احمدیہ مسجد کالا گجراں ضلع جہلم کے منارے شہید کر دیے گئے
بہت افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ مورخہ ۱۴ اور ۱۵؍ جولائی ۲۰۲۳ء کی درمیانی شب اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ضلع جہلم پنجاب پاکستان کی پولیس نے جہلم کے علاقے کالا گجراں میں واقع جماعت احمدیہ کی مسجد کے کنکریٹ سے بنے مناروں کو توڑ کر شہید کر دیا۔
اطلاعات کے مطابق پولیس کا یہ افسوسناک اقدام مقامی انتہاپسند مذہبی گروپ کی طرف سے دھمکیوں کے بعد کیا گیا۔ کچھ دن پہلے تحریک لبیک کے مقامی ممبر عاصم اشفاق رضوی نے ضلع جہلم پولیس کے آفیسر اور ضلعی انتظامیہ کو وارننگ دی تھی کہ دس محرم سے پہلے احمدیوں کی مسجد کے مناروں کو منہدم کردیا جائے بصورت دیگر وہ شدت پسندوں کا جلوس اکٹھا کر کے مناروں کو خود گرا دیں گے اور جلوس کے ذریعہ دیگر توڑ پھوڑ بھی کی جائے گی۔
اس کے بعد ۱۴؍ جولائی کو جہلم کے ڈی ایس پی نے احمدیہ مسجد کی انتظامیہ کو بلاکرکہا کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنی مسجد کے مناروں کو گرادیں نہیں تو پولیس کو یہ اقدام زبردستی کرنا پڑے گا۔ مقامی احمدیوں نے مسجد کے مناروں کی حفاظت کے قانونی پہلوؤں کو پولیس افسر کے سامنے رکھ کر دلائل پیش کیے لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔
چنانچہ مورخہ ۱۴؍ جولائی کو آدھی رات کے قریب پولیس کا ایک دستہ آیا اور مسجد پر چڑھ گیا۔ پولیس افسران نے پہلے مبینہ طور پر وہاں موجود احمدی احباب کے موبائل فونز ضبط کیے اور انہیں پولیس اسٹیشن جہلم شہر لے گئے جہاں ان کو کچھ دیر تک پولیس حراست میں رکھا۔ اس دوران انہوں نے مناروں کو گرانا شروع کیا اور اس افسوسناک کارروائی کے مکمل ہونے کے بعد حراست میں لیے گئے احمدیوں کو چھوڑ دیا۔
فرائیڈے ٹائمز نے مورخہ ۱۵؍جولائی ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ کی اشاعت میں جماعت احمدیہ کی مسجد کے مناروں کو پولیس انتظامیہ کی طرف سے منہدم کیے جانےکے افسوسناک اقدام کی تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بعض مقامی احباب کے تاثرات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ فرائیڈے ٹائمز کے مطابق مقامی جماعت کے ایک ممبر نے کہا کہ احمدیوں کی حفاظت کرنے کی بجائے پولیس انتظامیہ نے خود ہی احمدیہ مسجد کے مناروں کو گرادیا اور نفرت کا پرچار کرنے والے انتہا پسندوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ ایک اور شخص نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مناروں کے انہدام کی یہ کارروائی افسوسناک ہےاور احمدیوں کےبنیادی انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔
مقامی جماعت احمدیہ کے ترجمان نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے ۱۹؍جون ۲۰۱۴ء کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس بینچ کی سربراہی جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کی تھی۔ اس میں تین رکنی بینچ نے عبادت گاہوں کی حفاظت کے تفصیلی خاکے پر مشتمل فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے میں عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے ایک اسپیشل پولیس فورس قائم کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔ اور اب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے صریحاً خلاف جماعت احمدیہ کی مساجد کی پولیس انتظامیہ کی طرف سے توڑ پھوڑ کی جارہی ہے۔
یاد رہے کہ جہلم کا یہ سانحہ عید الاضحی کے موقع پرجانوروں کی قربانیوں کے حوالے سے متعدد احمدیوں کو ہراساں اور خوف زدہ کرنے اور بعض کو حراست میں لیے جانے کےمعاً بعد وقوع پذیر ہوا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ گذشتہ ہفتہ کو جماعت احمدیہ کوٹلی آزاد کشمیر کے قبرستان کی قبروں کی توڑپھوڑ اور شیخوپورہ میں بھی احمدیہ قبرستان کی قبروں کی بے حرمتی کے قابل افسوس واقعات رونما ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ مخالفین کو صراط مستقیم اور ہدایت سے نوازے۔آمین
٭…٭…٭