پہنچتا وہی ہے جو تلخیوں کا شربت پی لیوے
انسان کے دل پر آزمائش کے طور پر کئی قسم کی حالتیں وارد ہوتی رہتی ہیں۔ آخر خدا تعالیٰ سعید روح کی کمزوری کو دور کردیتا ہے اور پاکیزگی اور نیکی کی قوت بطور موہبت عطا فرمادیتا ہے۔ پھر اس کی نظر میں وہ سب باتیں مکروہ ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مکروہ ہیں اور وہ سب راہیں پیاری ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کو پیاری ہیں۔ تب اس کو ایک ایسی طاقت ملتی ہے جس کے بعد ضعف نہیں اور ایک ایسا جوش عطا ہوتا ہے جس کے بعد کسل نہیں، اور ایسی تقویٰ دی جاتی ہے جس کے بعد معصیت نہیں۔ اور رب کریم ایسا راضی ہو جاتا ہے جس کے بعد سُخط نہیں۔ مگر یہ نعمت دیر کے بعد عطا ہوتی ہے۔ اوّل اوّل انسان اپنی کمزوریوں سے بہت سی ٹھوکریں کھاتا ہے اور اسفل کی طرف گر تا ہے۔ مگر آخر اس کو صادق پا کر طاقتِ بالا کھینچ لیتی ہے۔اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت۷۰) یعنی نُثَبِّتُھُمْ عَلَی التَّقْوٰی وَالْاِیْمَانِ وَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَ الْمَحَبَّةِوَالْعِرْفَانِ۔ وَسَنُیَسِّرَھُمْ لِفِعْلِ الْخَیْرَاتِ وَ تَرْکِ الْعِصْیَانِ۔ [ترجمہ: ہم ان کو تقویٰ اور ایمان پر ثابت قدم کر دیں گے اور ضرور انہیں محبت اور معرفت کے راستوں کی ہدایت دیں گے اور انہیں نیک اعمال بجا لانے اور معصیت کو ترک کرنے کی توفیق دیتے رہیں گے۔]
(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۵۰۔۵۱)
جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرے گا۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ جہاں تک بس چل سکے وہ اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرے۔ پھر جب اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچے گی تو وہ خدا تعالیٰ کے نور کو دیکھ لے گا۔ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو حق کوشش کا اس کے ذمہ ہے اسے بجا لائے۔ یہ نہ کرے کہ اگر پانی ۲۰ ہاتھ نیچے کھودنے سے نکلتا ہے تو وہ صرف دو ہاتھ کھود کر ہمت ہار دے۔ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہارے۔ پھر اس امت کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا و تزکیہ نفس سے کام لے گا تو سب وعدے قرآن شریف کے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے۔ہاں جو خلاف کرے گا وہ محروم رہے گا کیونکہ اس کی ذات غیور ہے۔ اس نے اپنی طرف آنے کی راہ ضرور رکھی ہے لیکن اس کے دروازے تنگ بنائے ہیں۔ پہنچتا وہی ہے جو تلخیوں کا شربت پی لیوے۔لوگ دنیا کی فکر میں درد برداشت کرتے ہیں حتی کہ بعض اسی میں ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کانٹے کی درد بھی برداشت کرنا پسند نہیں کرتے۔ جب تک اس کی طرف سے صدق اور صبر اور وفاداری کے آثار ظاہر نہ ہوںتو ادھر سے رحمت کے آثار کیسے ظاہر ہوں۔
(ملفوظات جلد۷ صفحہ۲۹۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)