بشپ کانفرنس اور اعتراف شکست
کالم نویسی میں بعض اوقات کالم لکھنے سے زیادہ موضوع کی تلاش کالم نگار کےلیے مشکل امر ٹھہرتا ہے۔ روزمرہ کے معاملات میں کئی ایک موضوع ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ گذشتہ چند روز میں اتنی زیادہ خبریں نظروں سے گزریں کہ ان کی تفاصیل میں جھانکنے کو اس نیت سے دل چاہا کہ اس ہفتے قارئین کے ساتھ شیئر کروں گا۔ برطانیہ اور امریکہ کے درمیان آزادانہ تجارت کے معاہدہ کا کھٹائی میں پڑ جانا۔ جبکہ یورپی یونین سے نکلتے وقت برطانیہ کو امریکہ کی طرف سے بہت یقین دہانی کروائی گئی تھیں۔ اٹلانٹک ڈیکلیریشن سائن کرتے وقت بھی کہا گیا کہ اس معاہدہ کے بعد امریکہ اور برطانیہ کے درمیان آزادانہ تجارت کا آغاز ہو جاے گا۔ اب امریکن صدر کے دورہ برطانیہ سے قبل مبصرین یہ کھل کر بتا رہے ہیں کہ فری ٹریڈ کے حوالے سے دونوں ممالک نے سخت موقف اپنا رکھا ہے جس کی برطانیہ اور امریکہ کے درمیان ایسی مثال نہیں ملتی اور ایسا لگتا ہے کہ یہ معاہدہ نہیں ہو پائے گا۔جس کا زیادہ نقصان برطانیہ کو اٹھانا پڑے گا۔
ایک اہم خبر اس کشتی کے حوالے سے بھی قابل تبصرہ ہے جس میں سات سو سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ پاکستان جس کے سب سے زیادہ باشندے اس سانحہ کا شکار ہوے وہاں سے ایجنٹوں کی گرفتاریوں کی خبر آئی ضرور، اخبارات میں ادارئیے بھی لکھے گئے لیکن ابھی تک کسی کے خلاف مقدمہ قائم ہونے کی خبر نظروں سے نہیں گزری۔ جبکہ لیبیا میں جن تین افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں دو کو بیس بیس سال اور ایک کو تا حیات جیل کی سزا سنا دی گئی ہے۔لیبیا کے حکام نے تینوں ملزمان کی شہریت بتانے سے انکار کیا ہے۔اس بارے میں اقوام متحدہ نے جو ایک رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق سات لاکھ غیر ملکی اس وقت لیبیا میں موجود ہیں جو سب کے سب سمندری کشتیوں میں یورپ جانے کےلیے پر عزم ہیں۔ اس سال کے پہلے چھ ماہ میں ۵۶ ہزار غیر ملکیوں نے لیبیا سے اٹلی کی طرف کشتیوں میں ان ایجنٹوں کی مدد سے سفر کیا اور بڑی اکثریت یورپ پہنچنے میں کامیاب رہی۔
خبر کی تلاش میں جس با تصویر خبر پر نظر ٹھہر گئی اس کا تعلق بنگلہ دیش اور مسلم ثقافت سے ہے۔ بنگلہ دیش کی ایک مسجد میں لگے چندہ بکس چار ماہ بعد کھولے گئے تو ان میں سے پانچ کروڑ ۵۹ لاکھ سات ہزار ۶۸۹ بنگلہ دیشی ٹکہ نکلے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی کرنسی، سونے کے زیورات بھی موجود تھے۔ دو سو افراد نے تیرہ گھنٹے اس رقم کو گننے پر صرف کیے۔ برصغیر میں چندہ بکس مسجد کا لازمی جزو ہیں اور بیشتر مساجد میں موجود چندہ بکس سے وابستہ کہانیاں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
انگلستان کی مسلم سوسائٹی بھی اس سے محفوظ نہیں۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے چہیتے نظام الدین شامزئی کی وفات پر ان کے اکاؤنٹ میں موجود اربوں روپے جو ان کے بیٹوں کے درمیان تنازعات اور عدالتی کارروائیوں کا سبب بنے ہوئے ہیں اسی کلچر کی تازہ مثال ہیں۔ اس کے باوجود عام مسلمان دین کی راہ میں فراخ دلی سے خرچ کرنے میں راحت محسوس کرتا ہے۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ بنگلہ دیش کی مسجد میں چندہ بکس کی رقم برسر عام گنی گئی۔
اس کے بالمقابل مغربی دنیا میں چرچ سے بیزاری کا کلچر فروغ پا رہا ہےاور ہر سال چرچ سے نام کٹوانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عیسائی مذہبی دنیا کو اپنے اخراجات پورے کرنے کےلیے چرچز فروخت کرنے پڑ رہے ہیں۔ جہاں تک جرمنی کا سوال ہے یہاں ۲۰۱۳ء میں بہت سارے چرچز یا تو فروخت کیے گئے جن کے گاہک نہ ملے ان کو مسمار کر دیا گیا۔
جرمنی میں ماہ جون میں ہر سال بشپ کی سالانہ کانفرنس منعقد ہوتی ہے اور ۲۰۱۳ء سے ہر سال چرچ چھوڑنے والوں اور چرچز کی فروخت اس کانفرنس کا خاص موضوع ہے۔ ۲۰۲۲ء کی بشپ کانفرنس میں لمبرگ کے بشپ Georg Butzing کی تقریر عیسائی دنیا کےلیے لمحہ فکریہ قرار پائی تھی۔ جنہوں نے ۲۰۲۱ء میں چرچ چھوڑنے والے تین لاکھ ساٹھ ہزار افراد کے ذکر میں حالات کی مناسبت سے انتظامی تبدیلیوں کا ذکر کیا تھا۔ خیال تھا کہ Bishop Georg Butzing کی تجاویز کے بعد چرچ کو خیر آباد کہنے کے رحجان کے آگے بند باندھا جا سکے گا۔لیکن ابھی جون میں ہونے والی بشپ سالانہ کانفرنس میں یہ بات سامنے آئی کہ ۲۰۲۲ء میں مزید پانچ لاکھ بائیس ہزار آٹھ سو اکیس افراد نے اپنا نام چرچ رجسٹریشن سے خارج کروا لیا ہے۔
اس صورت حال پر آخبار Hannoversche Allgemeine Zeitung نے ایک سروے رپورٹ شائع کی ہے جس میں لوگوں کے چرچ سے بیزاری کی وجوہات جاننے کی کوشش کی ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق جرمنی میں کیتھولک چرچ کے اکیس ملین ممبر ہیں جو آبادی کا ۲۴.۸ فیصد بنتا ہے۔ جن لوگوں نے چرچ کو خیر آباد کہا ان میں اکثریت نے یہ فیصلہ چرچ سے وابستہ شخصیات کے بچوں کے ساتھ جنسی سکینڈل پر مبنی رپورٹس اور اس اہم مسئلہ پر چرچ کا رویہ سے مایوس ہو کر کیا۔ اس بارے میں بعض لوگ بہت ہی دل برداشتہ تھے۔ جنسی سکینڈل کے متاثرین کی دلجوئی کےلیے جو مالیاتی ادارہ بنایا گیا اس میں خورد برد کے دو مقدمات Köln کی عدالت میں اور ایک صوبہ بائرن کی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔
پروٹسٹنٹ چرچ سے وابستہ لوگوں کی تعداد ۱۹.۵ ملین ہے اور گذشتہ سالوں میں تین لاکھ اسی ہزار ممبران نے چرچ سے اپنا نام نکلوا لیااور یہ رحجان جنسی سکینڈل کی تفصیلات چھپنے کے بعد دیکھنے میں آیا۔ لوگوں کے چرچ چھوڑنے سے چرچز کی آمدنی میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے جو انتظامیہ کےلیے پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔ بشپ کانفرنس میں بتایا گیا کہ موجودہ رحجان کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ۲۰۲۷ء تک چرچ کی آمدنی ۱۱.۳ بلین یورو کم ہو جاے گی۔ جبکہ اخباری سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ جرمنی کے ۶۷؍فیصد عوام چرچ ٹیکس کا خاتمہ چاہتے ہیں اور یہ بات مستقبل میں چرچ چھوڑنے والوں کی تعداد بڑھانے کا مؤجب بن سکتی ہے۔ جرمنی میں ہر چرچ ممبر کو اپنی آمدنی پر آٹھ فیصد چرچ ٹیکس دینا ہوتا ہے۔ چرچ ٹیکس کا قانون ۱۹۱۹ء میں بنا تھا۔ ۱۹۳۳ء میں اس میں اصلاحات کی گئیں اور آخری بار ۱۹۴۹ء میں اس میں تبدیلی کی گئی۔ ہمسایہ ملک آسٹریا میں ۱۹۳۹ء میں لازمی چرچ ٹیکس کا اجرا ہوا۔ جرمنی میں چرچ سے علیحدگی اختیار کرنے کی صورت میں سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کی فیس تیس یورو ادا کرنے پڑتے ہیں۔ جس کے بعد آپ کو لازمی چرچ ٹیکس سے استثناء حاصل ہو جاتا ہے۔
ہنور کے اخبار کے سروے اور تحقیق کے مطابق کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچز نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ ۲۰۶۰ء تک دونوں مل کر اپنی چالیس ہزار عمارات فروخت کر دیں گے۔ ان میں چرچز، مشن ہاوسز اور کمونیٹی ہالز شامل ہیں۔ ۱۹۹۰ء سے اب تک جرمنی میں ۱۲۰۰؍چرچز فروخت کیے جا چکے ہیں اور ۲۷۸؍چرچز کو مسمار کر کے زمین فروخت کر دی گئی۔ جرمنی میں اگر کسی عمارت کی تعمیر پر سو سال گزر جایں تو اس کو محفوظ رکھنے کےلیے ایک علیحدہ قانون ہے جس کو Denkmalschutz کہتے ہیں۔ جرمنی کے ۸۰ فیصد چرچ پر اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان چرچز کو گرا کر ان پر ہاوسنگ سکیمیں بنانا یا ان کو کلچرل سنٹرز میں تبدیل کرنا عملاً ممکن نہیں۔
پروٹسٹنٹ چرچز کے اکیس ہزار چرچ، سترہ ہزار مشن ہاسزز اور تیرہ ہزار کمیونیٹی سینٹر اس قانون کی زد میں ہیں۔
جرمنی کے قانون میں ہر فرد اور ادارہ بلا استثناء ایک جیسے سلوک کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے۔اس لیے عیسائیت کے نامہ بر قانون کے آگے بے بس نظر آ رہے ہیں۔
جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد پانچ ملین تک پہنچ چکی ہے جبکہ مستقبل میں اس میں مزید آضافہ ہوتا رہے گا ۔اگر مسلمان عمل کے ساتھ ساتھ اتحاد کی راہ اپنا لیں تو راہ خدا میں خرچ کرنے کی خوبی سے بشپ کانفرنس کے راہبروں کو شکست سے دوچار کر سکتے ہیں۔
٭…٭…٭