؤ۔ اس میں ہمیشہ کے لیے تمہاری نیک نامی رہے گی۔ عتبہ جو خود گھبرایا ہوا تھا، اس کواَور کیا چاہیے تھا۔ جھٹ بولاکہ ہاں ہاں یہی ٹھیک ہے۔ میں راضی ہوں اور پھر وہ حکیم بن حزام کو کہنے لگا کہ دیکھو یہ مسلمان اور ہم آخر آپس میں رشتے دار ہی تو ہیں۔ کیا یہ اچھا لگتا ہے کہ بھائی بھائی پرتلوار اٹھائے اورباپ بیٹے پر۔ تم ایسا کرو کہ ابھی ابوالحکم یعنی ابوجہل کے پاس جاؤ اوراس کے سامنے یہ تجویز پیش کرو اورادھر عتبہ نے خود اونٹ پر سوار ہوکر اپنی طرف سے لوگوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ رشتہ داروں میں لڑائی ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں واپس لوٹ جانا چاہیے اور محمدکو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ دوسرے قبائل عرب کے ساتھ نپٹتا رہے جو نتیجہ ہوگا دیکھا جائے گا۔ اور پھر تم دیکھو کہ ان مسلمانوں کے ساتھ لڑنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ خواہ تم مجھے بزدل کہو حالانکہ میں بزدل نہیں ہوں۔ مجھے تو یہ لوگ موت کے خریدار نظر آتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دُور سے عتبہ کو دیکھا تو فرمایا:
اگر لشکرکفارمیں سے کسی میں شرافت ہے تو اس سرخ اونٹ کے سوار میں ضرور ہے۔ اگر یہ لوگ اس کی بات مان لیں توان کے لیے اچھا ہو
لیکن جب حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس آیا اوراس سے یہ تجویزبیان کی تو وہ فرعونِ امّت بھلا ایسی باتوں میں کب آنے والا تھا چھٹتے ہی بولا۔ اچھا اچھا اب عتبہ کواپنے سامنے اپنے رشتے دار نظر آنے لگ گئے ہیں۔ اور پھر اس نے عمروحضرمی کے بھائی عامر حضرمی کوبلاکر کہا کہ تم نے سنا تمہارا حلیف عتبہ کیا کہتا ہے اوروہ بھی اس وقت جبکہ تمہارے بھائی کا بدلہ گویا ہاتھ میں آیا ہوا ہے۔ عامر کی آنکھوں میں خون اتر آیا اوراس نے عرب کے قدیم دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ کر اور ننگا ہوکر چلانا شروع کیا وَاعَمْرَاہُ! وَاعَمْرَاہُ! کہ ہائے افسوس! میرا بھائی بغیر انتقام کے رہا جاتا ہے۔ ہائے افسوس! میرا بھائی بغیر انتقام کے رہا جاتا ہے۔ اس صحرائی آواز نے لشکر قریش کے سینوں میں عداوت کے شعلے بلند کردیے اور پھر جنگ کی بھٹی اپنے پورے زورسے دہکنے لگ گئی۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 358تا 360)
اور پھر اس کے بعد جب جنگ شروع ہوئی ہے تو اس کی باقی تفصیل جو ہے وہ ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گی۔