اس راہ میں پیمبر کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا ہوگا
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
جب ہم دنیاوی چیزوں کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچاتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کو پانے کے لیے، پانے کے راستوں کے لیے انتہائی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ ذرا سا ہم نے منہ سے کہا اور اللہ تعالیٰ ہمیں مل جائے گا یا ہماری دعائیں قبول کر لے گا۔ پس یہاں پھر وہی بات آ گئی کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں وہ پہلے اپنے جائزے لیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لیے تن آسانی ہو اور دنیاوی چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے محنت کے اصول کو سامنے رکھا جائے۔ یہ اصول پھر ہر جگہ چلے گا۔… جس طرح دانہ ڈال کر ایک زمیندار بیٹھا نہیں رہتا اسی طرح یہاں بھی انسان کو صرف یہ لے کے کہ میں ایمان لے آیا، میں نے مان لیا، بیٹھ جانے سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ کوشش کرنی ہو گی۔ اپنے ایمان کے پودوں کی نگہداشت کرنی ہو گی۔… اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ کہ مجھے پکارنے والے مجھ پر ایمان لائیں تو ایمان یہ ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے اللہ تعالیٰ پر ایمان کا حق ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ ایمان کے باغ کی پرورش اور نگہداشت کرنے کا اپنے بندوں کو فرماتا ہے۔ ہم اپنے گھروں میں بھی دیکھتے ہیں کہ پودوں کو بھی اگر ہم باقاعدگی سے نہ دیکھیں، ان کا خیال نہ رکھیں تو وہ سوکھنے لگ جاتے ہیں۔ پھر ایمان کے باغ کو کس طرح ہم بغیر نگہداشت کے چھوڑ سکتے ہیں۔ پھر ایک اور زاویے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بات کو بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ہمارے راہ کے مجاہد راستہ پاویں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس راہ میں پیمبر کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا ہوگا۔ ایک دو گھنٹہ کے بعد بھاگ جانا مجاہد کا کام نہیں بلکہ جان دینے کے لئے تیار رہنا اس کا کام ہے۔سو متقی کی نشانی استقامت ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد۱صفحہ۲۵، ایڈیشن۱۹۸۴ء)
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۹؍ اپریل ۲۰۲۲ء)